منگل، 5 فروری، 2019

پیدا ہوئے وکیل تو

ایک مدت تک یہ معمہ ہی رہا کہ وکیل بنائے جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہیں۔ گو کہ ابھی تک اسکا تفصیلی فیصلہ تو محفوظ ہی ہے البتہ مختصر فیصلے دونوں کے حق میں سنائے جا چکے ہیں۔ شروع میں ہمارا خیال بلکہ یقین تھا کہ وکیل پیدا ہوتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ بچپن میں پڑھا ہوا وہ شعر تھا جو ہم نے پڑھتے ہی یاد کرلیا تھا۔ وہ شعر کچھ یوں تھا کہ 
پیدا ہوئے وکیل تو ابلیس نے کہا 
لو آج میں بھی صاحب اولاد ہوگیا
لیکن ایک طویل مدت بعد پتا چلا کہ یہ شعر غلط ہے اور کسی ایسے مؤکل کی اختراع ہے جو کسی دیوانی مقدمے کا شکار رہا ہے۔ غالباً ایک کنال زمین کا جھگڑا تھا جسکی ملکیت ثابت کرنے کیلئے اب تک اپنی باقی ساری جائیداد بیچ چکا ہے اور وراثت میں بچوں کیلئے تین چار دیوانی مقدمات چھوڑ کر اس دنیا سے جانے کیلئے رخت سفر باندھ رہا ہے۔ 
اصل شعر کچھ یوں ہے 
پیدا ہوئے وکیل تو مظلوم نے کہا 
لو آج میں بھی صاحب آواز ہوگیا 
اگر چہ وکلاء کے بدخواہوں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ اصل شعر میں وکیل سے مراد وکیل نامی شخص کا ذکر ہے پیشہ ور وکیل نہیں، بہر حال دروغ اور اسکا فروغ برگردنِ راوی۔ 
اصل شعر پڑھنے کے بعد ہم نے وکلاء کے ارتقاء کے متعلق اپنا نظریہ تبدیل کرلیا۔ اب ہم اس نظرئیے کے قائل ہیں کہ وکلاء بنائے نہیں جاتے بلکہ باقاعدہ پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے میں پائے جانے والا ہر جھگڑا ایک وکیل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ وہ جھگڑا میاں بیوی کے درمیان نہ ہو کیونکہ جھگڑے کے بعد وکیل تو کیا کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ وکلاء کی افزائش کیلئے جھگڑے اتنے ہی اہم ہیں جتنا جانداروں کیلئے غذا اور آکسیجن۔ ان کی روزی روٹی کا وسیلہ جھگڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے نے قانون کی ڈگری لی اور کچھ عرصے بعد وکالت شروع کردی۔ ایک دن کچہری کسی کام سے جانا ہوا تو ملاقات ہوگئی۔ پوچھا کام کیسا جارہا ہے؟ بڑے دُکھی لہجے میں بولے، جب سے ہم وکیل بنے ہیں لوگوں کی غیرت پتا نہیں کہاں سوگئی ہے جھگڑے ہی کم ہوگئے ہیں۔ 
آپ کو کسی بھی قسم کا مسئلہ درپیش ہے کسی اچھے وکیل سے مشورہ کیجئے انہیں اپنا وکیل مقرر کریں اور اس مسئلے سے آپ بے فکر ہوجائیں۔ وکیل کرنے کے بعد وہ اب آپ کا مسئلہ ہی نہیں رہا آپ کا وکیل اسے دیکھ لے گا۔ آپ صرف ان مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں جو وکیل کرنے سے پیدا ہونے والے ہیں۔ 
بنیادی طور پر وکیل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ وکیل جسے آپ کچہری میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ جو آپ کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اوّل الذکر قسم وہ ہے جسے آپ ساری فیس ایڈوانس دے دیتے ہیں۔ مؤخرالذکر وکیل وہ ہوتے ہیں جن کے مؤکل اس سے پہلے کسی وکیل کے ڈسے ہوئے ہوتے ہیں اور فیس قسطوں میں ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ وکیلوں کو اچھے اور برے میں بھی تقسیم کرتے ہیں جس سے میں قطعاً اتفاق نہیں کرتا۔ وکیل وکیل ہوتے ہیں ان میں اچھے برے نہیں ہوتے البتہ چھوٹے بڑے ضرور ہوتے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب ہے وکیل سارے اچھے ہی ہوتے ہیں (اگر کوئی قاری اس سے مختلف رائے رکھتا ہے تو اس نے زندگی میں کوئی نہ کوئی مقدمہ ضرور لڑا ہے)۔ 
کام کے انداز اور طریقہ کار کے مطابق بھی وکلاء کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ میرا کہنے کا مطلب ہے دیوانی اور فوجداری وکیل۔ فوجداری وکیل ایک نسل کو سزا دلواتا ہے جبکہ دیوانی وکیل اس سزا کو دو چار نسلوں میں برابر برابر بانٹ کر آپکی سزا کا بوجھ ہلکا کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی کمرہ عدالت میں ایک دیوانی مقدمے کی پیروی کرنے والے شخص کی اپنے دوست سے ملاقات ہوگئی جو دفعہ تین سو دو کا ملزم تھا۔ دیوانی مقدمہ بھگتنے والے نے رشک بھری نگاہوں سے اپنے دوست کو دیکھا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا کہ بھئی خوش قسمت ہو پھانسی ہوگی یا بَری ہوجاؤگے میں تو بس آتا جاتا ہی رہوں گا ساری عمر۔ 
کچھ وکیل بڑے نیک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نیک وکیل کا قصہ ایک وکیل دوست کے زبانی سنا جو آپ کے گوش گزارنا چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ کچہری میں ایک شخص پریشان حالی میں داخل ہوا تو ایک وکیل کی نظر پڑ گئی۔ اسے بلا کر مسئلہ پوچھا تو بولا ہمارے ایک آدمی نے قتل کیا ہے گرفتار ہوچکا ہے اسکے لئے وکیل کرنا ہے۔ وکیل بولا کہ یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں ہم آپکا کیس لڑیں گے۔ فیس پوچھی تو وکیل بولا کہ دو ہزار روپے لوں گا۔ وہ شخص سمجھ گیا کہ یہ کوئی سستا سا وکیل ہے اسلئے یہ کہہ کر کہ میں ذرا مشورہ کرکے واپس آتا ہوں چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد وہی شخص وکیل کو دوبارہ نظر آیا تو تو پوچھا کہ کیا فیصلہ کیا ہے۔ وہ بولا کہ فلاں کو وکیل رکھ لیا ہے۔ فیس پوچھی تو بتایا کہ دو لاکھ روپے۔ وکیل خاموش ہوگیا۔ دو تین ماہ بعد وہی شخص وکیل کو پھر نظر آیا اسکا چہرہ اترا ہوا تھا۔ پوچھا کیس کا کیا ہوا تو جواب ملا کہ ملزم کو پھانسی کی سزا ہوگئی۔ وکیل مسکرا کر بولا، یہی کام میں دو ہزار میں کروا کر دے رہا تھا تو آپ نہیں مانے۔ 
وکلاء سے متعلق ایک نئی اصطلاح وکلاء گردی بھی آج کل سننے کو ملتی ہے۔ جو قارئین اس اصطلاح کے مطلب سے ناواقف ہیں انکے لئے عرض کردوں کہ وکلاء گردی سے مراد وہ عمل ہے جسکے دوران وکلاء گرد جھاڑتے ہیں، کبھی پولیس کی تو کبھی ججوں کی اور کبھی کبھار اپنے ساتھیوں کی۔ 
وکلاء معاشرے کا اہم جزو اور انتہائی باخبر ہوتے ہیں۔ اکثر ٹی وی رپورٹرز بار کے عہدے داروں سے دوستی رکھتے ہیں تاکہ پتا چلے ملک میں کہاں کہاں کیا مسائل ہیں جسکا اندازہ وہ اس دن کے وکلاء ہڑتال سے لگا لیتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ وکلاء دائم ہڑتالوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اتوار کے دن وہ کبھی ہڑتال نہیں کرتے جو اس بات کا بین ثبوت ہے۔

وکیل بننے کیلئے سب سے اہم چیز منشی ہے۔ جس وکیل کے پاس منشی نہیں وہ سرے سے وکیل ہی نہیں۔ ایک وکیل دوست سے پوچھا کہ منشی کیوں ضروری ہے؟ بولے کہ جب مؤکل سے چھپنا ہوتا ہے تو منشی کوشش کرکے اسے ایسی جانب بھیجتا ہے جہاں میں نہ مل سکوں۔ بقول شخصے وکیل کی دوستی کے سگنل کچہری میں جام ہوتے ہیں۔ اسلئے وکیل سے دوستی کچہری میں آپ کے کسی کام نہیں آئیگی۔ ایسی صورت میں وکیل تک رسائی کا واحد ذریعہ اسکا منشی ہوتا ہے۔ وکیل سے دوستی کریں نہ کریں اسکے منشی سے دوستی ضرور رکھیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...