جمعرات، 31 اکتوبر، 2019

وہ درد بھرے لمحے

تکلیف کی شدت سے بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، درد تھا جو برداشت کی حدیں پھلانگ رہا تھا۔ وہ ایک بردبار انسان تھا بڑی بڑی تکلیفیں بھی خندہ پیشانی سے سہنے والا لیکن یہ درد نیا تھا اور جان لیوا تھا۔ وہ درد کی شدت سے کراہ رہا۔ گاڑی کے اندر وہ اسے واضح دکھائی دے رہی تھی لیکن اسے اپنی پہنچ سے کوسوں دور لگ رہی تھی۔ کتنی بے نیاز تھی وہ۔ اسے اس کے درد کا ذرا بھی احساس ہوتا تو اچھل کر اسکے پاس آجاتی لیکن اسے کیا خبر کہ کس پر کیا گزری ہے۔ وہ انجان تھی۔ اس نے ایک بار پھر کوشش کی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اسکا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا وہ جھکا اور پوری کوشش سے ہاتھ بڑھایا تو اسکی انگلیوں کے پور اسے چھونے لگے۔ آہ یہ لمس کتنا حسیں و دل نشیں تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ اسے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ دل کو دھڑکا لگا رہا کہ کہیں وہ پھسل کر اور دور نہ چلی جائے۔ اور پھر آخر کار 
چابی اسکے ہاتھ لگ ہی گئی۔ اس نے گاڑی کا لاک کھولا اور اپنا انگوٹھا دروازے کی گرفت سے آزاد کرلیا۔ 
اور بھی درد ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ 
ضروری نہیں کہ درد کے پیچھے عشق کا ہاتھ ہو۔

زباں بندی

ہم  نے  سہا  جدائی  کو اتنا سہا کہ بس 
کتنا  بہا  ہے   اشک  بس  اتنا بہا کہ بس 
بیگم سے بات کرنی تھی کل عقد ثانی کی
جوں کھولا منہ تو ہاتھ اٹھا کر کہا کہ بس

پیر، 28 اکتوبر، 2019

وقت بدلتا ہے وقت کے تقاضے بدلتے ہیں

 جب وقت بدلتا ہے تو ساتھ ساتھ وقت کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ 
پرانے زمانے میں جب محبوب ناراض ہوجاتا تو جو انتقامی کاروائیاں ہوتیں وہ فی زمانہ ناپید ہیں۔ مثلاً محبوب بول چال بند کردیتا پنگھٹ آنا جانا موقوف کردیتا یا گزرتے ہوئے آنچل کا ہاتھ بھر گھونگٹ نکال کر گزرجاتا۔ مزید شدت پیدا کرنے کیلئے چھت پہ آنا چھوڑ دیتا تاکہ عاشق کو دیدار سے بھی محروم کردے۔ اگر ناراضگی ذرا مزید شدت اختیار کر جاتی تو خط و کتابت کا سلسلہ موقوف کردیا جاتا۔ عاشق چٹھی لکھ کر جوابی چٹھی کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ  کر جیتا اور انتظار کی سولی پہ لٹکا رہتا۔ حالانکہ اکثر اوقات تو خط وکتابت اتنی ہوجاتی کہ محبوب کے جواب کا بھی قبل ازوقت عاشق کو پتا ہوتا۔ غالب نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ،
قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں 
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں 
لیکن پھر وقت بدل گیا۔ کاغذی ڈاک کے سے برقی ڈاک اور وہاں سے فیس بک اور وٹس ایپ تک پہنچ گیا۔ وقت گویا پچھلی دو دہائیوں میں صدی بھر کی زقند بھرکر آگے نکل گیا اور بہت سی روایتی چیزوں کو روندتا اور کچلتا ہوا بڑھا۔ چٹھی، نامہ بر، پنگھٹ سب ختم ہوگئے۔ جو نہ بدلا وہ زود رنج محبوب نہ بدلا۔ انتقامی کاروائیاں اب بھی ویسے ہی جاری ہیں بس ذرا انداز بدل گیا۔ اب ناراضگی ہو تو وٹس ایپ سٹیٹس کی پرائیویسی تبدیل کرلیتا ہے، عاشق کا سٹیٹس نظر انداز کرلیتا یے۔ ناراضگی زیادہ بڑھ جائے تو لاسٹ سین اور ریڈ ریسیٹ بھی بدل دیتا ہے۔ بعض اوقات تو بلاک بھی کردیتا ہے۔ فیس بک پر آپکی پوسٹوں پر قہقہے اور دل والے لائیک کی بجائے انگوٹھے پر اکتفا کرنا شروع کردیتا ہے۔ ذرا زیادہ ناراضگی ہو تو پوسٹ پڑھ کر ہی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ادھر عاشق کوئلوں پہ لوٹ رہا ہوتا ہے اور گنگناتا رہتا ہے کہ 
ہم ہی بے تاب نہیں درد جدائی کی قسم 
پوسٹیں رات گئے وہ بھی تو پڑھتے ہوں گے
اگر آپ بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہیں تو خاطر جمع رکھئے وہ آپ کے سٹیٹس بھی دیکھتا ہے آپ کی ہر پوسٹ بھی پڑھتا ہے دل ہی دل میں جواب بھی دیتا ہے آپ اپنے دل کے پھپھولے دل کھول کر پھوڑتے رہیں۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتا رہے ہیں کہ یہ محنت شاقہ ضرور رنگ لائیگی کیا ہوا جو ہمارے تجربے کا نتیجہ ذرا مختلف تھا۔ اپنے ساتھ کیا ہوا بتا نہیں سکتے بس اتنا سمجھ لیجئے کہ؛
سٹیٹس اپڈیٹ کرتے رہے اور سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائیگی یہ اپنی پوسٹا پوسٹی ایک دن 

اتوار، 27 اکتوبر، 2019

دست بستہ عرض

درد فراق جان کے درپے ہے آ بھی جا 
دلچسپیاں کہاں وہ بہاروں میں رہ گئیں 
جان وفا بھروسہ نہیں دم کا ضد نہ کر
اب تو پلیٹ لیٹس، ہزاروں میں رہ گئیں 

(سیف الله خان مروت)

بدھ، 16 اکتوبر، 2019

وقت

وقت تو گزرتا ہے
وقت نے گزرنا
وقت کی یہ فطرت ہے
تیرے ساتھ بھی گزرا
بن تیرے بھی گزرے گا
فرق صرف اتنا ہے
تیرے سنگ جو بیتے
سال تھے فقط لمحے
اور تیرے بن جو ہیں
لمحے سال بھر کے ہیں
وقت تو گزرتا ہے
(سیف الله خان مروت)

مرد اور درد

مرد کو درد نہیں ہوتا۔ یہ جملہ لگ بھگ چونتیس سال پرانا ہے۔ مرد فلم میں امیتابھ بچن کا ایک مشہور ڈائیلاگ تھا کہ "جو مرد ہوتا ہے اسے درد نہیں ہوتا۔ اس ایک جملے نے انگنت مردوں کو بے شمار ناقابل برداشت درد سہنے پر مجبور کیا ہے۔ حالانکہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ مرد کو بھی درد ہوتا ہے۔ بلکہ عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ عورت کی کوئی بیوی نہیں ہوتی۔ پھر فلم لکھنے والے نے ایسا کیوں لکھا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ممکن ہے لکھنے والے کا مطلب یہ ہو کہ مرد کو دردِ زہ یا زچگی کا درد نہیں ہوتا کیونکہ بے تحاشا تحقیق کے باوجود بھی اس درد کے علاؤہ ہمیں کوئی درد نہیں ملا جو مرد کو نہ ہوتا۔ کہتے ہیں شاعری دراصل درد کی شدت میں کی گئی آہ و بکا کا نام ہے۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیں مرد اور خواتین شعراء کی تعداد میں فرق بالکل واضح ہے۔ اگر ہر اچھی بری شاعرہ کو شامل کرکے بھی موازنہ کریں تو شاید پانچ سے دس فیصد زیادہ خواتین شاعرات نہیں ملیں گی۔ اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ مردوں کو کچھ زیادہ ہی درد ہوتا ہے۔ اب رہی بات درد زہ کی تو اس کے مقابلے میں مردوں کے ایسے ایسے پوشیدہ درد ہیں جو اگر منظر عام پر آجائیں تو ہر درد اس کے سامنے شرمسار ہو۔ مثلاً شادی شدہ مردوں کا بیگم کی آنکھ بچا کر خواتین کو چوری چھپے پیغامات اور چہک چہک و لہک لہک کر خواتین کی پوسٹوں پر ماہرانہ اور "لوسیانہ"تبصرے، اپنی بیگم کی بنائی ہوئی مٹن کڑاہی پر ناگواری کا اظہار کرنے والے شوہروں کے زنانہ نام والی آئی ڈی (چاہے اصل میں عبدالغفور صاحب ہی کی کیوں نہ ہو) پر ویری ٹیسی اور ویری نائس ڈئیر کے تبصرے کرتے ہوئے جس درد اور کرب سے گزرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہی نہیں بلکہ ناقابل نشرو اشاعت بھی ہے۔  
مرد کو کبھی روتے پیٹتے نہیں دیکھا جاتا چاہے دن رات بھی اس پر گھریلو تشدد ہوتا رہے جسکا مطلب یہ لیا گیا کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ اجی ہوتا ہے درد کون کہتا ہے نہیں ہوتا۔ پنجابی مردوں کے علاؤہ ہر مرد کو درد ہوتا ہے البتہ انہیں درد نہیں ہوتا کیونکہ۔۔۔۔
انکو درد ہوتی ہے۔ (بہت کم پنجابی درد کو مذکر سمجھتے ہیں شاید اسکی وجہ پنجابی لفظ پیڑ کا مونث ہونا ہے)۔ ہم نے ایک دوست کی توجہ اس طرف دلائی کہ میاں درد مذکر ہے مونث نہیں۔ وہ ضد کرنے لگے کہ نہیں مونث ہے درد ہوتی ہے۔ ہم بھی اڑ گئے کہ نہیں درد ہوتا ہے۔ کہنے لگے "کیہڑی پیڑ ہے تینو" اب دیکھو اس میں درد کیا یے؟ عرض کیا اس میں ذرا سا بھی درد نہیں۔ بولے پیڑ کیا ہے؟ عرض کیا مونث ہے۔ چہک کر بولے تو پھر درد کیسے مذکر ہوا؟ عرض کیا ممکن ہے پیڑ کا شوہر ہو؟ بہر حال وہ مانے نہیں اور ابھی تک انہیں درد ہوتی ہے۔ اس حساب سے وہ کہہ سکتے ہیں کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ 
یقین مانئے مرد کو درد ہوتا ہے۔ وہ بتا نہیں پاتے لیکن درد ہوتا ہے، جب بچی کی گڑیا خریدنے کے پسے نہ ہوں، جب بیمار بیوی بچوں کے علاج کے پیسے نہ ہوں، جب بچوں کی فرمائشیں پوری نہ کرسکے اور شام خالی ہاتھ گھر آکر بھولنے کا بہانہ کرے، جب سارا دن گھوم پھر کر مزدوری نہ ملے اور شام کے وقت خالی ہاتھ گھر جائے، جب اپنی بیٹی کو ڈولی میں بٹھاکر کسی غیر کے حوالے کرے اور وداع کرنے کے بعد شام کو تھکا ہارا گھر آئے اور گلے لگنے والی بیٹی گھر میں نہ رہے تو بہت درد ہوتا ہے۔ اور اسوقت تو درد کی انتہا نہیں رہتی جب کوئی انتہائی حسین ڈی پی والی محترمہ یہ کہہ کر بلاک کردے کہ اگر آپ شادی شدہ اور دس بچوں کے باپ نہ ہوتے تو میں آپ کو بلاک نہ کرتی۔ لیکن کیا کیجئے کہ مرد اپنے دکھڑے سنا بھی نہیں سکتے کیونکہ بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا اور مرد روتے نہیں۔

پیر، 14 اکتوبر، 2019

مان نہ مان میں تیرا مہمان

اردو کے اس محاورے کا مہمان کیساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں یہاں تک کہ بن بلائے مہمان کیساتھ بھی نہیں۔ عموماً یہ محاورہ ایسی صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں غیر متعلقہ شخص کسی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑائے۔ ٹانگ اڑانا محاورہ بھی پرانا ہی ہوگیا اب تو لوگ ٹانگ اڑانے کی بجائے پورے کے پورے گھستے چلے آتے ہیں جوتوں سمیت۔  عربی بدو کا اونٹ اس لحاظ قدرت بہتر تھا کہ جوتے خیمے کے باہر اتار گیا تھا صرف خود سالم گھس گیا تھا۔ ان ٹانگ اڑانے والے افراد میں سب سے پہلے نمبر پر رشتہ دار آتے ہیں۔ یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ دشمنوں کی بلحاظ شدتِ دشمنی تین اقسام ہیں، دشمن، جانی دشمن اور رشتہ دار۔ قریبی رشتہ داروں کو خونی رشتہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ خونی کا مطلب آپ سب جانتے ہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ خونی جب بطور سابقہ استعمال ہوتا ہے تو اسکا مطلب قاتل یا خطرناک نہیں بلکہ قریبی اور عزیز ہوتا ہے۔ ہم ذاتی طور پر بوجوہ اس سےاتفاق نہیں کرتے۔ ایسا نہیں کہ خونی صرف رشتہ داروں کیساتھ ہی بطور سابقہ لگتا ہے۔ یہی سابقہ جب دست اور باوسیر کیساتھ لگایا جاتا ہے تو مرض کی شدت دوچند ہوجاتی ہے اور علیٰ ہذالقیاس رشتہ داروں میں بھی خونی رشتہ دار کہلانے والے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا نہ صرف اپنا پیدائشی حق بلکہ کار ثواب سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ پیدائش سے شروع ہوتا ہے اور موت پر بھی ختم نہیں ہوتا۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسکا نام رکھنے میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی نام انکو بہت پرانا لگتا ہے تو کسی نام کا شخص پچاس سال پہلے برا نکلا ہوتا ہے، کوئی نام کسی نہ کسی دور پار کے رشتہ داروں کے بچوں کا پہلے سے ہوتا ہے الغرض ہر نام پر سیکڑوں اعتراضات۔ اسکے بعد شکل پر بحث ہوتی یے۔ اگر بچہ خوبصورت ہو تو ننھیالی اور ددھیالی رشتے داروں میں رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے اور ہر فریق نین نقش اپنے خاندان کے زندوں اور مرحومین سے ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف اعضاء کی جتنے لوگوں سے مشابہت ثابت کی جاتی ہے اگر بچہ کو اس حساب سے تقسیم کیا جائے تو ہر فرد کے حصے آدھ چھٹانک بھر بچہ آئے۔  تاہم اگر بچہ خوبصورت نہ ہو تو ایک دوسرے پر ڈالنے لگ جاتے ہیں۔ بچہ سکول جانے لگے تو انکو بچے کے سکول اور تربیت پر اعتراض۔ ہر محفل میں ایک بار تذکرہ لازمی ہوتا ہے کہ بچوں کو سستے سکول میں ڈال کر انکا مستقبل خراب کیا جارہا ہے۔ اگر مہنگے سکول میں داخل ہوگئے تو بھی اعتراض۔ کہتے ہیں اچھے بھلے بچوں کو لنڈے کے انگریز بنا رہے ہیں دیکھنا کل کلاں بڑے ہوکر انکو اولڈ ہاؤس میں ڈال کر آئیں گے یہی بچے۔ صرف مہنگے سکولوں میں پڑھانا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اگر بچہ ذہین نکلا تو ننھیال اور ددھیال پھر کھینچا تانی میں مصروف اور اگر ہماری طرح کوڑھ مغز ہوا تو دونوں طرف کے رشتہ دار ایک دوسرے کو الزام دینے لگیں۔ جوان ہوجائیں تو انکی مداخلت انتہا کو چھو رہی ہوتی ہے۔ ہر رشتہ دار کے گھر میں شادی کے منصوبے بن رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادیاں زیادہ تر رشتہ داروں کی مرضی سے ہی طے پاتی ہیں آسمان پر بھی جوڑے بنتے ہوں گے شاید عروسی جوڑے جن کی قیمت واقعی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ اکثر لوگ شادی اور ولیمے کی تقریبات سے فارغ ہوکر صرف اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ اب رشتہ داروں کو مان نہ مان میں تیرا مہمان نہیں بننا پڑے گا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی وہ دلہن کی چال اور کپڑوں کا بغور مشاہدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر خواتین کا ہوتا ہے۔ تیسرے مہینے تک کسی آنے والے مہمان کی خوشخبری نہ پاکر شدید مایوسی شروع ہوجاتی یے۔ ہر دو بزرگ خواتین سر جوڑ کر کھسر پھسر کرنے لگتی ہیں۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا لڑکی بانجھ ہے۔ ہے ہی جنم جلی۔ اسکی تو نانی بھی بانجھ ہی تھی۔ کہتے ہیں کہ انکی ماں کو انکی نانی نے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا۔ ہر رشتہ دار نے حاذق حکیموں، طبیبوں، ڈاکٹروں، پیروں، فقیروں اور درگاہوں کی لمبی فہرست حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی تیار کر رکھی ہوتی ہے۔ (اس ضمن میں مزید تفصیلات بتانے کی صورت میں سنسر بورڈ حرکت میں آسکتا ہے اسلئے قارئین خود قیاس آرائیاں فرمالیں). اب پتا نہیں کیا صورتحال ہے لیکن آج سے کچھ دہائیاں پہلے جب ہماری شادی ہورہی تھی تو اس زمانے میں ہر رشتہ دار کی خواہش ہوتی تھی کہ انکا نام شادی کے کارڈ پر بحروف جلی لکھا جائے۔ کچھ لوگ تو مرحومین تک کے نام لکھواتے تھے۔ ہم نے متمنیء شرکت میں سارے زندہ اور ج۔س۔م۔ف (جواب سے مطلع فرمائیں) کے نیچے جملہ مرحوم رشتہ داروں کے نام لکھوا کر جان چھڑائی تھی۔
مرنے کے بعد بھی رشتہ دار معاف نہیں کرتے۔ میت کے غسل سے لیکر کفن کی کوالٹی اور سفیدی تک، جنازہ پڑھانے والے امام سے لیکر قبر کی جگہ تک اور جمعرات، تیجے اور چالیسویں تک میں مسلسل کیڑے ڈالتے اور نکالتے رہتے ہیں۔  دروغ بر گردن راوی لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ مرزا غالب نے یہ شعر اپنے آخری وقت رشتہ داروں کے جھگڑوں سے تنگ آکر ہی کہا تھا کہ
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اتوار، 13 اکتوبر، 2019

لنگوٹی (بھاگتے چور کی)

لنگوٹی دراصل لفظ لنگوٹ کا اسم مصغر ہے۔ اسم مصغر یا اسم تصغیر کسی اسم کیساتھ سابقہ، لاحقہ یا پھر تھوڑی تبدیلی کرکے بنایا جاتا ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اس چیز کو مزید چھوٹا ظاہر کرنے کیلئے ہی بنایا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسکو miniatureکہہ سکتے ہیں۔ اس بحث سے یہ تو پتا چلا کہ لنگوٹی جتنی بھی ہوگی وہ لنگوٹ سے بہرحال چھوٹی ہی ہوگی۔ لنگوٹ دراصل سنسکرت زبان کے لفظ لنگ کیساتھ و اور ٹ کا اضافہ کرکے اردو میں رائج ہوا ہے البتہ کام اردو میں بھی وہی کرتا ہے جو سنسکرت میں کرتا ہے۔ تاہم تیز ہوا کی صورت میں یہ کسی بھی زبان میں کوئی کام نہیں کرتا۔
اردو میں ایک سے زیادہ محاورات میں مستعمل ملتا ہے۔ اسکا قدیم ترین استعمال غالباً 1802 میں باغ و بہار میں ملتا ہے۔ اب اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ اس سے پہلے لنگوٹ کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا تھا لوگ درختوں کے پتوں سے کام چلاتے تھے۔ لنگوٹ اس سے پہلے بھی استعمال ضرور ہوتا ہوگا۔ اردو کا ایک محاورہ ہے لنگوٹ کس لینا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی کام کرنے کا مصمم ارادہ کرلیں۔ اگرچہ ارادے کا لنگوٹ سے کوئی منطقی تعلق تو نہیں بنتا کیونکہ ارادے دل و دماغ میں بنتے ہیں جبکہ لنگوٹ کا مقام اس سے کہیں نیچے ہے۔ ممکن ہے ڈھیلی لنگوٹ ارادے کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہی ہو اسلئے اسکو حفظ ما تقدم کے طور پر کسا جاتا ہو۔
اردو میں بچپن اور لڑکپن کے دوست کو لنگوٹیا یار بھی کہا جاتا ہے۔ اسکی بھی کوئی مناسب توجیہہ کم از کم مجھے نظر نہیں آئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوستی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب لنگوٹ کی ابھی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی ہوتی۔ ممکن ہے اسکی وجہ یہ ہو کہ یہ دوستی اس زمانے سے چلی آرہی ہے جب دوست با آسانی اور بلا جھجک ایک دوسرے سے لنگوٹ کا تبادلہ کرسکتے ہوں۔
ایک اور محاورہ ہے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ غالب گمان یہی ہے کہ ابتدائی ایام میں یہ "بھاگتے چور کی لنگوٹ ہی سہی" ہوتا ہوگا۔ لیکن جن لوگوں نے ذاتی تجربہ کیا ہے ان کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ لنگوٹ میں بھاگنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اب ایسے میں دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ چوروں نے اپنی ضروریات کے پیش نظر اسے مختصر کرکے لنگوٹی کردیا تاکہ بھاگنا آسان ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چور پہنتے تو لنگوٹ ہی تھے لیکن پڑھنے میں "لنگوٹ ہی" کو "لنگوٹی" پڑھا اور سمجھا گیا۔ مجھے تکنیکی اعتبار سے دوسری صورت زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ اسکی وجہ ایک تو یہ ہے کہ لنگوٹی اترنے کے امکانات ذرا کم ہیں لنگوٹ کے مقابلے میں اور دوسری یہ کہ لنگوٹ میں چونکہ بھاگنا مشکل ہوتا ہے اسلئے ممکن ہے چور نے اپنی سہولت کی خاطر لنگوٹ کی قربانی دی ہو۔ میرا خیال ہے کہ محاورہ دور جدید کے تقاضوں سے بالکل ہم آہنگ نہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب چور چوری کرنے کے بعد منہ چھپا کر بھاگ جایا کرتے تھے۔ اب تو چوری کیساتھ ساتھ سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔ اب جب تک چور بھاگے گا نہیں اس کی لنگوٹی پر مضمون بھلا کوئی لکھے تو کیونکر لکھے؟ دوسری مشکل صورتحال یہ ہے کہ بالفرض چور خوش قسمتی سے حیادار بھی ہوا یا کچھ دے دلا کر بھاگنے پر راضی بھی کرلیا تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ وہ لنگوٹی ہی پہنے ہوئے ہوگا؟ اگر وہ شلوار قمیض، پاجامہ یا پھر جینز پہن کر بھاگے تو کیا بنے گا ہمارے لکھاری دوستوں کا؟ چلیں یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ چور باقاعدہ ہماری فرمائش پر لنگوٹی پہن کر آیا اور کچھ دے دلا کر ہم نے اسے راضی بھی کرلیا کہ بھائی ہمیں ایک شاندار قسم کا مضمون لکھنا ہے آپ کی لنگوٹی پر آپ برائے مہربانی چوری کرکے تھوڑا سا بھاگ لینا اور وہ بھاگا بھی تو ایسی صورتحال میں اگر وہ بہت تیز بھاگا اور ہم اپنے موجودہ ڈیل ڈول اور بڑھے ہوئے پیٹ کیساتھ اسے پکڑ ہی نہ پائے اور وہ ہماری ہی دی ہوئی لنگوٹی کیساتھ بھاگ نکلا تو ایسے میں کیا ہوگا؟ مجھے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا لگ رہا ہے۔ اس مقابلے کا ادبی لحاظ سے بھی کوئی خاطر خواہ اور قابل ذکر فایدہ مجھے نظر نہیں آرہا۔ یہ محاورہ اب متروک ہوچکا ہے اور اسکے قانونی متبادل کے طور پر Plea Bargain متعارف کرادی گئی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے قوانین کے مطابق آپ مال مسروقہ کا اگر کچھ فیصد اپنی خوشی سے واپس لوٹا دیں تو آپ کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون کا علم چوروں کو بھی لازماً ہوگا اور ایسے میں ہوسکتا ہے وہ چوری کرتے وقت ہماری ہی ایک لنگوٹی اپنے ساتھ اضافی رکھ لے اور بھاگتے ہوئے پھینک جائے اور ہم خوشی خوشی لنگوٹی اٹھا کر واپس لوٹ آئیں یہ کہتے ہوئے کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کیونکہ چور تو پھر چوری سے جاسکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔

گالی

گالی کی کوئی تعریف ممکن نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ کوئی قابل تعریف چیز ہے ہی نہیں۔ بس سادہ لفظوں میں اسے دل و دماغ کا بلغم سمجھ لیجئے جو کچھ لوگ اندر ہی اندر دبا لیتے ہیں اور کچھ کسی محفوظ جگہ جاکر تھوک دیتے ہیں جبکہ کچھ کسی بھی جگہ تھوکنے سے نہیں چوکتے۔
گالیوں کو بلحاظ حجم، وزن، نوعیت اور شدت کئی واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔  لیکن یہ تقسیم قطعی بھی نہیں اور ایک گالی بیک وقت دو یا دو سے زیادہ اقسام میں گنی جاسکتی ہے۔ گالی کی ابتداء کیسے ہوئی اسکے بارے میں سردست کوئی تحقیق دستیاب نہیں تاہم اسکی انتہا کوئی نہیں۔ گالی کا استعمال اگرچہ بے ادبی اور باقاعدہ گستاخی کیلئے ہی کیا جاتا ہے تاہم زبان دانی اور ادب میں اسکا اپنا ایک مقام ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔  ادیب لوگ بھی بامر مجبوری اسکا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ناقدین کی تنقید کا جواب بھی لازمی ہوتا ہے۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ دلی اور لکھنؤ کے شعرا ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ طرحی اور فی البدیہہ مشاعروں میں ایک دوسرے کو خوب لتاڑتے۔ کہتے ہیں کی ایک دفعہ لکھنؤ والوں نے دلی کے شعرا کو ایک طرح مصرع لکھ بھیجا کہ اس شعر کو ہی اگر مکمل کرلیں تو بھی مان لیں گے کہ واقعی دلی والے بھی شاعری کرسکتے ہیں۔ مصرعہ کچھ یوں تھا،

رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں 

دلی والوں نے اول تو مصرعے کو الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن استعارے اتنے مشکل تھے کہ کوئی ڈھنگ کا مصرعہ بنا نہیں تو دلی والوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ مناسب مصرعہ اولیٰ بناکر شعر مکمل کرکے ارسال کر رہے ہیں اور شعر کچھ یوں تھا

سنا ہے کہ لکھنؤ کے الو کے پٹھے 

رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں

گالی واحد چیز ہے جو کوئی کسی کو باقاعدہ نہیں سکھاتا بلکہ ہر کوئی بقدر ضرورت خود ہی سیکھ لیتا ہے۔ ہم نے آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جو بچوں کو گالی سکھا رہا ہو لیکن بچے پھر بھی کہیں نہ کہیں سے گالی دینا سیکھ ہی لیتے ہیں۔ بعض لوگ گالیوں سے کچھ سیکھ بھی لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ایک محفل میں مشتاق احمد یوسفی صاحب مضمون پڑھ رہے تھے تو ڈاکٹروں کو مخاطب کرکے کہا کہ علم طب میں اناٹومی کے بارے میں ہماری جتنی معلومات ہیں وہ سب بزرگوں کی گالیوں سے کشید کردہ ہیں۔ جب بھی کوئی نئی زبان سیکھتا ہے تو ابتداء گالی سیکھنے سے ہی کرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے فن موسیقی کی ابتداء سرگم سے ہوتی یے۔ بقول مرزا کسی شخص کی زبان دانی کے دو ہی ثبوت ہیں ایک وہ اس زبان میں گالی دے سکے اور دوسرا شاعری کرسکے۔ ہم صرف گالی کی حد تک متفق ہیں کیونکہ شاعری کیلئے ہم زبان دانی کو زائد از ضرورت چیز سمجھتے ہیں.
گالی دینے کا مقصد کسی کو تکلیف دینا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گالی سے کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے آخر اور یہ حقیقت ہے کہ ہوتی ہے۔ تو جناب اسکے پس منظر میں پوری سائنس ہے۔ جب کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو سننے والا چشم تصور میں اسکو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ مثلاً جب کوئی کسی کو گدھا کہتا ہے تو سننے والا چشم تصور سے خود کو گدھے کی روپ میں دیکھتا ہے اور دیکھنے کے بعد جب اسے پسند نہیں آتا تو اسکے بعد ردعمل ظاہر ہوتا ہے جو گالی کے حجم، وزن، شدت اور نوعیت کے براہ راست متناسب ہوتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کی کہ سب گالیوں سے تکلیف ہوتی ہے بلکہ کچھ گالیاں سن کر لوگ خوش بھی ہوتے ہیں۔ خوش ہونے کا تعلق گالی سے نہیں بلکہ گالی دینے والے سے ہوتا ہے۔ اسکا اقرار مرزا غالب نے بھی کیا ہے،
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالی کھا کر بھی بے مزہ نہ ہوا
پس ثابت ہوا کہ محبوب کی گالی کا شمار گالی میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص جسکو ہم بہت بڑا آدمی سمجھتے ہیں اسکی گالی بھی گالی نہیں لگتی۔ (میں نے بطور خاص "بڑا آدمی سمجھتے ہیں" کہا بڑا آدمی نہیں کہا کیونکہ جو واقعی بڑا ہوتا ہے وہ کبھی گالی نہیں دیتا۔) ہمارے علاقے میں ایک سیاستدان نے کسی شخص کو نجی محفل میں گالی دی۔ وہ گالی ایسی تھی کہ عام حالات میں ایسی گالی سن کر لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن چونکہ گالی ایم پی اے صاحب نے دی تھی اسلئے وہ شخص ہر محفل میں ایک بار اسکا تذکرہ ضرور کرتا کہ فلاں نے مجھے یہ گالی دی۔ بتانا یہ مقصود ہوتا تھا کہ میری ان سے اتنی بے تکلفی ہے۔ ہمارے یہاں بے تکلفی ناپنے کا واحد آلہ بھی گالی ہے۔ اگر آپ کسی کو بنا سوچے سمجھے اور بلا وجہ گالی دے سکتے ہیں یا وہ آپکو جواباً گالی دے سکتا ہے یا دیتا ہے تو اسکا مطلب لاریب یہی ہے کہ وہ آپکا بے تکلف دوست ہے۔
ویسے تو گالیوں کی بے شمار اقسام ہیں لیکن یہاں ہم مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکی چند ایک بڑی بڑی اقسام کو مختصراً زیر بحث لائیں گے۔ گالی کی سب سے خفیف قسم وہ ہوتی ہے جسکا ہدف سامنے والے کے جسم کے ظاہری بیرونی اعضاء اور ان میں پائے اور نہ پائے جانے والے نقائص ہوں۔ یہ گالیاں ناتجربہ کار قسم کے لوگ دیتے ہیں اور انہیں پھیکی گالیاں کہا جاتا ہے۔ یہ لڑائی جھگڑے کی ابتداء میں دی جاتی ہیں یعنی اسے آپ لڑائی کا وارم اپ کہہ سکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے قوال قوالی شروع کرنے سے پہلے پانچ دس منٹ سرگم گا کر وارم اپ ہوتا ہے اور سازندے سازوں کی سر تال سنوارتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر جو گالیاں آتی ہیں انکا براہ راست تعلق سامنے والے کے شجرہ نسب سے ہوتا ہے۔ اسکی پچھلی نسلوں میں پائی جانے والی خامیوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ اسکی شدت بڑھانا مقصود ہو تو شجرہ نسب میں جتنا دور تک جا سکتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ ماں باپ سے شروع ہوکر پچھلی کئی پشتوں تک بات چلی جاتی ہے۔ یہ دراصل سامنے والے کی بنیادیں ہلانے کیلئے ہوتا ہے۔
تیسرے نمبر پر جو گالیاں آتی ہیں وہ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور جنگ ہمیشہ مس کیلکولیٹڈ ہوتی یے۔ ان گالیوں کو زبانی جنگ کے ایٹمی بم سمجھ لیں۔ اس میں حدود و قیود نہیں ہوتیں۔ ان گالیوں کا عنوان مفعول و مجروح شخص کی ذات سے لیکر جد امجد تک سب ہوتے ہیں۔ اس میں تمام پوشیدہ اعضاء و امراض اور افعال پر بے لاگ تبصرہ کیا جاتا ہے۔ انہی گالیوں کے بارے میں اردو محاورہ ہے کہ "گالی دئیے سے گونگا بولے" یعنی یہ گالیاں سن کر گونگا بھی بول پڑتا ہے۔ گونگے گالیاں کیسے دیتے ہیں یہ ایک الگ مضمون کا متقاضی عنوانہے۔  گالیوں کی یہی قسم تھی جہاں سے یوسفی صاحب نے علم اناٹومی یا علم الاعضاء کشید کیا۔ گالی کے مزاج میں گرمی ہے کیونکہ اسکی تخلیق حالت غیض و غضب میں ہوتی ہے تاہم تاثیر ٹھنڈی ہے (گالی دینے والے کیلئے). کچھ گالی دہندگان کا خیال ہے کہ گالی سے کلیجے میں ٹھنڈ پڑتی ہے تو ممکن ہے گالیاں کلیجے میں ہی پیدا اور ذخیرہ کی جاتی ہوں۔ 
فن گالم گلوچ نے دور حاضر میں فقید المثال رفتار سے ترقی کی ہے۔ اسکی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے نہ صرف نئی نئی گالیاں ایجاد اور دریافت ہوئی ہیں بلکہ اس فن کو بین السانی تحریک بھی ملی ہے۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ گوگل ٹرانسلیٹر سے مقامی گالیوں کے زبان غیر میں تراجم کر کر کے گالیاں دیتے ہیں۔ گوگل ٹرانسلیٹر کا آپ جانتے ہی ہیں اچھی بھلی بات کا ترجمہ بھی گالی کی صورت میں کرتا ہے تو سوچیں گالی کا ترجمہ کیا ہوگا۔ لیکن گالی کا ترجمہ اپنا اثر کھودیتا ہے۔
صاحبو!
گالی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ طویل بات کرنے کا مقصد اسکی ترویج و اشاعت ہرگز نہیں۔ سمجھانا صرف یہ مقصود ہے کہ ہمارے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ہماری شخصیت اور تربیت کی آئینہ دار ہوتی یے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ انسان اگر پھول ہے تو اسکی زبان اور اسکے قلم سے نکلنے والے الفاظ اسکی بو ہے۔ پھول جتنا بھی خوبصورت ہو اگر بدبودار ہو تو کوئی اسکے قریب جانا پسند نہیں کرتا۔  

کسوٹی

پوچھاجواس نےمجھ سےمحبت ہےکس قدر
میں  نے کہا  عزیز ہو  سارے جہان سے
پھر  پوچھا  اپنے فون  کا  پن کوڈ بولئے
باہر  نکا پھینکا  ہے  دل کے مکان سے

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

اہلیہ اور تخلیہ

اہلیہ اور تخلیہ کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور وہ یہ کہ انکا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یا یوں کہہ لیں تخلیہ اہلیہ کی سوت ہے جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اگرچہ دونوں اپنی اپنی جگہ الله کی نعمتیں ہیں تاہم یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ دونوں بیک وقت کسی کو میسر نہیں آسکتیں۔ ایسی صورتحال کو انگریزی میں Mutually exclusive کہا جاتا ہے لیکن اردو میں اسے کچھ نہیں کہاجاسکتا، میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اسکے لئے کوئی خاص اصطلاح کم ازکم میرے علم میں تاحال نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسی کوئی اصطلاح ابھی تک نہ گڑھی گئی ہو نہ دریافت یا ایجاد کی گئی ہو کیونکہ اسکی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ انگریزوں نے البتہ اصطلاح بنالی کیونکہ ان کو بیک وقت اہلیہ اور تخلیہ دونوں میسر ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں حالات مختلف ہیں۔ جب تک آپ کی اہلیہ نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیں کہ آپ اہلِ اہلیہ نہیں ہوتے تب تک تخلیہ ہی تخلیہ ہوتا ہے۔ اور یہ تخلیہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اکثر بندہ تخلیے سے اکتا کر اور گھبرا کر شادی تک کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہراہ قراقرم کا ڈرائیور زندگی میں صرف ایک غلطی کرسکتا ہے دوسری کرنے کیلئے زندہ نہیں رہتا۔ بس کچھ یہی حال تخلیہ کا بھی ہے۔ ایک بار شادی ہوجائے اسکے بعد بندہ ساری عمر تخلیے کیلئے ہی ترستا رہ جاتا ہے۔ شادی کو بڑے بزرگ کار ثواب بتاتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک بھی لگتی ہے۔ ثواب کی اگر سادہ لفظوں میں تعریف کی جائے تو ہر وہ کام کار ثواب ہی ہوتا ہے جس میں شیطان مردود کی مداخلت نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ شیطان کا حملہ تنہائی میں ہوتا ہے۔ شادی کے بعد شیطان انسان کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہوجاتا ہے۔ اگرچہ بڑے بزرگ اسکی توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ شادی کے بعد انسان کو چونکہ تخلیہ میسر نہیں ہوتا اسلئے شیطان کا حملہ کم ہی ہوتا ہے۔ تاہم بقول مرزا حملہ نہ ہونے کی یہ وجہ درست نہیں۔ انکے خیال میں اسکی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ شادی کے بعد شیطان حملے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنی شیطانیاں پہلے ہی مکمل کرکے بندے کو اس مقام تک لے آتا ہے۔  دوسری وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ شیطان اپنی توانائیاں ایسے لوگوں پر صرف ہی نہیں کرتا جو اپنی مرضی سے کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں جیسے چرند پرند اور شوہر وغیرہ۔ شادی شدہ مرد شیطان کے کسی کام کا نہیں ہوتا کیونکہ شیطان کی باتوں پر عمل کرنے کیلئے کسی حد تک خود مختاری چاہئے ہوتی ہے جو شادی شدہ حضرات کو میسر نہیں ہوتی۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ اہلیہ کے ہوتے ہوئے شیطان تو قریب بھی نہیں آسکتا تاہم دوسری خاتون کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی لگتی ہے۔ ہم نے آج تک کسی خاتون کو شوہر پر یہ شک کرتے نہیں دیکھا یا سنا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آیا ہے تاہم دوسری خواتین کے حوالے سے بیگمات اکثر بلکہ ہمیشہ شاکی ہی رہتی ہیں۔
تخلیہ بھی انسانی زندگی کیلئے اتنا ہی اہم ہے جتنی اہلیہ لیکن بدقسمتی سے اہلیہ کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں۔ کوئی بھی اہم اور تخلیقی کام کرنے کیلئے تخلیہ بہت ضروری یے۔ تاہم کسی بدخواہ نے بیگمات کے اذہان میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھردی ہے کہ مردوں کی دنیا میں تخلیقی کام سے مراد کسی اور خاتون کے بارے میں سوچنے کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا اور اسی لئے وہ حتی الوسع مرد کو تخلیہ فراہم کے سخت خلاف ہے۔ گو کہ پرانے زمانے میں بلکہ ماضی قریب میں بھی گاہے گاہے مرد حضرات کو تخلیہ میسر آجاتا تھا۔ خواتین بچوں کو لیکر ہفتے دس دن کیلئے میکے چلی جایا کرتی تھیں اور موقع غنیمت جان کر مرد حضرات تخلیہ پاکر کچھ تخلیقی کام کرلیا کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ادب اور شاعری سے لیکر سپہ گری اور سائنس تک میں جن حضرات نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے وہ سب ماضی میں ہی تھے۔ اس دور میں غالب، میر، یوسفی ابن انشاء، سکندر یونانی، آئن سٹائن اور نیوٹن جیسی کوئی ہستی آپ کو نظر نہیں آئیگی۔ سکندر کی فتوحات کی وجہ دنیا اسکی اعلی فوجی تربیت اور ارسطو کی شاگردہ بتاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے کارنامے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے تخلیہ میسر تھا اور غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔ اگر اسے تخلیے کی بجائے اہلیہ میسر ہوتی تو یونان سے لیکر ہندوستان تک ہزاروں لاکھوں لوگ ان جنگوں کی نذر نہ ہوتے کئی سلطنتیں تاراج ہونے سے بچ جاتیں۔ جب مردوں کو تخلیہ ہی میسر نہیں تو کوئی کار نمایاں کیونکر کرے بھلا۔ ایسا نہیں کہ مرد سارا دن گھر میں مقید رہتے ہیں یا اہلیہ میکے نہیں جاتی، وہ اب بھی جاتی ہیں لیکن برا ہو سمارٹ فون بنانے والوں کا ہر دس منٹ بعد کال آجاتی ہے اور ذرا سا شک پڑنے پر وڈیو کال کرکے کہتی ہیں کہ کیمرا تین سو ساٹھ درجے زاوئے سے گھماکر دکھاؤ دائیں بائیں کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اپنی دوسری خفیہ شادی کی کامیابی کا راز یہی بتایا کہ انکی پہلی بیگم کو ابھی تک یہ نہیں پتا کہ ان کے پاس سمارٹ فون بھی ہے اور اسکا استعمال بھی جانتے ہیں۔ پرانی بیگم کے پاس جاتے ہوئے نوکیا کا وہ موبائل استعمال کرتے ہیں جسکے اب کل پرزے بھی مارکیٹ میں نہیں ملتے۔ بقول انکے انکا راز صرف تب تک ہی راز رہ سکتا ہے جب تک یہ پرانے موبائل دستیاب ہیں۔ انہوں نے ایسے دو موبائل رکھے ہوئے ہیں۔ ایک موبائل میں سم نہیں لگتی اور دوسرے میں چارجنگ والی جگہ میں خرابی یے۔ اسلئے ایک کو چارجنگ اور دوسرے فون جو کالنگ فون کہتے ہیں۔
عرض یہ کرنا تھا کہ اہلیہ اور تخلیہ کبھی یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کو ابھی تک تخلیہ میسر ہے تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان دو نعمتوں میں سے آپ کس کا انتخاب کرتے ہیں اور کس کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ تخلیہ میسر ہو تو اہلیہ کسی بھی وقت میسر آسکتی ہے لیکن اگر اہلیہ میسر ہے تو تخلیے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں البتہ بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ (سیف الله خان مروت)

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...