آج مرزا سے ملاقات ہوئی تو حالت پچھلی ملاقات سے بھی زیادہ خراب تھی۔ مجھے تشویش ہونے لگی۔ پوچھا مرزا خیریت تو ہے آپ کی حالت ٹھیک نہیں خدا نخواستہ آپ بیمار تو نہیں۔ بولے یہ عشق جو ہے نا بذات خود ام الامراض ہے۔ جب عشق ہوجائے تو کسی اور مرض کی حاجت ہی نہیں رہتی۔ پوچھا کس سے عشق ہوا کب ہوا اور کیسے ہوا۔ کہنے لگے پاکستان سے عشق ہوا ہے۔ تھا تو پہلے سے لیکن اب بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اندازہ اب ہوا ہے۔ کسی چیز کی قدر کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ چھن جاتی ہے۔ عرض کیا مرزا خدا کا خوف کریں ایسی منحوس باتیں نہ کریں۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان ہم سے چھن جائے۔ پاکستان رہتی دنیا تک قائم رہیگا۔ وقتی اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔ مرزا بولے تم ایک محکوم پیدا ہوئے ہو اور محکوم ہی مروگے۔ تمہارے پورے خاندان میں نہ کوئی حکمران گزرا ہے نہ کوئی افسر شاہی۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک تمہارا تب ہی ہوتا ہے جب تمہاری حکومت ہو۔ مرزا سے الجھنا بیکار ہی ہوتا ہے اس لئے میں نے بات کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ پوچھا کہ ہوا کیا ہے سیدھی طرح بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے؟ کہنے لگے تم نے کابینہ دیکھی ہے اپنے وزیر اعظم کی؟ ایک سے ایک نالائق انسان ہے اس میں۔ پتا نہیں یہ لوگ ملک کیسے چلائیں گے؟
عرض کیا کہ مرزا ان میں کافی تجربہ کار لوگ ہیں جو منسٹری چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جل کر کہنے لگے ان کی کار کروگی ان حکومتوں میں صفر تھی اور ان کو صرف کرپشن کا تجربہ ہے۔ عرض کیا سب پرانے بھی نہیں نئے چہرے بھی ہیں تازہ دم اور پر جوش جو کچھ کرکے دکھانے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔ تیوری چڑھا کر بولے ان رنگروٹوں کے پاس تجربہ کہاں سے آئے گا۔ عرض کیا مرزا تجربہ کار لوگوں سے آپ کو مسئلہ ہے، نئے لوگوں سے بھی مسئلہ ہے تو پھر حل کیا ہے آخر؟ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولے حل تو بس ایک ہی ہے حکومت ہمارے حوالے کردی جائے۔ پھر دیکھنا کیسے چلاتے ہیں حکومت۔ عرض کیا کہ مرزا وہ تو کئی دہائیوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ اسی کی وجہ سے تو یہ حالت ہے اس ملک کی۔ مرزا پاؤں پٹختے ہوئے یہ کہہ کر چلے گئے کہ ہم نے قیام پاکستان سے لیکر کل تک وہ سارے طریقے آزمالئے جن سے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا تھا اور اب کی بار ارادہ تھا وہ طریقہ آزمانے کا جس سے یہ ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا لیکن افسوس اس بار موقع ہی نہیں ملا۔ اور اگر خدانخواستہ ان کم بختوں نے اچھا کام کیا اور ملک کی حالت بہتر ہوئی تو ہماری دوبارہ باری بھی نہیں آنی۔ لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں۔
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
ہفتہ، 18 اگست، 2018
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں