جمعہ، 10 مئی، 2019

ملٹری اکاؤنٹس کی یادیں (حصہ دوم)

چھ مہینے کی ٹریننگ مکمل کرکے ہماری دستاربندی ہوگئی تو ہمیں ملٹری اکاونٹینٹ جنرل آفس بھیج دیا گیا جہاں سے ہماری تعیناتی کے احکامات ہونے تھے۔ ہم چار لوگ تھے جن میں تین سیٹیں پنجاب کی اور ایک صوبہ سرحد کی تھی۔ باقی تین دوستوں کا تعارف بھی کرواتا چلوں۔ عاصم کا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے تھا۔ کولیفیکیشن کے اعتبارسے انجینئر تھا۔ جب پہلی بار ملاقات ہوئی اور تعارف کا مرحلہ آیا تو اس نے تعارف سے پہلے ہی کہہ دیا کہ خدا کیلئے یہ سوال مت پوچھنا کہ میں انجینئر ہوتے ہوئے اکاؤنٹس میں کیوں آیا۔ بے روزگاری تھی اگر فوج میں سپاہی کی نوکری بھی ملتی وہ بھی کرلیتا بھلے زندگی میں کبھی بندوق نہیں چلائی۔ پھر تعارف کروایا اور تعارف کروا کر جوں ہی خاموش ہوئے میں نے فوراً سوال کیا کہ یہ بتائیں آپ اکاؤنٹس میں کیوں آئے۔ وہ بہت خوش مزاج تھا کہنے لگا رشوت کھانے کا حق صرف ایم بے اے والوں کو ہے کیا؟ میں نے کہا نہیں ایسی بات تو نہیں اکاؤنٹس کے پاس آتے آتے اوور سیئر سے ایکسن تک اپنا حصہ وصول کر چکے ہوتے ہیں۔ عاصم نے ٹریننگ کے دوران ہی سوائے سلیم صاحب کے ہر انسٹرکٹر سے یہ سوال پوچھ لیا تھا کہ اوپر کی کمائی سب سے زیادہ کس ڈیپارٹمنٹ یا کس کمانڈ میں ہوتی ہے اور سب نے مشترکہ طور پر یہی بتایا کہ سب سے زیادہ کمائی والا ڈیپارٹمنٹ سی ایم اے ڈی پی (ڈیفنس پروکیورمنٹ) ہے۔ عاصم سے دن میں دو بار یہ سوال ضرور پوچھتا کہ گوجرانوالہ تو پہلوانوں کا شہر ہے لیکن آپ تو کہیں سے بھی پہلوان نہیں لگتے ایسا کیوں ہے۔ کئی دفعہ وہ اپنے روایتی انداز میں ایک آنکھ بند کرکے کہتاخان صاحب تسی باز آجاؤ کسی دن میں پہلوان بن کے تینو دھوبی پٹکا ماردینا ہے۔ گوجرانوالہ کے کھوئے اور چڑوں کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے۔ کھویا تو کسی طرح سے ہم نے ان سے منگوا کر کھا لیا البتہ چڑوں کے بارے میں مصر تھے کہ آپ گوجرانوالہ آئیں گے تبھی کھلاؤں گا۔ نہ ہم گوجرانوالہ گئے اور نہ چڑے کھائے۔ تعیناتی کیلئے جب انٹرویو ہوا تو عاصم نے سی ایم اے ڈی پی کا ہی انتخاب کیا اور میرے وہاں سے نکل جانے تک وہیں تعینات رہے۔ پرسوں پتا چلا کہ وہ استعفیٰ دیکر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ 
ہمارے دوسرے ساتھی کا نام خوشنود تھا۔ اسکے شہر کا نام یاد نہیں رہا جسکا مطلب یہی ہے کہ اسکے شہر میں کوئی قابل ذکر کھانے کی چیز نہیں تھی۔ خوشنود بظاہر بالکل ٹھیک لگتا تھا لیکن وہ بات بات میں مذہب کولے آتا تھا۔ اگرچہ خود بھی شریعت کا ہماری طرح زیادہ پابند نہیں تھا لیکن اپنی اس کوتاہی پر ہمارے مقابلے میں وہ کہیں زیادہ شرمندہ تھا۔ میں نے اسکا نام غیر اعلانیہ مولوی رکھا تھا۔ اسکے اندر کا مولوی کسی بھی وقت جاگ جاتا تھا۔ مثلاً اگر کینٹین میں کسی ایسے کپ میں چائے دی گئی جس میں کریک پڑ چکا تھا تو میں چپکے سے توڑ کر ٹوکری میں ڈال دیتا۔ خوشنود کے اندر کا مولوی جاگ جاتا اور کہتا یہ کہ یہ تم نے ایک غریب آدمی کا نقصان کردیا اسکا تمہیں حساب دینا ہوگا قیامت کے دن۔ میں بحث کرتا کہ کریک پیالے کی دراڑیں جراثیم کا مسکن بن جاتی ہیں اور اس سے لوگ بیمار ہوتے ہیں اسلئے میں ثواب سمجھ کر توڑتا ہوں۔ لیکن نہ وہ مجھے قائل کرسکے نہ کبھی میں اسے قائل کرسکا۔ عاصم کہا کرتا تھا کہ اگر قیامت کے دن ہمارا حساب کتاب خوشنود کے ہاتھ ہوا تو ہم پکے دوزخی ہیں۔ جس پر اکثر خوشنود استغفار پڑھتے ہوئے اٹھ کر چل دیتا۔ اسے پراوڈنٹ فنڈ میں تعینات کردیا گیا۔ دوچار مہینے بعد اسکے دفتر جانا ہوا تو اسکی سیٹ پر ایک لمبی داڑھی والا شخص بیٹھا تھا میز کی طرف منہ کرکے بیٹھنے کی بجائے نوے درجے کے زاویے پہ گھوم کر بیٹھا تھا۔ میں نے اسکے سٹاف سے پوچھا کہ خوشنود صاحب چلے گئے ہیں یہاں سے؟ کہنے لگے نہیں یہیں ہیں۔ میں نے پوچھا کتنی دیر میں آئیں گے؟ انہوں نے داڑھی والے شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے میں میز کے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے خوشنود کی آواز میں کہا کہ سیف صاحب آجائیں بیٹھیں اور اپنے سامنے رکھی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں گھوم کر سامنے آگیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ خوشنود صاحب کی داڑھی بالشت بھر لمبی ہوچکی ہے۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا اوئے خوشنود تو غیر اعلانیہ سے اعلانیہ مولوی بن گیا۔ اور مڑکر کیوں بیٹھے ہو خیریت؟ اس نے میری بات ٹال دی مڑکر بیٹھنے کی وجہ نہیں بتائی۔ تھوڑی دیر گپ شپ کرنے کے بعد جب میں جانے لگا تو اسکے سٹاف میں ایک آڈیٹر کو اشارہ کرکے اپنے ساتھ باہر لے گیا اور رازدارانہ لہجے میں پوچھا کہ صاحب کو کیا ہوا ہے بڑے نپے تلے انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ کہنے لگے صاحب کے دائیں طرف جو خاتون آڈیٹر بیٹھی ہے پہلے تو اسے کہا کہ پردہ کرکے بیٹھا کرو لیکن وہ نہ مانی تو اب صاحب اسکی طرف پیٹھ کرکے بیٹھے رہتے ہیں سارا دن۔ کہتے ہیں بد نظری ہوتی ہے اور یہ سخت گناہ ہے۔ میں نے سیدھا جاکر عاصم کو مطلع کیا اور اگلے دن ہم دونوں نے مل کر اسے بہت تنگ کیا۔ آخر میں میں نے کہا کہ خوشنود مذاق اپنی جگہ لیکن تمہیں پتا ہے پراوڈنٹ فنڈ پر سود لگتا ہے۔ کہنے لگا میں نے درخواست دے رکھی ہے میرے فنڈ پہ نہیں لگتا۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہزاروں لوگوں کو تو لگا کر دیتے ہو تیری تو تنخواہ بھی حرام ہوگئی۔ میں نے تو ویسے مذاق کیا تھا لیکن کچھ دن بعد پتا چلا خوشنود نے وہاں سے اپنا تبادلہ کروا لیا۔ بعد میں پتا چلا تھا کہ خوشنود نے سی ایس ایس کا تحریری امتحان پاس کرلیا تھا اور انٹرویو بھی پاس ہوگیا تھا لیکن تعیناتی نہیں ہوئی۔ 
خوشنود سے دو دن پہلے بات ہوئی وہ وہیں ہے اور زندہ جاوید ہے۔ اسکی عادتوں کے بارے میں تفتیش کی تو پتا چلا کہ ابھی بھی بڑے پکے مسلمان ہیں۔ ہمارے یہاں پکے مسلمان کی تعریف ذرا مختلف ہے۔ جو پکا مسلمان ہوتا ہے اسکا ایمان ہر وقت خطرے میں ہوتا ہے۔ اسے بات بات پر لگتا ہے کہ وہ ایمان سے اب گیا کہ اب گیا۔ خوشنود سے فون پر بات ہوئی تو میں نے ایک بار پھر سمجھایا کہ بھائی یہ ایمان جو ہوتا ہے یہ بہت مضبوط ہوتا ہے ایسی آسانی سے نہیں جاتا۔ نہ جانے اس نے میری بات کو کتنی سنجیدگی سے لیا ہے۔ 
تیسرے ساتھی کا نام کاشف تھا۔ کاشف کا تعلق لاہور سے تھا لیکن لاہور یا بالکل نہیں تھا۔ وضع قطع سے پورا مولوی تھا۔ شرعی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور سر پرسبز عمامہ ہر وقت باندھے رکھتا۔ طبعاً خاموش تھا بس ہماری باتوں پر مسکراتا رہتا۔ کبھی چھیڑ چھاڑ بھی کرتے تو جواباً صرف مسکرا دیتا۔ سلیم صاحب کی نظر میں وہ واحد بندہ تھا جو پاس ہونے کے قابل تھا۔ ٹریننگ کے بعد وہ لاہور چلا گیا اور دوبارہ کبھی نہ بات ہوئی اور نہ ملاقات۔ 

جب ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ڈپٹی ملٹری اکاونٹنٹ جنرل صاحب کے سامنے انٹرویو کیلئے حاضر ہوئے تاکہ وہ ہماری تعیناتی کے احکامات جاری کئے جائیں۔ انکے سامنے پیش ہوئے تو کہنے لگے آپ کے ڈومیسائل ڈسٹرکٹ لکی مروت کے قریب ترین ہمارے دو دفاتر ہیں ایک بنوں میں اور ایک ڈیرہ اسماعیل خان میں تو آپ کو کس شہر میں آسانی ہوگی؟ میں نے جواب دیا راولپنڈی میں۔ انہوں نے حیران ہوکر پوچھا کہ گھر نہیں جانا چاہتے؟ کوئی ناراضگی ہے گھر میں؟ عرض کیا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ مسکرائے اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر بے تکلف انداز میں بولے،خان صاحب آپ نے مجھے شک میں مبتلاء کردیا اب تو آپ کو اصل وجہ بتانی پڑے گی چکر کیا ہے؟ راولپنڈی میں کوئی عشق وشق کا چکر ہے یا کوئی اور وجہ؟ میں نے کہا نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں دراصل ہمارے وہاں بارشیں نہیں ہوتیں اور پچھلے چھ مہینے میں میں نے دیکھا ہے کہ یہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اسلئے میں یہیں رہنا چاہتا ہوں۔ وہ مزید حیران ہوئے اور کہا بارش کا اس سے کیا تعلق؟ عرض کیا مجھے بارش اور بادل اچھے لگتے ہیں۔ انہوں نے میری خواہش کی لاج رکھی اور راولپنڈی میں تعینات کردیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...