جمعہ، 10 مئی، 2019

ملٹری اکاؤنٹس کی یادیں (حصہ اوّل)

ایم بی اے کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملٹری اکاؤنٹس میں نوکر ہوگئے۔ لفظ نوکر میں نے جان بوجھ کر لکھا ہے۔ وہاں اکاؤنٹس میں ایک اکاؤنٹس آفیسر تھے واحد صاحب، جو جسمانی لحاظ سے جتنے نحیف تھے اکاؤنٹس کے حوالے سے اتنے ہی جاندار اور جانکار تھے۔ ملٹری اکاونٹینٹ جنرل انکے بغیر میٹنگ میں نہیں جاتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ واحد صاحب کو نہ صرف ہر اکاونٹ ہیڈ بلکہ اسکا سالانہ تخمینہ، اس میں اٹھنے والے اخراجات اور اس میں بقایا رقم سب ہر وقت زبانی یاد ہوتا تھا۔ وہ ٹریننگ کے دوران ایک دو بار لیکچر دینے آئے تو انہوں نے سوال پوچھا کہ کسی بھی لغت میں سب سے برا لفظ کونسا ہوتا ہے۔ ہم نے چھوٹی سے لیکر بڑی گالی تک ذہن میں دہرا دی۔ گالیاں اتنی گندی تھی کہ انہیں بتا نہیں سکتے تھے اس لئے سب خاموش رہے۔ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہنے لگے یہ لفظنوکرہے۔ اپنی بحث کی عادت سے مجبور میں نے فوراً نکتہ اعتراض اٹھایا کہ جناب اس سے برا لفظ غلام موجود ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ پھر فرمایا کہ غلام کو پتا ہوتا ہے کہ وہ غلام ہے اور وہ تسلیم بھی کرتا ہے۔ نوکر وہ غلام ہوتا ہے جسے پتا بھی نہیں ہوتا اور اگر آپ اسے غلام کہیں وہ تسلیم بھی نہیں کرتا۔ تو جناب ہم نوکر بن گئے۔ سب سے پہلے ملٹری اکاؤنٹس ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں ہماری چھ مہینے ٹریننگ ہونی تھی۔ اس ٹریننگ میں فائنانشل ریگولیشنز، پے فکسیشن، پینشن، ایم ای ایس ریگولیشن ، ڈرافٹنگ اور نہ جانے کیا کیا پڑھایا جارہا تھا۔ پرنسپل واہ کینٹ یا ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والےشفیق صاحب تھے جو اسم بامسمیٰ تھے۔ جیسے نام شفیق تھا ویسے ہی شفیق انسان تھے۔ وہ پے فکسیشن پڑھاتے تھے اور اتنے اچھے طریقے سے پڑھاتے کہ آج تک مجھے سب کچھ یاد ہے۔ باقی بھی جتنے انسٹرکٹرز تھے انکے ساتھ بھی ہماری بہت اچھی بنتی تھی۔ ایک سلیم صاحب تھے جنکا مضمون ایم ای ایس ریگولیشنز تھا اور جس طرح مضمون خشک تھا سلیم صاحب اس سے کہیں زیادہ خشک مزاج تھے۔ انکی ساری سروس ایم ای ایس آڈٹ میں گزری تھی اور انکے ماتھے پر ہر وقت بل پڑے رہتے تھے۔ ہنسنا مسکرانا وہ جانتے ہی نہیں تھے۔ موضوع سے ہٹ کر بات کرنا انہیں سخت ناپسند تھا۔نپی تلی بات کرتے تھے اور ان کی کلاس میں ہماری ساری آزاد یاں سلب ہوجاتی تھیں۔ انکی کلاس کا دورانیہ اگرچہ باقی کلاسوں کی طرح پینتالیس منٹ ہی تھا لیکن شب فراق کی طرح طویل۔ دن میں یہ پونا گھنٹا سب سے مشکل ہوتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک کلاس قید با مشقت تھی۔ وہ نہ تو کبھی کلاس میں ناغہ کرتے نہ کبھی لیٹ ہوتے نہ ہی ایک منٹ جلدی چھوڑتے۔ بلکہ جب تک دوسرا انسٹرکٹر کلاس میں داخل نہ ہو وہ جان نہیں چھوڑتے تھے۔ اس مضمون میں ہم سب کا حال یہ تھا کہ جیسے کورےآئے تھے ویسے کورے ہی رہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جو یہ امتحان پاس نہ کرسکا وہ نوکری سے فارغ سمجھا جائیگا۔ یہ خبر قیامت خیز تھی۔ ابھی پوری طرح ہم نوکر ہوئے بھی نہیں تھے کہ نکالے جانے کے خطرات نظر آنے لگے۔ باقی سارے اساتذہ سے تو ہم خود کو کسی نہ کسی طرح پاس کروا بھی لیتے لیکن سلیم صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ جب امتحان قریب آیا تو ہمیں پریشانی ہونے لگی۔ پرنسپل صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے تسلی دی کہ نوکری سے نکالے جانے والی کوئی بات نہیں تاہم جب تک سارے پیپر پاس نہ ہوں آپ لوگ آفس میں نہیں جائیں گے ٹریننگ کرتے رہیں گے۔ میں نے ڈرتے ڈرے پوچھا کہ اگر صرف ایم ای ایس کا پیپر فیل ہوجائے تو؟ شفیق صاحب نے کہ کہ پھر سلیم صاحب دوبارہ پڑھائیں گے۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نظروں نظروں میں ہی ایک دوسرے سے مکالمہ کرلیا کہ ہم تو یہاں سے جانا ہی اسلئے چاہتے ہیں کہ سلیم صاحب کی کلاس نہ لینی پڑے۔ 
میں نے کہا سر یہ ظلم نہ کریں نوکری سے نکالنے والی بات زیادہ مناسب ہے۔ شفیق صاحب ہنس پڑے کہنے لگے اللہ خیر کرے گا پاس ہوجائیں گے تیاری کرلیں۔ باہر آکر ہم چاروں سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ سب میری طرف دیکھنے لگے۔ کہنے لگے خان صاحب آپ کوئی جگاڑ کریں۔ میں نے کہا بھائی کوئی بندہ مروانا ہے بتاؤ، چوری کرنی ہے، ڈاکہ ڈالنا ہے جگہ بتاؤ لیکن سلیم صاحب کا پیپر پاس کروانا میرے لیول سے بہت آگے کی بات ہے۔ یہ واحد جگہ ہے جہاں میرے بھی پر جلتے ہیں۔ عاصم نے کہا کہ کرنی تو چوری ہی ہے۔ میں نے کہا بتاؤ کیا چوری کرنا ہے اور کہاں سے چوری کرنا ہے؟ کہنے لگا اکیلے میں بتاؤں گا غیر اعلانیہ مولوی  (خوشنود جو ہمارا ساتھی تھا اور انتہائی متقی تھا) کا کوئی بھروسہ نہیں بیچ چوراہے ہنڈیا پھوڑ دے۔ بعد میں مجھے کہا کہ یہاں پیپر پرنسپل صاحب کے دفتر میں ہی بنے ہوں گے اور ٹائپسٹ ایک ہی ہے قمر۔ تمہاری اس کے ساتھ بنتی بھی بہت ہے۔ تم نے کسی طرح اس کے کمپیوٹر سے پیپر چوری کرنے ہیں۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ پرنسپل صاحب کے سٹینو ہیں کمپیوٹر آفس کے اندر ہے اور صاحب کیساتھ ہی وہ بھی چھٹی کر جاتے ہیں۔ مجھے یہ کام کرنے کیلئے دس پندرہ منٹ کمپیوٹر چاہئیے جب کوئی نہ ہو۔ اس نے کہا یہ اب آپ کا مسئلہ ہے لیکن آپ نے زبان دی ہے کہ بندہ بھی ماریں گے اور چوری بھی کریں گے۔ اگر چوری نہ کرسکے تو پھر اگلا کام سلیم صاحب کو مارنے والا ہی رہتا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ جذباتی بیان تھا بہر حال میں آج کچھ سوچتا ہوں۔ اسکے بعد سارا دن میں یہ سوچتا رہا کہ پیپر کی سافٹ کاپی چوری کیسے کرنی ہے۔ دفتر سے چھٹی کرکے سب سے پہلے میں صدر گیا اور ایک یو ایس بی لے لی۔ ۲۰۰۴ میں صرف ۵۱۲ ایم بی دو ہزار روپے یا اس سے کچھ زیادہ کی ملی تھی۔ فلاپی ڈسک عموماً دفتروں میں استعمال ہوتی تھی لیکن اسکا خطرہ یہ تھا کہ کسی بھی وقت کام چھوڑ دیتی تھی۔ اگلے دن صبح میں نے عاصم کو پورا پلان سمجھا دیا۔ بارہ بجے کے قریب میں نے قمر کو اشارہ کرکے باہر بلوایا اور کہا کہ میں نے کل پراجیکٹ مینجمنٹ کی اسائنمنٹ جمع کروانی ہے اور میرا کمپیوٹر خراب ہے اب مجھے یہ اسائنمنٹ لکھ کر دو۔ وہ ٹائپنگ اتنی تیز رفتاری سے کرتا تھا کہ اس جیسا ماہر میں نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں خان بھائی پندرہ منٹ میں کردیتا ہوں بتائیں کیا ٹائپ کرنا ہے؟ میں نے کہا یہ کتاب صفحہ نمبر فلاں سے فلاں تک، اور جو صفحے بتائے وہ ساٹھ ستر صفحے بنتے تھے۔ وہ میری طرف حیرت سے دیکھ کر کہنے لگا کہ خان بھائی پوری کتاب لکھنی ہے؟ میں نے کہا ہاں یار کام تو مشکل ہے لیکن ایک اور کام کرتے ہیں۔ میں توپ کا لائسنس مانگا تھا مجھے پتا تھا اب تپنچے پہ ضرور راضی ہوگا۔ میں نے کہا ایسا کریں جاتے وقت مجھے بتادیں میں خود بیٹھ کر لکھ لوں گا۔ وہ فوراً راضی ہوگیا۔ کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں بس جیسے صاحب نکلتے ہیں میں آپ کو بلاتا ہوں۔ ڈیڑھ بجے صاحب نکلے تو ساتھ قمر بھی نکل گیا اور کمپیوٹر میرے حوالے کردیا۔ میں نے دس منٹ میں سارے کے سارے پیپر ڈھونڈ لئے اور کاپی کرکے فارغ ہوگیا۔ دوستوں کو بتادیا کہ مشن پورا ہوگیا۔ 
امتحان گویا بہت آسان ہوگیا۔ سارے اساتذہ نہ صرف حیران بلکہ پریشان تھے کہ ہم نے اتنی دل لگی سے پڑھا۔ سلیم صاحب کا پیپر جب ہورہا تھا تو پہلی دفعہ انکے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ لیکن جب سیکھا کہ ہم بڑے سکون سے پرچہ لکھ رہے ہیں سر پر ٹھہر کر دیکھنے لگے کہ نقل تو نہیں کر رہے۔ لیکن ہم کوئی نقل نہیں کر رہے تھے پکڑتے بھی تو کیسے۔ اگلے ہفتے رزلٹ آیا تو سب اچھے نمبروں سے پاس۔ لیکن سلیم صاحب بھلا ایسے کیسے مانتے۔ پرنسپل صاحب کے دفتر  میں بلوا کرکہنے لگے کہ یہ لوگ پاس کیسے ہوگئے؟ میں نے کہا سر پیپر کے نمبر شفیق صاحب نے لگائے ہیں؟ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا اچھا حسن جمال صاحب نے لگائے ہوں گے؟ کہنے لگے نہیں میں نے لگائے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر تو آپ نے پاس کیا ہے۔ میں پوری معصومیت سے بات کر رہا تھا جیسے مجھے کچھ سمجھ نہ آرہی ہو۔ کہنے لگے اسی بات پر تو میں حیران ہوں کہ آپ لوگوں نے اتنا مشکل پیپر کیسے کرلیا۔ میں نے معصوم صورت بنا کر کہا کہ سر بات سمجھ نہیں آئی۔ کہنے لگے کچھ گڑ بڑ ضرور کی ہے آپ لوگوں نے۔ مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ سلیم صاحب دوبارہ امتحان نہ لے لیں۔ ٹریننگ کے دوران وہ کہتے تھے کہ اچھا آڈیٹر جو ہوتا ہے نا اسے فائل سے بو آجاتی ہے کہ گڑبڑ کہاں ہوئی ہے۔ مجھے واضح طور پر محسوس ہوا کہ سلیم صاحب کو بو آگئی ہے اور بالکل صحیح جگہ پہنچ رہے ہیں اسلئے پینترا بدلا اور آخری پتا پھینکنے لگا، میں نے کہا سر جو بندہ پہلی جماعت سے ایم بی اے تک کلاس کو ٹاپ کرتا آیا ہو، جو صوبہ بھر سے ایک ہزار لوگوں کیساتھ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بیٹھ کر ایک سیٹ پر سیلیکٹ ہوجائے جو باقی چھ مضامین پاس کرسکے وہ بندہ اب اتنا نالائق ہوگیا کہ ایک ایم ای ایس کا پیپر پاس نہیں کرسکتا؟ اس سے بڑا مبالغہ اس وقت مجھے اور کوئی نہیں سوجھا اور اتنی سنجیدگی سے بولا کہ مجھے خود لگنے لگا جیسے یہ سب واقعی سچ ہو۔ تھوڑی دیر سر جھکا کر بیٹھا رہا پھر رونی سی صورت بنا کر کہا کہ ٹھیک ہے سر آپ ہمیں نوکری سے نکلوانا چاہتے ہیں میں خود ہی استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ اور اٹھ کر پرنٹر سے ایک کاغذ نکالا اور اور لکھنا شروع کیا۔ شفیق صاحب جو ابھی تک خاموش بیٹھے تھے بول پڑے۔ کہنے لگے نہیں نہیں خان صاحب آپ جذباتی نہ ہوں سلیم صاحب آپ کے آنے سے پہلے یہ بتا رہے تھے کہ سب نے بہت اچھا پیپر کیا تھا اور ایسی کوئی بات نہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ لوگ آئے ہیں۔ پھر میرے ہاتھ سے کاغذ لیکر پھاڑ دیا اور میں سر جھکائے وہاں سے نکل آیا۔ سلیم صاحب بہت سیدھے آدمی تھے وہ واقعی یقین کر بیٹھے تھے کہ یہ تو شاید حقیقتاً بہت ہی قابل لوگ ملٹری اکاؤنٹس میں آگئے ہیں۔ 

ہر ادارے میں کچھ سلیم صاحبان ہوتے ہیں ورنہ ایک تو ضرور ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی وجہ سے سسٹم چلتا رہتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...