اتوار، 15 ستمبر، 2019

جھوٹ

جھوٹ ایک معاشرتی برائی ہے اور میں اس سے زیادہ برائی نہیں کروں گا بلکہ یہ کام واعظ پارسا کیلئے چھوڑتا ہوں تا کہ وہ اپنا کام بغیر مداخلت کے احسن طریقے سے کرسکیں۔
میں جھوٹے پر لعنت بھی نہیں بھیجوں گا کیونکہ میں خود زد میں آجاؤں گا۔ یہاں ہم جھوٹ کے کچھ اور پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے۔
سب سے پہلے جھوٹ کا تعارف کروانا ضروری ہے۔ لفظ تعریف میں نے جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا تاکہ قاری بدگمانی کا شکار نہ ہو کہ جناب جھوٹ کی تعریف کر رہے ہیں اور لفظ تعریف کو مدح سرائی کا معنیٰ پہنادیں۔
ہر وہ کی گئی یا نہ کی گئی بات، اشارہ، کنایہ، غمزہ جو کسی ایسے فعل کے ہونے جو نہ ہو یا نہ ہونے جو ہوا ہو کی اطلاع دے جھوٹ کہلائے گا۔ بات پکڑ میں نہیں آئی؟ آنی بھی نہیں چاہئے۔ مقصد ہی تعریف کو مشکل بنانا تھا تاکہ آپ بعد میں آنے والی وضاحت کو پورا پڑھیں ورنہ میرے اکثر دوست پہلی اور آخری سطر پڑھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ میں نے کیا لکھا۔
ارتقاء کے بارے میں آپ نے ضرور پڑھا ہوگا۔ اگر لفظ ارتقاء نہیں سنا یا پڑھا تو یہ تو ضرور پڑھا ہوگا یا سنا ہوگا کہ بقول چارلس ڈارون انسان بندر سے ترقی کرکے یہاں تک پہنچا ہے اور اس کو دنیا نے قبول بھی کرلیا بندروں کا نقطہء نظر جانے بغیر کہ وہ بھی انسانوں کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں۔ ہمارے نزدیک ڈارون صاحب دھوکہ کھاگئے کیونکہ ہم نے کسی بندر کو جھوٹ بولتے اور چغلی کھاتے نہیں دیکھا اور ڈارون صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بندر سے انسان بنتے بنتے جو انسان میں اضافی خامیاں آئی ہیں وہ دم کے بدلے میں دی گئیں تاکہ کمی پوری کی جاسکے۔ خیر ہم بات کر رہے تھے جھوٹ کے ارتقاء کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی ارتقاء پذیر رہا ہے اور بہت سے ایسے جھوٹ ایجاد ہو چکے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ چونکہ پرانے جھوٹ جتنے بھی ہیں ان سے ہر شخص واقف ہے اسلئے ان کو زیر بحث لانے کی بجائے ہم نئے جھوٹ جو ایجاد ہوئے ہیں، ان کا تذکرہ کریں گے۔ مثلاً
موبائل فون میں کسی حسینہ کا نمبر رشید مستری، عبد اللہ پلمبر اور گاما دھوبی کے نام سے درج کرنا بھی جھوٹ ہے۔
فیس بک پر اپنی جنس تبدیل کرکے ہم جیسے بڈھوں کے جذبات سے کھیلنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
کیوٹ پرنسس کے نام سے آئی ڈی بنانا بھی بہت بڑا جھوٹ ہے اور مزید تفصیل میں اسلئے نہیں جائیں گے کہ خدا کی تخلیق پر انگلی اٹھانا درست نہیں بس وہ خود ہی اشارہ سمجھ جائیں۔
بلاوجہ سوشل میڈیا پر دکھی دکھی سٹیٹس لگانا بھی ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔
دن اور رات کیلئے دو الگ الگ سم کارڈ رکھنا بھی جھوٹ ہے۔
فیس بک پر Relationship Status میں it's complicated لکھنا بھی جھوٹ ہے۔
مختلف مواقع پر حسب ضرورت بہت سارے منگیتر ہونا بھی جھوٹ ہے۔
بے وقت قابل اعتراض کال آنے پر ریسیو کرکے اور تاسف سے انا لله وانا الیہ راجعون کہہ کر کسی دور پار کے دوست کے ماں باپ میں سے کسی کو بے وقت اور بلاوجہ مارنا بھی جھوٹ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
کسی خاتون کا آنکھیں دکھانے کے جواب میں یہ کہنا کہ آپکی آنکھیں میری مرحومہ ماں سے ملتی ہیں، یہ بھی جھوٹ ہے۔
گھر سے نکلتے ہوئے یا بیگم کے میکے جاتے ہوئے غمزدہ نظر آنا اور گھر لوٹتے ہوئے یا بیگم کے میکے سے لوٹنے پر خوشی کا اظہار بھی جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے۔
کسی اصل شکل سے بھی بری تصویر پر ماشاء اللہ کا کمنٹ کرنا اور بالخصوص خواتین کی سر کٹی ڈی پی پر nice, cute اور لولی کا کمنٹ کرنا بھی جھوٹ ہی ہے۔
کسی کو پوسٹ کو پڑھے بنا لائک کرنا بھی جھوٹ ہے۔
کسی خاتون شاعرہ کے گھٹیا شعر پر بھی اچھل اچھل واہ واہ کرنا اور مرد شاعر کے ا چھے شعر میں عروض کی نہ پائی جانے والی غلطی کو بھی نکال لینا جھوٹ ہی ہے۔
اگرچہ کسی کیلئے چاند تارے توڑ کر لانے کا وعدہ اتنا جھوٹا نہیں ہے لیکن کسی سے یہ کہنا کہ موبائل فون کا پاس ورڈ تک شئیر کرلوں گا جھوٹ کے علاؤہ کچھ نہیں۔
تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو کہنا بھی بھی جھوٹ ہے ہاں اگر ساتھ لاحقہ لگا دیں کہ اب تک میری زندگی میں آنے والوں میں تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو، پھر جھوٹ تصور نہیں ہوگا۔
تصویر کو ایڈٹ کرکے تیرہ فلٹر لگا کر اپلوڈ کرنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے تاہم اگر ساتھ لکھ دیں کہ اصل سے بہتر ہے تو کسی حد تک جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کی دیگر مثالوں کا اضافہ آپ کمنٹ میں لکھ کر کروا سکتے ہیں۔
جھوٹ کی بنیادی طور پر اقسام دو ہی ہیں،
جھوٹ اور بے ضرر جھوٹ۔ جھوٹ وہ جو لوگ بولتے ہیں اور بے ضرر جھوٹ وہ کہلاتا ہے جو ہم بولتے ہیں۔ عرف عام میں اسے مذاق بھی کہا جاتا ہے اگر پکڑا جائے تو۔
ایک جھوٹ سفید بھی کہلاتا ہے، یہ جھوٹ صرف وہ بولتے ہیں جن کو جھوٹ بولنا نہیں آتا مثلاً نئے نئے عاشق، نئے نویلے دولہے اور نیا نیا سرکاری ملازم اور سیاستدان۔  اسکی بنیادی وجہ مشق اور ریاض کی کمی بتائی جاتی ہے۔
ہر بری چیز کی طرح جھوٹ بھی ممنوع اور قابل نفرین ہے تاہم اگر ممنوع چیز بنیادی ضروریات میں شامل ہوجائے یا اس سے زندگی بچ سکتی ہو تو مفتیان کرام حلال قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جنکے لئے جھوٹ ایک بنیادی ضرورت ہے اور ہماری مفتیان کرام سے گزارش ہوگی کہ اس سلسلے میں ذرا وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواص کے اسلام میں سے کچھ گنجائش نکال لیں۔ سیاستدانوں نے ملک چلانا ہوتا ہے اسلئے انکو  خصوصی پرمٹ مل ے چاہئیں جس طرح انکو حفاظت کیلئے خود کار اسلحے کے پرمٹ دئیے جاتے ہیں۔
شاعر کا تو کاروبار ہی بند ہوجائیگا بلکہ بعض صورتوں میں جان کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں محبوب کی جنس تبدیل کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ بقول شخصے اگر مومن خان مومن کے شعر میں محبوب کے جنس کی تصحیح کردی جائے تو شعر کچھ یوں بنے گا،
تم میرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
اب سچ کی آمیزش کے بعد شعر کا جو حشر ہوا سو ہوا شاعر کا حشر کہیں زیادہ برا ہوتا۔ لہذا شاعروں کو بھی چھوٹ ہونی چاہئے۔
تیسرے بنیادی ضرورت کے درجے میں مرد بالعموم اور شوہر آتے ہیں۔ انکو کھلی چھوٹ ہونی چاہئے کیونکہ خدا جانتا ہے ہم نے آج تک کسی خاتون کو سچ سے متاثر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر مرد سچ بولنا شروع کردیں تو سب کے سب کنوارے رہ جائیں اور نتیجتاً بنی نوع انسان کی بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اگر کسی نہ کسی طرح شادی کر بھی لیں تو سچ کے نتیجے میں ان کی "جان" جائیگی یا وہ جان سے جائیں گے۔ کیا جون کے مہینے میں کچن میں جلتی ہوئی خاتون خانہ جو ہرقسم کے ہتھیاروں بشمول چھری، کانٹا بیلن وغیرہ سے لیس ہو، کو یہ سچ سچ بتانا کہ کھانا اچھا نہیں بنا کسی طرح بھی خطرے سے خالی نظر آتا ہے؟
اب اگر آپ پوچھیں کہ جھوٹا کون ہوتا ہے تو جواب یہی ہوگا کہ وہ شخص جو جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا نہ جاسکے۔ جو جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا جائے جو جھوٹا کہلانے کے قابل ہی نہیں۔ چونکہ عموماً ہمارے یہاں ننگے دھڑنگے خبطیوں کو ولی اللہ اور ہر بے تکی و بے سرو پا بات کرنے والے دانشور سمجھا جاتا ہے اسلئے قارئین کی خوش گمانی کو دوام بخشنے کیلئے اس ساری بے تکی گفتگو کو کسی اچھے نتیجے پر ختم کرنا لازمی ہے۔ تو جناب حاصل گفتگو یہ ہے کہ
عمر کا بیشتر حصہ گزار لینے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور گوں نا گوں تجربات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاعر، شوہر اور سیاستدان کے علاؤہ کسی کو جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ انکی بنیادی ضروریات میں شامل نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...