ہمارے ایک دوست ہیں جو عرصہ دراز سے دیار غیر میں ہیں اور آج کل ڈنمارک میں رہائش پذیر ہیں۔ کافی عرصے بعد ان سے بات ہوئی تو پوچھ لیا کہ شادی شدہ ہو یا آسودہ ہو۔ ہنس کر بولے پاکستان میں سب سے زیادہ پوچھا جانیوالا سوال ہے۔ عرض کیا ظاہر سی بات ہے جب اپنے دوست اپنی طرح مشکل میں ہوں تو سن کر اچھا لگتا ہے۔ کہنے لگے ابھی تک شادی نہیں کی اور اپنی مرضی اور پسند کی زندگی گزار رہا ہوں مزے میں ہوں۔ عرض کیا کہ اس تقریر کا صرف پہلا یا آخری جملہ ہی کافی تھا باقی الفاظ ضائع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ خیر باتوں باتوں میں اس نے شادی نہ کرنے کی وجہ بتائی اور کہنے لگے کہ میں شادی کرکے گلوبل وارمنگ کی وجہ نہیں بننا چاہتا۔
تب سے میں شادی اور گلوبل وارمنگ کے درمیان ربط ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دنیا کے تقریباً ہر الٹے سیدھے کام کا گلوبل وارمنگ سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے لیکن شادی سے گلوبل وارمنگ کا کوئی تعلق واسطہ کسی بھی تحقیق سے ثابت نہیں ہوا۔
جی ہاں، میرے ذہن میں بھی وہی وجہ بار بار آرہی تھی جو اس وقت آپ کے ذہن میں آرہی ہے لیکن وہ بھی کسی تحقیق سے ثابت نہیں۔
خیر آخر تنگ آکر ہم نے ان سے پوچھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ موصوف یونیورسٹی کے دنوں میں غضب کے پڑھاکو تھے اور کورس کی کتاب کے علاؤہ ہر کتاب پڑھتے تھے۔ تاریخ، فلسفے اور معاشی نظام اس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ تو ہمیں لگا کہ شاید ایسی کوئی تحقیق ہوگی جو ہمیں نہیں ملی اور وہ پڑھ چکے ہیں۔
تو ان سے پوچھا کہ جناب آپ نے اس دن جو بات کی تھی ذرا اس تحقیقی مقالے کا حوالہ بتادیں۔ کہنے لگے کونسی بات اور کونسی تحقیق؟ عرض کیا وہی جو آپ کہہ رہے تھے کہ شادیوں سے گلوبل وارمنگ بڑھتی ہے۔ کہنے لگے مجھے تو کتاب چھوڑ اخبار پڑھے ہوئے بھی دس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ عرض کیا کہ پھر یہ شادی اور گلوبل وارمنگ کے تعلق کے بارے میں اتنا بڑا دعویٰ کیسے کرلیا؟ کہنے لگے سیدھی سی بات ہے شادی کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں آبادی بڑھتی ہے اور آبادی بنیادی وجہ ہے گلوبل وارمنگ کی۔
انکا جواب سن کر شرمندگی ہوئی کہ کمبل رضائی سے لیکر خلائی سٹیشن تک کی سو سوا سو تحقیقاتی رپورٹیں پڑھ لیں اور اتنا سادہ نکتہ نہ سمجھ سکے۔
ویسے شادی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کی جو وجہ آپ سوچ رہے وہ بھی ٹھیک ہی ہے، تبھی تو شادیاں سردیوں میں ہوتی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں