اہلیہ اور تخلیہ کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور وہ یہ کہ انکا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یا یوں کہہ لیں تخلیہ اہلیہ کی سوت ہے جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اگرچہ دونوں اپنی اپنی جگہ الله کی نعمتیں ہیں تاہم یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ دونوں بیک وقت کسی کو میسر نہیں آسکتیں۔ ایسی صورتحال کو انگریزی میں Mutually exclusive کہا جاتا ہے لیکن اردو میں اسے کچھ نہیں کہاجاسکتا، میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اسکے لئے کوئی خاص اصطلاح کم ازکم میرے علم میں تاحال نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسی کوئی اصطلاح ابھی تک نہ گڑھی گئی ہو نہ دریافت یا ایجاد کی گئی ہو کیونکہ اسکی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ انگریزوں نے البتہ اصطلاح بنالی کیونکہ ان کو بیک وقت اہلیہ اور تخلیہ دونوں میسر ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں حالات مختلف ہیں۔ جب تک آپ کی اہلیہ نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیں کہ آپ اہلِ اہلیہ نہیں ہوتے تب تک تخلیہ ہی تخلیہ ہوتا ہے۔ اور یہ تخلیہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اکثر بندہ تخلیے سے اکتا کر اور گھبرا کر شادی تک کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہراہ قراقرم کا ڈرائیور زندگی میں صرف ایک غلطی کرسکتا ہے دوسری کرنے کیلئے زندہ نہیں رہتا۔ بس کچھ یہی حال تخلیہ کا بھی ہے۔ ایک بار شادی ہوجائے اسکے بعد بندہ ساری عمر تخلیے کیلئے ہی ترستا رہ جاتا ہے۔ شادی کو بڑے بزرگ کار ثواب بتاتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک بھی لگتی ہے۔ ثواب کی اگر سادہ لفظوں میں تعریف کی جائے تو ہر وہ کام کار ثواب ہی ہوتا ہے جس میں شیطان مردود کی مداخلت نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ شیطان کا حملہ تنہائی میں ہوتا ہے۔ شادی کے بعد شیطان انسان کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہوجاتا ہے۔ اگرچہ بڑے بزرگ اسکی توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ شادی کے بعد انسان کو چونکہ تخلیہ میسر نہیں ہوتا اسلئے شیطان کا حملہ کم ہی ہوتا ہے۔ تاہم بقول مرزا حملہ نہ ہونے کی یہ وجہ درست نہیں۔ انکے خیال میں اسکی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ شادی کے بعد شیطان حملے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنی شیطانیاں پہلے ہی مکمل کرکے بندے کو اس مقام تک لے آتا ہے۔ دوسری وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ شیطان اپنی توانائیاں ایسے لوگوں پر صرف ہی نہیں کرتا جو اپنی مرضی سے کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں جیسے چرند پرند اور شوہر وغیرہ۔ شادی شدہ مرد شیطان کے کسی کام کا نہیں ہوتا کیونکہ شیطان کی باتوں پر عمل کرنے کیلئے کسی حد تک خود مختاری چاہئے ہوتی ہے جو شادی شدہ حضرات کو میسر نہیں ہوتی۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ اہلیہ کے ہوتے ہوئے شیطان تو قریب بھی نہیں آسکتا تاہم دوسری خاتون کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی لگتی ہے۔ ہم نے آج تک کسی خاتون کو شوہر پر یہ شک کرتے نہیں دیکھا یا سنا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آیا ہے تاہم دوسری خواتین کے حوالے سے بیگمات اکثر بلکہ ہمیشہ شاکی ہی رہتی ہیں۔
تخلیہ بھی انسانی زندگی کیلئے اتنا ہی اہم ہے جتنی اہلیہ لیکن بدقسمتی سے اہلیہ کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں۔ کوئی بھی اہم اور تخلیقی کام کرنے کیلئے تخلیہ بہت ضروری یے۔ تاہم کسی بدخواہ نے بیگمات کے اذہان میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھردی ہے کہ مردوں کی دنیا میں تخلیقی کام سے مراد کسی اور خاتون کے بارے میں سوچنے کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا اور اسی لئے وہ حتی الوسع مرد کو تخلیہ فراہم کے سخت خلاف ہے۔ گو کہ پرانے زمانے میں بلکہ ماضی قریب میں بھی گاہے گاہے مرد حضرات کو تخلیہ میسر آجاتا تھا۔ خواتین بچوں کو لیکر ہفتے دس دن کیلئے میکے چلی جایا کرتی تھیں اور موقع غنیمت جان کر مرد حضرات تخلیہ پاکر کچھ تخلیقی کام کرلیا کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ادب اور شاعری سے لیکر سپہ گری اور سائنس تک میں جن حضرات نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے وہ سب ماضی میں ہی تھے۔ اس دور میں غالب، میر، یوسفی ابن انشاء، سکندر یونانی، آئن سٹائن اور نیوٹن جیسی کوئی ہستی آپ کو نظر نہیں آئیگی۔ سکندر کی فتوحات کی وجہ دنیا اسکی اعلی فوجی تربیت اور ارسطو کی شاگردہ بتاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے کارنامے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے تخلیہ میسر تھا اور غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔ اگر اسے تخلیے کی بجائے اہلیہ میسر ہوتی تو یونان سے لیکر ہندوستان تک ہزاروں لاکھوں لوگ ان جنگوں کی نذر نہ ہوتے کئی سلطنتیں تاراج ہونے سے بچ جاتیں۔ جب مردوں کو تخلیہ ہی میسر نہیں تو کوئی کار نمایاں کیونکر کرے بھلا۔ ایسا نہیں کہ مرد سارا دن گھر میں مقید رہتے ہیں یا اہلیہ میکے نہیں جاتی، وہ اب بھی جاتی ہیں لیکن برا ہو سمارٹ فون بنانے والوں کا ہر دس منٹ بعد کال آجاتی ہے اور ذرا سا شک پڑنے پر وڈیو کال کرکے کہتی ہیں کہ کیمرا تین سو ساٹھ درجے زاوئے سے گھماکر دکھاؤ دائیں بائیں کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اپنی دوسری خفیہ شادی کی کامیابی کا راز یہی بتایا کہ انکی پہلی بیگم کو ابھی تک یہ نہیں پتا کہ ان کے پاس سمارٹ فون بھی ہے اور اسکا استعمال بھی جانتے ہیں۔ پرانی بیگم کے پاس جاتے ہوئے نوکیا کا وہ موبائل استعمال کرتے ہیں جسکے اب کل پرزے بھی مارکیٹ میں نہیں ملتے۔ بقول انکے انکا راز صرف تب تک ہی راز رہ سکتا ہے جب تک یہ پرانے موبائل دستیاب ہیں۔ انہوں نے ایسے دو موبائل رکھے ہوئے ہیں۔ ایک موبائل میں سم نہیں لگتی اور دوسرے میں چارجنگ والی جگہ میں خرابی یے۔ اسلئے ایک کو چارجنگ اور دوسرے فون جو کالنگ فون کہتے ہیں۔
عرض یہ کرنا تھا کہ اہلیہ اور تخلیہ کبھی یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کو ابھی تک تخلیہ میسر ہے تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان دو نعمتوں میں سے آپ کس کا انتخاب کرتے ہیں اور کس کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ تخلیہ میسر ہو تو اہلیہ کسی بھی وقت میسر آسکتی ہے لیکن اگر اہلیہ میسر ہے تو تخلیے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں البتہ بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ (سیف الله خان مروت)
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019
اہلیہ اور تخلیہ
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں