شادی کے موضوع پر میں ہمیشہ بات کرنے سے کتراتا ہوں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں بہت گنہگار سہی پر کبھی کسی کی دل آزاری کا گناہ نہیں کرتا یا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ قصداً نہیں کرتا۔ شادی ایک حساس موضوع ہے۔ اس کے ذکرسے شادی شدہ اور کنوارے دونوں کے جذبات یکساں طور پر مجروح ہوتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے حال کو کوسنا شروع کردیتے ہیں۔ اوّل الذکر اپنے شاندار ماضی کو یاد کرکے حال پر نم دیدہ ہوجاتے ہیں اور موخرالذکر اپنے تاریک مستقبل کو دیکھ کر حال پر ناشکری کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیجئے باپ دادا کا راستہ ہے کرنی تو پڑتی ہے۔ شادی کے بعد زندگی کتنی بدل جاتی ہے یہ شادی سے پہلے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
ہمارے ایک ننھے منے لیکن انتہائی سنجیدہ اور ذہین دوست تقریباً روزانہ ایک Random Thought پوسٹ کیا کرتے تھے۔ اس پوسٹ میں اتنا گہرا فلسفہ ہوتا کہ بسا اوقات خلیل جبران کی حد کو چھونے لگتے۔ لیکن شادی کے بعد جو انکی پہلی پوسٹ دیکھی اس میں Random Shopping کی تصویریں تھیں۔ اب وہ خانہ پری کرنے کیلئے گوگل سے چیزیں ڈاؤن لوڈ کرکے پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے وہ رینڈم سوِچ آف ہوگیا۔انکے لئے خوشخبری یہ ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد عام آدمی بھی فلسفی بن جاتا اور فلسفی بہت اچھا فلسفی بن جاتا ہے۔ جو لوگ فلسفے کے بارے میں نہیں جانتے انک لئے عرض کردوں کہ سادہ ترین لفظوں میں فلسفہ اس بات کو کہا جاتا ہے جسکے مطلب کے بارے میں کہنے یا لکھنے والا بھی اتنا ہی لاعلم ہوتا ہے جتنا کہ سننے والا یا قاری۔ اگر کسی طرح سے بات سمجھ میں آجائے تو وہ فلسفہ کہلانے قابل نہیں رہتی۔
کچھ دوست شادی کے بعد منظر سے یکسر غائب ہوجاتے ہیں۔ بقول شخصے عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ شادی کے بعد مرد جتنی شدت سے اپنی نئی بیگم کی سہیلیوں اور کزنز کو چاہتا ہے بیگم اس سے دوگنی شدت سے اسکے قریبی دوستوں اور ان کزنز کو ناپسند کرتی ہے جن کیساتھ شادی سے پہلے شوہر کا زیادہ تر وقت گزرتا تھا۔
شادی کے بعد جو سب سے بڑی تبدیلی آتی ہے وہ موبائل فون نمبر کی تبدیلی ہوتی ہے۔ عموماً لوگ جذباتی ہوکر اپنی پرانی سم تک توڑ ڈالتے ہیں۔ غالباً بیگم کے سامنے یہ توجیہہ پیش کرتے ہوں گے کہ نمبر بہت سارے دوستوں کے پاس ہے اسلئے تبدیل کیا تاکہ تمہیں وقت دے سکوں۔ یہ آدھا سچ ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کی شادی ہورہی تھی تو ان کا نمبر بند جارہا تھا۔ ایک دن نئے نمبر سے مسیج آیا کہ اب میرا یہ نمبر ہے۔ فون کرکے پوچھا کہ پرانا نمبر کہاں ہے؟ کہنے لگے توڑ دیا اور اپنے سارے Contacts بھی ڈیلیٹ کر دئیے۔ عرض کیا جلد بازی میں اور جذباتی فیصلے ہمیشہ پچھتاوے کا باعث بنتے ہیں۔ کہنے لگے نہیں سوچ سمجھ کے فیصلہ کیا ہے۔ سیگریٹ بھی چھوڑ دی ہے بہت زیادہ دل کرے تو تھوڑی بہت نسوار رکھ لیتا ہوں۔ شادی کے چھ مہینے بعد رات گئے اسکی کال آئی۔ کہنے لگے آپ کی بات درست تھی۔ میں نے غلطی کی تھی۔ اب میرا نمبر “ان لوگوں” کے پاس نہیں ہے اور انکے نمبر میں نے ڈیلیٹ کئے ہیں۔ پوچھا وہ سیگریٹ؟ کہنے لگے سیگریٹ بھی دوبارہ شروع کر کا ہوں اور نسوار بھی رکھتا ہوں باقاعدگی سے۔
شادی کو ویسے تو خانہ آبادی کہا جاتا ہے لیکن اکثر لوگوں کیلئے خانہ پری سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ پہلے زیادہ تر وقت گھر پر بتانے والے ہر دوسرے دن سسرال میں یا پھر سسرالی رشتہ داروں کی شادی، عقیقے، فوتیدگی، سالگرہ، حتیٰ کہ بچوں کے ختنے کی تقریب میں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر وہاں نہیں ہوتے تو کوئی نہ کوئی سسرالی رشتہ دار گھر پر مہمان ہوتے ہیں اور جناب انکی خاطر مدارت میں مصروف۔
کہتے ہیں شادی کے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے۔ تباہی بربادی پھیلانے والے تمام آفات کو آسمانی آفات ہی کہا جاتا ہے۔ اسکی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے آسمانی آفات کے سامنے بے بس ہی رہا ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ شادی کوئی خدا نخواستہ کوئی بہت بھیانک چیز ہے۔ کچھ شادیاں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ ایسی شادیوں کو پرائی شادی کہتے ہیں۔ جی وہی شادیاں جن میں عبداللہ دیوانہ ہوتا ہے۔ پرائی شادی ذوق اور شوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے۔ مثلاً اگر کسی نے ناراض ہونے کا سوچ رکھا ہے اور موقع نہیں مل رہا تو شادی لاتعداد موقعے فراہم کرتی ہے۔ اگر بلاوا دینا بھول گئے تو بلاوا نہ دینے پر ناراضگی۔ بلاوے کیلئے شادی کارڈ بھیج دیا تو ناراضگی کہ جناب غیروں کی طرح کارڈ منہ پہ ماردیا دو لفظ نہیں بول سکتے تھے۔ اگر زبانی کلامی بلاوا دے دیا اور کارڈ نہیں بھیجا تو “جہاں ساری دنیا کو کارڈ بھجوائے جاسکتے تھے وہاں ہمارے لئے کارڈ کم پڑگئے۔ بلانا ہی نہیں چاہتے بس ایک فارمیلیٹی پوری کی ہے۔ اگر کارڈ بھیج دیا اور زبانی بلاوا بھی دے دیا تو اب کونسا گلہ شکوہ رہ گیا بھلا؟ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی نہیں تو آپ واقعی بہت بھولے ہیں۔ کارڈ پڑھتے ہی ناراضگی شروع۔ یہ دیکھو سارے خاندان کے نام لکھے ہیں ہمارے گھر سے کسی کا نام نہیں ڈالا۔ کارڈ پر نام بھی لکھوا دیا ناراضگی کی گنجائش پھر بھی نکل ہی آتی ہے۔ مثلاً، یہ دیکھو چاچا غفور کے نام کیساتھ مرحوم لکھ دیا ہے ہمارے ابو کا صرف نام لکھا ہے گویا کاغذ میں جگہ کی تنگی تھی یا سیاہی کم پڑگئی تھی۔ وہ مرحوم ہیں تو ہمارے ابو کی کیا تھانے میں تصویر لگی ہے؟ اس قسم کی ناراضگی کے واقعات کو کم کرنے کیلئے اکثر شادی کارڈز پر متمنیان شرکت کی تعداد ولیمے میں شرکت کرنے والوں ذرا زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں کے ناموں کیساتھ مرحوم لکھا ہوتا ہے وہ ولیمے میں شرکت نہیں کرتے۔ خیر بات ہورہی تھی پرائی شادی کے فوائد کی جو کہیں دور نکل گئی۔ جن دوستوں کو ڈھول کی تھاپ پر ناچنے کا شوق ہوتا ہے وہ ایسے شوق پرائی شادیوں میں پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنی شادی پر ناچنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسکی وجہ پہلے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی پھر ایک بینڈ کی پرفارمنس دیکھ کر سمجھ آگئی۔ ایک دو سازندوں نے بینڈ ماسٹر کے اشارے سے پہلے ساز بجائے جس پر بینڈ ماسٹر سخت خفا ہوئے۔ مجھے سمجھ آگئی کہ شادی کے بعد ساری عمر کسی کے اشاروں پر ناچنا ہی ہوتا ہے اسلئے اشاروں سے قبل ناچنا معیوب ہے۔ ہماری اپنی حالت یہ ہے کہ کسی کی شادی میں جانا ہو تو کم سے کم دو بندے ساتھ ضرور لے جاتے ہیں تاکہ جب ڈھول بجنے لگیں تو وہ دائیں بیٹھ کر ہمیں قابو رکھیں اور ہم اپنے جذبات کو۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ جن کو ہم قابو کرنے کیلئے لے گئے وہ خود رسیاں تڑا کر بھنگڑے ڈالنے لگے۔ اسی طرح اگر کوئی کھانے پینے کا شوقین ہے تو پرائی شادی میں یہ شوق بغیر احسان مندی کے پورا کرسکتا ہے۔ عموماً کھانا کھانے کے بعد کھانے میں دوچار عیب بتا کر احسان کا بوجھ کم کیا جاتا ہے۔ اگر کھانے میں کوئی عیب نہ تو کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک پی کر اور ڈکار مار کر کہہ دیتے ہیں بوتل میں گیس نہیں تھی۔ جب گیس پوری ہو تو پوری ایک منٹ لمبی ڈکار آتی ہے یہ تو چالیس سیکنڈ سے بھی کم تھی۔ الغرض اور قصہ مختصر پرائی شادی اپنی شادی سے بدرجہا بہتر ہے۔
ویسے تو شادی نام ہی خطروں سے کھیلنے کا لیکن شادیوں میں اگر کسی ایک قسم کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دینا پڑے تو وہ بڑی عمر کی شادی ہے۔ بڑی عمر میں شادی کرنے والے حضرات کی مثال اس بچے کی ہے جنہیں زندگی میں پہلی بار کھلونا ملتا ہے۔ ایسے بچے کھلونے سے کھیلنا تو جانتے نہیں لیکن ہر اس بچے کو زدوکوب کرتے ہیں تو انکے کھلونے اشتیاق سے دیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ایسے حضرات پندرہ بیس سال شادی شدہ زندگی گزارنے کی جو منصوبہ بندیاں کرتے ہیں وہ سارے منصوبے پندرہ بیس دن میں پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ ایسے لوگ عموماً شادی کے فوراً بعد سسرال کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ اسکی وجہ انکی کوئی ذاتی نالائقی ہر گز نہیں۔ چونکہ چالیس سال کی عمر تک غیر شادی شدہ رہنے کی وجہ سے خاندان میں غیر اہم رہتے ہیں اور شادی کے بعد سسرال میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بزرگوں والی عزت و تکریم ملتی ہے اسلئے وہ اپنے ذاتی خونی رشتوں پر سسرالی رشتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈاکٹر دوست کو جنکی چالیس کے پیٹے میں شادی ہوئی تھی اور شادی کے بعد والدین اور بہن بھائیوں کو دشمن سمجھنے لگے تھے، جب نصیحت کرتے ہوئے خونی رشتوں کی اہمیت پر لیکچر دینے لگے تو ہتھے اکھڑ گئے۔ کہنے لگے یہ کیا تم نے خونی خونی کی رٹ لگا رکھی ہے؟ عرض کیا کہ ٹھیک ہے رشتے سسرالی بھی اہم ہیں لیکن جن رشتوں میں خون آجائے اور سابقہ “خونی” لگ جائے تو وہ زیادہ اہم اور قریبی ہوتے ہیں۔ بگڑ کر کہنے لگے پیچش کے مقابلے میں خونی پیچش سو فیصد زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔ لیکن لیر بڑی عمر کی شادی اتنی بے ثمر بھی نہیں ہوتی۔ بقول مرزا بڑی عمر کی شادی کا سب سے زیادہ فائدہ حکیموں کو ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بڑی عمر کی شادیاں رک گئیں تو حکمت کی صنعت مکمل طور پر تباہ ہوجائیگی۔ جب ہم نے مرزا سے اس دعوے کا ثبوت مانگا تو کہنے لگے کہ ہر حکیم کے دعوے میں پوشیدہ امراض کا شافی علاج شامل ہوتا ہے یا نہیں؟ عرض کیا بالکل ہوتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ مار کر جوشیلے انداز میں کہنے لگے، لڑکے بالے بھی بھلا کچھ پوشیدہ رکھتے ہیں؟ پوشیدہ امراض ہوتی ہی پکی عمر کی پیدا وار ہیں۔
بہر حال اس ساری گفتگو کا مطلب آپکی حوصلہ شکنی کرنا ہرگز نہیں۔ اگر آپ نے شادی نہیں کی تو ضرور کریں اور اگر کرچکے ہیں تو ہماری طرح مابعد کے حوالے سے سب کچھ سچ لکھنا شروع کردیں یقین کیجئے لوگ اسکو مزاح سمجھیں گے۔