جمعہ، 17 اگست، 2018

بانجھ

باباجی کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ خلاف معمول صحن میں بیٹھے بڑے پتھر سے چھری رگڑ رگڑ کر تیز کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا باباجی خیریت آج تو صبح صبح چھریاں تیز کی جارہی ہیں۔ باباجی بولے کہ مرغیاں ذبح کرنی ہیں۔ پوچھا کہ کوئی خاص مہمان آرہے ہیں یا مرغیوں کی بیماری آئی ہوئی ہے۔
فرمانے لگے کہ دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں ہے۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ کئی سالوں سے مرغیاں پال رکھی تھیں اس امید پہ کہ انڈے دیں گی۔ سالوں انتظار کیا لیکن مرغیوں نے انڈے نہیں دئیے۔ جو ایک آدھ مرغی انڈا دیتی اسکے انڈے بھی چونچیں مار کر توڑ دیتیں۔ پچھلے دنوں میں اور مرغیاں لے آیا تو ان سب مرغیوں نے احتجاج کیا اور نئی مرغیوں کو ڈربے میں گھسنے سے منع کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم سالہا سال سے اس ڈربے کی مالک ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس ڈربے میں کون گھستا ہے۔ اب میرے پاس ایک دو ہی راستے بچے تھے کہ یا تو سب مرغیوں کو بیچ دوں یا ذبح کردوں۔ جو مرغی انڈے نہ دے وہ بھلا کون خریدے گا اسلئے اب سب کو ذبح کرنے جا رہا ہوں۔ عرض کیا کہ اگر نئی مرغیوں نے بھی انڈے نہ دئیے پھر کیا ہوگا۔ کہنے لگے پھر چھری بھی یہیں ہے اور پتھر بھی یہیں ہے دوبارہ تیز کرکے انکو بھی ذبح کردوں گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...