اردو کے اس محاورے کا مہمان کیساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں یہاں تک کہ بن بلائے مہمان کیساتھ بھی نہیں۔ عموماً یہ محاورہ ایسی صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں غیر متعلقہ شخص کسی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑائے۔ ٹانگ اڑانا محاورہ بھی پرانا ہی ہوگیا اب تو لوگ ٹانگ اڑانے کی بجائے پورے کے پورے گھستے چلے آتے ہیں جوتوں سمیت۔ عربی بدو کا اونٹ اس لحاظ قدرت بہتر تھا کہ جوتے خیمے کے باہر اتار گیا تھا صرف خود سالم گھس گیا تھا۔ ان ٹانگ اڑانے والے افراد میں سب سے پہلے نمبر پر رشتہ دار آتے ہیں۔ یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ دشمنوں کی بلحاظ شدتِ دشمنی تین اقسام ہیں، دشمن، جانی دشمن اور رشتہ دار۔ قریبی رشتہ داروں کو خونی رشتہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ خونی کا مطلب آپ سب جانتے ہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ خونی جب بطور سابقہ استعمال ہوتا ہے تو اسکا مطلب قاتل یا خطرناک نہیں بلکہ قریبی اور عزیز ہوتا ہے۔ ہم ذاتی طور پر بوجوہ اس سےاتفاق نہیں کرتے۔ ایسا نہیں کہ خونی صرف رشتہ داروں کیساتھ ہی بطور سابقہ لگتا ہے۔ یہی سابقہ جب دست اور باوسیر کیساتھ لگایا جاتا ہے تو مرض کی شدت دوچند ہوجاتی ہے اور علیٰ ہذالقیاس رشتہ داروں میں بھی خونی رشتہ دار کہلانے والے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا نہ صرف اپنا پیدائشی حق بلکہ کار ثواب سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ پیدائش سے شروع ہوتا ہے اور موت پر بھی ختم نہیں ہوتا۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسکا نام رکھنے میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی نام انکو بہت پرانا لگتا ہے تو کسی نام کا شخص پچاس سال پہلے برا نکلا ہوتا ہے، کوئی نام کسی نہ کسی دور پار کے رشتہ داروں کے بچوں کا پہلے سے ہوتا ہے الغرض ہر نام پر سیکڑوں اعتراضات۔ اسکے بعد شکل پر بحث ہوتی یے۔ اگر بچہ خوبصورت ہو تو ننھیالی اور ددھیالی رشتے داروں میں رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے اور ہر فریق نین نقش اپنے خاندان کے زندوں اور مرحومین سے ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف اعضاء کی جتنے لوگوں سے مشابہت ثابت کی جاتی ہے اگر بچہ کو اس حساب سے تقسیم کیا جائے تو ہر فرد کے حصے آدھ چھٹانک بھر بچہ آئے۔ تاہم اگر بچہ خوبصورت نہ ہو تو ایک دوسرے پر ڈالنے لگ جاتے ہیں۔ بچہ سکول جانے لگے تو انکو بچے کے سکول اور تربیت پر اعتراض۔ ہر محفل میں ایک بار تذکرہ لازمی ہوتا ہے کہ بچوں کو سستے سکول میں ڈال کر انکا مستقبل خراب کیا جارہا ہے۔ اگر مہنگے سکول میں داخل ہوگئے تو بھی اعتراض۔ کہتے ہیں اچھے بھلے بچوں کو لنڈے کے انگریز بنا رہے ہیں دیکھنا کل کلاں بڑے ہوکر انکو اولڈ ہاؤس میں ڈال کر آئیں گے یہی بچے۔ صرف مہنگے سکولوں میں پڑھانا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اگر بچہ ذہین نکلا تو ننھیال اور ددھیال پھر کھینچا تانی میں مصروف اور اگر ہماری طرح کوڑھ مغز ہوا تو دونوں طرف کے رشتہ دار ایک دوسرے کو الزام دینے لگیں۔ جوان ہوجائیں تو انکی مداخلت انتہا کو چھو رہی ہوتی ہے۔ ہر رشتہ دار کے گھر میں شادی کے منصوبے بن رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادیاں زیادہ تر رشتہ داروں کی مرضی سے ہی طے پاتی ہیں آسمان پر بھی جوڑے بنتے ہوں گے شاید عروسی جوڑے جن کی قیمت واقعی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ اکثر لوگ شادی اور ولیمے کی تقریبات سے فارغ ہوکر صرف اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ اب رشتہ داروں کو مان نہ مان میں تیرا مہمان نہیں بننا پڑے گا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی وہ دلہن کی چال اور کپڑوں کا بغور مشاہدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر خواتین کا ہوتا ہے۔ تیسرے مہینے تک کسی آنے والے مہمان کی خوشخبری نہ پاکر شدید مایوسی شروع ہوجاتی یے۔ ہر دو بزرگ خواتین سر جوڑ کر کھسر پھسر کرنے لگتی ہیں۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا لڑکی بانجھ ہے۔ ہے ہی جنم جلی۔ اسکی تو نانی بھی بانجھ ہی تھی۔ کہتے ہیں کہ انکی ماں کو انکی نانی نے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا۔ ہر رشتہ دار نے حاذق حکیموں، طبیبوں، ڈاکٹروں، پیروں، فقیروں اور درگاہوں کی لمبی فہرست حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی تیار کر رکھی ہوتی ہے۔ (اس ضمن میں مزید تفصیلات بتانے کی صورت میں سنسر بورڈ حرکت میں آسکتا ہے اسلئے قارئین خود قیاس آرائیاں فرمالیں). اب پتا نہیں کیا صورتحال ہے لیکن آج سے کچھ دہائیاں پہلے جب ہماری شادی ہورہی تھی تو اس زمانے میں ہر رشتہ دار کی خواہش ہوتی تھی کہ انکا نام شادی کے کارڈ پر بحروف جلی لکھا جائے۔ کچھ لوگ تو مرحومین تک کے نام لکھواتے تھے۔ ہم نے متمنیء شرکت میں سارے زندہ اور ج۔س۔م۔ف (جواب سے مطلع فرمائیں) کے نیچے جملہ مرحوم رشتہ داروں کے نام لکھوا کر جان چھڑائی تھی۔
مرنے کے بعد بھی رشتہ دار معاف نہیں کرتے۔ میت کے غسل سے لیکر کفن کی کوالٹی اور سفیدی تک، جنازہ پڑھانے والے امام سے لیکر قبر کی جگہ تک اور جمعرات، تیجے اور چالیسویں تک میں مسلسل کیڑے ڈالتے اور نکالتے رہتے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ مرزا غالب نے یہ شعر اپنے آخری وقت رشتہ داروں کے جھگڑوں سے تنگ آکر ہی کہا تھا کہ
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
پیر، 14 اکتوبر، 2019
مان نہ مان میں تیرا مہمان
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں