جمعہ، 20 نومبر، 2020

نوشتہ دیوار

 بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ہوتے ہوں لیکن ہم نے کبھی دیکھے نہیں اور نہ ہی کبھی کسی دیوار نے ہمارے پس دیوار کے کسی کارنامے کا راز افشاں کیا ہے جس سے ہمیں یقین ہوجائے کہ ہاں واقعی دیواروں کے کان بھی ہوتے ہیں۔ لیکن دیواروں کے کان ہوں نہ ہوں انکی زبان ضرور ہوتی ہے۔ دیواریں بولتی ہیں۔ یہ دیواریں کسی بھی انجان علاقے میں آپکی بھرپور رہنمائی کرتی ہیں۔ مثلا پچھلے انتخابات میں کس امیدوار کے ووٹر زیادہ تھے اور انتخابی نشانات کیا کیا تھے۔ کس کس امیدوار میں کون کونسی خوبیاں اور خامیاں ہیں سب نوشتہ  دیوار ہوتا ہے۔اسکے علاوہ مفید معلومات عامہ جیسے اس علاقے میں خالص چیزیں کہاں ملتی ہیں، ہوٹل اور سرائیں کون کونسی ہیں، اچھے تعلیمی ادارے کونسے ہیں، کالے جادو کے بے تاج بادشاہ کون کون ہیں اور کالے جادو کا توڑ کس کس کے پاس ہے، محبوب کو مرغ بسمل کی طرح آپکے قدموں میں کون لاکر ڈھیر کر سکتا ہے، کس کس حکیم کے پاس کس کس قسم کی کھوئی ہوئی طاقت واپس پانے کا حل ہے،  کون آپکی جوانی میں کی گئی غلطیوں کو کالعدم  یعنی ان ڈو کرسکتا ہے،کون آپ کے چھوٹے قد کا علاج کرسکتا ہے، کالے رنگ کو گورا کرنے والی کریم اس علاقے میں کونسی زیادہ استعمال ہوتی ہے، گرتے بالوں اور گنج پن کا علاج کس کے پاس ہے، کیل مہاسے اور چھائیاں کون ٹھیک کرسکتا ہے اور پچکے گالوں اور لاغر ڈیڑھ پسلی والے حضرات کو کون کچھ دنوں میں سومو ریسلر جیسی جسامت دے سکتا ے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہ دیواریں آپکو یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس سال کون کون حج کرکے لوٹا ہے اور اسکے خاندان کے جملہ افراد کے نام کیا ہیں، کس کی شادی ہوئی ہے کہاں کہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد ہوئی ہیں، مجلس عزا کہاں منعقد ہوئی۔ دیواریں ملک میں معاشی ناہمواریوں اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے بارے میں بھی تفصیل سے بتاتی ہیں۔ اہل سندھ کے اس دعوے کہ پنجاب سارا بجٹ کھا جاتا ہے ، تصدیق کچھ یوں ہوتی ہے کہ لاہور کی دیواروں پر آپکو یہ اشتہار نظر آئیں گے کہ موٹاپے سے نجات کیسے ممکن ہے جبکہ کراچی کی دیواروں پر یہی حکیم حضرات پچکے گالوں میں ہوا بھرنے کے دعوے دار ہوتے ہیں۔  

دیواریں اسکے علاوہ بھی ہر قسم کی رہنمائی فراہم کرتی ہیں مثلا  کہاں کہاں کوڑا پھینکنا ہے اور کہاں نہیں پھینکنا۔ جہاں نہیں پھینکنا وہاں لکھا ہوا آ پکو نظر آجائے گا  باقی جہاں مرضی پھینک دیں۔ اسی طرح کہاں پیک نہیں تھوکنا اور کس جگہ پیشاب  کرنا منع ہے یہ بھی سب بحروف جلی مندرج ہوتا ہے۔ کسی شہر کے حجم کا اندازہ وہاں کی دیواروں پر اشتہارات کی تعدا سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ جتنا بڑا شہر ہوتا ہے دیواروں پر لکھائی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ جن دنوں میں کراچی میں رہتا تھا، راستہ یاد رکھنے کیلئے انہی اشتہارات کا سہارا لیتا تھا اور غالبا یہی وجہ تھی کہ میں کسی بھی جگہ دوسری بار نہیں جا سکتا سوائے مزار قائد اور اپنے گھر کے۔ وہاں میں ٹیکسی میں بیٹھ کر چلا جایا کرتا تھا کیونکہ عموما  اپنی مزل مقصود سے اتنا دور نکل جاتا تھا کہ اپنے روٹ کی کوئی گاڑی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ وجہ یہی ہوتی کہ پچھلی بار جاتے ہوئے جہاں عامل بابا بنگالی کا اشتہار تھا وہاں اب شادی مبارک لکھا ہوا ہے۔ اب ایسے میں بندہ بھٹکنے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے۔ کئی دفعہ ملیر کینٹ جاتے جاتے کیماڑی پہنچ جاتا تھا۔ اگرچہ دیواروں پر لکھنے  کا رواج ابھی تک ختم نہیں ہوا لیکن کسی حد تک کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب لوگ عموما اپنے درودیوار پر لکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور کچھ لوگ تو اس حوالے سے باقاعدہ نوٹس بھی لگادیتے ہیں کہ بغیر اجازت دیوار پر لکھنا منع ہے اور کچھ سخت منع ہے بھی لکھوا لیتے ہیں۔ اگرچہ مجھے آج تک منع اور سخت منع کا فرق سمجھ نہیں آیا۔ ممکن ہے اسکا مطلب یہ ہو کہ جہاں منع ہے وہاں صاحب خانہ ڈانٹ ڈپٹ اور گالم گلوچ تک محدود رہیں اور سخت منع والے حضرات باقاعدہ دست درازی کا ارادہ رکھتے ہوں۔

اگر ان نوشتہ ہائے درودیوار کی درجہ بندی کی جائے تو بنیادی طور انکی تین اسام ہیں۔

۱۔ اشتہارات، ۲۔ ہدایات، نضائح و تنبیہات، ۳۔ پیغامات

اشتہارات اور پیغامات کی طرف عموما لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں البتہ ہدایات اور تنبیہات کو بہت غور سے پڑھتے ہیں۔ اسکی وجوہات تو کئی ہیں لیکن کچھ وجوہات جو سمجھ میں آنے والی ہیں وہ یہ معلومات حاصل کرنا ہے  کہ کونسا کام پہلے کہاں ہوتارہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کہیں کچرا ڈالنے سے منع کیا گیا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہاں پہلے کوئی کچرا ضرور ڈالتا رہا ہوگا اسلئے آپ باآسانی وہاں کچرا ڈال  سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کہیں دیوار پر لکھ دیا گیا ہے کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے اسکا مطلب لامحالہ یہی ہے کہ یہ جگہ پیشاب کیلئے اس علاقے میں سب سے موزوں ہے۔ توجہ سے پڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ہدایات میں مناسب ترمیم کی جاسکے۔مثلا اگر کہیں لکھا گیا ہے کہ یہاں ہارن بجانا منع ہے اس میں اضافہ کردیا گیا، ایک بار ہارن بجانا منع ہے مطلب بار بار بجائیں۔ اگر کوڑا پھینکنے سے منع کردیا گیا ہے تو اسکے اوپر کچھ لکھ دیا اور پورا جملہ کچھ یوں بنا کہ، آپ کے علاوہ سب کیلئے۔۔۔ یہاں کوڑا پھینکنا منع ہے۔ اگر کسی پارک کے باہر لکھ دیا گیا کہ اسلحہ لانا منع ہے تو کسی منچلے نے لفظ منع مٹا کر ضروری لکھ دیا ۔ یہ صرف چند مثالیں بہت ساری مثالیں نقص امن عامہ کے پیش نظر زیر بحث نہیں لائی گئیں۔ آپ بھی اپنے ارد گر نظر دوڑائیں تو سینکڑوں ایسی مثالیں نظر آجائیں گی اور آپ بھی قائل ہوجائیں گے کہ دیواریں واقعی بولتی ہیں اور زیادہ تر پوشیدہ امراض کے علاج کے دعوے  کرتے نظر آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب امراض پوشیدہ ہیں تو حکیم صاحبان کو کیسے پتا چلتا ہے انکا۔               (سیف اللہ خان مروت)

Yunhi mil baithne ka koi bahana nikle | یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے|Ahmed Faraz | Sad Poetry

 





اتوار، 5 جولائی، 2020

کورونائی ‏امتحان

جب پاکستان میں کورونا کی وبا کی آمد ہوئی تو ہمارا امتحان درمیان میں ہی روک دیا گیا۔ امید یہ تھی کہ کچھ دن بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو دوبارہ امتحان لے لیا جائیگا۔ لیکن حالات کچھ ایسے الجھے کہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ لہذا یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ جو پرچہ ہماری جان پر قرض ہے وہ ہمیں گوگل کلاس روم میں دے دیا جائیگا اور جوابات لکھ کر انکے عکس ہم نے وہاں جمع کرنے ہیں۔ یعنی کہ انہیں ہماری ایمانداری کا پورا پورا یقین ہے یا پھر اس بات کا کہ ہم گھر بیٹھ کر اور کتابیں کھول کر بھی جوابات لکھنے کے اہل نہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ اول الذکر کو ہی درست سمجھا جائے۔ 
ہم نے بیگم اور بچوں کو متاثر کرنے کیلئے رات کے کھانے پر اعلان کردیا کہ صبح ہم گھر میں بیٹھ کر امتحان دیں گے۔ اسکے ساتھ ہی ایمانداری اور دیانتداری کی اہمیت اس کے فضائل و فوائد اور بے ایمانی کے نقصانات پر مفصل تقریر بھی کرڈالی۔ وہ بھی یونیورسٹی کے ہمارے بارے میں خیالات سن کر بہت خوش ہوئے۔ 
صبح ہم اٹھے اور ناشتہ کرکے ضروری کتابیں میز پر سامنے رکھ لیں۔ کتابیں رکھنے کا مقصد نقل کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ میز کی اونچائی قدرے کم تھی تو سوچا کتابوں کے اوپر رکھ کر لکھنا ذرا آسان ہوگا۔ 
کمپیوٹر آن کیا اور پرچہ ڈاون لوڈ کیا۔ سکرین پر سامنے سوالیہ پرچہ تھا۔ ہم نے بسم اللہ پڑھ کر کتاب کھولنے کی کوشش ہی کی تھی کہ چھوٹی بیٹی اور بیٹا کمرے میں داخل ہوئے۔ کتاب کھولتے دیکھ کر بیٹے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ حیرت زدہ کر کہا پاپا آپ نقل کر رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں تو۔ بیٹی نے فورا" اپنے بڑے بھائی پر جوابی حملہ کردیا۔ کہنے لگی پاپا نقل نہیں کرتے ویسے ہی کتاب سیدھی کر رہے تھے۔ میرے پاپا ایسے نہیں۔ اگر تمہیں شک ہے تو میں اور کتابیں دیتی ہوں پاپا کو۔ بیٹے نے میرے سامنے پڑی ہوئی کتاب اٹھا لی اور بیٹی نے سب سے ضخیم کتاب فیروزالغات جامع اٹھا کر سامنے رکھ دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ زیادہ موٹی کتاب ہے لکھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ بچے ناشتہ کرنے گئے تو میں نے جلدی جلدی گوگل سے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ سوچا پہلے سب سوالوں کے جواب ڈھونڈ لوں پھر آرام سے لکھنے بیٹھتا ہوں۔ دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے سارے جوابات ڈھونڈنے میں۔ میں نے لکھنا شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد سارے بچے اپنا اپنا ناشتہ اٹھا ئے کمرے میں آگئے۔ میں نے جلدی سے سکرین تبدیل کرلی اور سوالیہ پرچہ اوپر رکھ دیا۔ بچے خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے اور سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ میں نے سوچا تھا کہ ناشتہ کرکے چلے جائیں گے یا پھر میں خود باہر بھیج دوں گا کہ تم لوگ شور کر رہے ہو لیکن وہ نہ تو شور کر رہے تھے نہ ناشتہ ختم کرنے کے بعد کمرے سے جانے کا ارادہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد سب قریب آکر میرے پیچھے ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ میں نے موقع غنیمت جان کر کہا تم لوگ جاو کھڑے کھڑے تھک جاوگے۔ وہ سب خاموشی سے نکل گئے اور تھوڑی دیر بعد ڈائننگ ٹیبل کی کرسیاں اٹھا کر اندر آگئے اور میرے پیچھے ایک قطار میں بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں ٹالنے کیلئے کہا کہ جاو اپنی اپنی کلاسوں کی تیاری کرو۔ سب نے کہا کہ آج تو اتوار ہے۔ مجھے غصہ آنے لگا وہ کسی شکی مزاج استاد کی طرح سر پر کھڑے تھے اور مجھے موقع نہیں دے رہے تھے کہ گورے پروفیسروں کے علم سے استفادہ کرسکوں۔ میں نے موبائل فون اٹھایا تو بڑی بیٹی نے ہاتھ سے لیکر کہا کہ پاپا امتحان میں موبائل فون ڈسٹرب کریگا ادھر مجھے دیں۔ میں نے چپ کرکے دے دیا۔ وہ لوگ کوئی ایسی حرکت نہیں کر رہے تھے جسے بنیاد بنا کر میں کمرے سے باہر بھیج دیتا۔ آخر میں نے کہا کہ جاو اپنی اپنی پڑھائی کرو۔ کہنے لگے وہ تو روزانہ کرتے ہیں آج ہم آپ سے یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ امتحان ہال میں پرچہ کیسے حل کیا جاتا ہے۔ 
اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے اسکے کہ جو کچھ آتا تھا لکھ لوں۔ 
خاموشی سے جو ٹوٹا پھوٹا آتا تھا لکھ لیا۔ جب پرچہ ختم ہوا تو بچے خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انشاء اللہ کورونا جلد ختم ہوجائیگا پھر ہم آزادی سے یونیورسٹی میں نرم دل اساتذہ کے زیر نگرانی امتحانات دے سکیں گے۔

اتوار، 17 مئی، 2020

کے_ٹو_نامہ قسط - 9 کونکورڈیا سے کے ٹو بیس کیمپ

17 جولائی 2018

صبح اٹھے تو پہلی بار ذرا معمول سے ہٹ کر تھا۔ چونکہ واپس ادھر ہی آنا تھا اسلئے مختصر سامان باندھا گیا۔ جو دوسرا گروپ ہمارے ساتھ تھا ان کے ساتھ مشورہ کرکے کچن مشترک کرلیا مطلب ایک کچن ٹینٹ اٹھایا اور ایک رات کے کھانے اور صبح ناشتے کا سامان اور رہائشی خیمے اور سلیپنگ بیگز۔ باقی سامان اور کچھ لوگ ادھر ہی چھوڑے اور نکل پڑے۔ کونکورڈیا سے کے ٹو تک جو گلیشئیر پھیلا ہوا ہے وہ دور سے بالکل ایک ہموار سڑک کی طرح نظر آتا ہے۔ ایک گھنٹہ کروسز (Craveses) سے نکلنے اور سامنے والے گلیشئر تک پہنچنے میں لگا۔ 
گائیڈ مسلسل حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ بس یہی مشکل جگہ ہے اسکے بعد بالکل سیدھا اور ہموار راستہ ہے۔ یہ باتیں ایک ہفتے سے سن سن کر اتنی سمجھ آگئی تھی کہ سیدھے راستے کا مطلب صرف یہ ہے کہ بندہ اندازے سے ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتا بلکہ راستہ معلوم ہوتا ہے باقی آسان راستہ گلیشئرز میں کہیں نہیں ہوتا۔ اور یہ پہلا گھنٹہ واقعی مشکل تھا۔ خدا خدا کرکے وہاں سے نکلے تو کچھ راستہ سجھائی دیا۔ آگے راستہ آسان بالکل نہیں تھا البتہ چلنے قابل ضرور تھا۔ 
میں نے تجرباتی طور پر ایک پورٹر کا وزن اٹھایا جب وہ آرام کرنے کیلئے رکا اور اپنا بیگ اس کے حوالے کردیا۔ وہ منع کرتا رہا لیکن میں نے کہا کہ نہیں مجھے ذرا محسوس کرنا ہے کہ پورٹر کیسا محسوس کرتا ہے اتنا وزن اٹھا کر۔ جب ایک دفعہ وزن کمر پر لاد کر کھڑا ہوگیا تو اس کے بعد اتنا بوجھ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور دھیمی رفتار سے لگ بھگ دو سو میٹر ہے چلا ہوں گا کہ پیچھے سے پورٹر پہنچ گیا اور کہا کہ بس سامان دے دیں۔ جب سامان دینے کےلیےرکا تو اسکے بعد پندرہ منٹ تک تو میرا سانس معمول پر نہیں آیا۔ سانس سیدھا کرنے کے بعد جب چلنے لگا تو جسم بہت ہلکا محسوس ہورہا تھا لیکن رانیں بالکل بے جان سی لگ رہی تھیں۔ 30 کلو وزن نے دو سو میٹر میں ہی میری ساری توانائی نچوڑ لی تھیں۔ اسکے بعد پورٹرز کی قدر میری نظر میں اور بھی بڑھ گئی یہ سوچ کر کہ وہ ڈیڑھ سو کلومیٹر سے یہ سامان اٹھا کر چل رہے ہیں اور بہت اونچی اونچی چڑھائیاں بھی چڑھتے رہے ہیں۔ یہ راستہ تو ان راستوں کے مقابلے میں بالکل ہموار تھا۔ 
ایک گھنٹہ مزید چلنے کے بعد براڈ پیک بیس کیمپ نظر آنے لگا۔ رنگ برنگی خیموں سے بھرا ہوا بہت خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ لیکن آسمان پر بادل چھا گئے اور دھوپ غائب ہوگئی۔ 
براڈ پیک بیس کیمپ پہنچے تو پتا چلا کہ یہاں دو اہم کام ہورہے ہیں۔ ایک تو کوہ پیما گروپ براڈ پیک سر کرنے گیا ہوا تھا وہ گزشتہ رات آخری کامیاب حملہ کرکے چوٹی سر کرچکے ہیں اور واپس لوٹ رہے ہیں۔ مجھے اس لفظ حملے سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ اسے حملہ کیوں کہتے ہیں۔ اسکی وضاحت عباس نے کی۔ عباس نے کہا کہ کوہ پیما پہاڑ کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چیونٹی رینگے تو انسان فورا" مسل دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے بالکل یہی پہاڑ انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ خوش قسمتی اور قابلیت یہی ہے کہ پہاڑ پھینک نہ سکے اور آپ اسکے پورے جسم سے ہوتے ہوئے آخر اسکے سر پر حملہ کریں اور اسکے سر پر پاوں رکھیں۔ 
اس وضاحت کے بعد اب آخری چڑھائی کو حملہ کہنا مجھے اتنا عجیب نہیں لگتا۔ 
دوسرا اہم کام جو اس وقت اس وہاں رہا تھا وہ پولینڈ کی ایک فلمساز کمپنی "Broad Peak" نامی فلم کی شوٹنگ کر رہی تھی۔ یہ فلم 2021 میں سینماوں میں آئے گی۔وہاں موجود ٹیم سے بات کرنے کے بعد پتا چلا کہ یہ دراصل پولش مہم جو ماسیج باربیکا کی مہم جوئی کے بارے میں ہے جو 2013 میں براڈ پیک پر غائب ہوگئے۔ واپس آکر جب تحقیق کی تو اسکی کہانی بڑی دلچسپ نکلی۔ 
باربیکا نے 1984 میں سردیوں میں آٹھ ہزار کی چوٹیاں سر کرنا شروع کیا۔ 6 مارچ 1988 کو اس نے اپنی ٹیم کیساتھ براڈ پیک سر کیا اور خوشی خوشی واپس گھر پہنچ گئے۔ وہاں دوستوں نے تصویریں دیکھیں تو بتایا کہ یہ تو آپ چٹان والی چوٹی تک گئے ہیں جو 8028 میٹر اونچی ہے جبکہ اصل چوٹی 23 میٹر زیادد اونچی ہے اور ایک گھنٹہ مزید وقت لگتا ہے وہاں سے۔ 
اس ناکامی سے باربیکا اتنا مایوس ہوا کہ اس نے طویل عرصے تک کوہ پیمائی ترک کی۔ 
2013 میں یعنی چوبیس سال بعد اسکا ٹیم ممبر ویلیکی اسے کال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ 24 سال سے جو کام ادھورا ہے وہ پورا کرنے چلتے ہیں۔ یاد رہے کہ اب باربیکا کہ عمر 59 سال تھی جبکہ تب 35 سالہ نوجوان تھا۔ 
ٹیم پاکستان آئی اور سردیوں میں براڈ پیک مہم پر روانہ ہوئی۔ 5 مارچ 2013 کو چوٹی سر کی اور 6 مارچ کو باربیکا اور اسکا نوجوان ساتھی توماز کوالسکی غائب ہوگئے۔ دو دن تلاش کے بعد انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ شاید چوبیس سال کی جدائی برداشت کرنے کے بعد لوٹنے پر براڈ پیک نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے سینے میں چھپا لیا یہ کہہ کر کہ "آگیا تو بوڑھا ہوکر"۔
6 مارچ 1988 سے 6 مارچ 2013 کی یہ کہانی فلم بند کی جارہی تھی۔ 
تھوڑی دیر وہاں موجود سٹاف سے گپ شپ کرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔ 
اب موسم بہت خراب ہوگیا تھا اور بادل زمین پر اتر آئے تھے۔ کچھ دیر کیلئے تو حد نگاہ بالکل چند میٹر رہ گئی تاہم تھوڑی دیر بعد دھند کم ہوگئی۔ برف باری بھی شروع ہوگئی تھی۔ ہمارے پورٹررز اور دوسرا گروپ آگے نکل چکا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھی۔ برف باری اور ٹھنڈ نے نہ صرف رفتار کم کی بلکہ رہی سہی توانائی بھی نچوڑ لی۔ ہمارا نان کسٹم پیڈ گائیڈ حسب معمول راستہ بھول گیا۔ بقول اسکے جس جگہ راستہ ہونا چاہئے تھا یا پہلے تھا اب وہاں راستہ نہیں تھا۔ ہمارے گائیڈ کو راستے مسلسل دھوکہ دے رہے تھے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔مجبورا" ہم جہاں سے ممکن ہوا اورجیسے تیسے گزر سکتے تھے جان ہتھیلی پر لیکر غیر ضروری خطرہ مول لیکر آگے بڑھتے گئے۔ 
عصر کا وقت تھا جب ہم کے ٹو بیس کیمپ پہنچ گئے۔ برف باری ہورہی تھی، کے ٹو بادل کی چادر بلکہ پوری رضائی اوڑھ کر چھپ گیا تھا اس الہڑ مٹھیار کی طرح جسکا رشتہ دیکھنے کوئی گھر آئے تو شرما کر چھپ جائے۔ تیز ہوا چل رہی تھی برف باری جاری تھی ایک طرف کے ٹو اور دوسری طرف براڈ پیک درمیان میں ہم، اندازہ لگا سکتے ہیں کتنی ٹھنڈ ہوگی۔
شام کا کھانا شام ہوتے ہوتے کھا لیا تھا اور اب ہم فارغ تھے کل صبح تک۔
پورٹرز نے کسی گروپ کے چھوڑی ہوئی لکڑی کی کریٹیں جمع کیں اور الاو روشن کرلیا۔ بڑا عجیب منظر تھا۔ اوپر سے ہلکی ہلکی برف باری ہورہی تھی نیچے زمین برف کی تھی اور درمیان میں بڑا سا الاو روشن کرکے ہم اس کے گرد بیٹھے تھے۔ آہستہ آہستہ مٹی کے تیل کے خالی کین جمع ہونا شروع ہوگئے اور پھر تھوڑی دیر بعد جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا بجا رہا تھا اور جس کے گلے میں جو بھی سر تھا چلا چلا کر گانے لگا۔ یہ بین الاقوامی قسم کی محفل تھی۔ پورٹرز سٹاف والے بلتی گانا شروع کرتے۔ بیچ میں ایک دو شعر اردو کے آجاتے، پھر ایک آدھ شعر پنجابی کا، میں بیچ میں پشتو کی رباعی اور سرائیکی ڈوہڑے گانا شروع کردیتا اور آسٹریلین سیاح انگریزی کے شعر جوڑ دیتے۔ یہ فری سٹائل ریسلنگ کے طرز کی محفل تھی مطلب جس کو جو آتا تھا اسے پوری اجازت تھی کہ جہاں سے دوسرے بندے کا گانا ختم ہو اپنا شروع کردے۔ ساتھ ساتھ قہقہے گونج رہے تھے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح گانے بجانے سے موسم صاف ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں موسم سے مراد اندر کا موسم تھا یا باہر کا کیونکہ تھوڑی دیر بعد نہ صرف باہر کا موسم صاف ہوگیا بلکہ اندر کا موسم بھی صاف ہوگیا۔ جب گا گا کر اور ہنس ہنس کر بے دم ہوگئے تو سب نے اٹھ کر آگ کے گرد گول دائرے میں ناچنا شروع کردیا۔ اس ناچ میں بیک وقت بہت سی ثقافتیں اپنے اپنے انداز میں ناچ رہی تھیں۔ اگر کوئی آتش پرست دیکھتا تو یقینا" یہی سمجھتا کہ آگ کے پجاری آگ دیوتا کی پوجا میں مصروف ہیں۔ جب ناچ ناچ کر بھی تھک گئے اور جتنی بھی جلنے کے قابل چیزیں تھیں سب جلا چکے اور آگ کے تپش کم ہوگئی تو ہمارا جوش بھی آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ 
کچھ دیر وہیں بیٹھے رہے پھر آہستہ آہستہ اپنے اپنے خیموں کی طرف کھسکنے لگے۔ موسم صاف ہوا تو براڈ پیک کی چوٹی کے قریب روشنیاں نیچے کی طرف حرکت کرتی ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ جسکا مطلب تھا کہ جو گروپ چوٹی سر کرنے گیا تھا وہ اب چوٹی سے کافی نیچے پہنچ گیا تھا۔ 
خیموں میں جاکر لیٹے تو تھوڑی دیر بعد برفباری دوبارہ شروع ہوگئی۔ 
صبح ہم نے کے ٹو میموریل جاکر ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا جنہوں نے اب تک کے ٹو سر کرتے ہوئے جانیں گنوائی ہیں اور اس بعد واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔ 
جاری ہے

کے_ٹو_نامہ قسط - 8 گورو ٹو سے کونکورڈیا

16 جولائی 2018

صبح اک بار پھر وہی روزمرہ کا معمول سامان باندھا گیا ناشتہ تیار ہوا اور ناشتہ کرکے ایک بار پھر حسب معمول سفر شروع ہوا۔ لیکن آج خوشی معمول سے کہیں زیادہ تھی۔ آج ہم کونکورڈیا پہنچ رہے تھے۔ کونکورڈیا یوں سمجھ لیں کہ قراقرم کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہاں سے ہر طرف راستے نکلتے ہیں اور آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیوں تک رسائی کیلئے ہاں سے ہوکر ہی گزرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات یہاں شب بسری کرنی پڑتی ہے۔ 
سفر آج بھی مشکل تھا بلکہ روزمرہ سے زیادہ مشکل تھا اور اوپر سے سات دن کے تھکاوٹ الگ لیکن آج جذبے جوان تھے۔ منزل قریب آرہی تھی۔ کونکورڈیا کو خوابوں میں دکھا تھا چشم تصور سے دیکھا تھا اپنی طرف سے کئی نقشے بنائے تھے لیکن پہلی بار حقیقتا" وہ جگہ دیکھنی تھی اور وہاں دو راتیں گزارنی تھیں اور وہاں سے آسمان کو چھوتی ہوئی چوٹیاں دیکھنی تھیں۔ 
جذبات کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی۔ گلیشئیر پر چلتے، چڑھتے اور اترتے آخر کار بارہ بجے کے قریب خیمے نظر آنے لگے۔ گائیڈ نے بتایا کہ جہقں خیمے لگے ہیں وہ کونکورڈیا ہے۔ تو پھر کے ٹو کہاں ہے؟ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کونکورڈیا پہنچ کر بائیں طرف دیکھیں گے تو کے ٹو اور براڈ پیک نظر آئیں گے۔ سامنے جی ون اور جی ٹو البتہ نظر آرہے تھے۔ دوپہر کا کھانا ملتوی کرلیا تھا اور فیصلہ کیا کہ کیمپ پہنچ کر روٹی کھائیں گے۔ اور پھر ڈیڑھ بجے ہم کیمپ پہنچ گئے۔ بائیں طرف مڑ کر دیکھا تو کے ٹو بالکل سامنے اور مکمل صاف نظر آرہا تھا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کے ٹو آپ کو بالکل صاف اور مکمل نظر آئے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ نہ صرف کے ٹو بلکہ براڈ پیک کی دونوں چوٹیاں بھی بالکل صاف اور واضح دکھائی دے رہی تھیں۔ 
کونکورڈیا میں میلے کا سا سماں تھا۔ یہاں ہر قسم کے سیاح اور کوہ پیما آتے جاتے رکتے ہیں۔ دنیا کے ہر براعظم سے لوگ یہاں جمع تھے اور سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ پہاڑوں کے عاشق وہ واحد مخلوق ہے جو اگرچہ مشترکہ محبوب کی وجہ سے رشتے میں اک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے سے بلا امتیاز رنگ، نسل، قومیت اور زبان کے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو میں بس اک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ پہاڑوں کی محبت ہوتی ہے۔ 
ہاں پہنچ کر اس لگ رہا تھا جیسے گھر پہنچ گئے ہوں حالانکہ مشکل سفر ابھی باقی تھا۔ کھانا تیار ہوا تو کھانا کھایا اور اسکے بعد کیمپ کے طول و عرض کو ناپنا شروع کردیا۔ عصر کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں اور سردی اتنی تھی کہ گرم پانی سے بھی وضو کرتے ہوئے پانی کی حرارت صرف پہلی بار جلد پر محسوس ہوتی اسکے بعد فورا" گیلی جگہ برف کی طرح ٹھنڈی ہوجاتی۔ 
تھکاوٹ کا احساس بالکل ختم چکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کوئی سفر کیا ہے نہ ہو۔ 
کونکورڈیا دو بڑے گلیشئیرز "بلتورو" اور "گوڈون آسٹن" کا سنگم ہے۔ یہاں جس طرف سے ہم آئے تھے یہ اسکولی اور شگھر کا راستہ ہے اور بالکل سامنے آگے بڑھتے رہیں تو علی کیمپ اور وہاں سے غونڈوغورو پاس سے گزر کر براستہ ہوشے خپلو جاتے ہیں۔ بائیں طرف جو گلیشئیر ہے یہ آپ کو براڈپیک بیس کیمپ اور اس سے گزر کر کے ٹو بیس کیمپ لے جاتا ہے۔ اور علی کیمپ کی طرف سدھا جانے کی بجائے تھوڑا سا بائیں ہاتھ جائیں تو جی ون اور جی ٹو بیس کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ گویا کونکورڈیا ان سارے پہاڑوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اسکا نام کونکورڈیا انگلش کوہ پیما الیسٹر کراولی نے 1902 میں رکھا جب وہ کےٹو سر کرنے کی مہم پر آئے تھے۔ اسکی سطح سمندر سے بلندی 4691 میٹر ہے۔ یہاں کا شاپنگ مال ایک خیمہ ہے جس میں ضرورت کے چیزیں مثلا" آٹا، چاول، نمک مصالحہ جات، سگریٹ،مٹی کاتیل اور گھی وغیرہ دستاب ہے۔ (اس دوکان اور اور اس کے دلچسپ مالک کا تفصیلی ذکر قسط 10 میں آئے گا)۔ 
اگلے دن ہم نے کے ٹو بیس کیمپ جانا تھا۔ موسم ابھی تک صاف تھا اور ساتھ دے رہا تھا۔ راستے میں آتے ہوئے ایک جگہ آرام کرنے کے جب رکے تو دوسرے گروپ کے گائیڈ عباس نے اوپر دیکھا اور آسمان پر قوس قزح کی طرح کے دو دائروں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ میں نے کہا کہ اس میں کیا برائی ہے؟ کہنے لگا اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران موسم خراب ہوگا اور برف باری ہوگی۔ میں نے کہا بادل تو کہین نظر نہیں آرہے۔ کہنے لگا اللہ کرے موسم خراب نہ ہو لیکن میرا تجربہ یہی کہتا ہے۔ اسکی بات کی وجہ سے میں تھوڑا کر مند تھا اور ایک آنکھ سے بار بار آسمان کا جائزہ لیتا رہا۔ 
شام کے فورا" بعد رات کا کھانا کھایا اور اسکے بعد اگلے دن کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ گائیڈ نے دبے لفظوں میں کے ٹو بیس کیمپ سے واپس آنے کے بعد اسی راستے سے جس سے ہم آئے تھے، واپس جانے کا ذکر کیا۔ میں نے کہا ہم غونڈوغورو پاس کراس کرکے ہوشے جائیں گے اور وہاں سے خپلو جیسے کہ منصوبہ تھا۔ کہنے لگا وہ راستہ بہت خطرناک ہے اور موسم بھی خراب ہوجائیگا تو یہ نری خودکشی اور پاگل پن ہے۔ میں نے کہا یہاں تک آنا کونسا سمجھداری کا کا کام ہے اور سمجھدار لوگ پہاڑوں آکر کیوں خوار ہوں گے۔ لہذا یہ تو ثابت شدہ ہے کہ یہاں سب پاگل ہی اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مزید کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں نے اس بات کاٹ دی اور کہا کہ ابھی دو دن اور دو راتیں باقی ہیں اسکے بعد دیکھئں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ابھی سے کوئی منحوس بات نہ کرنا کیونکہ منحوس باتیں اکثر سچ ثابت ہوتی ہیں۔ پرسوں رات کو اس موضوع پر بات ہوگی جب ہم کے ٹو بیس کیمپ سے واپس آجائیں گے تب تک اس موضوع پر دوبارہ کوئی بات نہیں ہوگی۔ 
اس بعد ہم اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔ 

جاری ہے

کے_ٹو_نامہ قسط - 7 اردو کس سے گورو ٹو

 15 جولائی 2018 

صبح اٹھ کر سامان پیک کیا اور جانے کی تیاری کرنے لگے۔ باقی گروپ پہلے ہی نکل چکے تھے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں صبح صبح جلدی ہمیں پسند نہیں اور کچھوا پسندیدہ جانور ہے۔ میں نے ایک پورٹر کا سامان اٹھایا تو اندازہ ہوا کہ وزن کم سے کم 35 کلو ہے۔ خچر کو راضی کرکے اپنے ساتھ ٹھرایا اور تصویر بنوالی۔ اسکے بعد باقاعدہ سفر شروع ہوگیا۔ 
اردوکس کے بعد سفر گلیشئیر کے اوپر ہے اور سبزہ یہیں تک ہے اس سے آگے کوئی سبزہ نہیں صرف سفید یا مٹیالی برف، اور چھوٹے بڑے پتھر اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ گلیشئیر میں اگرچہ پہاڑ کی نسبت ڈھلانوں کی چڑھائی یا اٹھان اور ڈھلان کم ہوتی ہے لیکن یہ راستہ مجھے ذاتی طور پر پہاڑ کے مقابلے میں زیادہ تھکادینے والا لگتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ گلیشئیر پر اگر پتھر نہ ہوں تو یہ بوٹوں کے تلوے مسلسل ٹھنڈے کرتا ہے جو گھنٹہ ڈیڑھ چلنے کے بعد میرے لئے ایک کوفت کا باعث ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ دوپہر میں یہ پگھلنے لگتا ہے اور بوٹ گیلے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پتھر ہوں تو یہ پتھر سلیٹوں کی مانند ہوتے ہیں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ہلتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گلیشئیر پر چلنا ہمیشہ ایک ناخوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ 
اردوکس کیمپ تک ہم گلیشئیر کے دائیں طرف پہاڑ کے دامن میں چل رہے تھے۔ اب گلیشئیر کے وسط سے گزر کر بائیں طرف گلیشئیر کے اوپر سفر کر رہے تھے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا طویل سفر ہے۔ جوں جوں دھوپ تیز ہورہی تھی گرمی کی وجہ سے چڑچڑا پن محسوس ہورہا تھا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ برف کے اوپر چلتے ہوئے جہاں دائیں بائیں برف سے ڈھکے پہاڑ ہوں اور ہوا بھی انہی پہاڑوں سے ٹکرا کر آرہی ہو، اگر ایسے میں کوئی گرمی کا شکوہ کرے تو یہ نہ ماننے والی بات ہے۔ دراصل اونچائی پر دھوپ کی تپش سے زیادہ اسکی شعاعوں کی چبھن ہوتی ہے۔ بالائے بنفشی شعائیں ( Ultraviolet rays) جلد کو جھلساتی ہیں۔ اسکے علاوہ وزن اٹھا کر مسلسل چلنے اور چڑھائی اترائی میں زور لگانے کی وجہ سے جسم کی اپنی گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے اور اتنا پسینہ آتا ہے کہ آپ قمیض نچوڑیں تو بلا مبالغہ پسینہ ایسا نکلے گا جیسے دھلی ہوئی قمیض میں سے پانی۔ 
گیارہ بجے کے قریب ہم گورو ون (Goro - I) کیمپ پہنچ گئے۔ یہاں ایک گھنٹہ قیام کرنا تھا۔ دوپہر کا کھانا جو صبح پیک کیا گیا تھا وہ نکالا گیا۔ اسکے علاوہ نوڈلز بنائے گئے اور اس کے بعد چائے بھی بنائی گئی۔ لیکن کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا حالانکہ بھوک تھی لیکن گرم گرم روٹی یا دال وغیرہ کھانے کو دل کر رہا تھا۔ 
کھانے پینے سے فارغ ہوکر اور آرام کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ اب مزید مشکل اور پرپیچ ہوتا جارہا تھا۔ دور سے ایک فوجی چوکی نما جگہ نظر آرہی تھی جہاں اگلو (Igloo ) بھی تھے۔ قریب جاکر پتا چلا کہ یہ فوجی چوکی ہے۔ میں نے گائیڈ سے کہا کہ ان لوگوں نے دال لازمی پکائی ہوگی اور مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ قریب جاکر گائیڈ نے ان میں سے کسی کو پہچان لیا۔ ان سے سلام دعا کی اور انہوں نے اگلو میں تھوڑی دیر آرام کرنے کا کہا جتنی دیر میں کھانا تیار ہوتا۔ یہ ایسی پیش کش تھی جسے رد کرنا ممکن نہیں تھا۔ 
اگلو کے اندر بڑا نرم گدا پچھا ہوا تھا اور اندر کا ماحول خیمے سے تو بدرجہا بہتر تھا۔ نرم گدے پر بیٹھنے کے بعد محسوس ہورہا تھا جیسے سالوں بعد گدا نصیب ہوا ہو۔ میں آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ ابھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپایا تھا کہ کھانا آگیا۔ چنے کی دال اور گرم روٹی اوپر سے بھوک، اس کھانے کا جو مزہ آیا تھا یقین کریں کسی فائیو سٹار ہوٹل کے بفے میں بھی وہ مزہ نہیں آیا۔ 
کھانے کھانے اور تھوڑی دیر نرم گدے پر لیٹنے کے بعد ایک بار پھر یہ سوچ کر سفر شروع کردیا کہ جانا تو خود چل کر ہی ہے کسی نے اٹھا کر نہیں لے جانا۔
دو گھنٹے مزید چلنے کے بعد ایک بڑا فوجی کیمپ نظر آیا۔ وہاں بھی اگلو دیکھ کر دل بڑا للچایا کہ تھوڑی دیر آرام کیا جائے لیکن پھر مزید دیر ہوجاتی اسلئے چلتے رہنا تھا۔ 
اس کیمپ سے ایک گھنٹہ مزید آگے سفر کرنے کے بعد گورو ٹو کیمپ نظر آیا جہاں ہم نے پڑاو ڈالنا تھا۔ کیمپ پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین بج گئے۔ خیمے پہلے سے لگ چکے تھے۔ تھوڑی دیر کچن ٹینٹ میں بیٹھنے اور چائے پینے کے بعد میں اپنے خیمے میں آیا اور لیٹا تو بہت گہری نیند سویا۔ تھوڑی دیر بعد جب آنکھ کھلی تو گائیڈ مجھے زور زور سے ہلا کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ بولا وہ چوکی سے فوجی آئے ہیں رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے بہت برا لگا ان کا آنا لیکن لہو کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ فوجی میرے خیمے سے ذرا فاصلے پر کھڑا تھا۔ میں نے قریب جاکر سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ تو ایسے سورہے تھے جیسے راولپنڈی یا اسلام آباد میں گھر میں پڑے ہوں۔ میرا موڈ خراب تو ویسے بھی تھا یہ بات سن کر خاموش رہنا ناممکن تھا۔ میں نے کہا معافی چاہتا ہوں مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں آپ کے گھر میں سورہا تھا۔ 
میری بات کی کاٹ اور لہجے کی تلخی شاید اسے سمجھ آگئی۔ اس نے سوالات پوچھے اور جوابات سن کر فارم فل کیا۔ اسکے بعد کہنے لگا کہ میں نے سونے والی بات اسلئے کی کہ ہمیں سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ جب بھی اونچائی کی طرف سفر کریں تو فورا" جاکر بالکل نہیں سونا چاہے کتنی ہی تھکاوٹ کیوں نہ ہو۔ کم سے کم تین سے چار گھنٹے انتظار کریں اس کے بعد سوئیں۔ 
یہ بات سن کر مجھے خود بھی شرمندگی ہورہی تھی کہ میں نے شاید بہت سخت بات کردی۔ فوجی نے بتایا کہ انکے کیمپ میں ڈسپنسری اور دوائیاں موجود ہیں اگر کسی کو کسی قسم کی طبی امداد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کیمپ آسکتا ہے۔ 
اس کے بعد وہ واپس چلا گیا۔ میں دوبارہ نہیں سویا اور ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارتا رہا۔ شام ہوتے ہی کھانا کھایا اور خیمے میں سونے کے لئے چلا گیا۔ دل بہت خوش تھا کہ کل ہم کانکورڈیا پہنچ جائیں گے جہاں سے کے ٹو پہلی بار نظر آئے گا آمنے سامنے اک دوسرے کا دیدار ہوگا۔ اور پھر کے ٹو کے بارے میں سوچتے سوچتے سوگیا۔ 
جاری ہے

کے_ٹو_نامہ قسط - 6 خوبرسے سے اردوکس کیمپ تک

14 جولائی 2018

صبح سویرے اٹھے تو طبیعت اتنی ہشاش بشاش نہیں تھی۔ پچھلے دن کے مشکل سفر کی وجہ سے جسم میں جگہ جگہ درد محسوس ہورہا تھا۔ اگرچہ ابھی ٹانگوں نے جواب نہیں دیا تھا تاہم لگ رہا تھا کہ مسلسل سفر کے آثار جسم پر ظاہر ہورہے تھے۔ ہمارے ساتھ جو اک دوسرا گروپ چل رہا تھا اس میں کچھ تلخی پیدا گے تھی۔ اس گروپ کے ارکان ابھی تک ایک صفحے پر نہیں تھے۔ 
پہاڑوں میں سفر کرنے کیلئے ساتھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ سب لوگوں کی رائے ایک ہونا ضروری ہے۔ اب اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو گروپ پہلے سے اکٹھے سفر کرتا رہا ہو اور ایک دوسرے کا احترام موجود ہو اور پھر گروپ کا لیڈر ایسا ہو جو اپنی بات منوا سکے۔ اس گروپ میں ایک کمپنی کا مالک تھا جو ڈرون کیمرے سے اشتہاروں کیلئے وڈیوز بناتا جاتا تھا اور اپنی مرضی سے چل رہا تھا۔ دوسری کراچی کی ایک خاتون تھی جسکے لئے چلنا مشکل ہورہا تھا اور خوبرسے پہنچتے پہنچتے اسکی ٹانگیں جواب دے گئی تھیں لیکن وہ آگے جانے پر ضد تھیں۔ ایک پشاور کا پٹھان تھا جو گائیڈ کی کم سنتا اور اپنی مرضی زیادہ کرتا۔ اور ایک پرتگال کا ٹریکر تھا جو جسمانی لحاظ سے کافی مضبوط تھا اور اپنے گروپ کی سست رفتاری سے خاصا نالاں تھا۔ پچھلے روز کیمپ پہنچنے کے بعد ان میں کچھ تند و تیز باتیں ہوئیں لیکن مسئلہ کسی نہ کسی طرح حل ہوگیا تاہم انکا گائیڈ مطمئن نہیں تھا اور اسکا شکوہ یہی تھا کہ سب اپنی مرضی سے چلتے ہیں اس کی کوئی نہیں سنتا۔ صبح وہ ہم سے پہلے ہی چل پڑے تھے۔ ہم بھی اپنا سامان سمیٹ کر چل پڑے۔ اب راستہ بلتورو گلیشئیر کے دائیں طرف پہاڑ کے ساتھ تھا۔ جہاں پہاڑ راستہ نہ دیتا وہاں گلیشئیر کی طرف اتر کر گزرتے اور پھر پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتے۔ یہ کل کے راستے جتنا مشکل اور خطرناک نہیں تھا لیکن تھکا دینے والا ضرور تھا۔ پہاڑ کے دامن میں مختلف قسم کی جھاڑیاں تھیں اور چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہماری رفتار سست تھی۔ بار بار رکنا پڑ رہا تھا۔ ہر بار نڈھال ہوکر یہی سوچتے کہ مزید آگے جانے کا واقعی کوئی فائدہ ہے۔ لیکن جونہی سانس بحال ہوتی اور جسم میں توانائی لوٹ آتی دوبارہ سفر شروع ہوجاتا۔ اب پائیو پیک ہمارے پیچھے تھی اور ٹرینگو ٹاور بائیں طرف گلیشئر کے پار بہت واضح اور نظر آرہا تھا۔ ٹرینگو ٹاور بچپن میں کسی سیگریٹ کے اشتہار میں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ ٹرینگو ٹاور کی ساخت بالکل ایسی ہے جیسے کسی نے ایک بہت بڑی سیدھی چٹان کھڑی کردی ہو۔ راستے میں گلیشئیرز کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ڈیڑھ دو کلومیٹر چوڑے اور نامعلوم گہرائی کے اس برفانی دریا کے اوپر اتنے بڑے بڑے پہاڑ نما پتھر کہاں سے اور کیسے آگئے۔ پتھر نزدیکی پہاڑ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بھی تھے۔ اور وہ ڈھلان اتنی بڑی نہیں تھی کہ اتنا بڑا پتھر اتنی دور تک کسی طرح لڑھک کر پہنچ جائے۔ لہذا یہ مفروضہ تو غلط تھا۔ دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہے کہ جوبرف نظر آرہی ہے یہ پہلے سے موجود تھی اور پھر اوپر سے پانی کا کوئی بہت بڑا ریلا ان پتھروں کو یہاں تک لایا۔ یہ اسلئے درست نہیں لگتا کہ یہاں اتنا پانی کہاں سے آیا۔ اس علاقے میں بارش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے سارا سال برفباری ہی ہوتی ہے۔ اور اگر اتنا بڑا ریلا کبھی آیا ہوگا تو میدانی علاقوں میں تو آبادی بچی ہی نہیں ہوگی۔ ایسا صرف طوفان نوح میں ممکن تھا۔ میں یہ سارا سفر گلیشئیرز کی ساخت اور ان کے اوپر موجود پہاڑ نما پتھروں کی گتھی سلجھانے میں الجھا رہا۔ دوپہر کا کھانا راستے میں رک کر کھایا۔ کھانے میں پراٹھے کے اندر آملیٹ رکھ کر پیش کیا گیا جو صبح ناشتے کے وقت بنایا گیا تھا۔ 
کھانے کا وقفے میں کھانے سے زیادہ اچھا وہ آرام تھا جو اس نسبتا" طویل وقفے کے بعد نصیب ہوا۔ ہمارے ساتھ کے تقریبا" سارے گروپ آگے نکل چکے تھے اور ہمارے پورٹرز بھی۔ ہم اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے یہ سوچ کر کہ کونسا ہم نے کیمپ میں جلدی جاکر حاضری لگانی ہے۔ 
تین بجے کے قریب اوپر جھاڑیوں کی طرف اشارہ کرکے گائیڈ نے بتایا کہ وہ اردوکس کیمپ ہے۔ سارے دن کی تھکاوٹ کے بعد یہ چڑھائی عذاب لگ رہی تھی۔ لیکن کیمپ نظر آگیا تھا اسلئے ہم نے اپنی رفتار مزید کم کردی تاکہ طاقت یکجا کرکے اوپر چڑھ سکیں۔ اور پھر رینگتے ہوئے کیمپ میں پہنچ گئے۔ کیمپ میں انتہائی بائیں طرف ایک بہت بڑی چٹان پر میرا خیمہ لگا ہوا تھا۔ یہ کیمپ کی سب سے خوبصورت جگہ تھی۔ یہاں سے ایک طرف پورا کیمپ اور دوسری طرف پورا گلیشئیر نظر آرہا تھا۔ 
میرے سٹاف والوں کو مجھ سے خصوصی محبت تھی اسلئے جن کے پاس میرا خیمپ ہوتا وہ پورٹر ہر کیمپ میں کوشش کرکے سب سے پہلے پہنچتا اور سب سے اچھی جگہ خیمہ نصب کرتا۔ 
تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد کیمپ کا جائزہ لینے کیلئے نکل پڑا۔ یہ بھی بہت خوبصورت کیمپ ہے۔ یہاں بڑے درخت تو نہیں لیکن قد آدم جھاڑیاں اور سبزہ کافی مقدار میں ہے۔ 
16 اگست 2011 کو اس کیمپ میں ایک پہاڑی چٹان گری۔ "ہنزہ گائیڈز پاکستان" کی قیادت میں انگلینڈ کی "دی ماونٹین" کمپنی کے سیاحوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ضلع شگھر سے تعلق رکھنے والے تین پورٹر محمد حسین، محمد اکبر اور محمد ایک چٹان کے نیچے دب گئے تھے۔ اس چٹان پر یادگاری تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ ان کے ایصال ثواب کیلئے اس زیر چٹان قبر پر فاتحہ پڑھی۔ کیمپ کے اوپر اب بھی بڑی بڑی چٹانیں موجود ہیں جو زلزلے کی صورت میں کسی بھی وقت لڑھک سکتی ہیں۔ کیمپ کے مشرق میں ایک فوجی کیمپ ہے اور اوپر پہاڑی پر وائرلیس ٹاور بھی نصب کیا گیا ہے۔ 
شام کے قریب واپس خیمے میں آکر تھوڑی دیر آرام کیا۔ رات کا کھانا تیار ہوا تو کھانا کھایا اور طے یہ ہوا کہ کل دوپہر کو تھوڑی دیر گورو ون Goro-I پر رکیں گے اور رات گورو ٹو Goro-II کیمپ میں گزاریں گے۔ اس کیمپ کے بعد پہاڑ سے بالکل ہٹ کر بلتورو گلیشئیر کے سینے پر چل کر سفر کرنا تھا. رات کے وقت کل کے سفر کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کس وقت آنکھ لگی اور سوگیا۔ 
جاری ہے۔

کے_ٹو_نامہ قسط - 5مونڈروں سے پائیو اور پائیو سے خوبرسے

12 اور 13جولائی 2018

صبح آنکھ کھلی تو اچھے خاصے تازہ دم ہوگئے تھے۔ صبح ناشتے کے وقت معمول سے کم عجلت تھی۔ ہم نے بھی خاموش رہنے میں عافیت سمجھی کہ کہیں ہمارے پوچھنے پر وہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں کوئی جلدی ہے اور وہ بھی جلدی جلدی کام نمٹائیں۔ مجھے جلد بازی ویسے بھی نہیں پسند اور صبح صبح تو بالکل نہیں پسند۔ ناشتہ کرتے اور سامان سمیٹتے جس وقت ہم چلے تو ساڑھے سات بج چکے تھے۔ پتا چلا کہ آج فاصلہ کم ہے اسلئے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ اب راستہ آہستہ آہستہ مشکل ہونا شروع ہوگیا۔ مشکل اس طرح کہ اس میں چڑھائی اترائی کا تناسب ذرا بڑھ گا لیکن خطرناک نہیں تھا۔
دو گھنٹے چلنے کے بعد گائیڈ نے سامنے پہاڑ پر درختوں اور ہریالی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ سامنے پائیو کیمپ ہے اور اسکے پیچھے جو چوٹی نظر آتی ہے وہ پائیو پیک (Paiju Peak)۔
پائیو پیک 6660 میٹر بلند چوٹی ہے اور بلتورو رینج میں واقع ہے۔ اسی چوٹی کے دامن میں ہونے کی وجہ سے اس کیمپ کو پائیو کیمپ کہا جاتا ہے۔ پائیو پیک بلتورو گلئشئیر میں بہت اہم ہے۔ یہاں سے گزرنے کے بعد کئی حوالوں سے پائیو پیک کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ آپ نے نماز پڑھنی ہے تو منہ پائیو پیک کی طرف کرکے پڑھنی ہے یہی قبلہ ہے۔ صبح صبح اٹھ کر سب سے پہلے پائیو پیک کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر پائیو پیک کے اوپر آسمان صاف ہے تو دن بھر موسم صاف رہے گا۔ لیکن اگر اس کے اوپر بادل کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہو تو سب پریشان ہوجاتے ہیں کہ موسم کسی بھی وقت خراب ہوسکتا ہے۔ یہ مقامی لوگوں کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔
فاصلہ دیکھ کر مجھے لگا کہ ہم آدھے گھنٹے میں ہی پہنچ جائیں گے۔ لیکن پہاڑوں میں فاصلے ہمیشہ دھوکہ دیتے ہیں۔ جتنا آپ پہاڑ کی طرف چلتے ہیں اتنا ہی دور ہوتا جاتا ہے۔ کیمپ اونچائی پر تھا اور اسکا مطلب تھا کہ ہم نے اوپر کی طرف جانا تھا جس سے ہماری رفتار سست اور وقفے بڑھ رہے تھے۔ ساڑھےبارہ بجے کے قریب ہم اوپر کیمپ کے کنارے تک پہنچ گئے جہاں بڑے بڑے سایہ دار درخت تھے۔ ہمارے پہنچتے ہی عباس بھی وہاں آنکلا۔ کیمپ ابھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے عباس سے پوچھا کی کیمپ کہاں ہے؟ وہ بولا بس ساتھ ہی ہے آپ بیٹھ جائیں آرام کرلیں۔ میں نے کہا آپ کو کیسے پتا تھا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں؟ وہ بولا کہ میں نے صبح دوربین سے دیکھ لیا تھا آپ لوگوں کو اور مجھے ا ندازہ تھا کہ آپ لوگ اس وقت تک پہنچ جائیں گے۔ میں تھوڑی دیر درخت کے نیچے بیٹھا رہا اس کے بعد درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اوپر بیٹھ گیا۔ میں نے ایسا کیوں کیا مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی۔ شاید بچپن میں سارا دن درختوزن کی چوٹیوں پر گزارنے کی پرانی عادت جاگ گئی تھی۔ آدھا گھنٹہ وہاں آرام کرنے کے بعد ہم کیمپ کی طرف بڑھے۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد سامنے کیمپ نظر آگیا۔ کیمپ میں بہت رونق تھی۔ ہر طرف رنگ برنگے خیمے بڑے بڑے درختوں کی چھاؤں میں لگے ہوئے تھے۔ پائیو کیمپ میرے مطابق اس راستے کا سب سے خوبصورت کیمپ ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے گھنے درخت ہیں، نیچے دریا بہتا ہے۔ غسل خانے اور بیت الخلا بنے ہوئے ہیں اور ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد نہانے چلا گیا۔ پانی بہت زیادہ ٹھنڈا تھا لیکن بتایا گیا تھا کہ ان سے آگے نہانا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہوجائیگا۔ اسکے بعد دوپہر کا کھانا کھایا اور میں نیچے درختوں کے جھنڈ میں چلا گیا۔ درختوں میں موجود پرندوں کا نظارہ کرنے لگا۔ یہاں سے ٹرینگو ٹاور بھی صاف نظر آتا ہے۔ اوپر ایک نئے گروپ کے پہنچنے کی اطلاع ملی۔ میں اٹھ کر اوپر آیا تو پتا چلا کہ پانچ نوجوان راولپنڈی سے آئے ہیں اور انکے ساتھ صرف اک پورٹر ہے۔ سارا سامان خود اٹھا کر لائے ہیں پورٹر بھی صرف راستہ دکھانے کیلئے ساتھ رکھا ہے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ڈبوں میں بند خوراک ساتھ لائے ہیں اور گرم کرنے کے گیس سلنڈر ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس 25 سے 30 کلو وزنی سامان تھا۔ ان کا یہاں تک پہنچنا بذات خود ایک کمال تھا۔ وہ طالبعلم تھے اور انہوں نے بتایا کہ ان کا بجٹ محدود ہے اسلئے وہ اپنی مدد آپ کے تحت یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کو سب نے مشورہ دیا کہ یہ بہت خطرناک ہے اور اتنے وزن کیساتھ چلنا ان کو مشکل میں ڈال دیگا کونکہ ہاں سے آگے راستہ مشکل اور ناہموار ہے۔ اگر کسی ایک کو بھی کوئی چوٹ لگی یا پاوں میں موچ بھی آگئی تو واپس جانا ناممکن ہوجائے گا۔ اسلئے مناسب یہی ہے کہ یہیں جتنی دیر رکنا چاہتے ہیں رکیں ادھر ادھر پہاڑوں میں گھومیں پھریں اور پھر اپنی خوراک کو دیکھتے ہوئے یہیں سے واپس چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے جہاں تک جاسکے جائیں گے اور اگر جانا ممکن نہ ہوا تو واپس چلے جائیں گے۔ 
رات کے کھانے کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ صبح جس قدر ممکن ہوا جلدی نکلیں گے۔ اسکے بعد سارا سفر گلیشئیر کے اوپر تھا اور مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی تھا۔ اسکے علاوہ خوبرسے کیمپ سے پہلے ایک ندی کو پار کرنا ہے اور اگر 12 بجے سے پہلے وہ ندی پار نہ ہوئی تو پار کرنا تقریبا " ناممکن ہوگا۔ اسکے بعد پانی بہت بڑھ جاتا ہے اور رسی لگا کر پار کرنا بھی خطرناک ہوتا ہے۔ 
صبح باوجود کوشش کے بھی بہت جلدی نہیں نکل سکے اور نکلتے نکلتے ساڑھے چھ بج گئے تھے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ راستہ واقعی بہت مشکل ہے۔ گلیشئیر پر کوئی راستہ ہوتا ہی نہیں۔ ہر گروپ والے پیچھے آنے والوں کیلئے جگہ جگہ دوچار پتھر ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر راستے کی نشاندہی کرجاتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود بھی اگر دو تین دن پہلے کے نشانات لگے ہوں تو امکان یہی ہوتا ہے کہ راستہ کہیں نہ کہیں سے کٹ چکا ہوتا ہے کیونکہ برف مسلسل حرکت میں رہتی ہے۔ راستہ بہت زیادہ ناہموار تھا اور صحیح معنوں میں آزما رہا تھا۔ اور باوجود اسکے کہ برف کے اوپر چل رہے تھے گرمی لگ رہی تھی۔ ہر پانچ دس منٹ کے بعد رکنا پڑ رہا تھا۔ بہرحال گرتے پڑتے، لڑکھڑاتے اور سنبھلتے آہستہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ کئی جگہوں پر راستہ بہت تنگ اور خطرناک تھا اور نیچے سینکڑوں فٹ گہری کھائیاں تھیں۔ راستے میں ہمیں ایک گروپ ملا جسکے کے گائیڈ نے بتایا کہ انہوں نے چالیس منٹ پہلے ندی عبور کی ہے اور ہمارے پہنچتے پہنچتے پانی اتنا بڑھ چکا ہوگا کہ پار کرنا ناممکن گا یا پھر انتہائی خطرناک۔ ہمارا گائیڈ کچھ زیادہ ہی محتاط اور وہمی تھا۔ اس نے کہا کہ ہم متبادل راستے سے جائیں گے جو کہ لمبا ہے لیکن محفوظ ہے۔ ہم راستہ دائیں طرف چھوڑ کر بائیں طرف پہاڑوں میں گھس گئے جو کہ دراصل پہاڑ نہیں تھے بلکہ گلیشئیر تھا۔ کافی دیر تک داں بائیں اور آگے پیچھے گھومتے رہے لیکن راستہ نہیں ملا۔ گویا ہم دائرے میں چکر لگا رہے تھے۔ آخر ہم کچھ لوگوں نے ایک اونچی جگہ پر جاکر راستہ دیکھا اور ایک جگہ ایسی نظر آگئی جہاں تھوڑی سی کوشش سے ایک مشکل جگہ عبور کی جاسکتی تھی۔ گرتے پڑتے اسی طرف چل دئیے۔ گلیشئیر میں راستہ نکالنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں کسی انجان گھر میں راستہ ڈھونڈنا۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ گلیشئیر میں وزن اٹھا کر چلنے سے سانس بھی پھولا ہوا ہوتا ہے۔ آخر ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے ہم نے اوپر چڑھنا تھا۔ وہ جگہ مشکل تھی۔ دائیں بائیں راستہ دیکھا لیکن نظر نہیں آیا۔ مجبورا" ایک بندے کو اوپر چڑھنا پڑا اور اس نے اوپر چڑھ کر رسی لٹکا دی اور پھر ایک ایک کرکے سارا قافلہ اوپر پہنچ گیا۔ اسکے بعد دور سے پہاڑ کے دامن میں خوبرسے کیمپ بھی نظر آنے لگا۔ کیمپ دیکھتے ہی کچھ ہوش ٹھکانے آگئے۔ وہاں سے کیمپ تک پہنچتے پہنچتے ہمیں ایک گھنٹہ مزید لگا۔ ساڑھے تین بجے کے قریب ہم خوبرسے کیمپ پہنچ گئے۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔
تھوڑی دیر سستانے کے بعد کیمپ کا چکر لگایا تو وہاں دو آدمی ملے جن کی جلد ایسی کالی تھی جیسے جل کر کوئلہ بنی ہو۔ تعارف کے بعد پتا چلا کہ وہ ہائی الٹچیوڈ پورٹرز ہیں اور چائنیز گروپ کے ساتھ کے ٹو سر کرنے گئے تھے۔ رسی ٹوٹنے کی وجہ سے کوہ پیما مر گئے جن میں سے ایک کی لاش بھی نہیں مل سکی۔ وہ لوگ واپس جارہے تھے اور یہاں رات گزارنے کیلئے رکے تھے۔ کیمپ میں آبادی اچھی خاصی تھی۔ کچھ گروپ اوپر جارہے تھے اور کچھ واپس لوٹ رہے تھے۔ یہاں ایک امریکی پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ تاریخ کے پروفیسر تھے۔ پاکستان پہلی دفعہ آئے تھے اور پاکستان کے قدرتی حسن اور لوگوں سے بہت متاثر تھے۔ اسکے مطابق پاکستان ٹورزم کے لحاظ سے دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اور یہ کہ پاکستان جیسا بھی ہے کم سے کم ایک فیصد بھی ویسا نہیں جیسا میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔
شام تک ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزارا۔ شام ہوتے ہی سردی بہت بڑھ گئی۔ شام کے بعد رات کا کھانا کھایا اور پھر اگلے دن کی منصوبہ بندی کرکے سونے کیلئے اپنے خیمے میں چلا گیا۔ جسم تھکاوٹ اور درد سے چور تھا اور ساری رات بہت بے چین گزری۔ خوبرسے کی رات مشکل راتوں میں سے ایک رات تھی۔ اگرچہ میں بہت گہری نیند سونے کا عادی ہوں لیکن اس رات بار بار آنکھ کھلتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

کے_ٹو_نامہ - قسط - 4 جولا کیمپ سے مونڈروں

11 جولائی 2018

رات مجموعی طور پر سکون سے گزری تاہم کبھی کبھی خچروں کے ہنہنانے سے آنکھ کھل جاتی جس سے لگتا تھا کہ شاید کسی میدان جنگ میں ہوں جہاں گھڑ سوار لشکر حملہ کرنے کے تیار ہے۔ خچر اگرچہ گھوڑے اور گدھے کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے تاہم وہ زبان اپنے عالی نسب آباو اجداد کی بولتے ہیں۔ وہ گدھے کی طرح رینکتے نہیں بلکہ گھوڑے کی طرح ہنہناتے ہیں۔ شاید اسی سے متاثر ہوکر سرحد کے دونوں طرف ہندوستانی ابھی تک اپنی زبان اردو اور ہندی کے بجائے انگریزی میں بات کرنے کو نہ صرف ترجیح دیتے بلکہ قابل فخر سمجھتے ہیں۔ آخر فرنگی فاتح تھا اور ہمارے آباو اجداد مفتوح۔ خیر اس بات کو نظر انداز کردیں یہ غیر اہم بلکہ لغو بات ہے۔
صبح سویرے اٹھے اور سامان سمیٹنا شروع کردیا۔ اس خانہ بدوش زندگی میں شروع شروع میں سب سے ناپسندیدہ کام روزانہ دن میں ایک بار سامان باندھنا اور پھر کھولنا سب سے مشکل کام لگتا ہے۔ تاہم دو تین دن بعد اس کی عادت ہوجاتی ہے اور آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس ترتیب سے سامان کھولنا اور بند کرنا ہے۔ ناشتہ کرکے ہم اگلی منزل کی طرف چل پڑے باقی سٹاف کچن اورخیمے سمیٹنے میں لگا رہا۔ 
راستہ اب مزید مشکل ہورہا تھا۔ چڑھائی تو اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن دو تین کلومیٹر گول گول پتھروں پہ چلنا تھا جس سے الجھن ہورہی تھی۔ دھوپ تیز تھی اور جھلسا رہی تھی۔ ہمارا ارادہ پائیو کیمپ تک پہنچنے کا تھا لیکن گزشتہ روز کے طویل سفر کے بعد جسم میں جگہ جگہ درد محسوس ہورہا تھا۔ چونکہ میں اپنی روز مرہ زندگی میں ورزش کرنے کا عادی نہیں ہوں اور خرگوش کی بجائے کچھوے کی زندگی کو ترجیح دیتا ہوں۔ بقول شخصے عمردرازی کا راز ورزش میں نہیں بلکہ تن آسانی میں ہے۔ ثبوت کے طور پر وہ فرماتے ہیں کہ خرگوش ساری زندگی دوڑ تا پھرتا ہے اور بمشکل دس سال جیتا ہے جبکہ کچھوا متانت سے نپے تلے انداز میں چلتا ہے اور ورزش سے پرہیز کرتا ہے اور سیکڑوں سال جیتا ہے۔ اسی لئے ہم نے کبھی باقاعدہ ورزش نہیں کی۔ اسکے اثرات اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ پائیو کیمپ کے بعد کہاں جانا ہے؟ اس نے بتایا کہ کل کا دن آرام کریں گے اور پھر پرسوں آگے سفر جاری رکھیں گے۔ میں تھکا ہوا تو پہلے سے تھا اسلئے میں نے کہا کہ ہم آج پائیو نہیں جائیں گے۔ درمیان میں ہی دوپہر کو رک جائیں گے اور کل آرام کی بجائے پائیو کا سفر کریں گے۔ تھکاوٹ کے علاوہ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ ایک دن آرام کے بعد ممکن ہے ہم اپنا سفر جاری نہ رکھ سکیں۔ اس نے بتایا کہ درمیان میں مونڈروں کیمپ ہے وہاں ہم رک سکتے ہیں۔ یہ حوصلہ افزا بات تھی۔ اب منزل قریب لگنے لگی تو حوصلہ بحال ہونے لگا۔ دوپہر بارہ بجے ہم مونڈروں کیمپ پہنچ گئے۔ بہت تیز دوھوپ تھی اور دو دن دھوپ میں چلتے رہنے کی وجہ سے جسم پر میل کی باقاعدہ تہہ جم چکی تھی۔ کیمپ ایک خالی میدان تھا جسکے ایک طرف دریا اور دوسری طرف پہاڑ تھا۔ ایک چھوٹی سی دوکان تھی جہاں ضرورت کی کچھ چیزیں جیسے آٹا، گھی، کولڈ ڈرنکس، بسکٹ، سیگریٹ اور نمکو وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ قیمتیں زیادہ تھیں مثلا" ڈیڑھ لیٹر پیپسی کی بوتل پانچ سو روپے کی ملتی تھی تاہم یہاں تک سامان پہنچانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ پانی کا خاطر خواہ بندوبست تھا۔ پہاڑ سے برف پگھل کر جو پانی دریا کی طرف جارہا تھا اس سے ایک نالی کے ذریعے کیمپ کی طرف پانی موڑا گیا تھا۔ کیمپ میں ایک 4 فٹ قطر کا چوڑا اور تقریبا" چار فٹ گہرا گڑھا کھودا کر تالاب بنایا گیا تھا جو ایک طرح کا سوئمنگ پول تھا۔ میں اس سوئمنگ پول میں نہایا اور کپڑے تبدیل کئے اور میلے کپڑے دھوئے۔ اسکے بعد کھانا تیار ہوا تو دوپہر کا کھانا کھایا۔ 
کچن سٹاف اور گائیڈ کا کھانا ہمارے کھانے کے ساتھ بنتا تھا جبکہ پورٹرز اپنا کھانا خود بناتے تھے۔ کھانے کے بعد سٹاف والوں نے بلتی چائے بنانا شروع کیا۔ یہ لوگ بلتی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں۔ سبز چائے کی طرح ہرے رنگ کی پتی ہوتی ہے جسے کافی دیر ابالا جاتا ہے۔ جب ابل ابل کر اسکا رنگ کالا ہوجاتا ہے تو اس میں خشک دودھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ابالنے کا ایک اور دور چلتا ہے۔ اسکے بعد اسمیں خالص گھی اور نمک ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ جو ایک شوربہ نما چیز بنتی ہے اسے بلتی چائے کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے اصرار پر میں نے ایک گھونٹ پیا اور اسکے بعد آج تک دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔ وہاں ایک دس بارہ سال کا بچہ بھی دوکان پہ کام کرتا تھا۔ اسکی آنکھیں بہت خراب تھیں اور کالا چشمہ لگائے بغیر آنکھیں نہیں کھول سکتا تھا۔ میرے پاس آنکھوں کی دوائی موجود تھی۔ اسکی آنکھوں میں دوائی لگائی۔ اسکے بعد واپس آنے والے ایک پورٹر نے اپنا انگوٹھا دکھایا جو کہ کسی نوکیلے پتھر سے کٹ گیا تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے بچےکی آنکھوں میں دوائی ڈالنے والی بات بتادی تھی جس کی وجہ سے وہ سمجھا کہ شاید میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ میں نے اسے خبردار کیا کہ میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں البتہ دوائیاں میرے پاس ہیں اور مرہم پٹی کردوں گا۔ لیکن اسکےانگوٹھے کی پٹی جیسے کھلی اس میں سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔ 
زخم بڑا اور کھلا ہوا تھا۔ میں نے کہا خون روکنا ضروری ہے اور کم سے کم دو ٹانکے لگیں گے اور درد بھی بہت ہوگا۔ وہ کہنے لگا درد کا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے اسکا زخم صاف کیا اور اپنی ابتدائی طبی امداد والے تھیلے سے سوئی دھاگہ نکال کر دو ٹانکے لگائے۔ اور پھر مرہم پٹی کردی۔ اینٹی بائیوٹک دوائیاں بھی دے دیں۔ اسے بار بار تاکید کی بازو سدھا نہیں لٹکانا بلکہ گلے میں ڈال لینا اور سکردو جاکر ڈاکٹر کو دکھا دینا۔ 
پہاڑوں میں جو سب سے کمیاب چیز ہوتی ہے وہ دوائی ہے۔ لوگ دوائی کسی کو دیتے بھی نہیں کہ اگر کم پڑگئی تو خود کیا کریں گے۔اگر آپ پہاڑوں میں جارہے ہیں تو ضرورت سے زیادہ دوائیاں لے جائیں اور وہاں کے لوگوں میں تقسیم کردیں۔ ابتدائی طبی امداد کی دوائی وہاں کسی کی جان بچا سکتی ہیں۔ 
دھوپ بہت تیز تھی اور جھلسا رہی تھی۔ خیمے کے اندر گرمی تھی اور باہر دھوپ۔ کسی نہ کسی طرح دوپہر کا وقت گزر گیا اور عصر کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ میں نے کیمپ کے پیچھے موجود پہاڑ پر جاکر کیمپ کی کچھ تصویریں بنائیں۔ شام تک ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزارا اور پھر شام کا کھانا تیار ہوگیا۔ وہی مارخور کا گوشت دوبارہ پکایا گیا تھا۔ گوشت واقعی بہت خوش ذائقہ اور منفرد تھا۔ شاید گوشت کی لذت مارخور کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر پورٹرز کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی اس کے بعد میں اپنے خیمے میں چلاگیا۔ یہ خیمے میں تیسری رات تھی اور اب اس کی عادت ہونے لگی تھی۔ شروع میں خیمے پر قبر کا گماں ہوتا تھا کہ اب یہ کافی بڑا لگنے لگا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ لگ گئی اور میں سوگیا۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

کے_ٹو_نامہ - قسط - 3اسکولی سے جولا کیمپ ۔ حصہ دوم

10 جولائی 2018 
 اب راستہ بتدریج مشکل اور ناہموار ہونا شروع ہوگیا۔ لیکن سفر جاری رہا۔ وقفے وقفے سے سانس بحال کرنے کیلئے رکتے بھی رہے۔ پورٹرز ایک بار پھر سامان سمیٹ کر ہم سے آگے نکل گئے۔ صبح سفر کا آغاز کرتے وقت سیاح نکل پڑتے ہیں جبکہ پورٹرز سامان پیک کرکے بعد میں چلتے ہیں۔ پھر وہ راستے میں آگے نکل جاتے ہیں اور جہاں رات گزارنی ہوتی ہے وہاں پہنچ کر سارے ٹینٹ لگا لیتے ہیں اور چیزیں ترتیب سے رکھ کر کچن ٹینٹ لگا کر کچھ نہ کچھ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ جب سیاح پہنچتے ہیں تو سب کچھ پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ کچھ پورٹر اور خچر پیچھے رہ گئے تھے۔ ہماری منزل جھولا کیمپ تھی۔ 

تقریبا ایک کلومیٹر دور سے ہی جھولا کیمپ نظر آنے لگا۔ کیمپ دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوگئے۔ لیکن کیمپ بظاہر جتنا قریب نظر آرہا تھا دراصل اس سے دوگنی دوری پر تھا۔ ہمارے اور کیمپ کے بیچ میں دریا تھا۔ دریا کے کنارے کنارے چل کر کیمپ سے آگے نکل کر دریا پر ایک معلق پُل تھا جہاں سے گزر کر پرلے کنارے جانا تھا اور وہاں سے واپس کیمپ تک آنا تھا۔ پل تک پہنچ کر ہم آرام کرنے کی غرض سے بیٹھ گئے اور تصویریں بنانے لگے۔ پیچھے سے آنے والے ایک پورٹر نے اطلاع دی کہ ایک خچر دریا میں گر کر بہہ گا۔ یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی۔ ہمارا ایک بوجھ خچر پر رکھا گیا تھا اور تمام جمع تفریق کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ وہی خچر گرا ہے جس پر ہمارا سامان بھی تھا۔ باقی سامان اینڈریو اور اسکی بیوی کا تھا۔ اینڈریو کا تعلق آسٹریلیا سے تھا اور اسکی بیوی تائیوان کی رہنے والی تھی۔ انکے گروپ کا تیسرا رکن ڈیاگو تھا جسکا تعلق سوئیزر لینڈ سے تھا لیکن اسکا سامان ایک اور پورٹر کے پاس تھا۔ 

یہ خبر سن کر میری حالت عجیب ہوگئی تھی۔ مجھے تقریبا چپ سی لگ گئِ اور میں حساب کتاب میں مصروف ہوگیا۔ اگر سامان دریا میں خچر کے ساتھ بہہ گیا ہے تو سامان کے بغیر آگے جانا ناممکن تھا۔ لیکن واپس میں کسی قیمت پر ناکام نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں نے سوچ لیا کہ اگر ہمارا سامان پانی میں بہہ گیا ہوا تو یہاں سے ایک پورٹر واپس اسکولی بھیجوں گا اور کمپنی کے منیجر کو پیغام بھجواوونگا کہ سکردو سے سامان لیکر اسکولی بھجوائے اور سامان پہنچنے تک ہم جھولا کیمپ میں انتظار کریں گے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد میری حالت قدرے سنبھل گئی گو کہ دل کی رفتار ابھی بھی نارمل نہیں ہوئی تھی۔ ماضی میں میں نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی مشکل پیش آتی ہے جسکا حل میرے بس سے باہر ہو تو میں منت مانتا ہوں اور یہ تجربہ ہر بار کامیاب رہتا ہے۔ مسئلہ جیسا بھی ہو حل ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت بڑا تھا۔ میں نے فورا دل ہی دل میں منت مان لی اور دعا کرتا رہا کہ اللہ آسانی والا معاملہ فرما۔ 
کیمپ پہنچ کر میں نے عباس کو آواز دی جو اسی گروپ کا گائیڈ تھا جس میں تین غیرم ملکی تھے اور جنکا خچر گرا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ہمارا سامان بہہ گیا کیا؟ وہ بولا نہیں آپکا تو سارا سامان پہنچ چکا ہے سامنے پڑا ہے۔ یہ خبر سن کر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سامان بچ جانے کا جشن منانا ہے یا جن کا سامان ضائع ہوگیا انکے ساتھ مل کر انکے سامان کا ماتم کیا جائے۔ بہرحال دل ہی دل میں بہت خوشی  ہوئی۔ راستے کی تھکن گویا اسی ایک خبر سے بالکل جاتی رہی۔ چار بجا چاہتے تھے۔ مجھے شدید پیاس لگ رہی تھی۔ پانی کی بوتل ہمارے پاس تھی جس میں ابالا ہوا پانی تھا لیکن اس پانی کا ذائقہ کچھ عجیب سا تھا۔ اگرچہ وہ عجیب ذائقہ کچھ مانوس سا تھا لیکن بہت برا تھا۔ 

سارا راستہ صرف ایک دو گھونٹ ہی پی لیتا زیادہ نہیں پیا جارہا تھا۔ ایک ٹب میں کوکا کولا اور منرل واٹر کی بوتلیں پڑی تھیں۔ میں نے ایک پورٹر سے پوچھا کہ یہ بوتلیں کس کی ہیں؟ مجھے لگا شاید کسی گروپ کی ہوں گی۔ اس نے بتایا کہ یہ بیچنے کیلئے کیمپ والوں نے رکھی ہیں۔ میں نے فورا پانی کی بوتل اٹھا کر پانی پینا شروع کردیا اور جی بھر کر پیا۔ اسکے بعد قیمت پوچھی تو ڈھائی سو روپے بتائی جو میں نے خوشی خوشی دے دی۔ پیاس سے جو حالت تھی اس وقت پانچ سو میں بھی سستی لگ رہی تھی کیونکہ صاف پانی دستیاب نہیں تھا۔ کیمپ کے ساتھ بہنے والی ندی میں پانی بہت زیادہ اور گدلا تھا۔ شام کے بعد کہیں جاکر پانی کم اور صاف ہوتا اور تب تک انتظار ممکن نہیں تھا۔ 
جوسامان خچر کے ساتھ دریا کی نذر ہوا اس کی تفصیلات پوچھیں تو پتا چلا کہ اینڈریو کی بیوی کا ہے اور وہ زارو قطار رورہی ہے۔ ہم اسکے خیمے میں گئے اور اسے تسلی دی کہ جوضروری سامان ہے وہ ہم مل بانٹ کر گزارہ کرلیں گے۔ اضافی گرم ٹیوپیاں سویٹر جرابیں اکٹھی کرکے اسکے پاس لے گئے۔ اتنے میں سارا سامان بھی پہنچ گیا۔ سامان کھولنے کے بعد پتا چلا کہ اینڈریو کی بیوی کا سامان تو محفوظ ہے اینڈریو کا سامان بہہ گیا ہے۔ اب اینڈریو کی بیوی تو پرسکون ہوگئی لیکن ہمارا کام نئے سرے شروع ہوگیا۔ ہم نے اب اپنی تسلیوں کا رخ اینڈریو کی طرف موڑ دیا۔ لیکن وہ بہت بلند ہمت شخص تھا۔ حسب معمول مسکراتا رہا اور کہا کہ جیسا تھا بھی ہوا گزارہ کرلیں گے۔ کم سے رونا دھونا بند ہوگیا۔ 
کچن سٹاف نے چائے بنا لی تھی ہم چائے پینے کیلئے کچن ٹنٹ میں گئے اور مٹی کے تیل والے سٹو کی بو محسوس کرکے مجھے یاد آگیا کہ پانی میں جو ذائقہ محسوس ہورہا تھا وہ مٹی کے تیل کا ہی تھا کیونکہ پانی اسی سٹو سے ابالا گیا تھا۔ پہاڑوں میں آگ جلانے کیلئے مٹی کا تیل ہی استعمال ہوتا ہے۔ چائے پینے کے بعد اپنے ٹینٹ میں جاکر سلیپنگ بیگ کھول کر بچھایا اور تھوڑی دیر لیٹ گیا۔ اسکے بعد جب سورج ڈھلنے لگا تو میں کیمپ سے دور ایک چٹان کا سہارا لیکر پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر سورج کی آخری کرنوں کا نظارہ کرنے لگا۔ برفیلی چوٹیوں پر سورج کی زرد روشنی سے بالکل ایسا لگ رہاتھا جیسے پہاڑ کی چوٹی یا تو سونے کی بنی ہو یا آگ اگل رہی ہو۔ یہ منظر بہت مسحور کن تھا۔ سورج ڈوبنے کے بعد میں کافی دیر وہیں آنکھیں بند کئے پشت پر بہنے والی ندی اور سامنے بہنے والے دریا کے پانی کا شور سنتا رہا۔ تیزی سے بہتا پانی راستے میں آنے والے پتھروں سے ٹکرا کر ماحول میں عجیپ رومانویت پید اکر رہا تھا۔ دور کیمپ میں پورٹرز کی آوازیں اور کچھ قہقہے اور کبھی گھوڑے یا خچر کی ہنہناہٹ کانوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ 
آنکھیں بند کئے میں چشم تصور سے منظر کشی کرنے لگا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں سیکڑوں سال پہلے کسی لشکر کا حصہ ہوں جس نے شب بسری کیلئے اس وادی میں پڑاو ڈالا ہے۔ کافی دیر اسی طرح خیالات کے گھوڑے دوڑا کر اور خاموشی میں قدرت سے مکالمہ بازی کرنے کے بعد میں اٹھا اور کیمپ کی طرف آگیا۔ شام کا کھانا تیار ہونے والا تھا۔ کھانا بہت خاص تھا۔ مارخور کا گوشت تیار ہورہا تھا۔
کچھ دیر بعد کھانا تیار ہوگیا۔ شوربہ تو اچھا تھا لیکن گوشت بہت سخت تھا۔ کک پریشان نظر آرہا تھا۔ میں نے کہا پریشان نہ ہو گوشت سارا نکال کر الگ کرلو آج شوربہ کھا کر گزارہ کرتے ہیں کل دوبارہ یہی گوشت پکا لینا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں ایک چٹائی لیکر کیمپ سے ذرا دور چلا گیا اور چٹائی پچھا کر لیٹ گیا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ ندی کا پانی اب اتر چکا تھا کیونکہ شام کے بعد برف پگھلنے کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ دریا البتہ اپنی پوری رفتار سے بہہ رہا تھا اور اسکی آواز سن کر عجیب سکون محسوس ہورہا تھا۔ آسمان پر ستارے معمول سے کہیں زیادہ تھے۔ کہکشاں بالکل صاف اور واضح نظر آرہی تھی۔ انسانو کی عمومی دست درازی سے محفوظ پہاڑوں میں گرد و غبار اور دھواں نہیں ہوتا اسلئے تمام چھوٹے بڑے ستارے واضح نظر آتے ہیں۔ رات گئے تک میں وہیں لیٹا رہا اور جب آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور ٹھنڈ بڑھنے لگی تو چٹائی لپیٹ کر اپنے خیمے میں چلا گیا اور کروٹیں بدل بدل کر نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ 

جاری ہے

کے_ٹو_نامہ - قسط - 2 اسکولی سے جولا کیمپ حصہ اول

10 جولائی 2018

اسکولی کیمپ وہ آخری مقام ہے جہاں تک کوئی گاڑی جا سکتی ہے۔ اس مقام سے آگے پیدل یا خچر کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اسکولی میں کافی ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل ایک دوکان اور ساتھ کیمپنگ ایریا۔ ہمارا کچن ٹینٹ نہیں لگا تھا اسلئے گائیڈ نے کہا کہ کھانا ہوٹل سے ہی کھائیں گے۔ اس نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ میں تو دال خورا ہوں لیکن وہ سمجھے شاید میں تکلف برت رہا ہوں اسلئے اس نے چکن کڑاہی کا آرڈر دے دیا۔ ہم ایک بغلی کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ کمرے کے اندر قدرے گرم ماحول بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ایک کونے میں کمبل اور رضائیوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ایک رضائی بچھا کر اور ایک کمبل اوپر ڈال کر دبک کر بیٹھ گئے۔ یہ ٹھنڈے موسم کیساتھ پہلا تعارف تھا۔ اگرچہ سکردو میں بھی موسم کافی بہتر تھا لیکن وہاں پنکھا ہلکی رفتار سے چلا کر کمبل ڈالنا پڑتا تھا۔ 

یہاں سردی قدرے زیادہ تھی۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد کھانا آگیا۔ تندور کی گرم روٹیوں کی خوشبو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس مہک نے بھوک کو اور بھڑکایا اورمیں نے اتنا کھانا کھایا جتنا کھا سکتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد دوکان کی طرف گئے وہاں سے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں مثلا اضافی جرابیں، اونی دستانے، سرسوں کا تیل کچھ ٹارچ کیلئے اضافی سیل وغیرہ خرید لئے۔ کچھ خشک کھجوریں بھی لے لیں کہ شاید آگے کام آجائیں۔ تب تک ہمارے ٹینٹ تیار ہوچکے تھے اسلئے ٹینٹ میں جاکر لیٹ گئے اور صبح کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ 

سلیپنگ بیگ جو بطور خاص کوئٹہ سے لیا تھا پہلی بار کھولا۔ بنانے والے کا دعویِ ِتھا کہ یہ منفی تیس درجے فارن ہائٹ تک کھلے آسمان تلے کام کر سکتا ہے لیکن اسمیں گھسنے کے بعد اندازہ ہوا کی شاید اس سے بھی زیادی سردی برداشت کرلیگا۔ ابھی اسکی ایک پرت استعمال کی تھی اور تھوڑی دیر بعد پسینے آنے لگے اسلئے اندر سے نکل کر اسکے اوپر ہی سوگیا۔ جب سردی لگنے لگی تو قمیض اتار کر پھر اندر گھس گیا۔ وہ تو اچھا ہوا نیند آگئی ورنہ نہ جانے کیا کیا اتر جانا تھا۔ 

صبح سویرے جب باہر کسی گروپ کے گائیڈ کی پہلی گڈ مارننگ سنائی دی تو آنکھ کھل گئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو آسمان بالکل صاف تھا۔ یہ ایک اچھا شگون تھا۔ سامان سمیٹ کر کچن ٹینٹ پہنچے جہاں ناشتہ تیار تھا۔ ناشتہ کرکے فارغ ہوئے تو سامان کو پورٹرز کے حساب سے رکسیک میں بند کرکے اسکے بوجھ بنائے گئے۔ حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق ایک پورٹر کو زیادہ سے زیادہ پچیس کلو وزن دیا جا سکتا ہے۔تاہم پورٹر سردار ہر پورٹر کو کم سے کم تیس کلو وزن دیتا ہے۔ اسطرح چھ پورٹرز کا بوجھ پانچ پورٹر اٹھالیتے ہیں اور انہیں ایک پورٹر کے پیسے بچ جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک طرح کا استحصال ہے جو جاری ہے۔ پورٹرز اسکے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتے کیونکہ صبح سویرے آس پاس کے دیہاتوں سے بہت سے پورٹر بوجھ کی تلاش میں وہاں آجاتے ہیں اور جس کو بوجھ یعنی مزدوری مل جائے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ لیکن پورٹر کے بوجھ کا کل وزن تیس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ پورٹرز اپنے کھانے پینے کا سامان یعنی راشن اور برتن وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر پورٹر لگ بھگ پینتیس کلو وزن اٹھا کر چلتا ہے۔ پورٹرز کے پاوں میں عام سی چپل یا ربڑ کے بوٹ ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اچھے جوتے ہوں تو کسی سیاح کی طرف سے دھان کردہ پرانے بوٹ یا لنڈے سے خریدے ہوئے جوگرز ہوتے ہیں۔ 

ہمارا سامان کچھ پورٹرز نے اٹھا لیا اور کچھ دوسرے گروپ کا وزن اٹھانے والے خچروں پر لاد دیا گیا۔ خچر تین پورٹرز کا بوجھ اٹھاتا ہے یعنی ستر سے اسی کلو کے قریب جبکہ گھوڑا دو بوجھ اٹھا لیتا ہے جو پچاس سے ساٹھ کلو کے قریب بنتا ہے۔ 

ہمارا وہ گائیڈ جسکا اندراج کاغذات میں ہوا تھا یہیں سے واپس چلا گیا اور ہمیں اسی گائیڈ کے حوالے کردیا جسکو لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے آرمی والوں نے رد کردیا تھا۔ میں نے اسکا نام نان کسٹم پیڈ گائیڈ رکھ دیا۔ ہم نے اپنا وہ تمام ضروری سامان جو راستے میں ضرورت پڑ سکتا تھا اپنے اپنے بیک پیک میں ڈالا اور ٹریک کی طرف بڑھ گئے۔ ہمارے پورٹرز باورچی اور گائیڈ کچن اور راشن پیک کرنے میں لگے ہوئے تھے جنہوں نے بعد میں ہمارے پیچھے چلنا تھا۔ ہماری رہنمائی کیلئے ایک پورٹر آگے چل رہا تھا ہم اسکے پیچھے ہو لئے۔ 
اسکولی سے آدھا گھنٹا چلنے کے بعد راستہ دائیں طرف مڑگیا جہاں ایک خوبصورت عمارت نظر آرہی تھی۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ قراقرم نیشنل پارک کی حدود یہاں سے شروع ہوتی ہیں اور یہاں پارک میں انٹری  کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور اسکی فیس ادا کی جاتی ہے۔ یہاں تھوڑی دیر سستانے کر تازہ دم ہوئے اتنے میں گائیڈ بھی پیچھے آن پہنچا۔ فارم بھر کر دستخط کردئیے اور گروپ کی فیس تین ہزار روپے گائید نے ادا کردی۔ پاکستانیوں کیلئے گروپ کی فیس تین ہزار روپے ہے چاہے ممبران جتنے بھی ہوں۔ غیر ملکی سیاحوں کیلئے یہ فیس فی کس کے حساب سے لی جاتی ہے اور فیس زیادہ ہے۔ یہاں سے فارغ ہوکر ہم عقبی دروازے سے نکل کر ایک بار پھر چل پڑے۔ 

راستے میں چلتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ گھر سے میں اپنے علاقے کا خاص تحفہ لایا ہوں۔ گائیڈ کا گھر اسکولی کیمپ سے ایک گھنٹہ پیدل مسافت پر تھا اسلئے رات کو وہ اجازت لیکر شب گزاری کیلئے گھر چلا گیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گزشتہ رات میرے بہنوئی نے چوری چھپے ایک مارخور کا شکار کیا تھا۔ ہمارے یہاں شکار کا گوشت سب رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ میں نے گوشت کا یک حصہ آپ لوگوں کیلئے الگ کروایا تھا اور رات کے کھانے میں وہی گوشت پکائیں گے۔ 

ٹریکنگ اور ہائیکنگ میں دوپہر کا کھانا واجبی سا ہوتا ہے۔ صبح ناشتے کے وقت ہی بنا کر پیک کرلیا جاتا ہے اور دوپہر میں کہیں رک کر کھا لیا جاتا ہے۔ باقی سامان منزل پر پہنچ کر ہی کھولا جاتا ہے تاہم چائےاور سوپ کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں اور دوپہر میں سوپ اور چائے بنائی جاتی ہے۔ راستہ ہموار تھا کوئی خاص اتار چڑھاو نہیں تھے اسلئے چلنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آرہی تھی۔ موسم بالکل صاف تھا اور بہت تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی جسکی وجہ سے گرم جیکٹ میں پسینے آنا شروع ہوگئے۔ 

ٹریکنگ کیلئے گرم جیکٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور جیکٹ سب سے اچھی وہی ہوتی ہے جو گرم ہونے کے ساتھ ساتھ وزن میں سب سے ہلکی ہو۔ سب سے مناسب زداون جیکٹ ہوتی ہے۔ اس مِیں پرندوں کے پر بھرے ہوتے ہیں اور بہت ہلکی لیکن انتہائی گرم ہوتی ہے۔ جسم کی گرمی سے اسکے اندر ہوا پھیل جاتی ہے اور اسکی موٹائی میں اضافی ہوجاتا ہے۔ عام جیکٹ سے یہ کم سے کم پانچ گنا اور لیدر جیکٹ سے دس بیس گنا ہلکی ہوتی ہے۔ عموما لوگ گرمی محسوس کرتے ہی جیکٹ اتار دیتے ہیں جبکہ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔ ٹھنڈی ہوا لگنے کی وجہ سے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور سفر میں آپ کو بہت دشواری پیش آسکتی ہے۔ چلتے ہوئے جسم جتنا گرم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ پسینہ نکلنے سے اگر چہ پیاس زیادہ لگتی ہے لیکن پانی کی بوتلیں ساتھ ہوتی ہیں جو اگر خالی بھی ہوجائیں تو راستے میں کسی چشمے یا جھرنے سے بھری جا سکتی ہیں اسلئے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایک اور بات جو میں نے ذاتی تجربے سے اخذ کی ہے وہ یہ کہ چلتے ہوئے کم سے کم رکیں اگر رک جائیں تو بیٹھنے سے حتی الوسع گریز کریں اور اگر بیٹھنا بہت ضروری ہو تو زیادہ دیر نہ بیٹھیں۔ زیادہ دیر بیٹھنے کے بعد پٹھوں میں کھچاو محسوس ہوتا ہے اور دوبارہ چلنا کافی مشکل ہوجا تا ہے۔ چلتے ہوئے سانس پھولنے لگے تو رفتار آہستہ کرلیں اور جب سانس بحال ہوجائے تو دوبارہ معمول کی رفتار سے چلتے رہیں۔ اپنے معمول کی رفتار سے تیز یا آہستہ چلنے سے تھکاوٹ جلدی ہوجاتی ہے۔ 

بارہ بجے کے قریب ہمیں درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دینے لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم کچھ دیر کیلئے یہیں پڑاو ڈالیں گے اور دوپہر کا کھانا کھائیں گے اور پھر اپنا سفرجاری رکھیں گے۔ درخت کے نیچے اپنا بیک پیک رکھ کر اور جیکٹ بوٹ وغیرہ اتار کر تھوڑی دیر سستانے سے جو سکون ملا وہ سکون پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔ بوتل کا پانی دھوپ کی وجہ سے گرم ہوچکا تھا اور اس سے پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔ میں نے اپنے بیگ سے ایک لمبی ڈوری نکالی اور بوتل کیساتھ باندھ کر ندی میں ڈال دی اور ایک جھاڑی کیساتھ باندھ دیا۔ یہ ندی اوپر کسی گلیشئر سے آرہی تھی اور اسکا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسے بطور فرج استعمال کیا۔ تھوڑی دیر بعد نوڈلز سوپ تیار ہوکر آگیا۔ اور ساتھ پراٹھے، انڈےاور پنیر کی ڈلیاں۔ کچھ کھجوریں اور خشک خوبانیاں بھی ساتھ تھیں۔ اسکے بعد چائے کا دور چلا۔ تقریبا ایک گھنٹا سستانے اور کھانے پینے کے بعد سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ ہم خوشی خوشی چل پڑے اس بات بے خبر کہ آگے حادثہ منتظر ہے۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

کے_ٹو_نامہ - قسط 1سکردو سے اسکولی تک

 8 اور 9 جولائی 2018

ویسے تو ہر سفر کا ہر لمحہ یادگار ہوتا ہے لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا ایک ایک لمحہ آپکو یاد رہ جاتا ہے۔ آپ کسی بھی لمحے آنکھیں بند کرکے اس سفر کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کے ٹو بیس کیمپ جانے کیلئے جب سکردو پہنچے اور شام کو کمپنی کا منیجر ملنے آیا تو اس سے کاغذی کاروائی کے بارے میں بات چیت ہوئی اپنی کِٹ اور سلیپنگ بیگ وغیرہ دکھائے جس پر اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔ شاید بہت سے قارئین یقین نہ کرپائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس لمحے تک میں نے نہ تو کے ٹو بیس کیمپ تک ٹریک کی طوالت کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کی تھیں نہ راستے کی نوعیت اور دشواری کے بارے میں۔ صرف ضروری سامان مختلف ویب سائیٹس سے نوٹ کرکے خرید لیا تھا۔ میرا دستورالعمل زندگی بھر کیلئے یہی ہے۔ اگر کوئی مشکل کام کرنا ہے تو اسکے بارے کم سے کم معلومات جو انتہائی ضروری ہوں وہی حاصل کرتا ہوں لمبی چوڑی معلومات اور منصوبہ بندیاں آپ کے ارادوں کو پست کر دیتی ہیں۔ گائیڈ نے پوچھا کہ آپ اس سے پہلے بھی ٹریکنگ کرتے رہے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں تھوڑا بہت چلا ہوں۔ اس نے اگلا سوال کیا کہ بڑی سے بڑی ٹریک کتنی تھی؟ عرض کیا ایک دن وہ بھی اگر ریسٹ وغیرہ نکال لیں تو عملی طور پر آدھا دن۔ اس نے عجیب نظروں سے منیجر کی طرف دیکھا اور انہوں نے جیسے آنکھوں آنکھوں میں ہی ایک دوسرے سے پیغامات کا تبادلہ کرکے کہا کہ اچھا کسٹمر ہے آدھے راستے سے بھی پہلے واپس لوٹے گا اور پیسے تو پورے ایڈوانس لے ہی چکے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ اس ٹریک پر سب سے مشکل جگہ غونڈو غورو پاس ہے اسلئے تصدیق کیلئے پوچھا کہ غونڈو غورو پاس پہ مسئلہ تو نہیں ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں تک تو جانا نہیں آپ تو کانکورڈیا سے واپس آجائیں گے۔ تو کیا غونڈو غورو لا ہم کراس نہیں کریں گے؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔  اس نے جواب دیا کہ وہ کانکورڈیا سے دو منزل مزید آگے ہے اور وہ آپکے پیکیج میں شامل نہیں ہے۔ میرے لئے یہ مایوس کن خبر تھی۔ میں نے پوچھا اگر ادھر بھی جانا ہو تو کیا کرنا پڑے گا؟ انہوں نے بتایا کہ اسکا مزید خرچہ ہوگا اور اسکے لئے آپکو گیجٹس چاہئے ہوں گے۔ میں نے پوچھا کیا کیا چاہئے ہوگا؟ کہنے  لگے کہ کریمپنون، گیٹرز، ہیلمٹ، رسی، ہارنس تو ضرور چاہئے ہوں گے۔ میں نے کہا اس سارے سامان کیساتھ مزید خرچہ بتاؤ۔ انہوں نے حساب کتاب کرکے بتایا کہ کم سے کم تیس ہزار۔ میں بنا سوچے کہہ دیا کہ سامان کا انتظام کر لینا ہم ادھر ہی سے ہوکر واپس آئیں گے۔ اور جیب سے پیسے نکال کر تیس ہزار گن کر دے دئیے۔ وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر وہ اجازت لیکر رخصت ہوگئے۔
صبح کمپنی نے ہماری رجسٹریشن وغیرہ کروانی تھی اور سامان اسکولی روانہ کرنا تھا اور دوپہر کے وقت ہم نے بذریعہ جیپ اسکولی روانہ ہونا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب کمپنی کا نمائندہ کٹس لے کر ہوٹل آیا۔ ہم نے اپنی پیکینگ مکمل کرلی تھی اور ذہنی طور پر نکلنے کیلئے تیار تھے۔ لیکن اس نے جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ ایک فوٹوسٹیٹ کی دکان پر سارے کاغذات وغیرہ تیار ہورہے تھے۔ جب کاغذات تیار ہوگئے تو آرمی کے رجسٹریشن سنٹرہم بھی ساتھ چلے گئے۔ فائل ایک صوبیدار صاحب کے سامنے رکھ دی۔ اسکا انداز انتہائی "صوبیدارانہ" تھا۔ اس نے فائل رکھ لی اور کہا کہ اسپر ہم مزید کاروائی کریں گے آپ لوگ جاسکتے ہیں۔ وہاں سے نکل کر میں نے کمپنی کے منیجر سے پوچھا کہ اگر یہ صورتحال ہے پھر تو آج جانا مشکل لگ رہا ہے۔ اس پر اس نے بتایا کہ کاغذات ہم نے رات کو ہی جمع کر دئیے تھے لیکن چند تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے صبح انہوں نے واپس کردئیے جو اب درست کرکے ہم نے دوبارہ جمع    کردئے۔ اگر وہ ایک دو گھنٹے میں فائل پاس کردیں تو ہم نکل جائیں گے ورنہ کل جائیں گے۔ ان دنوں سکردو میں پولو ٹورنامنٹ ہو رہا تھا تو ہمارے منیجر نے کہا کہ آپ کو پولو کا میچ دکھانے لے جاتے ہیں۔ لیکن معلومات کروانے پر پتا چلا کہ اس دن کوئی میچ نہیں کھیلا جا رہا تھا۔ لہذا بازار میں گھومنے پھرنے سے بہتر تھا ہم واپس ہوٹل چلے جائیں۔ سنو لینڈ ہوٹل کی سب اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ ایک تو اس مِیں بڑے بڑے لان تھے اور دوسرا وہاں پر چیری اور آلو بخارے کے بہت سے درخت تھے جن پر بلا مبالغہ اتنے پتے نہیں تھے جتنے پھل لگے ہوئے تھے۔ ہوٹل انتظامیہ نے بتادیا تھا کہ آپ جتنا مرضی چیری کھا سکتے ہیں کھاتے رہیں۔ آلو بخارے ابھی پوری طرح پکے نہیں تھے لیکن چیری پک چکی تھی لہذا چرنے چگنے کا پورا نتظام تھا۔ اسلئے ایک دن مزید ٹھہرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے بھی ہوٹل کے منیجر سے لیکر بیرے تک نے جب پوچھا کہ آپ کے ٹو بیس کیمپ جارہے ہیں اور میں نے ہاں میں جواب دیا تووہ حیرت کا اظہار ضرور کرتے۔ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے رستے کی طوالت اور دشواری کا نہ تو اندازہ تھا نہ پیشگی جاننے کا شوق تھا۔ اب جب میں سوچتا ہوں کہ وہ حیرت کا اظہار کیوں کر رہے تھے تو وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ میری صحت دیکھ کر حیران نہیں پریشان ہو رہے تھے۔ چونکہ ماہ رمضان گزرے ابھی دو ہفتے ہوئے تھے اور ماہ رمضان کے بعد میرا وزن باسٹھ کلو سے گھٹ کر صرف چھپن کلو رہ گیا تھا جسے بھر پور کوشش اور ڈاکٹر دوستوں کے مشوروں کے باوجود میں صرف اٹھاون کلو تک ہی لے جا سکتا تھا۔ اسلئے میں نے موقع غنیمت جانا کہ اسی بہانے ریسٹ ہو جائیگا۔ اگلے دن بارہ بجے تک کمپنی کی طرف سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تو میں پریشان ہونے لگا۔ منیجر کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ ہو سکی ایک بجے کے قریب اسکی کال آئی اور اس نے بتایا کہ سیکیورٹی کلئیرنس میں کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میری ضرورت ہے تو میں آجاتا ہوں تو اس نے کہا کہ میں گاڑی بھجواتا ہوں آپ آجائیں تو بہتر ہوگا۔ کچھ دیر بعد گاڑی آگئی اور ہم آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر ہم نے بتایا کہ ہم میجر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں جو کہ انچارج تھے وہاں کے ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ راستے میں منیجر نے بتایا کہ کل ہمارے ساتھ جو دوسرا غیر ملکیوں کا گروپ تھا وہ کلئیر ہوکر روانہ ہو چکا ہے اور ہمارا راشن بھی اسکولی روانہ ہوچکا ہے۔ یہ جان کر کہ غیر ملکی بھی کلئیر ہوکر روانہ ہوچکے ہیں میرا موڈ تھوڑا سا خراب ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میجر صاحب نے بلوا لیا۔ وہ ایک نوجوان آفیسر تھا اور انتہائی خوش اخلاق، میرا مطلب ہے اس میں صوبیداری والی اکڑ بالکل نہیں تھی۔ جیسے ہی ہم دفتر کے دروازے پر پہنچے وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے کے درمیان تک آیا اور ایسے پرتپاک انداز میں استقبال کیا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ اسکا رویہ دیکھ کر میرا موڈ بہت بہتر ہوگیا تھا۔ میں نے شکایت کے انداز میں کہا کہ کل عباس جو کہ اس غیر ملکی گروپ کا گائیڈ تھا کہہ رہا تھا کہ میرے لئے کے ٹو بیس کیمپ دس بار آنا جان آسان ہے لیکن یہ کاغذی کاروائی بہت مشکل ہے۔ اس پر میجر صاحب نے بتایا کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جو گائیڈ کمپنی نے مقرر کیا تھا اسکے پاس لائسنس نہیں تھا۔ پہلےپاکستانیوں کیلئے کوئی رجسٹریشن وغیرہ نہیں تھی لیکن گزشتہ سالوں میں پاکستانی سیاحوں اور کوہ پیما کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر رجسٹریشن شروع کردی گئی ہے۔ ماضی میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ سیاحوں کو کے ٹو بیس کیمپ کا جھانسہ دیکر فراڈئیے اسکولی لے جاتے ہیں اور پیسے ایڈوانس میں وصول کر لیتے ہیں۔ پھر صبح جب سیاح اٹھتے ہیں تو وہاں نہ گائیڈ ہوتا ہے نہ کوئی پورٹر۔ اور جن لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں وہ جب اپنے علاقوں میں جاکر دوسرے سیاحوں کو بتاتے ہیں تو اسکے اثرات بہت منفی ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنی شکایت ہمارے پاس لے کر آتے ہیں تو ذمہ داروں کا تعین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جنکی وجہ سے ہمیں ہر سیاح کو رجسٹر کرنا پڑتا ہےاور یہ سارا ریکارڈ پولیس کے حوالے بھی کردیا جاتا ہے ۔ اسکے علاوہ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو تو ریسکیو کاروائیوں کے دوران یہ تعین کرنا آسان ہوتا ہے کہ قراقرم نیشنل پارک میں کل کتنے لوگ موجود تھے اور کتنے  ریسکیو کرلئے گئے ہیں۔ اتنے میں چائے آگئی اور جتنی دیر میں ہم چائے پی کر فارغ ہوئے ہماری فائل مکمل ہوگئی اور میجر صاحب نے وٹس ایپ کے ذریعے شگر کے کمشنر کو بھی کاپی بھیج دی۔ اس نے تاخیر کیلئے معذرت کی اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اسکولی تک راستہ صاف ہے اور پانی آج کم آیا ہے۔ اس خوشخبری کا ہمیں اسوقت تو کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن راستے میں اندازہ ہوگیا۔ ہم وہاں سے رخصت ہوگئے اور کمپنی کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ آپ کیساتھ ہم ایک اور گائیڈ بھیج رہے ہیں جو کہ لائنسن یافتہ ہے۔ لیکن جو گائیڈ پہلے ہی متعارف کراوایا گیا تھا وہ بھی وہیں ساتھ تھا اور اسکی دلچسپی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بھی ساتھ جارہا ہے۔ میں نے کمپنی کےمنیجر سے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ نیا گائیڈ کسی خاص مقام تک ہمارے ساتھ جائیگا اور وہاں سے ہمیں پرانے گائیڈ کے حوالے کرکے واپس لوٹ آئے گا۔ منیجر پہلے تو تھوڑی دیر مجھے دیکھتا رہا کہ اتنا صحیح اندازہ کیسے لگایا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔ میری بات سے پریشان لگ رہا تھا۔ پریشانی بھانپ کر میں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر آپکی جگہ میں بھی ہوتا اور عین موقعہ پر ایسا مسئلہ بنتا اور گائیڈ نہ ملتا تو میں بھی یہی کرتا۔ یہ سن کر اسکو تسلی ہوئی۔ وہاں سے نکل کر ہم ہوٹل پہنچے اور ہمارا سامان جو پہلے سے ہی پیک ہوا ہوا تھا گاڑی میں لاد کر اسکولی کی طرف روانہ ہوگئے۔ سکردو سے اسکولی کا راستہ پانچ سے چھ گھنٹے کا ہے۔ راستہ شگر تک تو ٹھیک ہے لیکن اسکے بعد تقریبا کچا راستہ ہے۔جیپ کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں جا سکتی۔ خپلو کی طرف جاتے ہوئے بائیں ہاتھ دریا پار کرکے سڑک شگر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ شمالی علاقہ  جات کے حسن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہاں آپ کو صرف پہاڑ،برف، جھرنے، ندیاں، دریا اور پتھر ہی نہیں بلکہ صحرابھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شگر کی طرف جاتے ہوئے سڑک ایک صحرا سے ہوکر گزرتی ہے۔ جو پہاڑ اور دریا کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ ایک سال پہلے جب ہم سکردو اورخپلو کے قابل دید مقامات دیکھنے آئے تھے تو یہ صحرا ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ تاہم پوچھتے پوچھتے ہم ایک اور صحرا میں ضرور پہنچ گئے تھے۔ اور پھر خپلو سے واپسی پر جب شگر فورٹ دیکھنے جا رہے تھے تو حادثاتی طور پر ہم کولڈ ڈزرٹ یعنی ٹھنڈےصحرا پہنچ گئے تھے۔ صحرا سے نکل کر سڑک پرپیچ پہاڑی راستے سے شگر کی طرف جاتی ہے۔ شگر فورٹ برلب سڑک بائیں طرف واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی قلعہ ہے لیکن یہ نہ تو قلعے کی طرح وسیع و عریض ہے نہ بلند و بالا حصار میں محصور۔ علاقائی بلتی زبان میں اسے فونگ کھر بھی کہا جاتا ہے جسکا مطلب ہوتا ہے پتھر یا چٹان پر بنا ہوا قلعہ یا جگہ۔ تاریخی اعتبار سے جس حد تک مجھے معلوم ہو سکا ہے اسکی ابتدائی تعمیر سترھویں صدی میں شگر کے اماچا شاہی گھرانے نے کی۔ اسکی موجودہ تعمیر ثانی اور تزئین و آرائش ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۴ تک آغاخان کلچر سروس پاکستان نے کی۔ اس وقت یہ سرینا ہوٹل کے زیر انتظام بطور عجائب گھر اور ایک ہوٹل خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم سیاحوں کیلئے یہ قلعہ کھلا رہتا ہے غالبا اوقات کی کچھ قید ہے لیکن مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کیونکہ آخری دفعہ دو سال پہلے وہاں گئے تھے۔ قلعے کے حوالے سے مزید تفصیلات میں چھوڑ رہا ہوں کیونکہ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پتھر اور لکڑی سے بنی ایک بہت ہی حسین عمارت جس میں داخل ہوتے ہی آپ ٹائم مشین  
کے بغیر صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔
شگر تک سڑک معقول ہے لیکن آگے جاکر انتہائی نامعقول" ہوجاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک" کچا پتھریلا راستہ ہے اور بقول شخصے اگردہی کھا کر اس راستے پر سفر شروع کریں تو منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی اندرون بطن لسی بن جاتی ہے اور شاید مکھن بھی۔ دو مقامات پر پانی کی گزر گاہ ہے جو اکثر و بیشتر راستہ بند کئے رکھتا ہے۔ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں جو قدر بالکل متضاد ہے وہ یہ کہ میدانی علاقوں میں اگر بارش ہو تو امکان ہوتا ہے کہ راستہ بند ہو جائے جبکہ پہاڑی علاقوں میں موسم جتنا صاف ہوتا ہے راستہ بند ہونے کے امکانات اتنے بڑھ جاتےہیں۔ تیز دھوپ پڑنے کی وجہ سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے جسکی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور راستہ کاٹنے والے پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس دن بھی موسم صاف تھا لیکن ہماری خوش قسمتی کہ پانی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ گاڑی نہ گزر سکے۔ گو کہ عام ڈرائیور اتنے پانی میں گاڑی کبھی نہ اتارتا لیکن ہمارا ڈرائیور سکردو کا باشندہ تھا۔ اس نے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر راستے کا جائزہ کیا اور پھر اللہ کا نام لیکر گاڑی پانی میں اتاردی۔ ایک بار تو سٹیرنگ اسکے ہاتھ سے چھوٹا تو اتنے زور سے گھوم کر اسکے ہاتھ میں لگا کہ مجھے لگا اسکے ہاتھ کی کوئی نہ کوئی ہڈی چٹخ گئی ہوگی۔ وہ کافی دیر تک ہاتھ کو جھٹکتا رہا۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کا ادھر اکثر آنا جانا رہتا ہوگا پھر آپ اتر کر راستہ کیوں دیکھنے گئے۔ اس پر اس نے یہ انکشاف کردیا کہ وہ زندگی میں پہلی بار اس راستے سے سفر کر رہا ہے۔ یہ معلومات اگر چہ پریشان کن تھیں تاہم وہ ایک کہنہ مشق ڈرائیور تھا۔ آگے جاکر ایک اور پانی کی گزرگاہ تھی وہاں بھی اتر کر اسنے کچھ پتھر رکھ کر جیپ کے بائیں جانب والے ٹائر کیلئے راستہ بنایا اور کسی نہ کسی طرح گاڑی وہاں سے گزار کر لے ہی گیا۔ آگے جاکر راستہ انتہائی تنگ، کچا اور ناہموار تھا۔ اکثر جگہوں پر چڑھائی چڑھ کر آگے کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ ڈھلان سیدھی ہے یا راستہ دائین یا بائیں مڑ رہا ہے۔ اسلئے ڈرائیور کو کئی موقعوں پر سیٹ سے اٹھ کر آگے جھانکنا پڑتا۔ ہمارے بائین جانب تیز بہتا دریا تھا اور معمولی سی غلطی کا انجام لا محالہ یہی ہوتا کہ ہم سب جیپ سمیت برفیلے ٹھنڈے پانی میں غوطے لگا رہے ہوتے۔ شام ہوتے ہی پہاڑوں میں اندھیرا بڑھ چکا تھا۔ میدانی علاقوں کی نسبت پہاڑوں میں شام کا اندھیرا بہت تیزی سےپھیلتا ہے۔ گاڑی کی روشنیاں جلا دی گئیں جو اتنی متاثر کن نہیں تھیں لیکن ڈرائیور بڑی مہارت سے گاڑی آگے بڑھا رہا تھا۔
آخر کار شام گئے چھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اسکولی پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

جمعہ، 8 مئی، 2020

ایک مدھانی کی کہانی ‏


یہ جو تصویر میں نے لگائی ہے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا ہے تو آپ فورا" بتادیں گے کہ جناب مدھانی ہے اور مٹکا ہے۔ دراصل یہ مدھانی نہیں ہے۔
یہ Time Travel Machine ہے۔ میں ہر دو تین دن بعد اس مشین کے ذریعے ٹائم ٹریول کرتا ہوں۔
میں لسی بہت شوق سے پیتا ہوں بلکہ کھانے پینے کی چیزوں میں واحد چیز ہے جو میں شوق سے پیتا ہوں۔ ہمہ وقت فرج میں لسی کی بوتلیں پڑی رہتی ہیں۔ اور جب ایک بوتل رہ جاتی ہے تو نئی لسی بنتی ہے۔ لسی میرے کھانے کا لازمی جزو ہے۔
اب آتے ہیں اس مدھانی کی طرف۔ یہ مدھانی غالبا" 1985-86 میں خریدی گئی تھی جب میں بہت چھوٹا تھا۔ اس زمانے میں بجلی سے چلنے والے گھروں میں صرف پنکھے ہوتے تھے اسکے علاوہ کوئی خاص مشینری نہیں ہوتی تھی۔ جب یہ مدھانی آئی تھی تو پاس پڑوس کی خواتین یہ عجیب و غریب خودکار مشین دیکھنے کیلئے دیواروں سے جھانکنے لگیں۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کسی کو کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ مدھانی خود بخود لسی میں چلتی رہے اور آپ کو ساتھ نہ بیٹھنا پڑے اور نہ اس کی رسیاں کھینچنی پڑیں۔
خیر وقت گزرتا گیا گاوں میں تقریبا" سب گھروں میں مدھانیاں آگئیں۔ ہم نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان ہجرت کرلی۔ کچھ سالوں بعد گاوں والے گھر کے کچے کمرے گرنے لگے تو مدھانی چچا کے گھر میں رکھوا دی۔ اس دوران دو دہائیاں گزر گئیں۔ 2010 میں سیلاب آیا اور چچا کا گھر جہاں مدھانی تھی مکمل مسمار ہوگیا مدھانی سمیت۔ سیلاب گزر گیا تو ملبے کے نیچے سے مدھانی نکلی. دھو کر صاف کرکے رکھ دی گئی امانت کی طرح۔
ماہ رمضان سے پہلے میں گاوں گیا تھا تو وہاں میں نے برسبیل تذکرہ پوچھا کہ بجلی والی مدھانی کتنے کی ملتی ہوگی، مجھے جوسر کی بنی ہوئی لسی اتنی اچھی نہیں لگتی۔ مجھے بتایا گیا کہ مدھانی تو آپکی امی والی پڑی ہے۔ میں حیران ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ سیلاب میں ضائع ہوگئی۔
جب مدھانی آئی اور اسے چلانے کی کوشش کی تو نہ چلی۔ پیچ کس لیکر کھولا تو پتا چلا کہ ایک تو تار اندر سے کٹی ہوئی ہے، دوسرا بٹن خراب ہے اور تیسرا کیپسٹر کمزور ہے۔
گاوں سے ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہوئے راستے میں یارک سے مٹکا لیا۔ اور پھر اسلام آباد جاتے ہوئے رنگ پور میں مستری سے اس کی ضروری مرمت کروا لی۔
اب یہ مدھانی نہیں بلکہ ٹائم ٹریول مشین ہے۔ میں مدھانی کے پاس زمین پر بیٹھ جاتا ہوں کرسی یا سٹول پر نہیں بیٹھتا۔ جب مٹکے میں مدھانی چلتی ہے اور اس کی مخصوص آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے تو میں فورا" تیس پینتیس سال پیچھے چلا جاتا ہوں۔ میں چھوٹا سا ہوجاتا ہوں۔ لسی کے مٹکے کے پاس زمین پر ہی بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں کہ لسی میں سے مکھن علیحدہ ہو تو لسی ملے اور میں پیوں۔ کبھی کبھار لسی کے جام میں مکھن کا ٹکڑا بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ امی جوان ہوتی ہیں اور اس طرح سست رفتاری سے نہیں چلتیں جس طرح اب چلتی ہیں بلکہ بہت چست ہوتی ہیں۔ دنیا کچھ دیر کیلئے بہت حسین ہوجاتی ہے۔ کوئی فکر کوئی اندیشہ نہیں۔ یہ بھی فکر نہیں کہ اماں بوڑھی ہیں کبھی کچھ ہو نہ جائے بلکہ دل کو یہ تسلی کہ اماں پاس ہے کچھ بھی ہوا تو اماں سنبھال لیں گی۔
کبھی کبھی اس منظر سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور واپس لوٹتے لوٹتے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ بچے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ مٹکے میں دہی ڈال کر مدھانی چلانے میں کیا خاص بات ہوسکتی ہے کہ کسی کو رونا آئے۔
شاید تیس چالیس سال بعد انکو یہ بات سمجھ آجائیگی۔ 

جمعرات، 7 مئی، 2020

فیس ‏بک ‏اور ‏سنجیدگی



پچھلے کچھ دنوں سے میں اشعار پوسٹ کر رہا ہوں۔ حلقہ احباب (جوکہ حقیقی زندگی میں جتنا مختصر ہے فیس بک پر اتنا ہی وسیع) میں عجیب تشویش پائی جاتی ہے۔ طرح طرح کے سوال و جواب ہوتے ہیں۔ نقص امن عامہ کے پیش نظر وہ سوالات جوابات یہاں من و عن تو دہرانے کے قابل نہیں البتہ چند چیدہ یہاں بیان کئے دیتا ہوں۔ ایک صاحب نے شعر کی تعریف کی اور میسیج کیا کہ شعر تو اچھا ہے لیکن یہ شعر سنا سنا سا لگتا ہے۔ میں نےجون ایلیا کا شعر بھیج کر کہا کہ اس شعر سے مغالطہ ہوا ہوگا۔ اس نے خوب واہ واہ کی تو بتایا کہ جناب یہ شعر جون کا ہے۔ فورا" کہنے لگے جون میں کسی اور سے محبت کرتے تھے؟ عرض کیا کہ حضور جون مطلب جون ایلیا ہے گرمی والا جون نہیں۔ ایک اور صاحب نے کہا کہ اتنے درد بھرے اشعار پوسٹ کرتے ہیں کیا کبھی محبت ہوئی ہے؟ عرض کیا "کبھی" سے مطلب؟ محبت تو ہمیں زکام کی طرح ہوجاتی ہے ذرا سی ٹھنڈی ہوا چلی اور زکام لگ گیا۔ یوں سمجھ لیں محبت کی الرجی ہے۔ کہنے لگے نہیں میں نہیں مانتا۔ پوچھا کیوں؟ کہنے لگے آپ لگتے شریف ہیں۔ پوچھا کہ محبت کرنے کیلئے بدمعاش ہونا شرط ہے کیا؟ ایک صاحب بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ داد دیتے ہیں اور اچھے شعر پر ایک ہی بات کہتے ہیں، "خدا کی قسم اتنا اچھا شعر ہے کہ لگتا ہی نہیں آپ کا ہو۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے میرے بچے نہیں دیکھے ورنہ گمان غالب یہ ہے کہ انکے بارے میں بھی ایسا دلخراش تبصرہ فرمائیں گے، خدا کی قسم بہت پیارے ہیں اتنے پیارے کہ آپکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑئیے بات کہیں اور نکل پڑی۔ ایک صاحب کو گلہ ہے کہ میں فیس بک پہ سنجیدہ نہیں رہتا۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک کیا سنجیدہ لوگوں نے سنجیدہ ہوکر سنجیدہ کاموں کیلئے بنایا تھا؟ جواب ہے "نہیں"۔ اگر بندہ سنجیدگی سے کوئی سنجیدہ کام کر رہا ہو تو فیس بک لاگ ان ہی کیوں کرے؟ فیس بک کی سنجیدگی کا اپنا یہ عالم رہا ہے کہ ماضی قریب میں فوتیدگی کی خبر کیلئے بھی افسوس کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ لوگ میت کی تصویر پوسٹ کرکے خبر دیتے اور جتنے لوگ جنازے میں شریک ہوتے اس سے زیادہ لائیکس آجاتیں تصویر پہ۔ جسکا سادہ لفظوں میں مطلب یہی ہوتا ہے کہ فوتیدگی بہت پسند آئی۔ پس ثابت ہوا کہ فیس بک سنجیدگی کیلئے بنا ہی نہیں۔ آخری اور سب سے اہم بات کہ اگر آپ یہ آخری سطور پڑھ رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے اوپر کی ساری لغو باتیں پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں سنجیدہ لوگ اتنی لمبی بے مقصد بات آخر کیوں پڑھیں گے؟ تو ثابت ہوا کہ۔۔۔۔

پیر، 4 مئی، 2020

کوزہ ‏گری


کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع کرتا ہے۔ جب مٹھی ذرا سخت ہوتی ہے تو برتن اتنا ہموار اور دیدہ زیب نہیں ہوتا۔ ایسے میں کوزہ گر کرتا یہ ہے کہ برتن کو توڑ دیتا ہے اور دوبارہ سے مٹی میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر مٹی میں پانی ملاکر اسے نئے سرے سے روندتا اور گوندتا ہے۔ اسکے بعد جو برتن بنتا ہے وہ شاہکار ہوتا ہے۔ 
کچھ یہی عمل ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ہمیں لگتا ہے کہ اچانک ہمیں چاروں طرف سے پریشانیوں نے گھر لیا ہے۔ مسکراہٹوں کی جگہ سسکیاں لے لیتی ہیں اور ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے کس جرم کی سزا ملی ہے۔
جب ایسا ہو تو خاطر جمع رکھئے آپ کا کوزہ گر آپ کو توڑ کر ، روند کر اور گوند کرنئے سرے سے بہت خوبصورت بنانے والا ہے۔ آنسو پونچھ کر مسکرائیے، کچھ بہت اچھا ہونے کو ہے۔
پس تحریر: 
دراصل سمجھانا یہ چاہ رہا تھا کہ اگر لاک ڈاون کے دوران گھر میں آپ کو بیلن وغیرہ سے کوئی تکلیف پہنچے تو آزردہ خاطر نہ ہوں یہ نئی تعمیر کیلئے ضروری ہے۔

Uninstall ‎

کافی عرصے سے لیپ ٹاپ کی کام کرنے کی رفتار بہت سست تھی۔ لیپ ٹاپ پرانا نہیں ہے لیکن اس میں چیزیں اتنی زیادہ تھیں کہ باقاعدہ وقت نکال کر ضروری اور غیر ضروری چیزوں کو الگ الگ کرنا ذرا مشکل کام تھا اسلئے برداشت کرتا رہا۔ پچھلے ہفتے اپنے تھیسز کے سلسلے میں کوسپروائزر (CO-Supervisor) سے وقت لیا اور وہ بیچارےبھی سارا دن پڑھانے کے بعد تھکے ہارے تھے لیکن دوپہر سے رات تک کام کروانے کیلئے رضامند ہوگئے۔ اب وہاں جب لیپ ٹاپ کھولا تو سٹارٹ ہونے میں کافی ٹائم لگا رہا تھا۔ انہوں نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور کام ہم نے شروع کردیا لیکن مجھے لیپ ٹاپ پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ضروری چیزیں ایک طرف کرکے اسکی جامع صفائی کروں گا لیکن صبر کی حد ختم ہوچکی تھی اسلئے میں نے اسکی فیکٹری سیٹنگ ریسٹور کرنے کا فیصلہ کرلیا اور سارے ڈیٹا کی قربانی پر خود کو آمادہ کرلیا۔ 
جب فیکٹری سیٹنگ ریسٹور کر رہا تھا تو سسٹم نے دو آپشن دئیے 
۱- سارے پروگرام ہٹا دئیے جائیں گے جبکہ ذاتی ڈاکومنٹس وغیرہ محفوظ رہیں گے 
۲- سب کچھ کا صفایا کردیا جائیگا۔ 
اب جبکہ ایک آپشن میسر تھا تو سوچا پہلا آپشن آزما کر دیکھتا ہوں اگر ٹھیک ہوگیا تو فبہا ورنہ بعد میں دوسرا آپشن استعمال کرلوں گا۔ آدھے گھنٹے بعد سسٹم جب چلا تو بالکل ٹھیک تھا۔ چھ ساتھ گھنٹے مسلسل مغز ماری کرنے کے بعد جب رات کو بستر پر لیٹا دن کے واقعات کا محاسبہ کر رہا تھا تو میری سوچ کہیں اور بھٹک گئی۔ میں انسانی زندگی کا لیپ ٹاپ کیساتھ موازنہ کرنے لگا۔ ہماری زندگی بھی گائے گاہے اسی طرح سست ہوجاتی ہے۔ بہت سی پریشانیاں ہمیں گھیر لیتی ہیں۔ ان میں اکثریت ان پریشانیوں کی ہوتی ہے جو سرے سے ہماری پریشانیاں ہوتی ہی نہیں ہم نے زبردستی انہیں گلے لگایا ہوتا ہے ان پروگرامز اور ایپلیکیشنز کی طرح جو غیر ضروری طور پر ہم نے اپنے سسٹم میں سالوں سے سنبھال رکھی ہوتی ہیں۔ ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سارے کام اور بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن سے ہم کھونے کے ڈر سے چمٹے رہتے ہیں حالانکہ انکا ہماری زندگی میں سوائے ہماری توانائیاں نچوڑ نے اور ذہنی کوفت پیدا کرنے کے  کوئی کام نہیں ہوتا۔ بہت سی چیزیں زندگی میں اس اینٹی وائرس کی طرح ہوتی ہیں جو سسٹم کو اُس وائرس سے کہیں زیادہ جکڑے رکھتا ہے جس وائرس کے ڈر سے ہم نے انسٹال کیا ہوتا ہے۔ 
زندگی کو آسان بنانے اور اسکی فطری رفتار واپس لانے کیلئے ہمیں اپنی اپنی زندگیوں سے یہ سارے پروگرامز Uninstall کرنے پڑیں گے۔ یقین کیجئے زندگی انکے بغیر زیادہ ہلکی پھلکی اور بامعنی ہوتی ہے۔ 
(پسِ تحریر: قاری کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ کسی وائرس یا اینٹی وائرس کو اپنے ذاتی رسک پر اَن انسٹال کریں بعد میں دُکھی شعر سنا سنا کر ناک میں دم نہ کردینا۔ سواری اپنے سامان کی حفاظت خود کرے کمپنی نقصان کی ذمہ دار نہ ہوگی)

ہفتہ، 2 مئی، 2020

اعلی ‏تعلیم

میں یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہوں۔ (یہ محض اطلاع ہے اس دوسری شادی کی خواہش نہ سمجھا جائے وہ اس سے الگ ہے)۔ نوکری کرتے کرتے اکتا گیا تو سوچا کچھ نیا کیا جائے۔ اور کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی مشہور یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی جائے۔ تحقیق شروع کی تو پتا چلا کہ یہ کام تو بہت آسان ہے۔ اگر آپ اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیں تو پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں کوئی نہ کوئی وظیفہ(سکالرشپ) مل جاتا ہے اور آپ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ قابلیت منوانے کیلئے پہلی شرط انٹرنیشنل جی آر ای میں بہت اچھے نمبر حاصل کرنا ہے۔ میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں کبھی پڑھا کو طالبعلم نہیں رہا ہوں۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اماں جان جب امتحان کے دنوں میں دعا دیتیں تو دعا کچھ یوں ہوتی کہ اللہ میرے بچوں کی محنت ضائع نہ کرنا ان کو محنت کا صلہ ضرور دینا پھر میرے لئے الگ سے دعا کرتیں کہ اللہ اس کو ویسے ہی دے دینا یہ تو محنت بھی نہیں کرتا اور کبوتر، تیتر اور طوطوں سے ہی اس کو فرصت نہیں ملتی۔ لیکن اب معاملہ بین الاقوامی سطح تک پہنچ گیا تھا اور پوری دنیا کے طلبا سے مقابلہ تھا اسلئے اصلی والا پکا ارادہ کرلیا کہ اب کی بار پڑھنا ہے اور ایسے پڑھنا ہے کہ پڑھائی کا حق ادا ہو۔ کتابیں لے لیں اور دفتر سے آکر حجرے میں معتکف ہوجاتا۔ ساری رات پڑھتا اور صبح تین چار گھنٹے سوکر دفتر چلا جاتا۔ دفتر میں بھی موبائل فون پر دسیوں قسم کے GRE Applications ڈاون لوڈ کی ہوئی تھیں ان کی مدد سے پڑھتا رہتا، آن لائن ٹیسٹ دیتا رہتا۔ دو مہینے پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ اب تیاری پوری ہے۔ داخلہ بھیجا۔ داخلہ بھی ڈالروں میں تھا جو پاکستانی پچیس ہزار روپے بنتے تھے۔ اماں کو ابھی نہیں بتایا تھا اور میرا خیال تھا کہ ایک بار داخلے کی پیش کش آجائے پھر اماں کو کسی نہ کسی طرح راضی کرہی لوں گا۔ ویسے نہ مانیں تو کہہ دوں گا کہ مرحوم والد صاحب کا خواب تھا جو پورا کرنا ہے اور وہ یہ سن کر مان ہی جائینگی۔ ٹیسٹ کیلئے اسلام آباد بلایا گیا۔ میں اسلام آباد گیا۔ شام کے وقت پہنچ کر اماں کو بتانے کے لئے فون کیا کہ میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں اور ساتھ دعاوں کی درخواست بھی کی۔ امی نے پوچھا کہ یہ کس چیز کاٹیسٹ ہے؟ میں نے کہا جب آوں گا تو تفصیلات بتادوں گا۔ امی مشکوک انداز میں پوچھنے لگیں کہ پھر کہیں باہر جانے کا ارادہ تو نہیں؟ میں نے ہنس کر کہا کہ آپ فی الحال دعاوں پر توجہ دیں تفتیش نہ کریں۔ کہنے لگیں اگر باہر جانے کیلئے ہے تو دعا نہیں کرنی میں نے۔ اگلے دن میں مقررہ وقت سے پہلے ٹیسٹ مرکز پہنچ گیا۔ دروازے پر آمد کی وجہ اور شناخت کا مطالبہ ہوا تو میں نے شناختی کارڈ دکھادیا۔ وہ بولا پاسپورٹ دکھائیں۔ میں نے کہا پاسپورٹ؟ کیوں گیٹ کے اس پار امریکہ کی سرحد شروع ہوتی ہے کیا؟ کہنے لگا پاسپورٹ ضروری ہے۔ میں نے احتجاج کیا تو گیٹ سے جانے دیا لیکن استقبالیہ کاونٹر تک۔ وہاں موجود اہلکار سے بحث شروع کی کہ ای میل میں پاسپورٹ کا ذکر نہیں تھا اور ساتھ ای میل کی پرنٹ دکھا دی۔ اس نے ای میل کے نیچے ایک بہت چھوٹی سی لکھائی پر انگلی رکھ کر کہا کہ اس لنک کو کھول کر دیکھا تھا؟ وہاں لکھا تھا،
For ID documents details click here
میں نے کہا نہیں۔ بولا چیک کریں۔ میں واپس گاڑی کی طرف گیا موبائل فون گاڑی میں تھا۔ ای میل کھولی اور جب وہ لنک کھول کر دیکھا تو لکھا تھا،
Passport is mandatory for Srilanka, Pakistan and Bangladesh.
اب میں بحث کا جواز کھو چکا تھا۔ شکست خوردہ انداز میں دو بارہ استقبالیہ کاونٹر پر گیا اور اب منت سماجت پر اتر آیا۔ میں نے کہا ابھی پاسپورٹ کی Scanned Copy ای میل کے ذریعے منگوا لیتا ہوں۔ کہنے لگے نہیں ہم اتنا کرسکتے ہیں کہ دو گھنٹے کے اندر اگر پاسپورٹ لے آئیں تو ٹیسٹ کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اب بحث کرنا فضول تھا۔ میں ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے لوٹ آیا۔ اماں کو فون کیا تو پوچھنے لگیں کہ ٹیسٹ ہوگیا؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے دروازے سے ہی واپس لوٹا دیا۔ وہ حیران ہوکر پوچھنے لگیں کہ کیوں؟ میں نے کہا وہ کہہ رہے تھے کہ ماں کو ساتھ لاو اور وہ یہاں آکر کہے کہ وہ تمہیں ملک سے باہر بھیجنے پر راضی ہیں تو امتحان میں بیٹھنے دیں گے۔ اماں کہنے لگیں اچھا تو باہر جا رہے تھے تم؟ بہت اچھا کیا ہے۔ میں وہاں سے نکلا اور نوشہرہ میں اپنے دوست عاصم کے پاس چلا گیا غم ہلکا کرنے کیلئے۔ اب مجھے اس میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ ماں کی رضا کے بغیر پڑھائی کسی کام کی نہیں۔ پھر اپنے شہر میں ہی ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ 

عزت ‏

میں جب انسان کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو ہرانسان کی زندگی کا واحد مقصد حصول عزت ہی نظر آتا ہے۔ عزت کے حصول کے راستے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اصل مقصد وہی رہتا ہے۔ کوئی پیسے میں عزت سمجھتا ہے، تو کوئی علم میں، کسی کو عزت معاشرتی مقام میں نظر آتی ہے تو کسی کو عبادت میں۔ یہاں تک کہ دعاوں میں بھی دنیوی اور اخروی عزت ہی مانگی جاتی ہے۔
اس بات میں ہم ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ کسی نے عزت کے حصول کا جوا راستہ چنا ہے ہمیں وہ درست نہ لگے لیکن اس بات میں اختلاف ممکن نہیں کہ مقصد عزت کا حصول ہی ہوتا ہے۔
اب اس عزت کو حاصل کرنے کے بارے میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ ایک سوچ تو یہ ہے کہ عزت کروائی جاتی ہے اور دوسری سوچ یہ کہ عزت کمائی جاتی ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عزت کروائی جاتی وہ شعوری اور لا شعوری طور پور وہ تمام چیزیں حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں جو ان کے نزدیک اگر ان کے پاس ہوں تو لوگ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے اور انکی عزت کرنے لگیں گے۔ ان چیزوں میں دولت، علم، طاقت وغیرہ شامل ہیں۔ عام مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ عموما" لوگ ایسے لوگوں کی عزت کرتے ہیں جن کے پاس یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ کسی حد تک درست ہے لیکن یہ عزت پائیدار نہیں ہوتی۔ جیسے ہی یہ چیزیں آپ کے پاس سے رخصت ہوجاتی ہیں ساتھ ہی وہ عزت بھی رخصت ہوجاتی ہے یا بہت کم ہوجاتی ہے۔
میرے نزدیک حقیقی اور پائیدار عزت وہ ہے جو آپ کماتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عزت کمانا کیا ہوتا ہے؟
عزت کمانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ عزت تقسیم کرنے لگ جائیں۔ لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جب آپ لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہ جوابا" آپکی عزت کریں گے اور جتنی عزت آپ دیں گے اس سے زیادہ واپس ملے گی۔ میرے نزدیک یہ عزت وہ ہے جو انسان کماتا ہے۔ یہ عزت پائیدار ہوتی ہے۔ اس عزت کا انحصار کسی بھی ایسی چیز پر نہیں جو ختم ہونے والی ہے مثلا" دولت، عہدہ، طاقت وغیرہ۔
ممکن ہے کچھ لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ اسکی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کسی ایک یا دو غلط تجربات کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہو۔ اگر وہ تجربات کی تعداد بڑھادیں تو انکی رائے بھی بدل سکتی ہے۔ اب یہ جو عزت کمائی جاتی ہے اسکا بیشتر حصہ الفاظ کے ذریعے ہی کمایا جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو عزت ملے اور آپ کے پاس اور کچھ بھی نہیں تو صرف اچھے الفاظ کے ذریعے ہی آپ عزت کما سکتے ہیں۔ اس لئے الفاظ کے چناو میں ہمیشہ احتیاط بہت ضروری ہے۔ نامناسب الفاظ سے کھوئی ہوئی عزت کسی بھی دوسرے ذریعے سے واپس حاصل نہیں کی جاسکتی جبکہ دوسرے وسائل کے ذریعے حاصل کی ہوئی عزت اگر کھو بھی جائے تو الفاظ کے ذریعے بحال ہوسکتی ہے۔ 

جمعرات، 30 اپریل، 2020

ہماری صحت اور بیماریاں ‏

یوں تو اپنی صحت کبھی بھی ایسی مثالی نہیں رہی کہ مائیں بچوں کو ہماری طرف اشارہ کرکے کہیں کہ دودھ پیا کرو تاکہ اس انکل کی طرح صحت مند رہو۔ بیس سال کی عمر سے لیکر اب تک وزن گرمیوں میں پچپن اور سردیوں میں ساٹھ کلوگرام سے زیادہ نہیں بڑھا۔ تاہم شمال میں ٹھنڈے علاقوں کے سفر کے دوران وزن پینسٹھ کلو تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اضافی وزن سوٹ اور بوٹ کا ہوتا ہے صافی وزن وہی پچاس سے کچھ اوپر ہی ہے۔ تاہم اللہ کا یہ خصوصی کرم ہے کہ صحت کے حوالے سے کبھی کوئی چھوٹی یا بڑی شکایت نہیں رہی۔ گوکہ اس دور میں شاید ہی کوئی بندہ ہو جسے کوئی نہ کوئی بیماری نہ ہو۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم کوئی نہ کوئی الرجی تو لازما" ہوتی ہے۔ یادش بخیر، الرجی کے بارے میں ہمارے ایک کرم فرما کا فرمان ہے کہ یہ امیر لوگوں کی بیماری ہے غریب کے پاس اتنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ تاہم اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے۔ بچپن میں ایک خاص ٹائم ٹیبل کے مطابق ہم باقاعدہ بیمار ہوتے رہے ہیں۔ مثلا" جون جولائی میں سالانہ بخار لازمی ہوتا تھا جو گھر والوں کے مطابق Sun Stroke ہوتا تھا کیونکہ دوپہر کو چوری چھپے دھوپ میں ضرور نکلتے تھے۔ ساون بھادوں میں پھوڑے پھنسیاں نکلنا بھی معمول تھا۔ گھر میں موجود تالاب جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، پیتے تھے۔ مٹکے میں پانی ڈالتے وقت کپڑے سے چھان کر ڈالا جاتا تھا اور کپڑے پر مٹھی بھر آبی کیڑے مکوڑے جمع ہوجایا کرتے تھے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا کہ ان سے بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ پھوڑے عموما" چہرے پر نکلتے تھے اور انکا علاج بغیر آپریشن کے نہیں ہوتا تھا۔ آپریشن اماں خود کرتی تھیں اور آپریشن تھیٹر کا کام زمین سے لیا جاتا تھا۔ چونکہ Anesthesia کا رواج نہیں تھا اسلئے ہمیں قابو کرنے کے لئے اماں ایک گھٹنا ہمارے سینے پر اور دوسرا ہمارے ماتھے پر رکھتیں اور منہ بند رکھنے کے لئے دھونس دھمکی کا استعمال کرتی تھیں جو ہمیشہ کارگر ثابت ہوا۔ پھوڑے کا آپریشن ہونے کے بعد دوسرے دن وہ ٹھیک ہوجایا کرتا تھا۔ تاہم ایک بیماری ایسی تھی جسکا باقاعدہ کوئی موسم یا ٹائم ٹیبل نہیں ہوتا تھا اور وہ کسی بھی وقت ہوجاتی تھی گویا عشق کی ساری خوبیاں اس میں موجود تھیں سوائے خارش کے جو اضافی تھی۔ اس بیماری میں ہوتا یہ تھا کہ گردن سے جلد میں سوجن اور خارش شروع ہوتی اور کچھ ہی دیر میں پورے جسم کی جلد سرخ ہوجاتی اور شدید قسم کی سوجن ہوجاتی اور پھر بخار چڑھ جاتا۔ اس زمانے میں یہ شکایت بیماریوں کے فہرست میں شامل نہیں تھی۔ بہت عرصے بعد فلموں میں دیکھ کر پتا چلا کہ یہ الرجی کہلاتی ہے اور یہ کسی ناپسندیدہ چیز کیلئے جس کا خود کار ردعمل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں جب بھی یہ شکایت ہوتی تو اماں فورا" کہتیں کہ چیونٹیوں کے بلوں پر پاوں رکھا ہے کہیں۔ ہمارے حجرے میں بیر کے درختوں کے نیچے چیونٹیوں کے ایسے کئی گھر تھے اور بیر چنتے ہوئے اکثر پاوں پڑجایا کرتا۔ (یہ چیونٹیاں عام گھریلو چیونٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں)۔ اسکا علاج دوا دارو سے نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اسکا ٹوٹکہ بالکل الگ تھا۔ اماں فورا" کسی کپڑے میں مٹھی بھر گندم باندھ کر ہمارے جسم پرجہاں جہاں الرجی ہوتی، پھیرتیں اور پھر کہتیں کہ جاکر چیونٹیوں کے بل کے پاس ڈال آو۔ میں ایسا ہی کرتا اور حیران کن طور پر گھنٹے دو کے بعد میں ٹھیک بھی ہوجاتا۔ اماں کا خیال تھا کہ چیونٹیوں کے گھروں کی حفاظت پر جنات مامور ہوتے ہیں اور جب کوئی چیونٹیوں کے گھروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ جنوں کا رد عمل ہوتا ہے۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو سورہ نمل میں چیونٹی اور سلیمان علیہ السلام کا واقعہ پڑھنے کے بعد ہمیں خود بھی یقین آگیا کہ جنوں والی بات درست ہی ہوگی کیونکہ ممکن ہے سلیمان علیہ السلام نے جنوں کو حفاظت پر مامور کیا ہو۔ تاہم تھوڑا اور بڑا ہوا تو گندم کی مقدار بھی بڑھ گئی۔ اسلئے اس میں تھوڑی سی گندم چیونٹیوں کو ڈال کر باقی گندم دوکان پر لے جاکر اسکی ٹافیاں خرید لیا کرتا۔ دیہاتوں میں شاید یہ بارٹر سسٹم یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت اب بھی کہیں موجود ہو جو اس زمانے میں عام تھا۔ یہ بات البتہ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ چیونٹیوں کو گندم کھلانے کے بعد میں فورا" ٹھیک کیونکر ہوجایا کرتا۔ شاید یہ مابعد الطبیعیات عمل ہے جو ابھی تک ایک سربستہ راز ہی ہے۔ 

مجھے پہاڑوں سے خوف کیوں آنے لگا

میرے حلقہ احباب کو پتا ہے کہ گھومنا پھرنا بالعموم اور پہاڑ بالخصوص میرے لئے محبوب کا درجہ رکھتے ہیں۔ گاہے گاہے پہاڑ مجھے اپنی طرف اس شدت سے کھینچ لیتے ہیں کہ نیوٹن کا کشش ثقل کا فارمولا تک غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ شاید اسی محبت کی وجہ تھی کہ مجھے پہاڑوں سے کبھی ڈر محسوس نہیں ہوا۔ کئی بار اس بے خوفی میں ایسی بے وقوفیاں بھی کیں جن کا نتیجہ اگر یقینی موت نہیں تو عمر بھر کیلئے اپاہج ہونا لازم تھا، پھر بھی ڈر نہیں لگا۔ لیکن اب مجھے پہاڑوں سے ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ اس کی وجہ بہت خاص ہے۔ اور بتانا اس لئے ضروری ہے کہ بار بار دوست رابطہ کرکے دعوت دے رہے ہیں اور میں ان کو حیلوں بہانوں سے ٹال رہا ہوں۔ دراصل میرا ماں کی دعا پہ یقین اتنا پختہ ہے کہ میں یہ تو شک کرسکتا ہوں کہ صبح سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو لیکن اس بات پہ مجھے کبھی شک نہیں رہا کہ مری ماں کوئی دعا دیگی اور وہ میرے حق میں قبول نہیں ہوگی۔ اور یہ یقین اندھا یقین نہیں ہے بلکہ اس پیچھے سینکڑوں واقعات ہیں جن میں سے صرف ایک یہاں لکھ دیتا ہوں۔
تین سال پہلے کی بات ہے ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور جارہا تھا وہاں سے کراچی کی فلائٹ تھی۔ اماں نے رخصت کرتے وقت گلے لگا کر ماتھا چوما اور دعا دی کہ جاو اور اس طرح استری کئے ہوئے کپڑوں میں واپس آو۔ گھر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر میری گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور حادثہ اتنا شدید تھا کہ کہ گاڑی سڑک سے پندرہ بیس میٹر کے فاصلے پر قلابازیاں کھاتے ہوئے سڑک سے نیچے گری اور آخر کار چھت کے بل ٹھہر گئی۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا۔ جب گاڑی سے باہر نکلا ہاتھ جھاڑے اور اپنے جسم کو ٹٹولا تو مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔ جبکہ گاڑی کی حالت یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ٹھیک نہیں بچا تھا۔ ٹرک میں لاد کر واپس ڈر اسماعیل خان لے گیا۔ میں نے کپڑوں کو دیکھا تو کپڑوں کی استری تک خراب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اماں کی دعا یاد آئی اور مسکرا دیا۔ کئی ماہ بعد جب اماں کو پتا چلا تو ناراض ہوکر کہنے لگیں کہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ گاڑی بیچ دی۔تو میں نے جواب دیا کہ سچ پوچھیں تو غلطی ساری آپکی ہی ہے دعا ادھوری مانگی تھی۔ میری سلامتی کی دعا کی تھی گاڑی کی نہیں مانگی تھی۔ اب انہوں نے دعا میں ترمیم کردی ہے۔ اب کہتی ہیں اللہ تمہیں گاڑی سمیت سلامت لوٹائے۔ خیر بات پہاڑوں کی ہورہی تھی تو جب بھی سفر پر نکلتا ہوں اماں کی دعاوں کا سایہ سر پر ہوتا ہے۔
ہوا یوں کہ پچھلے سال سپانٹک مہم کی وڈیوز میں نے یوٹیوب پر اپلوڈ کردیں۔ وہ وڈیو بھائی نے اماں کو دکھا دیں کہ دیکھیں یہ ایسے خطرناک پہاڑوں میں جاتا ہے۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح مجھے روکا نہیں نہ ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی جانے سے منع کیا۔ بس ایک اضافی دعا اپنی دعاوں میں شامل کردی۔ وہ اب ساتھ یہ دعا بھی مانگتی ہے کہ یا اللہ اسے پہاڑوں سے صبر آجائے۔ اب مجھے نہیں پتا صبر کا مطلب کیا ہے۔ اگر صبر کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کی طرف جانے کا میرا دل ہی نہ کرے تو پھر تو دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ میرا دل اب بھی پہاڑوں کیلئے ویسے ہی مچلتا ہے۔ لیکن رہ رہ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہوسکتا ہے اللہ نے بطور آزمائش اس دعا کی قبولیت کو بطور خاص میرے اختیار میں دے دیا ہو۔ وہ کہتا ہو کہ اب تک تمہارے حق میں تمہاری ماں کی ہر دعا میں نے لفظ بلفظ اور حرف بحرف قبول کی ہے تو اس ایک دعا کا اختیار تمہیں دے دیا ہے چاہو تو رک کر اسکی دعا کو قبول کرو یا پھر چلے جاو اور اسکی دعا کو رد کردو۔ بس اسی امتحان میں ناکامی کا ایک خوف ہے جو مجھے لگ بھگ ایک سال سے روکے ہوئے ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اماں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے دعا میں ردو بدل کروا لوں مثلا" اس میں سطح سمندر سے اونچائی کی حد شامل کروا لوں کہ پانچ ہزار میٹر سے زیادہ اوپر جانے سے صبر آجائے۔ لیکن جب تک یہ ترمیم نہیں ہوتی میرا پہاڑوں سے خوف برقرار ہے اور فاصلہ بھی۔ 

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...