بڑی مدت بعد آج مرزا عبدالودود بیگ نظر آئے۔ بہت رنجیدہ اور غصے میں تھے۔ پوچھا مرزا کیسی گر رہی ہے؟ کہنے لگے آنکھوں کا علاج کس ڈاکٹر سے کروا رہے ہو؟ کیوں میری آنکھوں کو کیا ہوا ہے جو علاج کرواوں گا؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ مرزا بولے کہ اگر آنکھیں ٹھیک ہوتیں تو یہ سوال نہ کرتے۔ دیکھ نہیں رہے میں کس حال میں ہوں؟ مرزا کی حالت واقعی خراب تھی۔ مجھے اسکی حالت پہ ترس آیا۔ یوسفی صاحب کیساتھ تقریباً ایک صدی کی رفاقت تھی۔ اب انکے بغیر زندگی واقعی مشکل ہی ہوگی۔ یوسفی صاحب کے جانے کا افسوس ہمیں بھی ہے۔ میں نے انکو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ زندگی میں دو لوگوں کو دفناتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری ذات کا ایک حصہ انکے ساتھ قبر میں منوں مٹی تلے دفن ہوگیا ہو۔ ایک میرے والد صاحب اور ایک یوسفی صاحب۔ ستر سال تک یوسفی صاحب نے لوگوں کو ہنسایا اب اور کتنا ہنساتے۔ ایک نہ ایک دن جانا ہی تھا۔مرزا کی خاموشی سے مجھے لگا ان پر باتوں کا اثر ہورہا ہے۔ وہ بڑی حیرت سے مجھے دیکھتے رہے پھر کہنے لگے، تمہیں کس نے کہا میں یوسفی کے غم میں نڈھال ہورہا ہوں؟ یوسفی نے اپنی بھر پور زندگی گزار لی اور جنت میں چلے گئے۔ اس میں دکھ کی کونسی بات ہے؟ میں مرزا کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ پوچھا پھر کونسی افتاد آن پڑی ہے جو اتنے رنجیدہ اور دُکھی نظر آرہے ہیں؟ کس بات کا ماتم ہے؟ محرم میں تو ابھی کافی دن ہیں۔ کہنے لگے اکیس کروڑ عوام کاغم کھائے جارہا ہے سوچ سوچ کر پاگل ہورہا ہوں کیا بنے گا اس ملک کا؟ میں نے بھی ٹھنڈی آہ بھر کر ہاں میں ہاں ملائی، ٹھیک کہتے ہو مرزا آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کے پاس کھانے کو بھی نہیں۔ میں غربت کی بات نہیں کر رہا مرزا نے ماتھے پر ہاتھ مار کر مجھے ٹوکا۔ ہاں صحت کی بھی کوئی سہولت نہیں۔ پانچ سو روپے روزانہ کمانے والے مزدور کے بچے کو اگر بخار بھی ہوجائے تو اسکے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ گھر کا آٹا لے گھی اور سبزی لے دودھ لے یا پانچ سو روپے کسی ڈاکٹر کی فیس دیکر بچے کا نسخہ لکھوائے اور اگلے دن مزدوری کرکے دوائی کے پیسے کمائے۔ یہ تم کیا بیماروں اور بیماری کا قصہ لے بیٹھے؟ مرزا نے ایک بار پھر دانت پیسنے ہوئے ٹوکا۔ تعلیم تو اب اتنی مہنگی ہوگئی کہ بنیادی ضرورت کی بجائے عیاشی لگتی ہے۔ عام آدمی تو بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اسی تعلیم نے تو بیڑا غرق کردیا ہے رہا سہا شعور بھی کھو دیا نوجوانوں نے چار جماعت انگریزی پڑھ کر یہ تم کیا تعلیم تعلیم کر رہے ہو؟ مرزا نے ایک بار پھر ٹوک دیا۔
عوام بجلی کے ہاتھوں بھی خود کشیاں کر رہی ہے۔ اوّل تو بجلی ملتی نہیں جب ملتی ہے تو ایک روپے یونٹ والی بجلی پندرہ روپے یونٹ ملتی ہے۔ اب بندہ بجلی کے بل پورے کرے یا گھر کا چولہا جلائے۔
اگر بجلی نہیں تو کونسی قیامت آگئی؟ ہمارے آباواجداد نے بابا آدم سے لیکر ماضی قریب تک بجلی کے بغیر گزارہ کیا ہے۔ مرزا ایک بار پھر بگڑ گئے۔ میں اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کر رہا ہوں، مرزا نے ایک ایک لفظ پر زور دیکر کہا۔
ٹھیک کہتے ہیں مرزا۔ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور عوام کی تمام بنیادی ضروریات کوپورا کرنا ریاست اور حکومت وقت کا فرض اوّل ہے۔ لیکن اس آرٹیکل کے بارے میں کبھی کسی حکمران نے عوام کو کچھ نہیں بتایا۔
میں آرٹیکل 38 کی بات نہیں کر رہا اور تم یہ نئے شوشے چھوڑ کر پہلے سے گمراہ عوام کو مزید گمراہ نہ کرو تو بہتر ہوگا، مرزا نے سرد لہجے میں کہا۔
عوام کے تو یہی مسائل ہیں اگر اکیس کروڑ کی فکر ہے تو اور کونسی افتاد آن پڑی ہے؟ میری بھی برداشت جواب دینے لگی تھی۔
دراصل بات یہ ہے کہ میں اپوزیشن جماعتوں کی مزاحمتی تحریک کا سربراہ ہوں آج کل۔ اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نئی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ مرزا نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ اچھا ماشاء اللہ آپ منتخب نمائندے ہیں اب؟ کس حلقے سے جیتے ہیں؟ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا؟ کہاں جیتا ہوں؟ مرزا نے جل کر جواب دیا؟ جیتا ہوتا تو اب تک ترین جہاز کی سیر کروا نہ چکا ہوتا؟ دھاندلی سے ہرایا گیا مجھے؟ مرزا نے رونی صورت بنا کر کہا۔
اچھا تو دھاندلی سے ہارے ہیں؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے؟ میں نے سوال کیا۔
نصف صدی سیاست کی ہے اچھی طرح ہم سب جانتے ہیں کہ بندہ جیتتا کیسے ہے اور ہارتا کیسے ہے، مرزا نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔
لیکن ہرایا کس نے؟ میں نے مرزا کو ٹٹولا۔ الیکشن کمیشن، فوج اور سول انتظامیہ نے۔ مرزا نے جواب دیا۔ الیکشن کمیشن کا سربراہ کس نے مقرر کیا تھا؟ میں نے سوال کیا۔ وہ ہماری غلطی تھی مرزا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ اور فوج کا سربراہ کس نے مقرر کیا تھا؟ میں نے ایک اور سوال کیا۔ وہ بھی ہم نے کیا تھا۔ سول انتظامیہ میں تمام تقرریاں کس کی حکومت میں ہوئی ہیں؟ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا۔ پچھلے تیس سال سے تو آپ سب لوگ ہی حکمران تھے نا؟
دیکھو آپ کے ان فضول سوالات کے جوابات دینا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ مجھے بس اتنا پتا ہے کہ اس ملک کو ہم ہی صحیح طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں اور اب ان غلطیوں سے ہم اتنا سیکھ چکے ہیں کہ صحیح طریقے سے ملک کیسے چلایا جا سکتا ہے، مرزا نے اپنی سب سے بڑی دلیل پیش کردی۔
عرض کیا کہ مرزا میں نے موٹر سائیکل کی ٹیوننگ ایک مستری سے کروائی تھی سو روپے دیکر، لیکن اس نے ٹھیک سے نہیں کی تھی۔ اسکے بعد پچھلے دس سال میں میں نے اس سے دوبارہ ٹیوننگ نہیں کرائی حالانکہ بات ایک موٹر سائیکل اور سو روپے کی تھی۔ تو آپ عوام سے کیوں امید رکھتے ہیں کہ وہ ستر سال تک اپنے ملک کو انہی لوگوں کے ہاتھوں میں دیکر خراب کرواتے رہیں گے؟
ستر سال میں سے چالیس سال تو فوج نے حکمرانی کی ہے مرزا نے فوراً صفائی پیش کی۔
بالکل ٹھیک لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے نا کہ فوج کو لانے والے بھی یہی سارے سیاستدان ہوتے تھے جو آج سب اکٹھے ہوئے ہیں؟ میں نے زخموں پر نمک چھڑکا۔
ہاں لیکن اب ہم سمجھدار ہوگئے ہیں مرزا نے اقبال جرم کیا۔
مرزا میری مانیں تو اپنی رہی سہی عزت بچا کر ایک طرف بیٹھ جائیں۔ حکومت کی کار کروگی دیکھیں جہاں غلط کام کرے دبوچ لیں۔ کڑی نظر رکھیں۔ عوام اب با شعور ہوچکی ہے۔ آپ نے وہ شعر تو سنے ہی ہوں گے کہ
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلہ مذہب کبھی بنام وطن
غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو
امیر شہر سے سارا حساب لے لیں گے
ممکن ہے غریب شہر کے بچے جوان ہوچکے ہوں اور وہ آپ کو دیکھ کر پرانا حساب کتاب بھی مانگنا شروع کردیں۔ اسلئے عافیت اسی میں ہے کہ اپنی عزت بچا لیں۔
مرزا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگے
“اسی حساب کتاب کا تو رونا ہے۔ جو ظالم اور سفاک لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکمرانوں کو جیل تک پہنچا دیتے ہیں وہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کریں گے۔ انکے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں۔ کاش تم ایک دن ایوان اقتدار میں گزار کر دیکھ لیتے پھر میں تم سے پوچھتا کہ اقتدار کے بغیر ایک رات بھی کتنی کھٹن ہوتی ہے۔ مچھلی کو پانی سے نکال کر مارا جاتا ہے ذبح نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے۔ لیکن تم نہیں سمجھوگے۔ تم گمراہ ہوچکے ہو۔ “
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
جمعہ، 17 اگست، 2018
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں