جمعہ، 22 نومبر، 2019

گلوبل وارمنگ اور شادی

ہمارے ایک دوست ہیں جو عرصہ دراز سے دیار غیر میں ہیں اور آج کل ڈنمارک میں رہائش پذیر ہیں۔ کافی عرصے بعد ان سے بات ہوئی تو پوچھ لیا کہ شادی شدہ ہو یا آسودہ ہو۔ ہنس کر بولے پاکستان میں سب سے زیادہ پوچھا جانیوالا سوال ہے۔ عرض کیا ظاہر سی بات ہے جب اپنے دوست اپنی طرح مشکل میں ہوں تو سن کر اچھا لگتا ہے۔ کہنے لگے ابھی تک شادی نہیں کی اور اپنی مرضی اور پسند کی زندگی گزار رہا ہوں مزے میں ہوں۔ عرض کیا کہ اس تقریر کا صرف پہلا یا آخری جملہ ہی کافی تھا باقی الفاظ ضائع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ خیر باتوں باتوں میں اس نے شادی نہ کرنے کی وجہ بتائی اور کہنے لگے کہ میں شادی کرکے گلوبل وارمنگ کی وجہ نہیں بننا چاہتا۔
تب سے میں شادی اور گلوبل وارمنگ کے درمیان ربط ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دنیا کے تقریباً ہر الٹے سیدھے کام کا گلوبل وارمنگ سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے لیکن شادی سے گلوبل وارمنگ کا کوئی تعلق واسطہ کسی بھی تحقیق سے ثابت نہیں ہوا۔ 
جی ہاں، میرے ذہن میں بھی وہی وجہ بار بار آرہی تھی جو اس وقت آپ کے ذہن میں آرہی ہے لیکن وہ بھی کسی تحقیق سے ثابت نہیں۔ 
خیر آخر تنگ آکر ہم نے ان سے پوچھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ موصوف یونیورسٹی کے دنوں میں غضب کے پڑھاکو تھے اور کورس کی کتاب کے علاؤہ ہر کتاب پڑھتے تھے۔ تاریخ، فلسفے اور معاشی نظام اس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ تو ہمیں لگا کہ شاید ایسی کوئی تحقیق ہوگی جو ہمیں نہیں ملی اور وہ پڑھ چکے ہیں۔ 
تو ان سے پوچھا کہ جناب آپ نے اس دن جو بات کی تھی ذرا اس تحقیقی مقالے کا حوالہ بتادیں۔ کہنے لگے کونسی بات اور کونسی تحقیق؟ عرض کیا وہی جو آپ کہہ رہے تھے کہ شادیوں سے گلوبل وارمنگ بڑھتی ہے۔ کہنے لگے مجھے تو کتاب چھوڑ اخبار پڑھے ہوئے بھی دس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ عرض کیا کہ پھر یہ شادی اور گلوبل وارمنگ کے تعلق کے بارے میں اتنا بڑا دعویٰ کیسے کرلیا؟ کہنے لگے سیدھی سی بات ہے شادی کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں آبادی بڑھتی ہے اور آبادی بنیادی وجہ ہے گلوبل وارمنگ کی۔ 
انکا جواب سن کر شرمندگی ہوئی کہ کمبل رضائی سے لیکر خلائی سٹیشن تک کی سو سوا سو تحقیقاتی رپورٹیں پڑھ لیں اور اتنا سادہ نکتہ نہ سمجھ سکے۔ 
ویسے شادی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کی جو وجہ آپ سوچ رہے وہ بھی ٹھیک ہی ہے، تبھی تو شادیاں سردیوں میں ہوتی ہیں۔  

منگل، 19 نومبر، 2019

عالمی یوم بیت الخلا

آج عالمی یوم بیت الخلا ہے۔ بیت الخلا کا ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر آگے جاکر بات کریں گے۔ سر دست اسکی وجہ تسمیہ کا ذکر ہوجائے۔ بیت الخلا عربی زبان کا لفظ لگتا ہے۔ بیت تو گھر کو کہتے ہیں الخلا کا مطلب لامحالہ خلا ہی ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے خلا کا گھر کیوں کہا جاتا ہے۔ ہر خالی جگہ خلا کا ہی گھر ہوتا ہے۔ غور و خوض کے بعد اسکی جو وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ صبح صبح سب سے پہلا کام بیت الخلا جانا ہی ہوتا ہے۔ صبح کھانے پینے سے پہلے پیٹ میں خلا پیدا کرنے کیلئے اسی جگہ کا استعمال کیا جاتا ہے شاید اسی وجہ سے اسے بیت الخلا کہا جاتا ہے۔ اسکا عربی نام ہی اردو نے قبول کیا یا پھر انگریزی ٹائلٹ۔ اردو میں اگر اسکے لئے اپنا نام بنایا جاتا تو وہ سننے میں شاید اتنا بھلا نہ لگتا۔ مثلاً جائے بول و براز تو بالکل اچھا نہ لگتا۔ 
اسکی ہماری زندگی میں ایک اہمیت کا تو اوپر ذکر ہو ہی گیا اسکے علاؤہ بھی اسکے بہت سے مصارف ہیں۔ 
یہ دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں آپ کو تنہائی میسر ہوتی ہے۔ یہاں آپ جو کرنا چاہتے ہیں کر سکتے ہیں۔ یعنی جو کام آپ کہیں نہیں کرسکتے وہ یہاں بے فکری سے کر سکتے ہیں۔ مثلاً بچپن میں ہم امتحان کے دنوں میں ناول چھپا کر اندر لے جاتے تو باہر سے جب تک کسی کی آواز نہ آتی نہ نکلتے۔ تاخیر سے نکلنے کی وجہ پیٹ کا درد بتایا کرتے۔ آج کل قابل اعتراض قسم کی فون کالز اور مسیجز کیلئے بھی یہ ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھی جاتی ہے۔ 
بیت الخلا کا تخلیقی ادب، تجریدی آرٹ اور دیگر فنون لطیفہ و فنون غلیظہ کی آبیاری اور ترویج و اشاعت میں بھی اہم کردار ہے۔ ہر گانے والا اپنی گلو کاری کی ابتداء یہیں سے کرتا ہے۔ عوامی بیت الخلا جہاں کہیں بھی ہوں سکول، کالج، ہاسٹلز، بس، ریلوے سٹیشن یا پھر سڑک کنارے بنے ہوٹلوں کے، سب میں بے ادبی کی حدوں کو پھلانگتے ادب کے نادر و نایاب نمونے ملتے ہیں۔ محبت و نفرت کا اظہار ہو یا شعر وشاعری کا شوق سب یہیں آکے پورے کئے جاتے ہیں۔ فن مصوری کے بھی نایاب نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ گویا ہماری ساری تخلیقی صلاحیتیں یہیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ گویا بیت الخلا میں جسم کے جس حصے سے جو کچھ بھی برآمد ہوتا ہے اسکا معیار وہی ہوتا ہے جس چیز کے اخراج کیلئے یہ مخصوص جگہ بنائی جاتی یے۔ 
بہرحال بیت الخلا کی اہمیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ جہاں جسم میں فاضل مادے جمع ہوکر جسم کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں وہاں دل دماغ میں بھی فاسد خیالات جمع ہوکر نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اور بیت الخلا دونوں کے اخراج کیلئے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ تمام احباب کو عالمی یو بیت الخلا مبارک ہو۔ 

پیر، 11 نومبر، 2019

مونچھیں ہیں کلاشنکوف نہیں

ہمارے ایک دوست نے یہ واقعہ سنایا تھا اسلئے دروغ بر گردن راوی۔ 

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یوں ہوا کہ دو بندے کسی بات پر ایک دوسرے کے ساتھ الجھ رہے تھے۔ ایک صاحب اچھے خاصے پہلوان نما اور قوی الجثہ تھے جبکہ دوسرے صاحب میری طرح کے ڈیڑھ پسلی کے تھے لیکن اسکی مونچھیں بڑی بڑی تھیں اور اس نے۔ خوب تاؤ دیا ہوا تھا۔ جب لڑائی شرع ہوئی تو مونچھوں والے کو زمین پر پٹخ کر پہلوان اوپر چڑھ بیٹھا وہ نیچے سے نکلنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔ جب کسی نہ کسی طرح وہ اسکے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہوا تو پاس کھڑے ایک تماش بین نے کہا کہ مونچھوں والا جیت جائیگا۔ مونچھوں والا یہ سن کر پھر حملہ آور ہوا اور پہلوان نے پھر پٹخ دیا۔ وہ دوبارہ جیسے تیسے اٹھ کھڑا ہوا تماش بین نے ایک بار پھر کہا کہ مونچھوں والا جیتے گا۔ یہ سن کر مونچھوں والا پھر حملہ آور ہوا۔ پہلوان نے پھر پٹخ دیا۔ تیسری بار جب وہ اٹھ کھڑا ہوا تو تماش بین نے اپنی بات پھر دہرائی کہ دیکھ لینا مونچھوں والا ضرورجیتے گا۔ اس پر مونچھوں والا یہ کہہ کر ایک طرف چل دیا کہ بھائی مونچھیں ہیں میری کوئی کلاشنکوف نہیں۔
عرض یہ کرنا تھا کہ اگر میاں صاحب کچھ دے دلا کر جارہے ہیں تو ن لیگ والے دوست  انہیں جانے دیں یہ کہہ کر جھوٹی غیرت نہ دلائیں کہ میاں صاحب نہیں جائیں گے۔ میاں صاحب ہیں کوئی باچا خان یا نیلسن منڈیلا نہیں۔

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...