منگل، 10 ستمبر، 2019

عاشورہ اور پابندیاں

عموماً 9 اور 10 محرم کو ملک کے پیشتر حصوں میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر یا پھر موٹر سائکل پر پابندی ہوتی ہے, موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہوتی ہے، جلوسوں کے راستوں پر ناکہ بندیاں ہوتی ہیں اور راستے مسدود ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس صورتحال سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کچھ اسکو چند لوگوں کی وجہ سے سب کیلئے پریشانی گردانتے ہیں تو کچھ اپنے مختلف انداز میں اس پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سوال پر نہ کبھی بحث ہوتی ہے نہ ہم غور کرتے ہیں۔ کیا اسکا مقصد اتنا خرچہ کرکے عوام کو تنگ کرنا ہی ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اس کا مقصد و منشاء ماتمی جلوسوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حفاظت کس سے کی جاتی ہے؟ اب آپ کہیں گے دہشتگردوں سے۔ لیکن دہشتگرد کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟ یقیناً وہ ہمارے درمیان ہی رہنے والے لوگ ہیں یا پھر ہم خود ہیں۔
تھوڑی دیر کیلئے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ہم ان سے متفق ہیں یا شدید مخالف۔ ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ عمل کرنے میں مدد بھی کرتے ہیں۔ جب شیعہ ماتم کرتے ہیں تو ہم سنی چونکہ انکی طرح ماتم نہیں کرتے اور فارغ ہوتے ہیں ہم جگہ جگہ انکے لئے سبیلیں لگاتے ہیں۔ انکے لئے کھانے پینے کی اشیاء لیکر ساتھ چلتے ہیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا سامان لیکر ساتھ چل رہے ہیں۔ اپنی ذاتی گاڑیاں بھی جلوس کے پیچھے پیچھے لے جارہے ہیں تاکہ اگر کسی کو ہسپتال پہنچانا ہو تو بروقت پہنچایا جا سکے۔ چونکہ عاشورہ کے دن عموماً اہل تشیع کے ہاں کچھ نہیں پکایا جاتا اور وہ ویسے بھی مجالس اور ماتمی  جلوسوں میں مصروف ہوتے ہیں ہم گھروں میں اضافی کھانا بناکر انکے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر انکے گھروں میں بچے یا بیمار ہیں یا پھر جانور ہیں جن کو وہ محرم کی مصروفیات کی وجہ سےتوجہ نہیں  دے پارہے ہم ان کی ذمہ داری خود لے لیں تو کیا پھر بھی اس قسم کی سخت سیکیورٹی کی ضرورت پڑے گی؟ میرا خیال ہے کہ اسکی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ شاید پولیس والے اس دن چھٹی کریں کہ آج اگر کوئی مجرم ہے بھی تو شیعہ مجرم ماتم میں اور سنی مجرم انکی خدمت میں مصروف ہیں تو جرم شاید ہی کوئی کرے۔ ایمبولینسیں بھی شاید چھٹی کریں کہ آج تو ہر بندے نے اپنی گاڑی کو ایمبولینس بنایا ہوا ہے۔
اور جب عاشورہ گزر جائے گا اسکے بعد وہ شیعہ اسکا جواب کیسے دیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسکے بعد آپ سے نفرت کرسکیں؟ جب آپ کو ضرورت پڑیگی تو کیا یہ ہوسکتا کہ وہ آپ کی مدد کو نہ پہنچیں؟
میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے روئے بدلنے پڑیں گے۔ ہمیں لوگوں کو جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر قبول کرنا سیکھنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہم ایسے ہی قیدی بن کر رہیں گے۔ یہ پابندیاں ہمارے رویوں اور اعمال کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...