جمعہ، 17 اگست، 2018

چوہا شیر

کہتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے آبادی سے دور کسی پہاڑ کے ایک غار میں ایک باباجی رہا کرتے تھے۔ بابا جی دنیا سے قطع تعلق کرکے شب و روز اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے۔ سال کے بارہ مہینے روزے رکھتے۔ بابا جی کی دعائیں فورا" قبول ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار کوئی دعا کروانے آجاتا توباباجی تھوڑی دیر کیلئے ملتے دعا کرتے اور چلتا کردیتے۔ 
جس غار میں بابا جی رہتے تھے اسی غار میں چوہوں کے بل تھے۔ ایک دن بابا جی نوافل پڑھ رہے تھے کہ ایک چوہے نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ کبھی دوڑ کر گود میں چڑھ بیٹھتا کو کبھی سجدے کی جگہ بیٹھ جاتا۔ ادھر بابا جی سجدہ کرتے ادھر اسکی دم بابا جی کے ناک اور منہ میں گھس جاتی۔ فارغ ہوکر بابا جی نے چوہے سے پوچھا کہ کیوں تنگ کر رہے ہو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو مجھے اپنا کام کرنے دو۔ چوہے نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ باباجی میں ایک کمزور سا چوہا ہوں۔بھوک سے برا حال ہے۔ بلی کے ڈر سے ہر وقت بل میں دبکا رہتا ہوں۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں بلی بن جاؤں اور اس روز روز کی مصیبت سے جان چھوٹے۔ بابا جی نے دعا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چوہا ایک موٹی تازی بلی میں بدل گیا۔ بلی بننے کی دیر تھی کہ اس نے چوہوں پر حملہ کردیا۔ اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ رشتہ داروں دوستوں میں سے کسی کو نہیں بخشا سب کا صفایا کرلیا۔ جو کچھ بچے وہ بھوک سے نڈھال ڈر کے مارے بل سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ دن گزرتے گئے کہ ایک دن بلی پھر بابا جی کے پاس ان بیٹھی۔ کہنے لگی بابا جی میں تو بہت پریشان ہوں۔ کھانے کو کچھ ملتا نہیں چوہے توریبا" ختم ہوگئے ہیں اور نیچے زمین پر کتے رہنے نہیں دیتے میری ساری زندگی چھتوں اور دیواروں کے اوپر گزر رہی ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں اور دعا کریں کہ میں کتا بن جاؤں تاکہ زندگی ذرا آرام سے گزرے۔ بابا جی نے دعا کی اور تھوڑی ہی دیر میں بلی ایک بڑے کتے میں تبدیل ہوگئی۔ کتا بننے کی دیر تھی کہ اس نے بلیوں کو بھگانا شروع کردیا۔ بلیاں نہ ملتیں تو اپنے سے چھوٹے کتوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا۔ صبح سے شام تلک بھونکتا اور لڑتا رہتا۔ کچھ عرصے بعد کتا باباجی کے پاس لوٹ آیا۔ کہنے لگا باباجی میں تو مصیبت میں پڑ گیا۔ گاوں کے سب چھوٹے بڑے ڈنڈے سوٹے اور پتھر اٹھائے میری تلاش میں رہتے ہیں۔ کچھ بڑے کتوں کے گروہ مجھے قصائی کی دکان کے قریب نہیں بھٹکنے دیتے۔ حالت بہت خراب ہے۔ آبادی میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ دعا کریں کہ میں بھیڑیا بن جاؤں اور جنگل کی راہ لوں۔ آبادی کے لوگ بہت ظالم ہیں۔ بابا جی نے دعا کی اور کتا ایک بڑے بھیڑیے میں تبدیل ہوگیا۔ بھیڑیا جنگل میں گھسا اور جانوروں کا شکار شروع کردیا۔ چھپکلی سے لیکر خرگوش تک اور لومڑی سے لیکر گیدڑ تک سب کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ جنگل میں چھوٹے جانور ناپید ہونے لگے۔ اسکے پنجے ہر وقت خون میں لتھڑے رہتے اور منہ سے خون ٹپکتا۔ لیکن کچھ دن بعد بھیڑیا باباجی کے در پر ان بیٹھا۔ کہنے لگا بابا جی اس جنگل میں چیتے تیندوے اور شیر بھی ہیں۔ مجھ پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے ہیں۔ شکار کرنے نہیں دیتے اور اگر چوری چھپے شکار کرلوں تو چھین لیتے ہیں۔ بس آپ دعا کریں کہ میں شیر بن جاؤں۔ جنگل کا سب سے بڑا شیر۔ میرے پنجے سب سے مضبوط اور میرے دانت سب سے زیادہ تیز ہوں۔ آخری بار درخواست ہے۔ اسکے بعد میں آپ کی عبادت میں کبھی مخل نہیں ہوں گا۔ بابا جی نے دعا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا ایک بہت بڑے شیر میں تبدیل ہوگیا۔ شیر جنگل کی طرف دوڑا اور پورے جنگل میں کہرام مچادیا۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑا جانور کسی کو نہیں بخشا۔ چن چن کر سب جانوروں سے بدلے لئے۔ بھوک ہوتی یا نہ ہوتی صبح سے شام جانوروں کو چیرتا پھاڑتا ادھیڑتا اور کھدیڑتا رہتا۔ کچھ عرصے بعد جنگل سے سب چھوٹے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ وہ پھر باباجی کی طرف روانہ ہوگیا۔ نہ جانے اسے کہاں سے یہ خیال آیا۔ بابا جی کے پاس پہنچا تو باباجی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پوچھا اب کیا لینے آئے ہو؟ اب تو تم جنگل کے بادشاہ ہو اور تم سے طاقتور کوئی دوسرا شیر بھی جنگل میں نہیں۔ شیر نے ہنس کر کہا کہ جنگل میں کھانے کو کچھ بچا نہیں اور مجھے خطرہ بھی ہے کہ کسی اور چوہے کو شیر نہ بنادو اسلئے آپ کو کھانے ہی آیا ہوں۔ بابا جی کو بہت غصہ آیا اور غصے سے اسکے منہ پر تھوکتے ہوئے کہا کہ اللہ پھر تجھے چوہا بنادے۔ اچانک شیر سکڑتا سکڑتا چوہے میں تبدیل ہوگیا۔ چوہا بنتے ہی وہ بل کی طرف دوڑا لیکن وہاں بچے ہوئے چوہوں نے پہچان لیا۔ سب نے مل کر حملہ کیا اور اسکی خوب درگت بنائی۔ کسی نہ کسی طرح وہ جان بچاکر بھاگ نکلا لیکن دم اور کان کٹوا بیٹھا۔ پھر تا دم مرگ تنہا زندگی گزارنے لگا۔ 
(#فوکلور عبدالباری جہانی کی پشتو نظم "مژک شیر" کا ترجمہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...