گالی کی کوئی تعریف ممکن نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ کوئی قابل تعریف چیز ہے ہی نہیں۔ بس سادہ لفظوں میں اسے دل و دماغ کا بلغم سمجھ لیجئے جو کچھ لوگ اندر ہی اندر دبا لیتے ہیں اور کچھ کسی محفوظ جگہ جاکر تھوک دیتے ہیں جبکہ کچھ کسی بھی جگہ تھوکنے سے نہیں چوکتے۔
گالیوں کو بلحاظ حجم، وزن، نوعیت اور شدت کئی واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم قطعی بھی نہیں اور ایک گالی بیک وقت دو یا دو سے زیادہ اقسام میں گنی جاسکتی ہے۔ گالی کی ابتداء کیسے ہوئی اسکے بارے میں سردست کوئی تحقیق دستیاب نہیں تاہم اسکی انتہا کوئی نہیں۔ گالی کا استعمال اگرچہ بے ادبی اور باقاعدہ گستاخی کیلئے ہی کیا جاتا ہے تاہم زبان دانی اور ادب میں اسکا اپنا ایک مقام ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ادیب لوگ بھی بامر مجبوری اسکا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ناقدین کی تنقید کا جواب بھی لازمی ہوتا ہے۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ دلی اور لکھنؤ کے شعرا ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ طرحی اور فی البدیہہ مشاعروں میں ایک دوسرے کو خوب لتاڑتے۔ کہتے ہیں کی ایک دفعہ لکھنؤ والوں نے دلی کے شعرا کو ایک طرح مصرع لکھ بھیجا کہ اس شعر کو ہی اگر مکمل کرلیں تو بھی مان لیں گے کہ واقعی دلی والے بھی شاعری کرسکتے ہیں۔ مصرعہ کچھ یوں تھا،
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
دلی والوں نے اول تو مصرعے کو الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن استعارے اتنے مشکل تھے کہ کوئی ڈھنگ کا مصرعہ بنا نہیں تو دلی والوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ مناسب مصرعہ اولیٰ بناکر شعر مکمل کرکے ارسال کر رہے ہیں اور شعر کچھ یوں تھا
سنا ہے کہ لکھنؤ کے الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
گالی واحد چیز ہے جو کوئی کسی کو باقاعدہ نہیں سکھاتا بلکہ ہر کوئی بقدر ضرورت خود ہی سیکھ لیتا ہے۔ ہم نے آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جو بچوں کو گالی سکھا رہا ہو لیکن بچے پھر بھی کہیں نہ کہیں سے گالی دینا سیکھ ہی لیتے ہیں۔ بعض لوگ گالیوں سے کچھ سیکھ بھی لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ایک محفل میں مشتاق احمد یوسفی صاحب مضمون پڑھ رہے تھے تو ڈاکٹروں کو مخاطب کرکے کہا کہ علم طب میں اناٹومی کے بارے میں ہماری جتنی معلومات ہیں وہ سب بزرگوں کی گالیوں سے کشید کردہ ہیں۔ جب بھی کوئی نئی زبان سیکھتا ہے تو ابتداء گالی سیکھنے سے ہی کرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے فن موسیقی کی ابتداء سرگم سے ہوتی یے۔ بقول مرزا کسی شخص کی زبان دانی کے دو ہی ثبوت ہیں ایک وہ اس زبان میں گالی دے سکے اور دوسرا شاعری کرسکے۔ ہم صرف گالی کی حد تک متفق ہیں کیونکہ شاعری کیلئے ہم زبان دانی کو زائد از ضرورت چیز سمجھتے ہیں.
گالی دینے کا مقصد کسی کو تکلیف دینا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گالی سے کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے آخر اور یہ حقیقت ہے کہ ہوتی ہے۔ تو جناب اسکے پس منظر میں پوری سائنس ہے۔ جب کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو سننے والا چشم تصور میں اسکو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ مثلاً جب کوئی کسی کو گدھا کہتا ہے تو سننے والا چشم تصور سے خود کو گدھے کی روپ میں دیکھتا ہے اور دیکھنے کے بعد جب اسے پسند نہیں آتا تو اسکے بعد ردعمل ظاہر ہوتا ہے جو گالی کے حجم، وزن، شدت اور نوعیت کے براہ راست متناسب ہوتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کی کہ سب گالیوں سے تکلیف ہوتی ہے بلکہ کچھ گالیاں سن کر لوگ خوش بھی ہوتے ہیں۔ خوش ہونے کا تعلق گالی سے نہیں بلکہ گالی دینے والے سے ہوتا ہے۔ اسکا اقرار مرزا غالب نے بھی کیا ہے،
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالی کھا کر بھی بے مزہ نہ ہوا
پس ثابت ہوا کہ محبوب کی گالی کا شمار گالی میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص جسکو ہم بہت بڑا آدمی سمجھتے ہیں اسکی گالی بھی گالی نہیں لگتی۔ (میں نے بطور خاص "بڑا آدمی سمجھتے ہیں" کہا بڑا آدمی نہیں کہا کیونکہ جو واقعی بڑا ہوتا ہے وہ کبھی گالی نہیں دیتا۔) ہمارے علاقے میں ایک سیاستدان نے کسی شخص کو نجی محفل میں گالی دی۔ وہ گالی ایسی تھی کہ عام حالات میں ایسی گالی سن کر لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن چونکہ گالی ایم پی اے صاحب نے دی تھی اسلئے وہ شخص ہر محفل میں ایک بار اسکا تذکرہ ضرور کرتا کہ فلاں نے مجھے یہ گالی دی۔ بتانا یہ مقصود ہوتا تھا کہ میری ان سے اتنی بے تکلفی ہے۔ ہمارے یہاں بے تکلفی ناپنے کا واحد آلہ بھی گالی ہے۔ اگر آپ کسی کو بنا سوچے سمجھے اور بلا وجہ گالی دے سکتے ہیں یا وہ آپکو جواباً گالی دے سکتا ہے یا دیتا ہے تو اسکا مطلب لاریب یہی ہے کہ وہ آپکا بے تکلف دوست ہے۔
ویسے تو گالیوں کی بے شمار اقسام ہیں لیکن یہاں ہم مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکی چند ایک بڑی بڑی اقسام کو مختصراً زیر بحث لائیں گے۔ گالی کی سب سے خفیف قسم وہ ہوتی ہے جسکا ہدف سامنے والے کے جسم کے ظاہری بیرونی اعضاء اور ان میں پائے اور نہ پائے جانے والے نقائص ہوں۔ یہ گالیاں ناتجربہ کار قسم کے لوگ دیتے ہیں اور انہیں پھیکی گالیاں کہا جاتا ہے۔ یہ لڑائی جھگڑے کی ابتداء میں دی جاتی ہیں یعنی اسے آپ لڑائی کا وارم اپ کہہ سکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے قوال قوالی شروع کرنے سے پہلے پانچ دس منٹ سرگم گا کر وارم اپ ہوتا ہے اور سازندے سازوں کی سر تال سنوارتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر جو گالیاں آتی ہیں انکا براہ راست تعلق سامنے والے کے شجرہ نسب سے ہوتا ہے۔ اسکی پچھلی نسلوں میں پائی جانے والی خامیوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ اسکی شدت بڑھانا مقصود ہو تو شجرہ نسب میں جتنا دور تک جا سکتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ ماں باپ سے شروع ہوکر پچھلی کئی پشتوں تک بات چلی جاتی ہے۔ یہ دراصل سامنے والے کی بنیادیں ہلانے کیلئے ہوتا ہے۔
تیسرے نمبر پر جو گالیاں آتی ہیں وہ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور جنگ ہمیشہ مس کیلکولیٹڈ ہوتی یے۔ ان گالیوں کو زبانی جنگ کے ایٹمی بم سمجھ لیں۔ اس میں حدود و قیود نہیں ہوتیں۔ ان گالیوں کا عنوان مفعول و مجروح شخص کی ذات سے لیکر جد امجد تک سب ہوتے ہیں۔ اس میں تمام پوشیدہ اعضاء و امراض اور افعال پر بے لاگ تبصرہ کیا جاتا ہے۔ انہی گالیوں کے بارے میں اردو محاورہ ہے کہ "گالی دئیے سے گونگا بولے" یعنی یہ گالیاں سن کر گونگا بھی بول پڑتا ہے۔ گونگے گالیاں کیسے دیتے ہیں یہ ایک الگ مضمون کا متقاضی عنوانہے۔ گالیوں کی یہی قسم تھی جہاں سے یوسفی صاحب نے علم اناٹومی یا علم الاعضاء کشید کیا۔ گالی کے مزاج میں گرمی ہے کیونکہ اسکی تخلیق حالت غیض و غضب میں ہوتی ہے تاہم تاثیر ٹھنڈی ہے (گالی دینے والے کیلئے). کچھ گالی دہندگان کا خیال ہے کہ گالی سے کلیجے میں ٹھنڈ پڑتی ہے تو ممکن ہے گالیاں کلیجے میں ہی پیدا اور ذخیرہ کی جاتی ہوں۔
فن گالم گلوچ نے دور حاضر میں فقید المثال رفتار سے ترقی کی ہے۔ اسکی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے نہ صرف نئی نئی گالیاں ایجاد اور دریافت ہوئی ہیں بلکہ اس فن کو بین السانی تحریک بھی ملی ہے۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ گوگل ٹرانسلیٹر سے مقامی گالیوں کے زبان غیر میں تراجم کر کر کے گالیاں دیتے ہیں۔ گوگل ٹرانسلیٹر کا آپ جانتے ہی ہیں اچھی بھلی بات کا ترجمہ بھی گالی کی صورت میں کرتا ہے تو سوچیں گالی کا ترجمہ کیا ہوگا۔ لیکن گالی کا ترجمہ اپنا اثر کھودیتا ہے۔
صاحبو!
گالی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ طویل بات کرنے کا مقصد اسکی ترویج و اشاعت ہرگز نہیں۔ سمجھانا صرف یہ مقصود ہے کہ ہمارے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ہماری شخصیت اور تربیت کی آئینہ دار ہوتی یے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ انسان اگر پھول ہے تو اسکی زبان اور اسکے قلم سے نکلنے والے الفاظ اسکی بو ہے۔ پھول جتنا بھی خوبصورت ہو اگر بدبودار ہو تو کوئی اسکے قریب جانا پسند نہیں کرتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں