منگل، 21 اگست، 2018

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو



پچھلے دنوں ایک دوست نے بیٹھے بیٹھے سوال جھاڑ دیا کہ تم عمر کے اس آخری حصے میں بھی ہر وقت اتنے خوش 
دکھائی دیتے ہو تو تمہارا بچپن تو یقیناً بہت شاندار ہوگا۔ بہت سی شرارتیں کی ہونگی۔ اسکو تو پتہ نہیں میں نے کیا جواب دیا لیکن یہ سوال مجھے کچھ عشرے پیچھے لے گیا۔ اگرچہ بظاہر جتنا بھی ناقابلِ یقین ہو لیکن یقین مانئے بچپن میں میں بالکل بھی ایسا نہیں تھا۔ بلکہ تب تو میں نے سنا ہے ،دروغ بر گردنِ راوی کہ لوگ میری شرافت کی مثالیں بھی دیا کرتے تھے۔ اب اسکی وجہ واقعی میری شرافت تھی یا میں کام اتنی صفائی سے کرتا تھا کہ کسی کو کبھی مجھ پہ شک ہی نہیں ہوا، اس بات کا تعین فی زمانہ ممکن نہیں کیونکہ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اور ویسے بھی ماضی صرف سیاستدانوں کا ٹٹولنا چاہئے ہمارے ماضی کو کرید کر کیا ملنا ہے۔ ہاں البتہ ایک تاریخ دان کی طرح اس تاریخ کے وہ گوشے میں ضرور بتائونگا جسے پڑھنے کے بعد میری شرافت کا لبادہ قائم ہی رہے۔ وہ کسی شاعر نے کہاہے،
پتا نہیں کیا کہا ہے 
شاعر خوب ہی کہتے ہیں سب 
ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھتاہوں تو ضلع لکی مروت کے ایک دور افتادہ گاوں مشہ منصور میں ایک لگ بھگ ڈیڑھ فٹ کا بچہ کالے رنگ کے کپڑے پہنے سر پر سرکاری سکول کی مخصوص پی کیپ رکھے بغل میں کالے رنگ کے کپڑے میں بندھی ہوئی کچھ کاپیاں اور کتابیں اور گلے میں غلیل لٹکائے جسکا صرف دستہ لگ بھگ پونے فٹ کا ہوگا، اور دوسرے ہاتھ میں رات کی بچی ہوئی روٹی سے بنے  خالص گھی اور چینی لگے ہوئے رول کو وقفے وقفے سے چک مارتے دونوں جوتوں کو کلائی سے اوپر اور کہنی سے نیچے پہنے ہوئے پا پیادہ ننگے پائوں تیز تیز قدموں سے دور گائوں کے دوسرے کنارے واقع مکتب پرائمری سکول کی طرف جا رہا ہے۔ راستے میں کسی بیر کے درخت ک ساتھ گزرتے ہوئے کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی تو یک دم رکتا ہے، بستہ زمین پر رکھ کر اسکے اوپر روٹی ٹکا کرجلدی سے جیبیں ٹٹول کر اس میں سے مٹی کے چھوٹے چھوٹے گولے (غلئے) نکال کر اور غلیل گلے سے اتار کر ہاتھ میں لیکر دبے پائوں درخت کے نیچے جاتا ہے۔ شکار کو ڈھونڈ تا ہے نشانہ لیتا ہے اور غلیل کو آخری حد تک کھینچ کر وار کرتا ہے۔ غلئیہ پرندے سے ایک دوفٹ دائیں بائیں گزر جاتا ہے۔پرندہ اڑ کر کسی اور درخت کی طرف چلا جاتا ہے اور یہ ننھا شکاری زیرِ لب بڑبڑاتا ہے،دم پر لگا تھوڑا سا آگے لگتا تو یہ تو بس گرا ہی تھا۔ غلیل پھر سے گلے میں لٹک جاتی ہے بستہ بغل میں اور روٹی جو کہ نیچے ریت میں گر چکی ہوتی ہے اور بے شمار چیونٹیاں اس میں سے اپنا حصہ وصول کر رہی ہوتی ہیں ، اسے اٹھاتا ہے اور پھونک مار کر اس پر سے جتنا ممکن ہو ریت اور چیونٹیاں ہٹا دیتا ہے  اور ایک بار پھر کھانا شروع کرکے سکول کی راہ لے لیتا ہے۔ سکول کے قریب پہنچتے ہی گھنٹی بج جاتی ہے تو روٹی کا بچا ہوا ٹکڑا بستے کے ایک کونے میں ٹھونس دیتا ہے، جوتے بازووں سے نکال کر پائوں میں پہنتا ہے اور اور بستہ بغل سے نکا کر سر پر رکھ لیتا ہے کہ جسم کا توازن برقرار رہے ، راستے کے ساتھ ایک بڑے سرکنڈے میں گھس کر غلیل کو ریت میں چھپا لیتا ہے اور پھر سرپٹ دوڑتا ہوا سکول پہنچ جاتا ہے۔ شیشم کے درخت تلے بچھے ہوئے ٹاٹ کی طرف دور سے ہی بھاری دولت سے بھرا ہوا بستہ پھینکتا ہے اور اسی رفتارسے بھاگ کر اسمبلی میں ایک لائن کے آخرمیں چھپ کہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ آسان باش اور ہوشیار کے کمانڈ پر زور زور سے پائوں پٹختا ہے اور پھر گلا پھاڑ کر قومی ترانہ گانا شروع کر دیتا ہے۔
اسمبلی کے آخرمیں پتہ چلتا ہے کہ آج ہفتے کا دن ہے اور جمعے کے دن کی صفائی کی جانچ پڑتال ہونی ہے [اس زمانے میں ہفتہ وار چھٹی بروز جمعہ ہوتی تھی] جبکہ اسکے ناخن بڑھے ہوئے اور میل سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ کھبراتا نہیں جلدی جلدی دانتوں سے اپنے ناخن کاٹنا شروع کرتا ہے اور ناخن کے کٹے ہوئے ٹکرے کچھ تھوک دیتا ہے کچھ نگل جاتا ہے۔ استاد کے قریب آتے آتے ناک بھی اچھی طرح سے پہلے داہنی اور پھر باہنی آستین کے کف سے رگڑ کر صاف کر لیتا ہے اور اگر پھرناک کے اندرونی حصوں کی صفائی لے لئے قمیض کا دامن الٹا کرکے صحیح طرح سے صاف کرتا ہے۔ اور ہوشیار باش کی پوزیشن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
 استاد آتے ہیں چہرہ دیکھتے ہیں، ناخن دیکھتے ہیں اور پھر سر کے بال چیک کرنے کے لئے ٹوپی سر سے اترواتے ہیں  اور یہ دیکھ کرخو ش ہو جاتے ہیں کہ سر پر بال نام کی کوئی چیز ہی نہیں(بالوں کے حوالے سے آگے جا کر تفصلی بات ہوگی)۔ شاباش دیکر آگے بڑھ جاتے ہیں۔جی ہاں یہ ہم ہی تھے بقلم خود۔ہم نے وہ تمام کام جو نوجوانی ، جوانی اور اس ادھیڑ  عمری میں کرنے چاہئے تھے بچپن میں کئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہماری زیادہ تر حرکتیں بچگانہ
 ہی ہیں۔ لیکن بچپن پھر   بھی بچپن ہی ہوتا ہے اور کچھ یادیں ذہن کے پوشیدہ حصوں سے ایسی ہی چپکی رہ جاتی ہیں جیسے سگھڑپن سے عاری خاتون کی مانجھی ہوئی دیگچی کے اوپر والے اندرونی کنارے سے جلا ہو ا سالن۔(اس زمانے میں خالص لیموں کی طاقت سے بھرا اور ہر ا بھرا  وم نہیں ہوتا تھااور جھوٹے برتن ریت، نمک اور راکھ کے آمیزے سے رگڑ رگڑ کر مانجھے جاتے تھے) ۔  سنا ہے بچپن میں بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انکو طرح طرح کے کھلونے ملیں لیکن ہمارا معاملہ کچھ الگ سا تھا۔کھلونوں کے معاملے میں ہم خود کفیل تھے۔ بیر یا شہتوت کے درخت کی کوئی دوشاخہ ٹہنی کاٹ کر اس سے غلیل (جوکہ ہمارا پسندیدہ کھلونا اور اسلحہ تھا)کا دستہ بنایا۔ رہی ربڑ اور چموٹ (غلیل میں چمڑے کا وہ حصہ جس میں غلیہ رکھا جاتاہے)کی بات تو چموٹ بھی گھر میں ہی یا پڑوسیوں کے کسی پرانے جوتے کا چمڑاکاٹ کر خود ہی بنا لیا کرتے تھے۔البتہ تلاشِ بسیارکے باوجود بھی اپنے اور اڑوس پڑوس کے گھروں میں کوئی جوتا قابلِ دست درازی نایاب ہوتاتو ہماری اگلی منزل ہوتی گائوں کے نکڑ پر واقع وہ عظیم کوڑے کا ڈھیر ، جہاں سے ہماری اکثر ضروریات پوری ہوجایا کرتی تھیں۔ کوڑے کا یہ ڈھیر ہمارے لئے ایک ایسا خزانہ تھا جہاں ہر وہ چیز موجود تھی جسکی ہمیں ضرورت پڑتی۔اور خدا گواہ ہے کہ ہم کبھی وہاں سے نامراد بھی نہیں لوٹے۔ کیونکہ اگر وہاں بھی غلیل سازی کا یہ سامان میسر نہ ہوتا تو راستے میں گائوں کے بڑے تالاب کے کنارے جہاں سے لوگ پانی بھرا کرتے تھے اور چمڑے کے جوتوں کو گیلا ہونے سے بچانے کی غرض سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے ہم آنکھ بچا کرایک آدھ جوتے سے حسبِ ضرورت چمڑے کا ٹکڑا کاٹ کرکھسک لیتے۔اب رہا آخری جزو یعنی ربڑ جس میں غلیل کا سارا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔اس زمانے میں اتنی باریکیوں کا علم نہیں تھا وہ تو بھلا ہو ہمارے اساتذہ کا جنہوں نے دس سال بعد اسکا اسرار طبعیات پڑھاتے ہوئے کھولااور بسا اوقات ہماری خواہش کے عین برعکس ڈنڈے مار مار کردماغ میں ایسا گُھسا کر بٹھایا کہ ابھی تک لفظ بہ لفظ یاد ہے۔ انھوں نے بتایاکہ جب ہم غلیل کو نشانہ لیکر کھینچتے ہیں تو ہمارے بازووں کی مخفی توانائی(Potential Energy)  حرکی توانائی (Mechanical Energy)  میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دوبارہ مخفی توانائی میں تبدیل ہو کرربڑ کے کھچائو میں اخفا کر جاتی ہے۔ اور جب ہم چموٹ کو چھوڑتے ہیں توربڑ میں موجود مخفی توانائی ایک بار پھر حرکی توانائی میں بدل جاتی ہے اور یہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ غلئے کے جمود پر غالب آکر توانائی اس میں منتقل ہوجاتی ہے اور غلیہ برق رفتاری سے اڑتا ہوا پرندے کو جا لگتا ہے اور پرندہ نیچے گر جاتا ہے۔ اب پرندے کو لگنے کے بعد وہ ساری توانائی کہاں جاتی ہے؟ اگر تو پرندے کے اندر جاتی ہے تو پرندہ مر کیوں جاتا ہے؟ جبکہ جاندار چیزوں کو تو توانائی سے مزید توانا ہوجانا چاہئے۔ اور اس نظرئیے کی رو سے تو پرندے کا مرنا بنتا ہی نہیں۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے ڈانٹ کر کہا کہ تمہارے سر میں اور وہاں سے تمہاری زبان میں جس سے تم ہمیشہ الٹے سیدھے سوال کرتے ہو اور ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی اور نہ دوبارہ سوال کی ہمت ہوئی۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ توانائی پرندے کے اندر حلول کرجاتی ہوگی جس کی وجہ سے اسکا گوشت بہت لذیذ ہوجاتا ہے۔ اسکے حق میں یہ ایک دلیل ہی کافی ہونی چاہئے کہ ایک بار ہمیں شکار نہ ملا تو ہم نے چڑیا کے گھونسلے سے تین بچے اتار کر ذبح کئے تھے اور جب پکائے تو بہت پھیکے تھے۔ نہ ذائقہ نہ سواد لگتا تھا کسی چیز کی کمی ہے اور شاید یہ کمی وہی مخفی توانائی تھی۔خیر یہ سائنس کی باتیں ہم سائنس کے طالبعلموں کے لئے چھوڑتے ہیں اور اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں۔   ہاں تو ذکر ہور ہا تھا ربڑ کا۔ ربڑ خریدنے کے لئے کچھ وسائل درکار ہوتے تھے۔اپنی مدد آپ کے تحت ہم نے ماموں کی سائکل کی نئی ٹیوب سے لیکر پڑوسیوں کے ربڑ سے بنے مشکیزے تک سے اپنے لئے ربڑ کے مطلوبہ فیتے بنائے لیکن ان میں لچک نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور ہمارے لئے بے کار تھے۔تقابلی فائدے کا نظریہ
 (Comparative Advantage Theory) 
ہمیں جب معاشیات کے پروفیسر نے پندرہ سال بعد یونیورسٹی میں پڑھایا تو ہمیں انکی بات بچگانہ سی لگی کیونکہ وہ تو ہم بچپن میں ہی ذاتی تجرے کی بنیاد پر سیکھ ہی چکے تھے کہ ضروری نہیں ہر چیز خود ہی بنالی جائے۔ جیب خرچ یا پاکٹ منی نام کی چیز کا تو ہمارے وہاں رواج ہی نہیں تھا۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو جب والد صاحب کو تنخواہ ملتی تو ہم چار بہن بھائیوں کو ایک روپے کا بھورے رنگ کا نوٹ ملتا جسکے سامنے والے حصے پر چاند تارا اور پشت پر غالباً قائد ریزیڈنسی زیارت کا عکس ہوتا تھا۔جسے میں اور تین بہنیں چاروں ایک ایک کونہ پکڑ کرشاداں و فرحاں قاسم نیکہ(دادا) کی دکان (جو کہ گاؤں کا تقریباً ڈیپارٹمنٹل سٹور تھا  اس زمانے کے حساب سے)کی طرف یوں دوڑ کر جاتے جیسے کوئی چار خدارتر س انسان خالصتاً للہ کسی لاوارث مفلس کا جنازہ اٹھا کر قبرستان کی طرف چلتے ہیں نہ پیچھے روتے بین کرتے ورثاء نہ آگے آنکھوں میں نمی لئے فوجِ احباب و دوستاں، گویا دھرتی کا ایک بوجھ واپس دھرتی کو سونپنے جارہے ہوں۔دکان پر پہنچ کر فرمائشوں کے ڈھیر لگ جاتے اور مہینے بھر کی سوچی ہوئی چیزیں لیتے جو سفید چینی والی یا گہرے سرخ رنگ کی گڑوالی ٹانگری، ایک آنے کی دو، ہلا ل کی طرح کینڈی ، باریک باریک سلونی ٹانگری یا بسکٹ ہوتے۔ جو چیزیں ہمارے میزانئے (بجٹ)  سے باہر ہوتیں وہ یا تو آپس میں بانٹ کر گزارہ کرلیتے ورنہ اگلی یکم کونسا زیادہ دور تھی بس تیس دن کی تو بات تھی۔ لیکن ہم کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ وسائل تک رسائی کے ہم ایک کیا سیکڑوں راستے نکال لیا کرتے تھے۔مثلاً گھر میں موجود ردی، لوہے کے ٹکڑے ، پرانے ٹین ڈبے یا خوش قسمتی سے کوئی ایک آدھ پرانا نائیلون کا چپل اپنے یا اڑوس پڑوس سے مل جاتا تو گلی میں آواز لگانے والے بنجارے کو بیچ ڈالے۔ لیکن یہ ذرائع اتنے اچھے نہیں تھے جن پر ہر بار تکیہ کیا جاسکتا۔ قدرے بہتر اور قابلِ بھروسہ طریقہ یہ تھا کہ امی کا کوئی کام کرکے جیسے کوڑاباہر ڈال کر یا پانی کے مٹکے اور گھڑے تالاب سے پانی نکال کر بھر دئیے اور پھر فرمائش کی تو وہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر دادا دادی کی آنکھ بچا کر گندم یا چنے کی بوری سے دو چار مٹھی دانے اپنے دوپٹے کے پلو میں اچھی طرح باندھ دیتیں اور ساتھ ہدایت بھی کرتیں کہ اگر دادا یا دادی پیچھے سے آواز دیں تو رکنے کی بجاے بھاگ جانا۔ہم یہ پوٹلی بغل میں دبائے اناج دوست اورسماج دشمن عناصرمیرا مطلب ہے دادا دادی کی نظر بچا کرگائوں کے وسط میں بڑے سیرین کے درخت کے سامنے قاسم نیکہ (نیکہ پشتو میں دادا اور نانا کو کہتے ہیں) کی دکان پر پہنچ جاتے۔ وہ چارپائی سے اٹھتے تکئے ک ساتھ رکھے موٹے شیشے کی عینک اٹھاتے ناک پر ٹکا کر اس میں بندھا ہوا کپڑا سر کے پیچھے اچھی طرح جماتے کہ عینک گرنے نہ پائے اور پھر ہماری پوٹلی کھولنے لگتے۔ بہت ضعیف لعمر تھے اور ہاتھوں میں ہلکا سا رعشہ تھا تو اکثر گرہیں کھولنے میں انکو مشکل پیش آتی۔ اور جتنی دیر میں گرہیں کھلتی وہ اپنے مخصوص انداز میں ڈانٹتے رہتے کہ تم نے پوٹلی مکہ مدینہ لے جانی تھی کہ اتنی زیادہ اور سخت گرہیں لگائیں۔ دادا قاسم نے جس زمانے میں حج کیا تھا اس زمانے میں حج کا سفر بحری جہاز سے ہوتا تھا جو غالباً کم سے کم چودہ دن کا سفر تھا۔ اسکا اندازہ میں نے اپنے دادا کے سفرِ حج سے لگایا کیونکہ انھوں نے بحری سفر کیا تھا جسکی کچھ جھلکیاں شاید آگے جاکر بیان بھی ہوں۔خیر گرہ پہ گرہ کھلتی جاتی اور ساتھ ساتھ غلیل کے لئے نئے ربڑ لینے کی خوشی میں ہماری دل کی کلی بھی کھِلتی جاتی۔ وہ دانے تولنے کی بجائے لکڑی کے بنے ہوئے ایک برتن میں ڈال کر ناپتے اور پھر بتاتے کہ اس کے کتنے پیسے بنتے ہیں۔ عموماً ایک جوڑا نئے ربڑ اور دکان کے وسط میں لٹکی ہوئی چھاننی میں رکھے ہوئے دو بسکٹ ہی ملا کرتے تھے۔ بسکٹ چھت سے لٹکانے کا مقصد انہیں چوہوں کے دسترس بچانابتایا گیا ہے۔ خیر ہم بیسویں صدی کے آخر میں بھی مال کے بدلے مال
 (Barter Trade) 
کا لین دین کرکے گھر کی راہ لیتے اور اپنی غلیل بنانے میں جت جاتے۔
کبھی گاڑی چلانے کادل کیا تو پالش کی ڈبیوں کے پہئے بنا کر گتے کے کسی کارٹن کے نیچے لگائے اور چلتی کا نام گاڑی۔ کبھی لٹوگھمانے کادل کیا تو تھوڑا انتظار کرنا پڑتا کہ گھر میں یا قریبی رشتہ داروں میں کوئی بیمار ہو اور اسے کوئی ٹیکہ لگے تو ٹیکے والی بوتل پر لگے ربڑ کے کارک کوبلیڈ سے چھیل لیا اور ماچس کی تیلی کے ایک سرے کو نوکیلا بنا کراس میں لگایا لیں جی لٹو تیار ہے، اپنی ہتھیلی پر لٹو گھمانا شروع کر دیا۔ پنسل اس دور میں ایجاد ضرور ہوئی ہوگی لیکن ہمارے یہاں شاید اس وقت تک یہ ضروریات کی فہرست میں نہیں تھی۔ یہ کام ریڈیو کی پرانی بیٹری توڑ کر اس میں لگے کاربن راڈ سے لیا جاتا تھا۔اسے ہم کالی سلیٹی کہا کرتے تھے۔چونکہ سب کی سب ایک جیسی ہوتی تھیں اسلئے پہچان کی خاطر عموماً ہم اپنی سلیٹی کے ایک سرے پر لگی آہنی کیپ(ٹوپی) کا ایک کنارہ زور دیکر موڑ لیا کرتے تھے۔
 بیٹری (Cell)
 سے نکلنے والے کاربن کو تختی لکھنے والی روشنائی کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔(دوات بنانے کا نسخہ طالبعلموں کے وسیع تر مفاد میں آگے درج کیا گیا ہے) بسا اوقات اس عمل کے دوران سلیٹی بھی دولخت ہوجایا کرتی تھی۔ پین کا استعمال ہمارے گھر میں گناہ سمجھا جاتا تھا اور بال پوائنٹ پین تو گناہِ کبیرہ کے مترادف تھا۔ بڑی سے بڑی شرارت پر معافی ملنے کے امکانات تھے لیکن اگر گھر کے کسی بڑے نے ہاتھ میں بال پوئنٹ پین دیکھ لیا تو یہ ایک ناقابلِ معافی جرم تھا اور اس جرم کی سزا تعذیراتِ والدِ محترم میں بحروف جلی درج تھی۔لکھنے کے لئے قلم  جو کہ سرکنڈے سے بنتے تھے اور بنانے والے کلاس ٹیچر ہوتے تھے ۔ انکی جیب میں ایک تیز دھار چاقو ہمہ وقت اسی کام کے لئے موجود ہوتا تھا۔
تختی لکھنے کے لئے قلم کی نوک دو سے تین ملی میٹرچوڑی ہوتی جبکہ کاپی (نوٹ بک) پر لکھنے کے لئے قلم کی نوک باریک ہوتی تھی جو تقریباً ایک ملی میٹر ہوتی ہوگی۔ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر ہولڈر بھی تحفتاً مل جایا کرتے تھے سال میں ایک بار۔ اسکے دو حصے ہوتے تھے دستے کو ہولڈر اور اس کے اگلے حصے میں لوہے کی نب لگی ہوتی تھی۔
نب دو قسم کی ہوتی تھیں اردو کیلئے زیڈ اور انگریزی کیلئے جی نب ہوا کرتی تھی۔
اگرچہ ہمارے نصابِ تعلیم میں انگریزی کی تعلیم جماعت پنجم سے شروع ہوتی تھی اور درسی کتاب وہی ہوتی تھی جو آج کل پرائیویٹ سکولوں میں پلے گروپ میں پڑھائی جاتی تھی۔
لیکن چونکہ والد صاحب سینئر انگلش ٹیجر تھے اور میں انکے زیادہ قریب تھا (قریبی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انکا لاڈلا تھا بلکہ یہ ہے کہ میں بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ڈھیٹ تھا اور مار کھانے سے نہیں گھبراتا تھا) اسلئے بچپن سے ہی شوقیہ کوئی نہ کوئی کتاب پکڑکر ان سے انگریزی پڑھتا۔ شاید قارئین اسکو ہمارا شوقِ مطالعہ سمجھیں اور ہماری ذاتی خوہش بھی یہی ہے کہ یہی سمجھا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات شام کو گھر آتے وقت والد صاحب ہمارے ہاتھ میں لکڑی کا تختہ جسے ہم کرکٹ بیٹ کہتے تھے یا درخت سے کاٹی ہوئی لکڑی جسکا ایک سرا مڑا ہوا ہوتا تھا جسے ہم ہاکی کہا کرتے تھے ، دیکھ لیتے اور مختلف تجربات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سزا سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ کوئی کتاب پکڑ کر والد صاحب کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرکے بیٹھ جاو تو انکو سزادینا بھول جاتا تھا۔ شاید انکی سب سے بڑی خوشی ہی یہی تھی کہ بچوں کے ہاتھ میں کتاب ہو بچہ بھلے اپنا ہو ، پڑوسی کا ہو، گاؤں کے کسی دوسرے کنارے رہتا ہو یا دوسرے گائوں کا رہنے والا ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں نے کھیل کو پڑھائی میں کیموفلاج کرنے کا ایک اور بھی طریقہ نکالا تھا کہ بجائے خاص طور پر کرکٹ کے لئے گڑھے ہوئے بیٹ سے کھیلنے کے تختی کو بطورِ بیٹ استعمال کیا جائے۔ ایسے میں اگر گھر کے کسی بڑے کی نظر خدا خواستہ نخواستہ پڑ بھی جائے تو تختی کو زور زور سے ہوا میں آگے پیچھے لہرایا جائے اور پوچھنے پر بتا دیا جاتا کہ جی ابھی دھوئی ہے تو ہوا لگوا کر سکھا رہے ہیں تختی لکھنی ہے۔ یہ طریقہ بھی کافی کامیاب رہا ہے اوراول الذکر کے بعد دفاعی نقطئہ نظر سے یہ دوسرا مؤثر طریقہ تھا۔تختی سے کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے میری تختی درمیان میں سے ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو گئی تھی جسے گائوں کے واحد لوہار تاج محمد نے لوہے کی پتریاں لگا کر مرمت کر دیا تھا۔ اور جتنی دیر میں وہ مرمت کرتا میں اسکی دھونکنی کی رسی کے ساتھ لٹک لٹک کر کوئلے دھکانے میں مدد کر رہا تھا جس میں اس نے درانتیاں کلہاڑیاں اور چھریاں وغیرہ گرم کرنے کے لئے رکھی ہوئی تھیں۔ اس سے شاید آپکو یہ غلط فہمی ہو کہ مجھے لوگوں کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گائوں میں رہنے والا ہر سن رسیدہ شخص پورے گائوں کے بچوں کا بڑا سمجھا جاتا تھا۔ اور تختی توڑنے کے جرم میں اسے پیرانہ سالی کی بدولت یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ ، طعن و تشنیع حتیٰ کہ زدوکوب بھی کر سکتا تھا اور گھر والوں کو اس عمل کا علم ہو جانے کی صورت میں اسکا شکریہ ادا کیا جانا تھا اور میری سزا دہرائے جانے کا بھی قوی امکان تھا۔ اسلئے ان تمام شرور سے محفوظ رہنے کے لئے یہ مدد ناگزیر تھی۔ شاید آپکے ذہن کے کسی گوشے میں یہ سوال سر اُٹھائے کہ اس مرمتی کی اجرت کی ادائیگی کہاں سے ہوئی۔ اس سلسلے میں عرض کرتا چلوں کہ اس زمانے میں گائوں کے لوہار ، بڑھئی، حجام اور موچی کو نقد ادائیگی نہیں کی جاتی تھی۔ وہ پورا سال اپنی پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرتے اور پھر فصل کی کٹائی کے وقت انکو غلہ دیا جاتا تھا۔ یہ گائوں کے سارے لوگ دیتے تھے چاہے کوئی کام کروایا ہو یا نہیں۔ ہاں کچھ کاموں کے عوض ان پیشہ ور لوگوں کو نقد ادائیگی بھی ہوتی تھی مثلاً بچے کی پہلی سر منڈوائی، بچے کی پیدائش پر ڈھول بجانا، بچے کا ختنہ ( واضح رہے کہ ختنہ بڑھئی یا لوہار نہیں بلکہ حجام سے کروایا جاتا ہے)، شادی بیاہ کی تقریب میں کھانا پکانا اور مہمانوں  کی خدمت کرنا وغیرہ۔ اس مضروب اور جہاندیدہ تختی نے جماعت اول ادنیٰ سے لیکر جماعت چہارم تک ہمارا ساتھ دیا۔ جماعت پنجم میں تختی نہیں ہوتی تھی تو میں نے دیوار میں لکڑی کی دو کیلیں ٹھوک کر اور انکے اوپر تختی رکھ کر گیلی مٹی سے کبوتروں کا گھونسلہ بنا لیا۔ (بعد میں گائوں کے گھر کے وہ کچے کمرے ہماری غیر موجودگی میں گر گئے تھے اور وہ تختی شاید ابھی بھی ملبے تلے کہیں نہ کہیں موجود ہی ہوگی)۔اس تختی سے ایک بہت ہی گہری محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا، ہے اور رہیگا۔ سچ پوچھئے تو دورِ جدید کی تمام تر جدید ٹیکنالوجی سے وہ سکون کبھی نہیں ملا جو کبھی اس ٹوٹی پھوٹی تختی کو گلے لگا کر سونے سے ملتا تھا جو سونے کے بعد والدہ بہت آہستگی سے ہمارے بازوکھول کر ہم سے الگ کرکے چارپائی کے نیچے رکھ دیتی تھیں۔ میں اس درخت کے ہر پتے کا مقروض ہوں جسکی لکڑی سے میری محبوب تختی کو وجود ملا۔ اگر ممکن ہوتا تو میں اس تختی کو اپنی قبر کا کتبہ بناتا لیکن افسوس کہ وہ بہشتی تختی شاید واپس اپنے ماخذ کی طرف لوٹ گئی ہے ۔میری نظر میں اسکی اہمیت ایک تختِ شاہی بلکہ تختِ سلیمانی سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ میری ہر پرواز اسی تختی کے مرہونِ منت ہے۔  تختی لکھنے کا رواج جس تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے بعید نہیں کہ کچھ سال بعد یہ مکمل طور پر معدوم ہی ہو جائے اسلئے تختی سے متعلق کچھ ضروری معلومات اگلی نسلوں کے لئے محفوظ ہی کرلینا دانشمندی  ہوگی۔ ہماری پہلی اور آخری تختی بھی کتابوں کی طرح ہمیں بڑے بہن بھائیو ں سے ورثے میں ملی تھی اور اسکے ساتھ ہماری وفا کا قصہ آپ پہلے ہی سن چکے ہیں۔ محبت کے معاملے میں بھلے موحد نہ رہے ہوں لیکن تختی کے معاملے میں ہم نے جو وفاداری نبھائی وہ شاید تاریخ تختی میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ تختی کا روزمرہ کا معمول تو ایک دائرے میں گھومتا ہے لیکن میں امورِ شبینہ سے اسکا آغاز کرتا ہوں۔ عموماً تختی شام کے وقت دھوئی جاتی تھی۔ دن کی لکھائی ناخنوں سے کھر چ کھرچ کر اس سے علیحدہ کرتے(میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ہم دل کی تختی سے بھی دن بھر کا غصہ ، کینہ ، بغض اور حسد بھی شام کو اسی طرح کھرچ کھرچ کر ہٹا کر رات کو سوئیں تو ہماری زندگیاں بہت آسان ہو سکتی ہیں)۔ ہمارے لکھے ہوئے حروف بہت سخت جان ہواکرتے تھے جسکی وجہ آگے جا کر دوات کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں پڑھ کر سمجھ آجائیگی۔ کھرچنے اور دھونے کے بعد اگلا مرحلہ تختی پر مٹی کی باریک تہہ لگانے کا ہوا کرتا تھا۔ ویسے توتختی کے لئے بہترین مٹی ملتانی مٹی سمجھی جاتی تھی لیکن وہ ہمارے پہنچ سے کہیں دور تھی۔ وہ خریدنی پڑتی تھی اور اسکے لئے وسائل کی شدید کمی تھی جسکا ذکر میں پہلے ہی کرچکا ہوں۔ ملتانی مٹی ایک خاص قسم کی چکنی مٹی ہوتی ہے اور مجھے تو اسکا ذائقہ سب سے زیادہ پسند تھا۔ تختی کی لپائی ملتانی مٹی کا ایک ذیلی استعمال تصور کیا جاتا ہے۔ اسکے اصل گاہک اور خریدار تو خواتین ہی ہوا کرتی تھیں جو بڑے چائو سے رات بھر بھگو کر صبح اپنے بالوں میں لگاتی تھیں اور غالباً چہرے پر بھی کیل مہاسوں اور چھائیوں کے علاج کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ اب چہرے پر لگانے سے کیا فرق پڑتا ہوگا اسکے بارے میں تو کچھ کہنے سے قاصر ہوں(کیونکہ خواتین کے چہرے غور سے دیکھنے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کاسمیٹکس انڈسٹری نے بہت ترقی کرلی تھی) لیکن بالوں پر لگانے کے بارے میں اب میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ملتانی مٹی لگانے سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو بالوں سے جوئیں تھوک کے حساب سے چکناہٹ میں پھنس کر ضرور نکل جاتی ہونگی۔ لیکن اسکا استعمال آرائش و زیبائش سولہ سنگھار کے ایک اور بھی تھا۔ حاملہ خواتین ملتانی مٹی بڑے شوق سے کھایا کرتی تھیں اور اتنی کثرت سے کھاتی تھیں کہ منہ کے دائیں اور بائیں باقاعدہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے بلبلے ایسے نکل نکل کر باہر آرہے ہوتے تھے جیسے زندہ آتش فشاں پہاڑ سے لاوا ابل ابل کر باہر آرہا ہوتا ہے۔ اب یہ بات پتہ نہیں قابلِ بیان و اشاعت ہے بھی یا نہیں لیکن ملتانی مٹی کے ہم کچھ ایسے رسیا ہ تھے کہ گاؤں کی تمام حاملہ خواتین کا پورا ڈیٹابیس ہمارے پاس موجود تھا۔ اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارا دور کا بھی محکمہ بہبودِ آبادی سے کسی قسم کاکوئی واسطہ یا تعلق تھا بلکہ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ کچھ خواتین ساس سسر کی نظر بچا کر ملتانی مٹی منگوایا کرتی تھی اور ایسی خواتین کی خدمت کے لئے میں خدائی خدمت گار ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انتہا ہے تو خاطر جمع رکھئے کیونکہ یہ صرف آغاز ہے۔ گائوں میں جب کوئی شادی ہوتی تو دلہے دلہن سے زیادہ خوشی مجھے ہوتی تھی۔ بلکہ انکی خوشی کے بارے میں میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ میں تو اسلئے خوش ہوں کہ مفت میں کچھ ملتانی مٹی مل جائیگی پتہ نہیں یہ لوگ شادی میں اتنے خوش کیوں ہیں۔ اگرمیرا حافظہ ٹھیک طرح سے میرا ساتھ دے رہا ہے تو مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ کئی دفعہ جب کوئی نئی نویلی دلہن مجھے پیار سا اٹھا کر گود میں بٹھا لیتیں تو ایک سوال میں ضرور پوچھتا تھا کہ آپ ملتانی مٹی کب منگوائینگی؟ جب منگوانی ہو تو مجھے بتانا میں اچھی والی سبز مٹی لا دونگا۔ اس سوال کے بعد وہ کیوں مجھے گود سے اتار دیا کرتی تھیں ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔بات ذارا دور تلک چلی گئی لیکن بتاناضروری تھا کہ قارئین کو
 اندازہ ہو جائے کہ ملتانی مٹی کے حصول کے لئے ہمیں کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ اور اتنی محنت سے حاصل کردہ مٹی تختی پر ملنا اس زمانے میں مشکل لگتا تھا۔ اگر کبھی دل کیا اور لگا بھی لی تو تختی چاٹنی پڑ جاتی تھی بعد میں۔ خیر تو ہم بتا رہے تھے کہ دھلائی کے بعد تختی پر چکنی مٹی کی باریک تہہ لگانی پڑتی تھی۔ کوری تختی(بغیر مٹی کی تہہ والی) پر لکھنا تختی لکھنے کے آداب کے سخت خلاف تصور کیا جاتا تھا۔ اسکی ایک وجہ تو یہ تھی کہ تختی چکنی ہوتی تھی اور اس پر قلم پھسلتا تھا جس سے خوشخط لکھنا ممکن نہ ہوتا  بالکل ایسے ہی جیسے کسی کسی چہرے پہ نظر پھسل پڑتی ہے اور دل، خیر چھوڑئے، دوسری وجہ یہ کہ تختی سے دھلائی کے دوران الفاظ مٹانا مشکل ہوتا تھا اور تختی  مثلِ دامنِ کہنہ سیاہ کار، داغدار ہوجاتی تھی۔دھلائی لپائی کے بعد تختی سوکھنے کے لئے رکھ دی جاتی تھی اور صبح حسبِ معمول بستہ ایک بغل میں، غلیل گلے میں اور اور تختی دوسرے بغل میں دبائے ہم سوئے مکتب رواں دواں ہوتے۔ سکول میں جب تختی لکھنے کا عمل شروع ہوتا تو پہلے تختی سے اضافی مٹی رگڑ رگڑ کر صاف کرنا ضروری ہوتا۔ کتنی مٹی ہٹانی ہے اور کتنی رہنے دینی ہے اسکی صحیح مقدار یہاں بتانا مشکل ہے۔ ہمیں کب کس نے اور کیسے بتایا کہ کتنی مٹی رہنی چاہئے یہ بھی نہیں یاد۔ لیکن اس زمانے میں پتہ تھا کہ کتنی رہنی چاہئے بالکل ایسے ہی جیسے نو مولود بھیڑ بکری کے بچے کو بالکل صحیح صحیح علم ہوتا ہے کہ دودھ کہاں سے پینا ہے۔ مٹی ہٹانے کا بھی اپنا ایک خاص طریقہ تھا۔ تختی زمین پر رکھ کرایڑھی سے زور زور سے رگڑا جاتاتھا۔ اور پھر پھونک مار کر اس پر سے گرد ہٹا دیا جاتا تھا تاکہ یہ تعین کیاجا سکے کہ کس کس جگہ سے مزید کتنا کتنا رگڑنا باقی ہے ۔ اس رگڑنے اور پھونکنے کے عمل میں مٹی اکثر اڑ کر آسمان کے تھوکے کی طرح منہ پر ہی آجایا کرتی تھی۔ لیکن اس زمانے میں دھول مٹی صحت کے لئے مضر نہیں ہوا کرتی تھی شاید کیونکہ کبھی اس سے ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔یس گِل صفائی اور دھول چٹائی کے بعد اگلا مرحلہ تختی پر لکیریں کھینچنے کا ہوتا تھا۔ لکیریں کھینچنے کے لئے پیمانہ کلاس میں شاید ہی کسی خوش نصیب کے پاس ہوتا ہو۔ یہ کام ساتھی طالبعلم کی تختی سے لیا جاتا تھا۔ یہ واحد لکیریں میں نے زندگی میں دیکھی ہیں جو تقسیم نہیں بلکہ جوڑتی تھیں ایک طالبعلم کو دوسرے سے اور ایک باہمی تعاون کا درس تھا۔ اگر آپ آج کسی کو اپنی تختی نہیں دینگے تو کل وہ بھی آپکو نہیں دے گا۔ اسلئے یہ ایک ناگزیر باہمی تعاون تھا۔ تختی کے ایک طرف اردو لکھنے کے لئے چار یا پانچ لکیریں لگائی جاتی تھیں اور دوسری طرف سو خانوں والا لکیروں کا ایک جال سا بنا ہوتا تھا ۔ ان خانوں میں ہندسے لکھے جاتے تھے۔ ہندسے اردو  (۱،۲،۳،۴،۵) اور انگریزی(5,4,3,2,1) دونوں رسم لخط کے سکھائے جاتے تھے ۔ اور پرائمری سکول میں یہ واحد موقع تھا جب ہم نے کسی کو اردو ہندسے صحیح لکھنے اور پڑھنے پر فخر محسوس کرتے دیکھا۔ ابتدائی جماعتوں میں استاد تختی کچی کیا کرتے تھے (کالی سلیٹی سے ا، ب ، پ ، ت ، ٹ وغیرہ لکھ دیا کرتے تھے)۔ اور اسکے بعد ہمارا کام اسی کچی تختی کو پکا کرنا ہوتا تھا(یعنی استاد کی لکھائی کے اوپر قلم سے لکھنا ہوتا تھا)۔ ایک بار لکھنے کے بعد استاد کو معائنہ کروایا جاتا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی تھی۔ اسکے بعد اس لکھائی پار اس وقت تک خالی قلم پھروایا جاتا تھا کہ لکھائی کا صرف خاکہ دکھائی دیتا تھا روشنائی قلم کی نوک سے تقریباً اتر جایا کرتی تھی۔ ابتدائی جماعت کے کچھ ماہ بعد ہی ہمارے استاد کا تبادلہ ہو گیا اور نئے استاد ماسٹر سبز علی خان آگئے۔ انکے بارے میں مشہور تھا کہ انکے پاس جو چھڑی ہوتی ہے عموماً اس پر انسانی کھال کے ٹکڑے چپکے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ جتنا دل سے پڑھاتے ہیں اس سے دگنا دل سے مارتے بھی تھے غلطی کرنے پر۔ پہلے ہی دن ہم نے انکے دل میں جگہ بنانے کی ایک ترکیب سوچی۔ تختی پکی کرنے کے بعد انکو دکھائی اور ان سے شاباش لی۔ اور پھر بیٹھ کر بجائے حروف کے اوپر قلم پھیرنے کے لکھائی جلدی جلدی اپنی سلیٹی کی لوہے والی کیپ سے چند ہی منٹ میں کھرچ ڈالی۔ اپنی برق رفتاری کی داد لینے جب انکے پاس گئے تو انھوں نے ماتھے پر ان گنت بل ڈال کر غصے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ ہم نے داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے عرض کیا کہ جناب لکھائی کی مشق کی ہے۔ یہ سن کر انکے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ہمیں مرغا بننے کا حکم دیا۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی اور مرغا بن گئے۔ اسکے بعد ہمیں وہ جگہ نظر تو نہیں آئی جہان جہاں چھڑی کے ضرب لگے کیونکہ ہم دانا چگتے ہوئے مرغے کی حالت میں تھے اور سر نیچے تھا لیکن جگہ جو بھی تھی بہت نازک تھی اور چھڑی اتنے زور زور سے پڑی تھی کہ کئی دنوں تک ہم ٹاٹ پر سیدھے بیٹھنے کی بجائے کوہلو کے بل ہی بیٹھے رہے۔ اس سزا کا اثر یہ تھا کہ ہم نے پھر کبھی بھی انکے سامنے غیر ضروری پھرتی اور چستی نہیں دکھائی۔ تختی لکھنے کے لئے جو روشنائی استعمال کی جاتی ہے وہ کاغذ پر لکھنے والی روشنائی کی طرح انمٹ نہیں ہوتی۔ اس میں پانی میں حل ہونے والی کالک استعمال ہوتی ہے۔ اجزائے ترکیبی میں ایک خالی دوات، چار سے پانچ چٹکی کالک، حسبِ ضرورت پانی اور سوتی کپڑے یا اسفنج کا چھوٹا ٹکڑا ۔یہ بنیادی اجزاء ہیں انکے علاوہ اجزاء اختیاری ہوتے ہیں جو روشنائی میں مزید کچھ خوبیاں پیدا کرتی ہیں مثلاً گاڑھا پن اور چمک۔ عموماً اس مقصد کے لئے گُڑ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یا چینی ڈالی جاتی تھی۔ ہمیں ذاتی طور پر گڑ پسند تھا کیونکہ ایک تو گڑ سے روشنائی کی سیاہی میں اضافہ ہو جاتا تھا اور روشنائی گاڑھی ہو جاتی تھی جس سے لکھائی ابھری ہوئی ٹھہر جاتی تھی جسے آج کے جدید دور میں سہ جہتی  لکھائی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس لکھائی کو دھونا تھوڑا سا مشکل ہوتا لیکن اسکے ذیلی فوائد ایسے تھے کہ دھونے کا جوکھم کم لگتا تھا۔ جی ہاں اس روشنائی میں مٹھاس کی وجہ سے مکھیوں کے لئے بڑ ی کشش ہوتی تھی اور ہم اسے بطورِ چارہ استعمال کرکے مکھیوں کا شکار کھیلا کرتے تھے۔ مکھیا ں جب ہماری لکھائی کو بوسے دینے آتیں تو ہم لچکدار ربڑ کی پٹی سے انکا شکار کھیلتے اور مری ہوئی مکھیا بڑے احتیاط سے جمع کرکے ہم جماعتوں پر اپنی برتری جتلا کر اتراتے۔ دوات میں پانی صرف ایک بار ہی استعمال ہوتا اسکے بعد جب بھی ذرا سی نمی کی کمی محسوس ہوئی بڑے احتیاط سے دوات میں تھوک کر اس کمی کو پورا کرتے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا کہ کچھ دن کی چھٹیا ں آجاتیں اور اور دوات کا ڈھکنا کھلا رہ جاتا تو کچھ زیادہ ہی خشک ہو جاتی اور ہمیں نمی بحال کرنے کیلئے کئی ساتھی طالبعلموں کو بھی اس میں تھوکوانا پڑتا۔ اس زمانے میں ہم سائنس کی بہت سی باریکیوں سے ناآشنا تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ لعاب ِ دہن کے بس دو ہی استعمالات ہیں۔ ایک دوات کی نمی برقرار رکھنا اور دوسرا سلیٹ کی صفائی۔ سلیٹ کا شمار بھی ان چیزوں میں ہوتا ہے جو تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں۔ پچھلے دنوں کتابوں کی دکان پر جانا ہوا تو سلیٹیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ دوکاندار سے پوچھا کہ سلیٹ آج کل بھی لوگ لیتے ہیں جان کر بڑی خوشی ہوئی۔ لیکن سلیٹ میں ایک اختراع بھی دیکھی ۔ سلیٹ کے عرضی کنارے کے وسط میں ایک سوراخ تھا۔ میں سلیٹ اٹھا کر حیرت سے دیکھتا رہا اور جب رہا نہ گیا تو پوچھ ہی بیٹھا کہ اس تجدید کی وجہ کیا ہے؟ دکاندار نے بتایا کہ سلیٹ آج کل پھل اور سبزیاں بیچنے والے خریدتے ہیں اور اس پر روزانہ کے نرخ درج کرتے ہیں۔ سوراخ میں ڈوری ڈال کر اسکو لٹکاتے ہیں۔ سلیٹ کے ساتھ کئے جانے والے اس سلوک پر ہماری خوشی کافور ہو گئی۔ لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ شاید ان دکانداروں کی بھی ہماری طرح سلیٹ کے ساتھ کچھ پرانی اور سہانی یادیں وابستہ ہیں اسلئے ابھی تک وہ وفا نبھارہے ہیں۔ جو لوگ سلیٹ کے استعمال سے ناوقف ہیں انکے لئے عرض کرتا چلوں کہ یہ لوہے کی چادر سے بنا ایک آلہ ہوتا تھا۔ جس پرغلطی کے ڈر سے آزاد ہوکر ہم لکھا کرتے تھے اور اور غلط لکھا گیا تو کوئی پریشانی نہیں فوراً تھوک کردامن سے صاف کیا اور پھر سے لکھا۔ یہ ریاضی کے سوالات حل کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔ اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ لکھائی کے دوران ان ڈو  جیسی سہولیا ت میسر ہوتی تھیں جو کمپیوٹر نے بہت بعد میں متعارف کروائیں۔ یعنی کچھ غلط لکھا تو کوئی بات نہیں مٹا دو اور دوبارہ لکھ لو۔ لیکن ان ساری چیزوں کے بارے میں بتانے سے پہلے ہم اپنے حلئے پر تفصیل سے روشنی ڈالنا بھول ہی گئے۔ کچھ توسطورِ بالا میں ذکر ہو ہی چکا لیکن جو سب سے اہم اور تقریباً ہماری پہچان تھی وہ ہمارا سر تھا۔ ایک تو ہمارے جسم کے تناسب سے بڑا تھا اور دوسرا اس پر کبھی بال نہیں ہوتے تھے۔ اکثر لوگ ہمیں دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ اتنا بھاری سر اتنے ننھے سے جسم ہم اٹھا کیسے لیتے ہیں۔ اور بال نہ ہونے کی وجہ یہ ہر گز نہیں کہ خدانخواستہ ہم بچپن میں کنج پن کا شکار تھے۔ بلکہ اکثر ہم عمر ساتھی جب ہمارے بال دیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ ہم ان چند خوش نصیبوں میں میں سے ہیں جو اب تک کنج پن سے محفوظ ہیں تو ہماری توجیہہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ہمارے سر کی جلد کو جتنی روشی کی ضرورت تھی وہ بچپن ہی میں مل چکی ہے اب اسکی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارے والدیں کے ذہن میں نہ جانے کس نے اور کیسے یہ بات بٹھا دی بلکہ اچھی طرح ٹھونس دی تھی کہ بڑے بال دماغ کا تیل پی جاتے ہیں۔ انکو ہمارے دماغ کا تیل اتنا عزیز تھا کہ انہوں نے بچپن سے لڑکپن تک ہمارے سر پر کبھی بالوں کو اگنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ شروع شروع میں تو اماں جان کپڑے کاٹنے والی قینچی سے ہمارے بالوں کا صفایا کرتی تھیں۔ اور یہ عمل ایک گھنٹے سے زاید چلتا رہتا تھا اور اکثر و بیشتر کئی قسطوں میں پایہ تکمیل کو پہنچتا تھا۔ کبھی ہم تھک جاتے تو کبھی  اماں جان امورِ خانہ داری کی بجاآوری کے لئے بیچ میں وقفہ کرلیا کرتی تھیں۔ اور ہم ادھ مونڈے سر کے ساتھ بھی بلا جھجک گھومتے رہتے۔ کبھی دل میں خیال تک نہیں آیا کہ لوگ کیا کہیں گے دیکھ کر۔ بلکہ اکثر لوگوں کو مسکراتا دیکھ کر یہ سمجھتے کہ شاید انکو پسند آرہا ہے ہمارا ادھ منڈا سر۔ اماں جان کی سرمنڈائی کی خاص بات یہ تھی کہ دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ کٹائی کا عمل شروع کہاں سے ہو ا تھا ور ختم کہاں ہوا۔ منڈنے کے بعد ہمارے سر کا نقشہ بالکل ایسا ہتا جیسے کھیتوں میں ٹریکٹر سے حل چلانے کے بعد زمین ناہموار ادھڑی ہوئی ہوتی ہے۔ کئی عشرے بعد بھارت کے معروف اداکار عامر خان نے ہمارے بالوں کے طرز پر بال بنواکر گجنی نام کی فلم بنائی اور بہت شہرت حاصل کی۔ بال کٹوانے کا یہ عمل ہمارے نا پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک تھا۔ لیکن پھر وقت بدل گیا وقت کے تقاضے بھی بدلے اور ظاہر ہے ترجیحات بھی یکسر بدل گئیں۔ ہوا یوں کہ ایک بار حسبِ معمول جب بالو کی کٹائی کے دوران اماں جان کو کوئی کام یاد آیا اور قینچی ہمارے پاس چھوڑ کر چلی گئیں اور ہم نے قینچی سے موٹی سی چھڑی کاٹنے کی کوشش کی اور جب نہ کٹی توپتھر مار مار کر قینچی کے ساتھ زور آزمائی کی تو قینچی ٹوٹ گئی۔ اماں جان کو ہم نے سچ سچ بتا دیا کہ اپنے بال خود کاٹتے ہوئے قینچی میں ہمارا کان پھنس گیا اور کان چھڑاتے چھڑاتے قینچی ٹوٹ گئی۔ انھوں نے ہمارے دونوں کانوں کا بغور جائزہ لیا اور سلامت پا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ کان کٹا نہیں حالانکہ اگر واقعی ہمارا کان پھنس جاتا اور نصف یا اس سے کچھ کم کٹ بھی جاتا تھا تب بھی ایک عام انسانی کان کے برابر بچ ہی جاتا کیونکہ ہمارے کان بقولِ شخصے پیدایش کے وقت ہی بڑے آدمی کے ایکسٹرا لارج سائز کے لگ گئے تھے۔خیر انہوں نے ہمیں تاکید کی کہ سیدھا غلام حسن نائی کے پاس جا کر باقی سر منڈوا آو اور واپس سیدھا گھر آجانا۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی اور سیدھا نائی کے پاس پہنچے۔ نائی ہمارے بالوں کی حالت دیکھ کر پہلے تو کچھ حیران ہوا پھر ہمارے سر کو ٹٹولنے لگا اورکسی زخم یا کوئی پھوڑے پھنسی کا سراغ لگانے لگا۔ اس زمانے میں  گائوں کے اکثر لوگ گھروں میں کھودے ہوئے تالابوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرتے اور وہی پیتے تھے اور غالباً اس وجہ سے گرمیوں کے دنوں میں اکثر بچوں کے جسموں پر جگہ جگہ پھوڑے پھنسیاں نکل آتی تھیں۔سر میں اگر کوئی اس قسم کا پھوڑا نکل آتا تو تو پھوڑے کے آس پاس سے بال کاٹ دئے جاتے تھے۔ ہمارے سر کی حالت عموماً گرمیوں میں کسی مفلس کے سائکل کی پرانی ٹیوب کی طرح ہوتی تھی جس پر جگہ جگہ ان گنت پنکچرلگے ہوتے ہیں۔لیکن تلاشِ بسیار کے باوجود جب کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جس سے ہمارے سر کی حالتِ زار کاجواز نظر آئے تو پوچھ ہی لیا کہ یہ بالوں کے ساتھ کیا کیا؟ تو ہم نے قینچی توڑنے والی بات کو چھوڑ کر باقی سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ انہوں نے ہماری بات بڑی توجہ سے سنی اور پھر چٹائی (جس پر وہ خود براجمان تھے)پر بیٹھنے کے احکامات دئیے۔ ہم شرافت سے اسکے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔ انہوں نے ساتھ پڑے تھیلے سے میل کچیل سے بنی ہوئی ایک چادر جس کے نیچے غالباً کپڑا بھی لگا ہوا تھا ، نکالی اور ہمیں اس میں لپیٹ لیا۔ اگر قارئین چشمِ تصور سے دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم اس وقت کیسے لگ رہے تھے تو بس سمجھ لیں کہ فرعون کی حنوط شدہ  لاش جیسے ہی تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہمار ی سانسیں چل رہیں تھیں اور ہم لیٹے ہوئے بھی نہیں تھے۔ہمیں اچھی طرح لپیٹنے کے بعد انہوں نے اپنے تھیلے کے دوسرے خانے سے ایک استرا نکالااور لکڑی کے ایک ٹکڑے پر لگے ہوئے چمڑے سے رگڑ رگڑ کر تیز کرنے لگا۔ یہ استرا خالص سٹیل کا بنا ہوا ہوتا تھا اور اس میں آج کل کے استرے کی طرح بلیڈ نہیں لگاتے تھے ۔ استعمال سے پہلے باقاعدہ تیز کیا جاتا تھااور استعمال کے بعد اسکے سارے جراثیم ایک میلے رومال سے صاف کر لئیے جاتے تھے جسکی وجہ سے کبھی کوئی بیماری استرے کی وجہ سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوئی۔ یہ کوئی عام استرا نہیں بلکہ ایک انتہائی کثیرلمقاصد آلہ تھا۔گائوں کے تمام بچوں کے ختنے اور بڑوں کے ہاتھ پائوں کے ناخن، سر،  داڑھی حتیٰ کہ بغل کے بال بھی اسی ایک استرے سے کاٹے جاتے تھے۔ دکھنے میں بہت پرانا لگتا تھا تو ہم نے ایک بار غلام حسن سے پوچھا تھا کہ یہ استرا کتنا پرانا ہوگا؟ اس نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا کہ ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ابھی تم سے پہلے جس بزرگ کے بغل کے بال کاٹے ہیں ہمارے والد صاحب نے اسی استرے سے ختنہ کیا تھا اُسکا۔پرانے زمانے میں جس لوہے سے تلواریں بنائی جاتی تھیں یہ اسی لوہے کا بنا ہوا ہے۔آس پاس کے گائوں کے سب نائیوں نے درجنوں استرے استعمال کئے لیکن ہمارے یہاں نسل درنسل یہی ایک استرا چلا آرہاہے۔اس تفصیلی تعارف کے بعد کبھی ہم نے استرے کے متعلق سوال کرنے کی جسارت نہیں کی، تب بھی نہیں جب بال کاٹتے کاٹتے سر پر زخم لگ جاتے اور وہ جلدی سے گھر جا کر چولہے سے ایک چٹکی راکھ لا کر ہمارے زخموں پر لگا کر مرہم پٹی کرلیتے۔ استرا تیز کرنے کے بعد بالوں کو گیلا کرکے جب استرا چلنے لگا تو پہلی بار استعمال کی وجہ سے ہمیں گدگدی ہونے لگی اورہم نے سارا جسم سکیڑنے کے ساتھ ساتھ سر کو بھی کچھوے کی طرح میلی چادر کے خول میں گھسانے کی کئی بار کوشش کی لیکن ہر بار وہ ہمارے کان پکڑ کر اوپر کی طرف کھینچ لیتے تھے۔ بال صاف کرنے کے بعد جب نسوار کی ڈبیہ میں لگے آئینے میں  انہوں نے ہمیں اپنی شکل دکھائی تو آنکھوں پر یقین نہیں  ہو رہا تھا۔ کیونکہ ہمارا سر ہماری ہتھیلی سے بھی زیادہ صاف تھا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور اماں اور بابا سے داد وتحسین وصو ل کرنے کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ راستے میں ایک نوجوان دوشیزہ کسی بنجارے کی آواز سن کر دورازے سے باہر جھانک رہی تھی۔ بنجارہ شاید گلی کا موڑ مڑ چکا تھا اسلئے وہاں نظر نہیں آرہا تھا لیکن دور سے اسکی صدا سنائی دے رہے تھی۔مجھ دیکھ کر اس نے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو انتہائی سعادتمندایہ انداز میں اسکے قریب گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت پیار سے مسکرا رہی تھی اور میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر پوچھا کہ جب بال کٹتے ہیں تو درد نہیں ہوتا؟ اسکا انداز اتنا محبت بھرا اور لہجہ اتنا میٹھا تھا کہ اسکو مایوس کرنا گوارا نہ ہوا ۔ نہیں درد بالکل نہیں ہوتا بلکہ بہت مزہ آتا ہے۔ میں تو ہر ہفتے سر منڈواتا ہوں۔ (شاید یہ کسی نا محرم عاقل و بالغ خاتون کے سامنے ہمارا پہلا جھوٹ تھا)۔ پھر اس نے اپنی درمیان انگلی کی پشت سے ہمارے سر کو ہلکے ہلکے سے گھنٹی کی طرح بجایا اور ہنس کر پوچھا اس سے درد ہوتا ہے؟  اگرچہ ـسر ہی تھا نہ سنگ و خشت درد سے بھر نا آتا کیوں، یقینا درد ہو رہا تھا لیکن اسکی ہنسی اتنی محسور کن تھی کہ اگر اس لمحے دھموسہ(بڑا ہتھوڑا) بھی ہمارے سر پر ماراجاتا تو شاید اف تک نہ کرتے۔ اسلئے درد کے احساس سے صاف مکر گئے بلکہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی سر پر دو چار کاری صربیں لگا کر دکھایا کہ دیکھو درد نہیں ہوتا۔ وہ زور زور سے ہنستی رہی اور ہم دیکھتے رہے۔(اس وقت اسکی عمر اندازاً بیس سال اور ہماری چھ سے سات سال کے لگ بھگ ہوگی)۔ اسکے بعد وہ صحن میں لے گئی اور ایک چارپائی پر رکھے چنگیر سے کھجوریں مٹھیاں بھر بھر کر ہماری جیبیں بھر دیں اور پھر پیار سے ہمارے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ اب گھر جاو۔ گھر جاتے ہوئے زندگی میں پہلی بار دل اور جسم کو دو مختلف بلکہ متضاد سمتوں میں چلتے ہوئے محسوس کیا۔ اس تجربے کے بعد نہ تو کبھی اماں جان کو ہمارے بال کاٹنے پڑے نہ ابا جان کو یہ کہنا پڑا کہ بال کٹوا لو۔ ہم ہر ہفتے بلا ناغہ غلام حسن کی دکان پر جاتے (دکان سے مراد شیشم کے درخت تلے بچھی ہوئی اسکی چٹائی ہے) اور جتنے بال اگے ہوتے وہ صاف کروالیتے اور واپسی پر ہمارا منڈا ہوا سر اور ان کا در اور نہ جانے کب تک تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہی یا ہم اسے خود دہرانے پر مجبور کرتے رہے۔ایک بار تو نائی نے بھی تنگ آکر کہا کہ سر پر بال نام کی کوئی چیز تو ہے نہیں تم قصائی کی دکان پر جا کر سر کی کھا ل ہی اتروا دو۔ لیکن ہم شاید عشق کے اس منزل پر تھے جہاں طعن و تشنیع سب بے اثر ہوتے ہیں۔نو عمری کے اس عشقِ نوخیز کے ہاتھوں ہم نے اپنے گنجے سر پر لوگوں سے شوقیہ اتنی ضربیں کھائیں کہ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سر ہندوستان کے قدیم سے قدیم مندر کی گھنٹی سے بھی زیادہ مضروب ہے۔ لیکن عشق کے آگے بھلا کب کسی کی چلتی ہے۔جو لوگ اس عشق کے انجام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں انکے لئے اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ موصوفہ کا بڑا بیٹا عمر میں مجھ سے صرف آٹھ سال چھوٹا ہے اور اسکا باپ میں نہیں ہوں۔
ہم کیسے پیدا ہوئے ہمیں نہیں معلوم کیونکہ اسوقت ہم بہت چھوٹے تھے۔ پیدائش اور ابتدائی ایام کے بارے میں ہماری معلومات سنی سنائی باتوں تک ہی محدود ہیں اسلئے دروغ بر گردنِ راوی۔ ان باتوں کی اپنی طرف سے ہم نے جب تصدیق کرنے کی کوشش کی تو ہر شخص کی کہانی دوسرے سے مختلف تھی جسکی وجہ سے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے ٹھیک کونسی ہے اور غلط۔ ہاں البتہ کچھ باتیں ہیں ایسی ہیں جس کے متعلق سب کی رائے ایک جیسی ہے اور ان باتوں کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ یقینا درست ہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب ہم پیدا ہوئے تھے تو بالکل ننگے تھے۔ اب ہماری حیا کا حال یہ ہے کہ جب دوستوں کے ساتھ نہر دریا یا کسی تالاب پر نہانے کے لئے جاتے ہیں تب بھی کپڑے سب سے آخر میں اتارتے ہیں جب تالاب میں سب ننگے ہو جاتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ جب ہم پیدا ہوئے تھے تب بھی لڑکا ہی تھے اور ہمارے کان اتنے ہی تھے جتنے اب ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کچھ باتیں ہیں جنکی تصدیق ممکن ہے تاہم ان کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہماری تاریخِ پیدائش بھی کافی عرصہ تک ایک معمہ بنی رہی۔ جو سکول کے ریکارڈ میں لکھوائی گئی تاریخ ہے اسی کو ہم تاریخ پیدائش سمجھ رہے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ہماری اصلی تاریخ پیدائش نہیں تھی۔ ہمارے والدین علمِ نجوم پر بالکل یقین نہیں رکھتے اسلئے انہوں نے ہمارے برج بہت کمسنی میں ہی الٹ دئیے تھے۔ لیکن اتنا بتایا گیا تھا کہ ہماری پیدائش کے فوراً بعد ہمارے والد صاحب نے دل کا آپریشن کروایا تھا اور کامیاب آپریشن تھا اسلئے مجھے وہ اپنے لئے خوشقسمت سمجھتے تھے۔ اور شاید اسی نیک فالی نے ہی مجھے انکے لئے قابلِ برداشت بنادیا تھا۔ لیکن ہوش سمبھالنے کے بعد جب ہم نے حساب لگانا شروع کیا تو کسی بھی طرح ہماری تاریخِ پیدائش اور والد صاحب کے آپریشن ایک دوسرے کے قریب نہیں آرہے تھے۔ جب اس سلسلے میں والد صاحب سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ہماری تاریخِ پیدائش کیا ہے تو وہ ذہن پر زور دینے کے باوجود بھی صحیح تاریخ بتانے سے قاصر تھے۔ تا ہم یہ بتا دیا کہ ایک ڈائر ی میں درج ہے۔اس زمانے میں لوگوں کی تاریخوں سے شاید اتنی رغبت نہیں تھی۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ ایک عشرہ پہلے کی ہماری تاریخ انتہائی لرزہ خیز تھی اور ملک عزیز ادھر ہم ادھر تم کے نئے دو قومی نظرئیے کے تحت دو لخت ہو چکا تھااور ہر محب طن پاکستان جلد از جلد اسے بھلانا چاہتا تھا۔ اپنے اس مفروضے کے حق میں یہ دلیل کافی ہے کہ ہمارے بڑے بھائی ۱۹۷۱میں پیدا ہوئے تھے اور والدہ محترمہ ہمیشہ انکی تاریخ پیدائش کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ بھٹو کے جنگ کے دوران پیدا ہوئے تھے جب شام ہوتے ہی لالٹینیں بھُجوا دی جاتی تھیں کہ ہوائی جہازوں سے بم گرانے کا خطرہ ہوتا تھا۔ ہاں البتہ اس بات کی توجیہہ ہم ابھی تک ڈھونڈ ہی رہے ہیں کہ جو لالٹینیں شام ہوتے ہی بھُجوا دی جاتی تھیں وہ شام سے پہلے کیوں روشن ہوتی تھیں؟لیکن خیر یہ کوئی اتنی انوکھی بات بھی نہیں اب بھی ہمارے یہاں شہروں میں سٹریٹ لائٹس بھی سارا دن جلنے کے بعد رات کے وقت اکثر بند ہی رہتی ہیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور تلاش کا ہمیں بچپن سے ہی شوق ہے حالانکہ نہ تو اس زمانے میں ہم نے جیمز بونڈ کی کوئی فلم دیکھی تھی اور نہ ہی عمران سریز کی جاسوسی کہانیاں۔ یہ خامی جبلی طور پر ہی موجود ہے۔ اور ہمار پسندید مشغلہ ہی ان چیزوں میں ہاتھ مارنے کا ہے جن سے روکا جائے اور منع کیا جائے۔ڈائری کے ذکر کے بعد ہم نے ڈائری ڈھونڈنے کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بنا لیااور ٹھان لی اپنی تاریخ پیدائش کے راز سے پردہ ہٹا کر ہی دم لینگے۔ حالانکہ اس سے ہمارے پیدا ہونے پر کوئی بھی فرق نہیں پڑنے والا تھا کیونکہ جتنا، جیسے اور جہاں پیدا ہونا تھا ہوچکے تھے،لیکن ایک تجسس تھااور اسے منطقی انجام تک پہنچانا تھا۔ والد صاحب کی الماری میں انکے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک کے سارے ریکارڈ کو ٹٹولااور اس میں سے اپنی پسند کی بہت ساری کتابیں بھی علیحدہ رکھ لیں۔تاہم والد صاحب نے ان میں سے کچھ کتابیں واپس لے کر سختی سے تنبیہ کی کہ ان کتابوں کو دوبارہ ہاتھ نہیں لگانا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ ہم نے سب سے پہلے انہی کتابوں کا مطالعہ کیا اور پھر انکو چھوٹے بہن بھائیوں کے دسترس سے محفوظ رکھنے کے لئے اچھی طرح چھپا لیا کیونکہ پڑھنے کے بعد ہم خو د کو بڑوں میں شمار کرنے لگے تھے۔ چھپانے کا عمل اتنا مطلق تھا کہ وہ کتابیں ابھی تک ہمیں خود نہیں مل سکی ہیں۔ یا ممکن ہے چھوٹے بہن بھائیوں نے آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے دوبارہ چھپا دی ہوں۔ ہماری تلاش بے سود نہیں تھی اور آخر کار ہمیں وہ ڈائری مل ہی گئی ۔ یقین مانیں ہمیں خود اپنی پیدائش کے وقت اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی ڈائری ملنے کی خوشی تھی کیونکہ پیدائش کے وقت ہماری عمر کتنی تھی معلوم نہیں البتہ ڈائری ملنے کے وقت ہماری عمر لگ بھگ سات سال ہوگی۔ والد صاحب نے کالی روشنائی سے انتہائی خو ش خط لکھا تھا کہ آج بروز جمعتہ المبارک بتاریخ ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۱ فرزند ارجمند پیدا ہوئے۔ میں نے اسکا نام مجیب الرحمان رکھا لیکن انکے دادا جان کا اصرار تھا کہ یہ نام مشکل ہے اور بدل کر سیف اللہ خان رکھ دیا۔ پڑھ کر ہمیں بہت خوشی ہو رہی تھی اتنی خوشی کہ ہمارا نطق اسکااحاطہ کرنے سے قاصر ہے۔
ہماری ابتدائی تعلیم کہاں سے شروع ہوئی اسکا بھی تعین تھوڑا سا مشکل ہے۔ والد صاحب گائوں کے مڈل سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور سکول کے بارے میں جو سب سے پہلی چیز ذہن کے کسی کونے میں محفوظ ہے وہ ہیڈ ماسٹر کا دفتر ہی ہے۔ اسکے بعد دوسری چیز جو یاد آتی ہے وہ یہ کہ والد صاحب کلاس میں پڑھا رہے ہوتے اور میں کمرہ جماعت کی ایک دیوار پر سیمنٹ سے بنے تختہ سیاہ کے نیچے چاک کے وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے چن رہا ہوتا جووالد صاحب نیچے گرا دیتے تھے۔ پڑھنا لکھنا کب اور کیسے شروع ہوا کچھ یاد نہیں کیونکہ وہ سکول میں داخلے سے بہت پہلے ہوا تھا۔ لیکن جب باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا تو مسائل نے جنم لیا۔ ہمیں فطری طور پرہر وہ کام پسند ہے جس میں باقاعدگی نہ ہو۔ جب جی چاہا کیا جب نہ چاہا نہ کیا۔ داخلے سے پہلے ہمارا سکول جانا بھی ایسا ہی ہوتا تھاجس وقت جی چاہتا سکول سے نکل آتے اور سیدھے گھر کی راہ لیتے۔لیکن جب داخلہ ہو گیا تو یہ عیاشی ختم ہو گئی اور ہماری آزاد طبیعت بھلا کب پابندِ سلاسل ہونے پر راضی ہوتی۔ایسے گلا پھاڑ پھاڑ کہ روئے کہ راہ چلتے لوگ دروازے کے اندر اور سکول کے اڑوس پڑوس میں گھروں کی خواتین چولہے ہانڈیاں اور جھاڑو چھوڑ کر دیواروں اور چھتوں سے گردنیں اٹھا اٹھا کر جھانکنے لگیں۔ شاید انکو شک ہو رہا تھا کہ سکول میں کوئی بکرا ذبح کیا جا رہا ہے ۔والد صاحب اس غیر متوقع صورتحال کے لئے شاید ذہنی طور پر تیار نہیں تھے اسلئے عین اسی لمحے جب وہ ہم پر چھپٹنے والے تھے ماسٹر افضل خان نے ہمیں گو د میں اٹھایا اور سکول سے باہر لے آئے ۔ قریبی ہٹی پر لے جا کر ٹافیا ں لے کر دیں اور ہمارے سارے زخموں پر جیسے مرہم پٹی ہو گئی۔ اور کچھ لے دے کر ہم دوبارہ کلاس میں بیٹھ گئے۔ دن تو کسی طور گزر ہی گیا لیکن اگلے دن جب صبح صبح ہمیں سکول کے لئے تیار کیا گیا اور ملیشئے کا کالا جوڑا پہنایا گیا جو آج کل اکثر عاشق اپنے اپنے محبوب کی منتیں کرکے پہننے کی فرمائش کرتے ہیں، تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنی آزادی کا سودا کرنے لگے ہیں۔ اسلئے ہم نے ایک بار پھر اپنا آزمودہ نسخہ آزمایااور تختی بستہ پھینک کر صاف اور نئے کالے کپڑوں کی پروا کئے بغیر زمین پر لیٹ کر احتجاج کرنا شروع کیا اور جتنے زور سے ممکن تھا رونا شروع کیا۔ پہلے تو گھر والے پریشان ہو گئے اماں جان نے بہلانا چاہا لیکن وہ ہم کیا جو بغیر کچھ لئے دئیے بہل جاتے۔ اماں جان دل کی بہت نرم ہیں اور عدم تشد د پر پختہ یقین رکھتی ہیں اور مار نہیں پیار انکا ہتھیا ر ہے جو ہم پر کبھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ جب اماں جان ناکام ہوئیں تو شہر کراچی کی طرح ہمیں رینجرز کے حوالے کر دیا گیا۔ ہمارے گھر کی رینجرز کا کام ہماری سب سے بڑی باجی کے سپرد تھا۔ وہ خود سکول نہیں پڑ ھ سکی تھیں اسلئے انہیں قطعاً کوئی اندازہ نہیں تھا کہ سکول جانا اور پڑھائی لکھائی کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں ہمیں خبردار کیا کہ شرافت سے اٹھو اور سکو ل جائو۔ اور جب ہم نہ مانے تو انھوں نے ہمیں ایک بازو سے پکڑا اور ایک جھٹکے سے ہوا میں معلق کیا۔ اور اسکے بعد جسم کے کچھ بہت ہی نرم و نازک حصوں پر (جو عموماً بچوں میں ٹیکہ لگانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں) ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ ہمارے منہ سے خود بخود ـجاتا ہوں جاتاہوں کے الفاظ نکلنے لگے۔ زمین پر پائوں پڑتے ہی ہم نے اپنا بستہ بغل میں دبایا اور تختی اٹھا کر بہن بھائیوں کے ساتھ سکول کی راہ لی۔ ضربیں اتنی شدید تھیں کہ سکول میں سارا دن ہم سے ٹھیک طرح سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا اور شام گھر آکر گھر کے ہر پیرو جواں اور خورد و کلاں نے ہماری شلوار کھینچ کھینچ کر ہمارے مضروب حصوں کا بغور معائنہ کیا لیکن باجی کے سامنے بولنے کی جراء ت کسی نے نہیں کی۔ باجی کا اگر مختصر الفاظ میں تعارف کروں تو بس انتا کافی ہوگا کہ دیسی ساختہ ہٹلر تھیں۔ جہاں انکا تھپڑ پڑتا کم سے کم ایک ہفتہ جلدکے اس حصے پر انگلیاں گن کر بتا سکتے تھے کہ کونسی انگلی کہاں چھپی ہے۔ بہت سی شرارتیں انکے لئے قابلِ برداشت تھیں لیکن پڑھائی کے معاملے کوئی چھوٹ نہیں تھی۔ ہٹلر اور ان میں معمولی سا فرق تھا اور وہ یہ کہ انکی سختیاں زیادہ تر بنی اسرائیل تک محدود تھیں اور باجی کی سختیوں مذہبی تفریق سے بالا تر تھیں۔ کلاس ماسٹر افضل خان نے سارادن علم اور ٹافیوں سے ہماری آبیاری کی اور شاید ایک دو دن کی سختی کی بھی ہم تاب نہیں لا سکے اور حالات سے سمجھوتہ کر ہی لیا۔ سکول کے بعد جب گھر آیا تو اماں جان نے ہمارے لئے ایک چڑیا پکڑ رکھی تھی۔ پرندے ہمیشہ سے ہماری کمزوری رہے ہیں ۔ (جسمانی اور دوسری کمزوریوںکے علاوہ میرا مطلب ہے حافظے کی کمزوری۔ قارئین نہ جانے دانستہ اور نا دانستہ کون کونسی کمزوریاں ہم سے نتھی کرلیں اس لئے احتیاطً تفصیلاً بتادیا گو کہ ہمیں یقین ہے کہ قارئین اسکا وہی مطلب ہی سمجھیںگے جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ سمجھیں)۔ بچپن سے پرندوں کی محبت ہمارے خون میں رچی بسی ہے۔ لڑکپن میں ایک دفعہ جامن کے درخت سے گرا ہوا کوے کا بچہ ملا تو اُٹھا کر گھر لے آئے ۔ والد صاحب کو پتہ چلا تو بہت خفا ہوئے اور بولے کوئی ایک دو پرندوں کا شوق ہو تو بھی کوئی بات ہے تمہیں تو ہر اس چیز کا شوق ہے جس کو پر لگے ہوں۔ ہم انکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہمیں جہازوں کا کوئی شوق نہیں اگرچہ اسکے پر ہوتے ہیں اور ہمیں پینگوئین بھی بہت پسند ہے جسکے پر برائے نام ہوتے ہیں۔ لیکن والد صاحب کے سامنے یہ بولنے کے لئے حوصلہ چاہئے تھااور آئیوڈین کے علاوہ حوصلے کی بھی ہمارے اندر ہمیشہ سے شدید کمی پائی گئی ہے۔ اس دن کے بعد گویا اماں جان اور ہمارے درمیان یہ ایک خاموش معاہدہ ہو گیا تھا کہ جب بھی ہماری چڑیا مرے گی یا بھاگے گی تو اگلے دن سکول سے آتے وقت نئی چڑیا اماں جان نے ہمارے لئے پکڑنی ہے ورنہ ہم سکول مار کھائے بغیر نہ جاتے۔ بات پرندوں کی چل نکلی ہے تولگے ہاتھوں ہم اپنے اس شوق کے بارے میں عرض کئے دیتے ہیں۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں مذکور ہے پرندوں سے ہماری محبت رنگ نسل قسم وغیرہ سے بالا تر ہے۔ ہمیں ہر اس جاندار سے محبت ہے جس کو سر پرٹانگیں لگی ہیں۔ اس کی ابتدا ء چڑیوں سے ہوئی تھی۔ سب سے پہلے تو اماں جان چڑیاں پکڑ کر دیا کرتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ ہم نے یہ ہنر خود ہی سیکھ لیا۔ بہار کے موسم میں چڑیاں گھونسلے بنانے کے لئے کمروں میں گھس آتی تھیں اور پھر ہم دروازہ بند کرکے انکو کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اُڑاتے رہتے اور اس وقت تک اُڑاتے رہتے جب تک وہ تھک کر نیچے نہ گر جاتیں اور ہم پکڑ نہ لیتے۔اور چڑیا گویا بزبانِ حال یہی کہتی ہوگی
تھک کہ گرتی ہے چڑیا تو خیال آ  تا ہے
جان لیوا ہے اس انساں کا  محبت  کرنا
  پکڑنے کے بعد ہم سب سے پہلے انکے پر کاٹ لیا کرتے تھے اور اسکے بعد ایک پنجرے میں بند کرلیا کرتے تھے۔ اکثر چڑیاں اپنی آزادی کھونے کے غم سے اتنی نڈھال ہو جاتی تھیںکہ دانہ چگنا بند کر دیتی تھیں اور آخر میں مر جاتی تھیں۔
یوں ہم نے اپنے علمی سفر کا  آغاز چڑیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے کیا۔ اپنے گھر میں جگہ جگہ پرندوں کے دانے دنکے اور گھونسلوں کا انتظام کیا ہوا ہے اور گرمیوں میں پانی کے برتن رکھ دیتے ہیں۔ گھر والے سمجھتے ہیں شاید ہم بہت نیک ہیں اور بے زبانوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن دل ہی دل میں ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم نے بچپن میں چڑیوں کے آبائواجداد کے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں ہم اسکا احساس جرم کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ والد صاحب کے بہت زیادہ قریب تھا میں اور انکی محبت کا مطلب پڑھا ئی تھا۔ اسلئے جب اردو اور انگریزی پڑھنا پہلی جماعت میں پہنچنے سے پہلے ہی سیکھ لیا تو والد صاحب کی کتابوں کے ذخیرے سے جو ایک بڑا چوبی صندوق تھا ، طرح طرح کی کتابیں نکال کر ان سے پڑھتا۔ اسکا فائدہ یہ ہوا کہ اردو اور انگریزی میں بہت روانی آگئی۔ ریاضی بھی بہت ابتدائی دنوں میں انھوں نے پڑھائی۔ شایدیہی وجہ ہے کہ حساب کتاب میں ہم بہت اچھے ہیں۔ بینک میں سود کے حساب کتاب میں کمپیوٹر سے تو غلطی ہو جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ ایک پیسہ بھی ہم سے ادھر ادھر ہو جائے۔ جس سال ہم نے پہلی جماعت میں جانا تھا استاد نے ہماری قابلیت کو مد نظر رکھ کر ہمیں سیدھا سیدھا دوسری جماعت میں بٹھا دیا۔ ہم بھی اپنے ہم جماعتوں سے ایک جماعت آگے نکلنے پر بڑے شاداں و فرحا ں تھے۔لیکن بہت ساری خوشیوں کی طرح ہماری یہ خوشی بہت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ آدھی چھٹی کے بعد پتہ چلا کہ دوسری جماعت کی پشتو کی کتاب بہت مشکل ہے۔ والد صاحب نے گھر پر اردو، انگریزی اور ریاضی کے مضامین تو پڑھائے تھے لیکن پشتو کی طرف کبھی انکا دھیان نہیں گیا۔ ابتدائی جماعت میں ہم نے پشتو کے حروفِ تحجی اور کسی حد تک جوڑ توڑ تو پڑھ ہی لئے تھے لیکن دوسری جماعت کی پشتو کی کتاب پڑھنا ہمارے بس کا روگ نہیں تھا۔ پریشانی کی وجہ سے سر میں درد شروع ہو گیا اور ہم
نے رونا شروع کردیا۔ استاد نے از روئے ترحم ہمیں چھٹی دے دی۔ 
[جاری ہے]

ہفتہ، 18 اگست، 2018

خدا نخواستہ

آج مرزا سے ملاقات ہوئی تو حالت پچھلی ملاقات سے بھی زیادہ خراب تھی۔ مجھے تشویش ہونے لگی۔ پوچھا مرزا خیریت تو ہے آپ کی حالت ٹھیک نہیں خدا نخواستہ آپ بیمار تو نہیں۔ بولے یہ عشق جو ہے نا بذات خود ام الامراض ہے۔ جب عشق ہوجائے تو کسی اور مرض کی حاجت ہی نہیں رہتی۔ پوچھا کس سے عشق ہوا کب ہوا اور کیسے ہوا۔ کہنے لگے پاکستان سے عشق ہوا ہے۔ تھا تو پہلے سے لیکن اب بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اندازہ اب ہوا ہے۔ کسی چیز کی قدر کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ چھن جاتی ہے۔ عرض کیا مرزا خدا کا خوف کریں ایسی منحوس باتیں نہ کریں۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان ہم سے چھن جائے۔ پاکستان رہتی دنیا تک قائم رہیگا۔ وقتی اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔ مرزا بولے تم ایک محکوم پیدا ہوئے ہو اور محکوم ہی مروگے۔ تمہارے پورے خاندان میں نہ کوئی حکمران گزرا ہے نہ کوئی افسر شاہی۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک تمہارا تب ہی ہوتا ہے جب تمہاری حکومت ہو۔ مرزا سے الجھنا بیکار ہی ہوتا ہے اس لئے میں نے بات کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ پوچھا کہ ہوا کیا ہے سیدھی طرح بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے؟  کہنے لگے تم نے کابینہ دیکھی ہے اپنے وزیر اعظم کی؟ ایک سے ایک نالائق انسان ہے اس میں۔ پتا نہیں یہ لوگ ملک کیسے چلائیں گے؟
عرض کیا کہ مرزا ان میں کافی تجربہ کار لوگ ہیں جو منسٹری چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جل کر کہنے لگے ان کی کار کروگی ان حکومتوں میں صفر تھی اور ان کو صرف کرپشن کا تجربہ ہے۔ عرض کیا سب پرانے بھی نہیں نئے چہرے بھی ہیں تازہ دم اور پر جوش جو کچھ کرکے دکھانے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔ تیوری چڑھا کر بولے ان رنگروٹوں کے پاس تجربہ کہاں سے آئے گا۔ عرض کیا مرزا تجربہ کار لوگوں سے آپ کو مسئلہ ہے، نئے لوگوں سے بھی مسئلہ ہے تو پھر حل کیا ہے آخر؟ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولے حل تو بس ایک ہی ہے حکومت ہمارے حوالے کردی جائے۔ پھر دیکھنا کیسے چلاتے ہیں حکومت۔ عرض کیا کہ مرزا وہ تو کئی دہائیوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ اسی کی وجہ سے تو یہ حالت ہے اس ملک کی۔ مرزا پاؤں پٹختے ہوئے یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہم نے قیام پاکستان سے لیکر کل تک وہ سارے طریقے آزمالئے جن سے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا تھا اور اب کی بار ارادہ تھا وہ طریقہ آزمانے کا جس سے یہ ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا لیکن افسوس اس بار موقع ہی نہیں ملا۔ اور اگر خدانخواستہ ان کم بختوں نے اچھا کام کیا اور ملک کی حالت بہتر ہوئی تو ہماری دوبارہ باری بھی نہیں آنی۔ لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں۔

یقین

ماں کبھی اپنے بچے پر ظلم نہیں کرسکتی۔ لیکن ضرورت کے وقت زبردستی پکڑ کر نہلاتی ہے، ہاتھ پاوں پکڑ کر ٹیکہ لگواتی ہے، اور ناک بند کرکے زبردستی حلق میں کڑوی دوائی بھی انڈیل دیتی ہے۔ بچہ چیختا ہے چلاتا ہے لیکن ماں اسکی چیخ و پکار نظر انداز کردیتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ماں بچے کی بھلائی میں کرتی ہے۔ ستر ماووں سے زیادہ محبت کرنے والا رب جب زبردستی حلق میں کڑوی دوائی انڈیلتا ہے تو بہتری کیلئے ہی ہوتا ہے بس انسان کو بچے کی طرح اس بات کا ادراک نہیں ہوتا۔ لیکن انسان کا یقین کم سے کم اس بچے جتنا مضبوط ہونا چاہئے جسے ماں گود میں دبوچ لیتی ہے اور جب ڈاکٹر ٹیکہ لگاتا ہے تو درد سے جب چیخ نکلتی ہے تو وہ اسی ماں کو پکارتا ہے جس نے اسے دبوچا ہوتا ہے۔ ہر رنج و الم میں اسی رب کو پکارنا چاہئے۔ بے شک وہ بہتر جانتا ہے۔

بلا عنوان

بیٹھے بیٹھے اچانک خیال آیا کہ کپڑے استری نہیں ہیں اور بجلی جانے میں آدھا گھنٹہ رہتا ہے۔ میں نے کپڑے نکالے اور استری کرنا شروع کیا۔ کپڑے استری کرتے کرتے میں عالم حال پہنچ گیا۔ گرم استری پھرنے سے کپڑے چلانے لگے اور احتجاج کرنے لگے کہ کہ ہر بار گرم پانی میں ڈال کر چکر کیوں دئیے جاتے ہیں؟ تار پہ کیوں لٹکاتے ہیں اور پھر تپتی استری پھیر کر کیوں جلاتے ہیں؟ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ جب تم میلے ہوتے ہو اور داغ لگ جاتے ہیں تو دھونا تمہارے بھلے کیلئے ہوتا ہے تاکہ تم صاف ہوجاو۔ پھر دھونے سے تمہارے جسم پہ سلوٹیں پڑ جاتی ہیں تم بدنما اور پرانے لگتے ہو۔ اسلئے گرم استری پھیر کر سلوٹیں نکالتا ہوں تاکہ تم نئے اور جاذب لگو۔ اب بتاو اس میں برائی کیا ہے؟ تمہارے بھلے کیلئے ہی تو کرتا ہوں سب کچھ۔ میری بات سن کر کپڑے کچھ دیر کیلئے خاموش ہوئے۔ پھر کہنے لگے جب تمہارا رب تمہارے داغ صاف کرنے کیلئے تمہیں گردش دوراں میں چکر دے، سکھانے کیلئے تار پہ لٹکا دے یا سلوٹیں نکالنے کیلئے امتحان کی گرم استری پھیرے تو تم اس وقت یہ بات کیوں بھول جاتے ہو؟ بے صبری اور ناشکری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہو؟ تمہیں یہ سب یاد کیوں نہیں رہتا کہ مالک جو بھی کرتا ہے تمہارے بھلے کیلئے کرتا ہے۔

جمعہ، 17 اگست، 2018

چوہا شیر

کہتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے آبادی سے دور کسی پہاڑ کے ایک غار میں ایک باباجی رہا کرتے تھے۔ بابا جی دنیا سے قطع تعلق کرکے شب و روز اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے۔ سال کے بارہ مہینے روزے رکھتے۔ بابا جی کی دعائیں فورا" قبول ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار کوئی دعا کروانے آجاتا توباباجی تھوڑی دیر کیلئے ملتے دعا کرتے اور چلتا کردیتے۔ 
جس غار میں بابا جی رہتے تھے اسی غار میں چوہوں کے بل تھے۔ ایک دن بابا جی نوافل پڑھ رہے تھے کہ ایک چوہے نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ کبھی دوڑ کر گود میں چڑھ بیٹھتا کو کبھی سجدے کی جگہ بیٹھ جاتا۔ ادھر بابا جی سجدہ کرتے ادھر اسکی دم بابا جی کے ناک اور منہ میں گھس جاتی۔ فارغ ہوکر بابا جی نے چوہے سے پوچھا کہ کیوں تنگ کر رہے ہو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو مجھے اپنا کام کرنے دو۔ چوہے نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ باباجی میں ایک کمزور سا چوہا ہوں۔بھوک سے برا حال ہے۔ بلی کے ڈر سے ہر وقت بل میں دبکا رہتا ہوں۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں بلی بن جاؤں اور اس روز روز کی مصیبت سے جان چھوٹے۔ بابا جی نے دعا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چوہا ایک موٹی تازی بلی میں بدل گیا۔ بلی بننے کی دیر تھی کہ اس نے چوہوں پر حملہ کردیا۔ اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ رشتہ داروں دوستوں میں سے کسی کو نہیں بخشا سب کا صفایا کرلیا۔ جو کچھ بچے وہ بھوک سے نڈھال ڈر کے مارے بل سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ دن گزرتے گئے کہ ایک دن بلی پھر بابا جی کے پاس ان بیٹھی۔ کہنے لگی بابا جی میں تو بہت پریشان ہوں۔ کھانے کو کچھ ملتا نہیں چوہے توریبا" ختم ہوگئے ہیں اور نیچے زمین پر کتے رہنے نہیں دیتے میری ساری زندگی چھتوں اور دیواروں کے اوپر گزر رہی ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں اور دعا کریں کہ میں کتا بن جاؤں تاکہ زندگی ذرا آرام سے گزرے۔ بابا جی نے دعا کی اور تھوڑی ہی دیر میں بلی ایک بڑے کتے میں تبدیل ہوگئی۔ کتا بننے کی دیر تھی کہ اس نے بلیوں کو بھگانا شروع کردیا۔ بلیاں نہ ملتیں تو اپنے سے چھوٹے کتوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا۔ صبح سے شام تلک بھونکتا اور لڑتا رہتا۔ کچھ عرصے بعد کتا باباجی کے پاس لوٹ آیا۔ کہنے لگا باباجی میں تو مصیبت میں پڑ گیا۔ گاوں کے سب چھوٹے بڑے ڈنڈے سوٹے اور پتھر اٹھائے میری تلاش میں رہتے ہیں۔ کچھ بڑے کتوں کے گروہ مجھے قصائی کی دکان کے قریب نہیں بھٹکنے دیتے۔ حالت بہت خراب ہے۔ آبادی میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ دعا کریں کہ میں بھیڑیا بن جاؤں اور جنگل کی راہ لوں۔ آبادی کے لوگ بہت ظالم ہیں۔ بابا جی نے دعا کی اور کتا ایک بڑے بھیڑیے میں تبدیل ہوگیا۔ بھیڑیا جنگل میں گھسا اور جانوروں کا شکار شروع کردیا۔ چھپکلی سے لیکر خرگوش تک اور لومڑی سے لیکر گیدڑ تک سب کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ جنگل میں چھوٹے جانور ناپید ہونے لگے۔ اسکے پنجے ہر وقت خون میں لتھڑے رہتے اور منہ سے خون ٹپکتا۔ لیکن کچھ دن بعد بھیڑیا باباجی کے در پر ان بیٹھا۔ کہنے لگا بابا جی اس جنگل میں چیتے تیندوے اور شیر بھی ہیں۔ مجھ پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے ہیں۔ شکار کرنے نہیں دیتے اور اگر چوری چھپے شکار کرلوں تو چھین لیتے ہیں۔ بس آپ دعا کریں کہ میں شیر بن جاؤں۔ جنگل کا سب سے بڑا شیر۔ میرے پنجے سب سے مضبوط اور میرے دانت سب سے زیادہ تیز ہوں۔ آخری بار درخواست ہے۔ اسکے بعد میں آپ کی عبادت میں کبھی مخل نہیں ہوں گا۔ بابا جی نے دعا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا ایک بہت بڑے شیر میں تبدیل ہوگیا۔ شیر جنگل کی طرف دوڑا اور پورے جنگل میں کہرام مچادیا۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑا جانور کسی کو نہیں بخشا۔ چن چن کر سب جانوروں سے بدلے لئے۔ بھوک ہوتی یا نہ ہوتی صبح سے شام جانوروں کو چیرتا پھاڑتا ادھیڑتا اور کھدیڑتا رہتا۔ کچھ عرصے بعد جنگل سے سب چھوٹے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ وہ پھر باباجی کی طرف روانہ ہوگیا۔ نہ جانے اسے کہاں سے یہ خیال آیا۔ بابا جی کے پاس پہنچا تو باباجی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پوچھا اب کیا لینے آئے ہو؟ اب تو تم جنگل کے بادشاہ ہو اور تم سے طاقتور کوئی دوسرا شیر بھی جنگل میں نہیں۔ شیر نے ہنس کر کہا کہ جنگل میں کھانے کو کچھ بچا نہیں اور مجھے خطرہ بھی ہے کہ کسی اور چوہے کو شیر نہ بنادو اسلئے آپ کو کھانے ہی آیا ہوں۔ بابا جی کو بہت غصہ آیا اور غصے سے اسکے منہ پر تھوکتے ہوئے کہا کہ اللہ پھر تجھے چوہا بنادے۔ اچانک شیر سکڑتا سکڑتا چوہے میں تبدیل ہوگیا۔ چوہا بنتے ہی وہ بل کی طرف دوڑا لیکن وہاں بچے ہوئے چوہوں نے پہچان لیا۔ سب نے مل کر حملہ کیا اور اسکی خوب درگت بنائی۔ کسی نہ کسی طرح وہ جان بچاکر بھاگ نکلا لیکن دم اور کان کٹوا بیٹھا۔ پھر تا دم مرگ تنہا زندگی گزارنے لگا۔ 
(#فوکلور عبدالباری جہانی کی پشتو نظم "مژک شیر" کا ترجمہ)

خوشی

خوشی ۔۔نا پائیدار سی شے ہے
احتیاطا” ۔۔۔اداس رہتا ہوں
کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
میں تو بس اپنے پاس رہتا ہوں
سیف

بانجھ

باباجی کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ خلاف معمول صحن میں بیٹھے بڑے پتھر سے چھری رگڑ رگڑ کر تیز کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا باباجی خیریت آج تو صبح صبح چھریاں تیز کی جارہی ہیں۔ باباجی بولے کہ مرغیاں ذبح کرنی ہیں۔ پوچھا کہ کوئی خاص مہمان آرہے ہیں یا مرغیوں کی بیماری آئی ہوئی ہے۔
فرمانے لگے کہ دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں ہے۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ کئی سالوں سے مرغیاں پال رکھی تھیں اس امید پہ کہ انڈے دیں گی۔ سالوں انتظار کیا لیکن مرغیوں نے انڈے نہیں دئیے۔ جو ایک آدھ مرغی انڈا دیتی اسکے انڈے بھی چونچیں مار کر توڑ دیتیں۔ پچھلے دنوں میں اور مرغیاں لے آیا تو ان سب مرغیوں نے احتجاج کیا اور نئی مرغیوں کو ڈربے میں گھسنے سے منع کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم سالہا سال سے اس ڈربے کی مالک ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس ڈربے میں کون گھستا ہے۔ اب میرے پاس ایک دو ہی راستے بچے تھے کہ یا تو سب مرغیوں کو بیچ دوں یا ذبح کردوں۔ جو مرغی انڈے نہ دے وہ بھلا کون خریدے گا اسلئے اب سب کو ذبح کرنے جا رہا ہوں۔ عرض کیا کہ اگر نئی مرغیوں نے بھی انڈے نہ دئیے پھر کیا ہوگا۔ کہنے لگے پھر چھری بھی یہیں ہے اور پتھر بھی یہیں ہے دوبارہ تیز کرکے انکو بھی ذبح کردوں گا۔

گمراہ

بڑی مدت بعد آج مرزا عبدالودود بیگ نظر آئے۔ بہت رنجیدہ اور غصے میں تھے۔ پوچھا مرزا کیسی گر رہی ہے؟ کہنے لگے آنکھوں کا علاج کس ڈاکٹر سے کروا رہے ہو؟ کیوں میری آنکھوں کو کیا ہوا ہے جو علاج کرواوں گا؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ مرزا بولے کہ اگر آنکھیں ٹھیک ہوتیں تو یہ سوال نہ کرتے۔ دیکھ نہیں رہے میں کس حال میں ہوں؟ مرزا کی حالت واقعی خراب تھی۔ مجھے اسکی حالت پہ ترس آیا۔ یوسفی صاحب کیساتھ تقریباً ایک صدی کی رفاقت تھی۔ اب انکے بغیر زندگی واقعی مشکل ہی ہوگی۔ یوسفی صاحب کے جانے کا افسوس ہمیں بھی ہے۔ میں نے انکو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ زندگی میں دو لوگوں کو دفناتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری ذات کا ایک حصہ انکے ساتھ قبر میں منوں مٹی تلے دفن ہوگیا ہو۔ ایک میرے والد صاحب اور ایک یوسفی صاحب۔ ستر سال تک یوسفی صاحب نے لوگوں کو ہنسایا اب اور کتنا ہنساتے۔ ایک نہ ایک دن جانا ہی تھا۔مرزا کی خاموشی سے مجھے لگا ان پر باتوں کا اثر ہورہا ہے۔ وہ بڑی حیرت سے مجھے دیکھتے رہے پھر کہنے لگے، تمہیں کس نے کہا میں یوسفی کے غم میں نڈھال ہورہا ہوں؟ یوسفی نے اپنی بھر پور زندگی گزار لی اور جنت میں چلے گئے۔ اس میں دکھ کی کونسی بات ہے؟ میں مرزا کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ پوچھا پھر کونسی افتاد آن پڑی ہے جو اتنے رنجیدہ اور دُکھی نظر آرہے ہیں؟ کس بات کا ماتم ہے؟ محرم میں تو ابھی کافی دن ہیں۔ کہنے لگے اکیس کروڑ عوام کاغم کھائے جارہا ہے سوچ سوچ کر پاگل ہورہا ہوں کیا بنے گا اس ملک کا؟ میں نے بھی ٹھنڈی آہ بھر کر ہاں میں ہاں ملائی، ٹھیک کہتے ہو مرزا آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کے پاس کھانے کو بھی نہیں۔ میں غربت کی بات نہیں کر رہا مرزا نے ماتھے پر ہاتھ مار کر مجھے ٹوکا۔ ہاں صحت کی بھی کوئی سہولت نہیں۔ پانچ سو روپے روزانہ کمانے والے مزدور کے بچے کو اگر بخار بھی ہوجائے تو اسکے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ گھر کا آٹا لے گھی اور سبزی لے دودھ لے یا پانچ سو روپے کسی ڈاکٹر کی فیس دیکر بچے کا نسخہ لکھوائے اور اگلے دن مزدوری کرکے دوائی کے پیسے کمائے۔ یہ تم کیا بیماروں اور بیماری کا قصہ لے بیٹھے؟ مرزا نے ایک بار پھر دانت پیسنے ہوئے ٹوکا۔ تعلیم تو اب اتنی مہنگی ہوگئی کہ بنیادی ضرورت کی بجائے عیاشی لگتی ہے۔ عام آدمی تو بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اسی تعلیم نے تو بیڑا غرق کردیا ہے رہا سہا شعور بھی کھو دیا نوجوانوں نے چار جماعت انگریزی پڑھ کر یہ تم کیا تعلیم تعلیم کر رہے ہو؟ مرزا نے ایک بار پھر ٹوک دیا۔ 
عوام بجلی کے ہاتھوں بھی خود کشیاں کر رہی ہے۔ اوّل تو بجلی ملتی نہیں جب ملتی ہے تو ایک روپے یونٹ والی بجلی پندرہ روپے یونٹ ملتی ہے۔ اب بندہ بجلی کے بل پورے کرے یا گھر کا چولہا جلائے۔ 
اگر بجلی نہیں تو کونسی قیامت آگئی؟ ہمارے آباواجداد نے بابا آدم سے لیکر ماضی قریب تک بجلی کے بغیر گزارہ کیا ہے۔ مرزا ایک بار پھر بگڑ گئے۔ میں اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کر رہا ہوں، مرزا نے ایک ایک لفظ پر زور دیکر کہا۔ 
ٹھیک کہتے ہیں مرزا۔ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور عوام کی تمام بنیادی ضروریات کوپورا کرنا ریاست اور حکومت وقت کا فرض اوّل ہے۔ لیکن اس آرٹیکل کے بارے میں کبھی کسی حکمران نے عوام کو کچھ نہیں بتایا۔ 
میں آرٹیکل 38 کی بات نہیں کر رہا اور تم یہ نئے شوشے چھوڑ کر پہلے سے گمراہ عوام کو مزید گمراہ نہ کرو تو بہتر ہوگا، مرزا نے سرد لہجے میں کہا۔ 
عوام کے تو یہی مسائل ہیں اگر اکیس کروڑ کی فکر ہے تو اور کونسی افتاد آن پڑی ہے؟ میری بھی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ 
دراصل بات یہ ہے کہ میں اپوزیشن جماعتوں کی مزاحمتی تحریک کا سربراہ ہوں آج کل۔ اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نئی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ مرزا نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ اچھا ماشاء اللہ آپ منتخب نمائندے ہیں اب؟ کس حلقے سے جیتے ہیں؟ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا؟ کہاں جیتا ہوں؟ مرزا نے جل کر جواب دیا؟ جیتا ہوتا تو اب تک ترین جہاز کی سیر کروا نہ چکا ہوتا؟ دھاندلی سے ہرایا گیا مجھے؟ مرزا نے رونی صورت بنا کر کہا۔ 
اچھا تو دھاندلی سے ہارے ہیں؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے؟ میں نے سوال کیا۔ 
نصف صدی سیاست کی ہے اچھی طرح ہم سب جانتے ہیں کہ بندہ جیتتا کیسے ہے اور ہارتا کیسے ہے، مرزا نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔ 
لیکن ہرایا کس نے؟ میں نے مرزا کو ٹٹولا۔ الیکشن کمیشن، فوج اور سول انتظامیہ نے۔ مرزا نے جواب دیا۔ الیکشن کمیشن کا سربراہ کس نے مقرر کیا تھا؟ میں نے سوال کیا۔ وہ ہماری غلطی تھی مرزا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ اور فوج کا سربراہ کس نے مقرر کیا تھا؟ میں نے ایک اور سوال کیا۔ وہ بھی ہم نے کیا تھا۔ سول انتظامیہ میں تمام تقرریاں کس کی حکومت میں ہوئی ہیں؟ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا۔ پچھلے تیس سال سے تو آپ سب لوگ ہی حکمران تھے نا؟ 
دیکھو آپ کے ان فضول سوالات کے جوابات دینا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ مجھے بس اتنا پتا ہے کہ اس ملک کو ہم ہی صحیح طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں اور اب ان غلطیوں سے ہم اتنا سیکھ چکے ہیں کہ صحیح طریقے سے ملک کیسے چلایا جا سکتا ہے، مرزا نے اپنی سب سے بڑی دلیل پیش کردی۔ 
عرض کیا کہ مرزا میں نے موٹر سائیکل کی ٹیوننگ ایک مستری سے کروائی تھی سو روپے دیکر، لیکن اس نے ٹھیک سے نہیں کی تھی۔ اسکے بعد پچھلے دس سال میں میں نے اس سے دوبارہ ٹیوننگ نہیں کرائی حالانکہ بات ایک موٹر سائیکل اور سو روپے کی تھی۔ تو آپ عوام سے کیوں امید رکھتے ہیں کہ وہ ستر سال تک اپنے ملک کو انہی لوگوں کے ہاتھوں میں دیکر خراب کرواتے رہیں گے؟ 
ستر سال میں سے چالیس سال تو فوج نے حکمرانی کی ہے مرزا نے فوراً صفائی پیش کی۔ 
بالکل ٹھیک لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے نا کہ فوج کو لانے والے بھی یہی سارے سیاستدان ہوتے تھے جو آج سب اکٹھے ہوئے ہیں؟ میں نے زخموں پر نمک چھڑکا۔ 
ہاں لیکن اب ہم سمجھدار ہوگئے ہیں مرزا نے اقبال جرم کیا۔ 
مرزا میری مانیں تو اپنی رہی سہی عزت بچا کر ایک طرف بیٹھ جائیں۔ حکومت کی کار کروگی دیکھیں جہاں غلط کام کرے دبوچ لیں۔ کڑی نظر رکھیں۔ عوام اب با شعور ہوچکی ہے۔ آپ نے وہ شعر تو سنے ہی ہوں گے کہ 
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے 
کبھی بحیلہ مذہب کبھی بنام وطن 
غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو 
امیر شہر سے سارا حساب لے لیں گے 
ممکن ہے غریب شہر کے بچے جوان ہوچکے ہوں اور وہ آپ کو دیکھ کر پرانا حساب کتاب بھی مانگنا شروع کردیں۔ اسلئے عافیت اسی میں ہے کہ اپنی عزت بچا لیں۔ 
مرزا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگے 
“اسی حساب کتاب کا تو رونا ہے۔ جو ظالم اور سفاک لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکمرانوں کو جیل تک پہنچا دیتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کریں گے۔ انکے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں۔ کاش تم ایک دن ایوان اقتدار میں گزار کر دیکھ لیتے پھر میں تم سے پوچھتا کہ اقتدار کے بغیر ایک رات بھی کتنی کھٹن ہوتی ہے۔ مچھلی کو پانی سے نکال کر مارا جاتا ہے ذبح نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے۔ لیکن تم نہیں سمجھوگے۔ تم گمراہ ہوچکے ہو۔ “

بے وفا

وہ بھی کتنی بے وفا ہے۔ سالوں میرے پاس رہی۔ وہ میری تھی صرف میری۔ کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا تو میں آگ بگولا ہوجاتا۔ اسے پانے کیلئے میں نے کیا کیا جتن نہیں کئے؟ در در کی خاک چھانی۔ ہر دربار پہ سر جھکایا اسے پانے کیلئے۔ مجھے لگا تھا وہ ہمیشہ کیلئے میری ہے۔ لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج وہ میری نہیں رہی۔ ایک لمحے میں اس نے اپنا دامن چھڑا لیا۔ وہ کسی اور کی ہونے جارہی ہے۔ اب ایسے میں میں چیخوں نہیں چلاوں نہیں واویلا اور ماتم نہ کروں چھاتی نہ پیٹوں تو اور کیا کروں۔ ایسے اچانک سب کچھ کیسے بدل سکتا ہے۔ آج تو رونے کی اجازت دے دو۔ چیخنے چلانے کی اجازت دے دو۔ آج تو نہ روکو۔ 
یہ کسی نامراد عاشق کا واویلا نہیں الیکشن میں ہارے ہوئے سیاستدان کی دہائی ہے۔ حکومت چھن جانے کا سوگ منا رہا ہے۔

سوال

ہر ایک کو ہے یہ گلہ 
وطن نے یہ نہیں دیا 
وطن نے وہ نہیں دیا 
چلو بدل کے ریت یہ 
نئے سوال اٹھاتے ہیں 
سوال خود سے پوچھ کر
جواب خود ہی دیتے ہیں
وطن کو میں نے کیا دیا؟
وطن کو تم نے کیا دیا؟

بے ثباتی


میں نے پوچھا باباجی دنیا کی سب سے اچھی بات کیا ہے؟ مسکرا کر بولے اسکا عارضی پن۔ مجھے حیرت ہوئی، پوچھا سب سے بری چیز کیا ہے؟ ایک بار پھر مسکرا کر بولے اسکا عارضی پن۔ میں نے احتجاج کیا، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کہنے لگے بیٹا جب تمہاری زندگی مشکل ہوجائے اور تمہاری برداشت جواب دینے لگے یہاں تک کہ تم ناشکری کے قریب ہونے لگو تو تھوڑی دیر تنہابیٹھ کر سوچ لو کہ یہ مشکل کتنی دیر رہے گی؟ پل دوپل، ہفتہ، مہینہ سال یا باقی زندگی۔ اور باقی زندگی کتنی ہے؟ کچھ پتا نہیں لیکن محدود کسی بھی لمحے ختمہونے والی۔ مطلب یہ مشکل دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے ۔لیکن اس سے مشکل ختم تو نہیں ہوتی، کبوتر کی طرح بلی دیکھ کر آنکھیں بند کرنے والی بات ہے۔ میں نے اعتراض کیا۔ ہاں مشکل ختم نہیں ہوتی، باباجی بولے۔ لیکن مشکل برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور آپ اپنا رویہ مثبت رکھ پاتے ہیں جس سے آپکی زندگی کے دوسرے معاملات متاثر نہیں ہوتے۔ چلیں یہ تو اچھی بات ہوئی ، میں نے تائید کی، پھر یہ عارضی پن برا کیسے ہوا بھلا؟
برا ایسے کہ آپ کی زندگی چاہے جتنی بھی اچھی کیوں نہ گزر رہی ہو یہ دھڑکا لگا ہی رہتا ہے کہ سب کچھ ایک پل میں چھن بھی سکتا ہے۔ باباجی نے دوسرا پہلو بیان کیا۔ 
تو پھر ایسے میں پرسکون زندگی کیسے گزاری جائے؟ میں نے پھر سوال کیا۔ 
وہ ایسے کہ حاصل پر شکر کرو اور لاحاصل اور چھینی گئی نعمتوں کاملال چھوڑ دو۔ کوشش پوری کرو لیکن نتائج اللہ کے سپرد کرو۔ اسکی حکمت پریقین کامل رکھو کہ وہ جو بھی کرتا ہے کسی بھلے کیلئے کرتا ہے۔

رابطہ

آج بابا جی سے ملاقات ہوئی تو خلاف توقع ان کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھا اور وہ وٹس ایپ پہ مسیج لکھ رہے تھے۔ یہ صورتحال میرے لئے نہ صرف نئی تھی بلکہ حیران کن بھی۔ حیران ہوکر پوچھا کہ باباجی لگتا ہے تبدیلی واقعی آگئی ہے۔ اس فضول چیز سے ہم پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چھڑا نہیں پا رہے اور ایک آپ ہیں کہ اس عمر میں نیا شوق پال لیا۔ بابا جی مسکرائے اور کہنے لگے “یہ اتنی بھی بری چیز نہیں۔ میں کافی شاکی تھا اس کے بارے میں لیکن آج اس نے وہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھا دیا جو میں برسوں نہیں سمجھ پایا تھا۔”
میری حیرت میں اضافہ ہوگیا۔ ایسا بھلا کونسا نکتہ ہوسکتا ہے جو باباجی کو سمارٹ فون سے سمجھ آیا۔ درخواست کی کہ تفصیلات بیان فرمائیں تاکہ ہم بھی مستفید ہوسکیں۔ 
باباجی بولے کہ میں دس بارہ دن سے دوستوں کے ساتھ وٹس ایپ پہ رابطے میں ہوں۔ جو دوست ایک دو دن کیلئے رابطہ نہیں کرتے ان کے نام اور پیغامات بہت نیچے چلے جاتے ہیں اتنے نیچے کہ میرا ہاتھ تھک جاتا ہے سکرول کرتے کرتے۔ اور جو رابطے میں رہتا ہے وہ لسٹ میں سب سے اوپر رہتا ہے۔ عرض کیا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ یہ تو ہمیں سالوں پہلے پتا تھا۔ 
بابا جی کہنے لگے، تم نے میری بات پہ غور نہیں کیا۔ ہم سب کا ایک رب ہے۔ جب ہم اسکے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اسکو یاد کرتے ہیں اس سے مانگتے رہتے ہیں تو اس کے پاس موجود لسٹ میں ہمارا نام اوپر ہی اوپر رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم اس سے غافل ہوجاتے ہیں لسٹ میں ہمارا نام بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ بس میں یہی نکتہ سمجھا ہوں کہ اگر اس کی لسٹ میں نام اوپر رکھنا ہے تو وقتا” فوقتا” اسے کسی نہ کسی طرح یاد کرتے رہنا چاہئے۔

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...