تکلیف کی شدت سے بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، درد تھا جو برداشت کی حدیں پھلانگ رہا تھا۔ وہ ایک بردبار انسان تھا بڑی بڑی تکلیفیں بھی خندہ پیشانی سے سہنے والا لیکن یہ درد نیا تھا اور جان لیوا تھا۔ وہ درد کی شدت سے کراہ رہا۔ گاڑی کے اندر وہ اسے واضح دکھائی دے رہی تھی لیکن اسے اپنی پہنچ سے کوسوں دور لگ رہی تھی۔ کتنی بے نیاز تھی وہ۔ اسے اس کے درد کا ذرا بھی احساس ہوتا تو اچھل کر اسکے پاس آجاتی لیکن اسے کیا خبر کہ کس پر کیا گزری ہے۔ وہ انجان تھی۔ اس نے ایک بار پھر کوشش کی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اسکا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا وہ جھکا اور پوری کوشش سے ہاتھ بڑھایا تو اسکی انگلیوں کے پور اسے چھونے لگے۔ آہ یہ لمس کتنا حسیں و دل نشیں تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ اسے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ دل کو دھڑکا لگا رہا کہ کہیں وہ پھسل کر اور دور نہ چلی جائے۔ اور پھر آخر کار
چابی اسکے ہاتھ لگ ہی گئی۔ اس نے گاڑی کا لاک کھولا اور اپنا انگوٹھا دروازے کی گرفت سے آزاد کرلیا۔
اور بھی درد ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔
ضروری نہیں کہ درد کے پیچھے عشق کا ہاتھ ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں