جمعہ، 27 ستمبر، 2019

مینڈک

سوشل میڈیا ایک انتہائی مہلک ہتھیار کی صورت میں آج کل ہر کسی کو دستیاب ہے۔ اسکے بے شمار فوائد کیساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔ عموماً لوگ نقصان یا تو مذاق مذاق میں کرلیتے ہیں یا پھر وہ اپنے تئیں نیکی کر رہے ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں منوں مینڈکوں کی بات کو ہی دیکھ لیں۔ دو تین کلو مینڈک کو سوشل میڈیا نے پانچ من مینڈک بنا دیا اور پھر لاہور اور لاہوریوں کا مذاق اڑانا شروع ہوگیا۔ اگر چہ مذاق میں ویسے تو کوئی برائی نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس مذاق سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ اگر اس مذاق کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو اسکے نتائج تباہ کن ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہمارا یہ مذاق کسی کی زندگی کیساتھ مذاق بھی ہوسکتا ہے۔ جب بھی اس قسم کی افواہیں پھیلتی ہیں تو یقیناً لوگ ہوٹلوں سے بدظن ہوجاتے ہیں بھلے وہ عارضی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ اسکا نتیجہ لا محالہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ ہوٹلوں میں کھانا کم کر دیتے ہیں۔ جب ہوٹلوں میں گاہکوں کی تعداد کم ہوگی تو اسکی زد میں سب سے پہلے روزانہ کی اجرت پر رکھے ہوئے بیرے وغیرہ آتے ہیں۔ ہوٹل اپنے خرچے کم کرنے کیلئے اس سٹاف کو فارغ کریں گے۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ ایسے کتنے لوگ فارغ ہوتے ہوں گے اور ہر فارغ ہونے والا شخص کتنے لوگوں کا کفیل ہے۔ کتنے لوگ روزانہ تازہ کمائی سے گھر کی دال روٹی چلاتے ہیں، بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرتے ہیں اور بیماروں کا علاج کرتے ہیں۔ ہمارے اس مذاق سے کسی کے بچے فاقوں پر مجبور ہوسکتے ہیں، کسی کے بچے تعلیم سے محروم ہوسکتے ہیں یا پھر کوئی بیمار علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جان سے جاسکتا ہے۔
عرض یہ کرنا تھا کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی ضرور کریں یہ ایک اچھا عمل ہے لیکن صرف اس صورت میں جب آپ مکمل تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ واقعی وہ برائی موجود ہے۔ پھر اس بات کا تعین بھی کرلیں کہ وہ برائی بالعموم پوری صنعت میں پائی جاتی ہے یا چند مخصوص لوگ کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اگر صرف چند لوگ ہیں تو ان کو نشانہ بنائیں نہ کہ پوری صنعت کو۔
الفاظ میں بڑی جان ہوتی ہے۔ زبان اور قلم بھی تلوار کی طرح جہاد کے ہتھیار ہیں اور الفاظ کی یہی خاصیت تقاضا کرتی ہے کہ انکے ساتھ بھی وہی احتیاط برتی جائے جو ایک تیز دھار آلے یا گھوڑا چڑھی بندوق کیساتھ کی جاتی ہے۔
اگر احتیاط نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ ہماری وجہ سے کسی کی زندگی تباہ ہوگئی ہو اور ہمیں علم ہی نہ ہو اور ہمارے لئے وہ محض ایک مذاق ہو۔ مذاق ضرور کیجئے لیکن زندگیوں کیساتھ مذاق ہر گز نہیں۔

ہفتہ، 21 ستمبر، 2019

روشنی اور پرچھائیں

دیکھا یقیناً آپ نے ہوگا اور ذاتی تجربہ بھی ہوا ہوگا لیکن شاید غور کبھی نہیں کیا۔ چلیں آج غور کرتے ہیں۔
جب آپ روشنی سے منہ موڑ لیتے ہیں اور مخالف سمت میں چل پڑتے ہیں تو آپکا سایہ آپ سے آگے اور آپ اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اور پھر روشنی سے جتنا دور ہوتے چلے جاتے ہیں آپکا سایہ لمبا ہوتا جاتا ہے۔جب آپ روشنی کی طرف چلتے ہیں تو سایہ آپ کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اور ہر قدم کیساتھ سکڑتا جاتا ہے تا وقتیکہ آپ روشنی کے عین نیچے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں کیا سایہ غائب ہوجاتا ہے؟ نہیں، وہ تب بھی موجود ہوتا ہے لیکن بہت چھوٹا اور آپ کے قدموں تلے ہوتا ہے۔
یہ ایک عام سا مشاہدہ ہے اس میں بظاہر کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔ لیکن قدرت کی ہر ادا میں بے شمار راز پوشیدہ ہیں جسکی گرہیں غور و فکر کرنے کے بعد کھلتی ہیں۔
یہ روشنی کیا ہے؟ یہ علم و عرفان ہے۔ یہ سایہ پا پرچھائیں کیا ہے یہ ہماری جہالت ہے۔ اب یہ استعارے ذہن میں رکھ کر دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کیا فی الحقیقت ایسا نہیں ہے؟

اتوار، 15 ستمبر، 2019

جھوٹ

جھوٹ ایک معاشرتی برائی ہے اور میں اس سے زیادہ برائی نہیں کروں گا بلکہ یہ کام واعظ پارسا کیلئے چھوڑتا ہوں تا کہ وہ اپنا کام بغیر مداخلت کے احسن طریقے سے کرسکیں۔
میں جھوٹے پر لعنت بھی نہیں بھیجوں گا کیونکہ میں خود زد میں آجاؤں گا۔ یہاں ہم جھوٹ کے کچھ اور پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے۔
سب سے پہلے جھوٹ کا تعارف کروانا ضروری ہے۔ لفظ تعریف میں نے جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا تاکہ قاری بدگمانی کا شکار نہ ہو کہ جناب جھوٹ کی تعریف کر رہے ہیں اور لفظ تعریف کو مدح سرائی کا معنیٰ پہنادیں۔
ہر وہ کی گئی یا نہ کی گئی بات، اشارہ، کنایہ، غمزہ جو کسی ایسے فعل کے ہونے جو نہ ہو یا نہ ہونے جو ہوا ہو کی اطلاع دے جھوٹ کہلائے گا۔ بات پکڑ میں نہیں آئی؟ آنی بھی نہیں چاہئے۔ مقصد ہی تعریف کو مشکل بنانا تھا تاکہ آپ بعد میں آنے والی وضاحت کو پورا پڑھیں ورنہ میرے اکثر دوست پہلی اور آخری سطر پڑھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ میں نے کیا لکھا۔
ارتقاء کے بارے میں آپ نے ضرور پڑھا ہوگا۔ اگر لفظ ارتقاء نہیں سنا یا پڑھا تو یہ تو ضرور پڑھا ہوگا یا سنا ہوگا کہ بقول چارلس ڈارون انسان بندر سے ترقی کرکے یہاں تک پہنچا ہے اور اس کو دنیا نے قبول بھی کرلیا بندروں کا نقطہء نظر جانے بغیر کہ وہ بھی انسانوں کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں۔ ہمارے نزدیک ڈارون صاحب دھوکہ کھاگئے کیونکہ ہم نے کسی بندر کو جھوٹ بولتے اور چغلی کھاتے نہیں دیکھا اور ڈارون صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بندر سے انسان بنتے بنتے جو انسان میں اضافی خامیاں آئی ہیں وہ دم کے بدلے میں دی گئیں تاکہ کمی پوری کی جاسکے۔ خیر ہم بات کر رہے تھے جھوٹ کے ارتقاء کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی ارتقاء پذیر رہا ہے اور بہت سے ایسے جھوٹ ایجاد ہو چکے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ چونکہ پرانے جھوٹ جتنے بھی ہیں ان سے ہر شخص واقف ہے اسلئے ان کو زیر بحث لانے کی بجائے ہم نئے جھوٹ جو ایجاد ہوئے ہیں، ان کا تذکرہ کریں گے۔ مثلاً
موبائل فون میں کسی حسینہ کا نمبر رشید مستری، عبد اللہ پلمبر اور گاما دھوبی کے نام سے درج کرنا بھی جھوٹ ہے۔
فیس بک پر اپنی جنس تبدیل کرکے ہم جیسے بڈھوں کے جذبات سے کھیلنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
کیوٹ پرنسس کے نام سے آئی ڈی بنانا بھی بہت بڑا جھوٹ ہے اور مزید تفصیل میں اسلئے نہیں جائیں گے کہ خدا کی تخلیق پر انگلی اٹھانا درست نہیں بس وہ خود ہی اشارہ سمجھ جائیں۔
بلاوجہ سوشل میڈیا پر دکھی دکھی سٹیٹس لگانا بھی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔
دن اور رات کیلئے دو الگ الگ سم کارڈ رکھنا بھی جھوٹ ہے۔
فیس بک پر Relationship Status میں it's complicated لکھنا بھی جھوٹ ہے۔
مختلف مواقع پر حسب ضرورت بہت سارے منگیتر ہونا بھی جھوٹ ہے۔
بے وقت قابل اعتراض کال آنے پر ریسیو کرکے اور تاسف سے انا لله وانا الیہ راجعون کہہ کر کسی دور پار کے دوست کے ماں باپ میں سے کسی کو بے وقت اور بلاوجہ مارنا بھی جھوٹ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
کسی خاتون کا آنکھیں دکھانے کے جواب میں یہ کہنا کہ آپکی آنکھیں میری مرحومہ ماں سے ملتی ہیں، یہ بھی جھوٹ ہے۔
گھر سے نکلتے ہوئے یا بیگم کے میکے جاتے ہوئے غمزدہ نظر آنا اور گھر لوٹتے ہوئے یا بیگم کے میکے سے لوٹنے پر خوشی کا اظہار بھی جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے۔
کسی اصل شکل سے بھی بری تصویر پر ماشاء اللہ کا کمنٹ کرنا اور بالخصوص خواتین کی سر کٹی ڈی پی پر nice, cute اور لولی کا کمنٹ کرنا بھی جھوٹ ہی ہے۔
کسی کو پوسٹ کو پڑھے بنا لائک کرنا بھی جھوٹ ہے۔
کسی خاتون شاعرہ کے گھٹیا شعر پر بھی اچھل اچھل واہ واہ کرنا اور مرد شاعر کے ا چھے شعر میں عروض کی نہ پائی جانے والی غلطی کو بھی نکال لینا جھوٹ ہی ہے۔
اگرچہ کسی کیلئے چاند تارے توڑ کر لانے کا وعدہ اتنا جھوٹا نہیں ہے لیکن کسی سے یہ کہنا کہ موبائل فون کا پاس ورڈ تک شئیر کرلوں گا جھوٹ کے علاؤہ کچھ نہیں۔
تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو کہنا بھی بھی جھوٹ ہے ہاں اگر ساتھ لاحقہ لگا دیں کہ اب تک میری زندگی میں آنے والوں میں تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو، پھر جھوٹ تصور نہیں ہوگا۔
تصویر کو ایڈٹ کرکے تیرہ فلٹر لگا کر اپلوڈ کرنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے تاہم اگر ساتھ لکھ دیں کہ اصل سے بہتر ہے تو کسی حد تک جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کی دیگر مثالوں کا اضافہ آپ کمنٹ میں لکھ کر کروا سکتے ہیں۔
جھوٹ کی بنیادی طور پر اقسام دو ہی ہیں،
جھوٹ اور بے ضرر جھوٹ۔ جھوٹ وہ جو لوگ بولتے ہیں اور بے ضرر جھوٹ وہ کہلاتا ہے جو ہم بولتے ہیں۔ عرف عام میں اسے مذاق بھی کہا جاتا ہے اگر پکڑا جائے تو۔
ایک جھوٹ سفید بھی کہلاتا ہے، یہ جھوٹ صرف وہ بولتے ہیں جن کو جھوٹ بولنا نہیں آتا مثلاً نئے نئے عاشق، نئے نویلے دولہے اور نیا نیا سرکاری ملازم اور سیاستدان۔  اسکی بنیادی وجہ مشق اور ریاض کی کمی بتائی جاتی ہے۔
ہر بری چیز کی طرح جھوٹ بھی ممنوع اور قابل نفرین ہے تاہم اگر ممنوع چیز بنیادی ضروریات میں شامل ہوجائے یا اس سے زندگی بچ سکتی ہو تو مفتیان کرام حلال قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جنکے لئے جھوٹ ایک بنیادی ضرورت ہے اور ہماری مفتیان کرام سے گزارش ہوگی کہ اس سلسلے میں ذرا وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواص کے اسلام میں سے کچھ گنجائش نکال لیں۔ سیاستدانوں نے ملک چلانا ہوتا ہے اسلئے انکو  خصوصی پرمٹ مل ے چاہئیں جس طرح انکو حفاظت کیلئے خود کار اسلحے کے پرمٹ دئیے جاتے ہیں۔
شاعر کا تو کاروبار ہی بند ہوجائیگا بلکہ بعض صورتوں میں جان کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں محبوب کی جنس تبدیل کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ بقول شخصے اگر مومن خان مومن کے شعر میں محبوب کے جنس کی تصحیح کردی جائے تو شعر کچھ یوں بنے گا،
تم میرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
اب سچ کی آمیزش کے بعد شعر کا جو حشر ہوا سو ہوا شاعر کا حشر کہیں زیادہ برا ہوتا۔ لہذا شاعروں کو بھی چھوٹ ہونی چاہئے۔
تیسرے بنیادی ضرورت کے درجے میں مرد بالعموم اور شوہر آتے ہیں۔ انکو کھلی چھوٹ ہونی چاہئے کیونکہ خدا جانتا ہے ہم نے آج تک کسی خاتون کو سچ سے متاثر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر مرد سچ بولنا شروع کردیں تو سب کے سب کنوارے رہ جائیں اور نتیجتاً بنی نوع انسان کی بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اگر کسی نہ کسی طرح شادی کر بھی لیں تو سچ کے نتیجے میں ان کی "جان" جائیگی یا وہ جان سے جائیں گے۔ کیا جون کے مہینے میں کچن میں جلتی ہوئی خاتون خانہ جو ہرقسم کے ہتھیاروں بشمول چھری، کانٹا بیلن وغیرہ سے لیس ہو، کو یہ سچ سچ بتانا کہ کھانا اچھا نہیں بنا کسی طرح بھی خطرے سے خالی نظر آتا ہے؟
اب اگر آپ پوچھیں کہ جھوٹا کون ہوتا ہے تو جواب یہی ہوگا کہ وہ شخص جو جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا نہ جاسکے۔ جو جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا جائے جو جھوٹا کہلانے کے قابل ہی نہیں۔ چونکہ عموماً ہمارے یہاں ننگے دھڑنگے خبطیوں کو ولی اللہ اور ہر بے تکی و بے سرو پا بات کرنے والے دانشور سمجھا جاتا ہے اسلئے قارئین کی خوش گمانی کو دوام بخشنے کیلئے اس ساری بے تکی گفتگو کو کسی اچھے نتیجے پر ختم کرنا لازمی ہے۔ تو جناب حاصل گفتگو یہ ہے کہ
عمر کا بیشتر حصہ گزار لینے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور گوں نا گوں تجربات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاعر، شوہر اور سیاستدان کے علاؤہ کسی کو جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ انکی بنیادی ضروریات میں شامل نہیں۔

منگل، 10 ستمبر، 2019

عاشورہ اور پابندیاں

عموماً 9 اور 10 محرم کو ملک کے پیشتر حصوں میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر یا پھر موٹر سائکل پر پابندی ہوتی ہے, موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہوتی ہے، جلوسوں کے راستوں پر ناکہ بندیاں ہوتی ہیں اور راستے مسدود ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس صورتحال سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کچھ اسکو چند لوگوں کی وجہ سے سب کیلئے پریشانی گردانتے ہیں تو کچھ اپنے مختلف انداز میں اس پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سوال پر نہ کبھی بحث ہوتی ہے نہ ہم غور کرتے ہیں۔ کیا اسکا مقصد اتنا خرچہ کرکے عوام کو تنگ کرنا ہی ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس کا مقصد و منشاء ماتمی جلوسوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حفاظت کس سے کی جاتی ہے؟ اب آپ کہیں گے دہشتگردوں سے۔ لیکن دہشتگرد کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟ یقیناً وہ ہمارے درمیان ہی رہنے والے لوگ ہیں یا پھر ہم خود ہیں۔
تھوڑی دیر کیلئے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ہم ان سے متفق ہیں یا شدید مخالف۔ ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ عمل کرنے میں مدد بھی کرتے ہیں۔ جب شیعہ ماتم کرتے ہیں تو ہم سنی چونکہ انکی طرح ماتم نہیں کرتے اور فارغ ہوتے ہیں ہم جگہ جگہ انکے لئے سبیلیں لگاتے ہیں۔ انکے لئے کھانے پینے کی اشیاء لیکر ساتھ چلتے ہیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا سامان لیکر ساتھ چل رہے ہیں۔ اپنی ذاتی گاڑیاں بھی جلوس کے پیچھے پیچھے لے جارہے ہیں تاکہ اگر کسی کو ہسپتال پہنچانا ہو تو بروقت پہنچایا جا سکے۔ چونکہ عاشورہ کے دن عموماً اہل تشیع کے ہاں کچھ نہیں پکایا جاتا اور وہ ویسے بھی مجالس اور ماتمی  جلوسوں میں مصروف ہوتے ہیں ہم گھروں میں اضافی کھانا بناکر انکے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر انکے گھروں میں بچے یا بیمار ہیں یا پھر جانور ہیں جن کو وہ محرم کی مصروفیات کی وجہ سےتوجہ نہیں  دے پارہے ہم ان کی ذمہ داری خود لے لیں تو کیا پھر بھی اس قسم کی سخت سیکیورٹی کی ضرورت پڑے گی؟ میرا خیال ہے کہ اسکی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ شاید پولیس والے اس دن چھٹی کریں کہ آج اگر کوئی مجرم ہے بھی تو شیعہ مجرم ماتم میں اور سنی مجرم انکی خدمت میں مصروف ہیں تو جرم شاید ہی کوئی کرے۔ ایمبولینسیں بھی شاید چھٹی کریں کہ آج تو ہر بندے نے اپنی گاڑی کو ایمبولینس بنایا ہوا ہے۔
اور جب عاشورہ گزر جائے گا اسکے بعد وہ شیعہ اسکا جواب کیسے دیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسکے بعد آپ سے نفرت کرسکیں؟ جب آپ کو ضرورت پڑیگی تو کیا یہ ہوسکتا کہ وہ آپ کی مدد کو نہ پہنچیں؟
میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے روئے بدلنے پڑیں گے۔ ہمیں لوگوں کو جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر قبول کرنا سیکھنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہم ایسے ہی قیدی بن کر رہیں گے۔ یہ پابندیاں ہمارے رویوں اور اعمال کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...