اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
جمعرات، 30 اپریل، 2020
ہماری صحت اور بیماریاں
یوں تو اپنی صحت کبھی بھی ایسی مثالی نہیں رہی کہ مائیں بچوں کو ہماری طرف اشارہ کرکے کہیں کہ دودھ پیا کرو تاکہ اس انکل کی طرح صحت مند رہو۔ بیس سال کی عمر سے لیکر اب تک وزن گرمیوں میں پچپن اور سردیوں میں ساٹھ کلوگرام سے زیادہ نہیں بڑھا۔ تاہم شمال میں ٹھنڈے علاقوں کے سفر کے دوران وزن پینسٹھ کلو تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اضافی وزن سوٹ اور بوٹ کا ہوتا ہے صافی وزن وہی پچاس سے کچھ اوپر ہی ہے۔ تاہم اللہ کا یہ خصوصی کرم ہے کہ صحت کے حوالے سے کبھی کوئی چھوٹی یا بڑی شکایت نہیں رہی۔ گوکہ اس دور میں شاید ہی کوئی بندہ ہو جسے کوئی نہ کوئی بیماری نہ ہو۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم کوئی نہ کوئی الرجی تو لازما" ہوتی ہے۔ یادش بخیر، الرجی کے بارے میں ہمارے ایک کرم فرما کا فرمان ہے کہ یہ امیر لوگوں کی بیماری ہے غریب کے پاس اتنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ تاہم اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے۔ بچپن میں ایک خاص ٹائم ٹیبل کے مطابق ہم باقاعدہ بیمار ہوتے رہے ہیں۔ مثلا" جون جولائی میں سالانہ بخار لازمی ہوتا تھا جو گھر والوں کے مطابق Sun Stroke ہوتا تھا کیونکہ دوپہر کو چوری چھپے دھوپ میں ضرور نکلتے تھے۔ ساون بھادوں میں پھوڑے پھنسیاں نکلنا بھی معمول تھا۔ گھر میں موجود تالاب جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، پیتے تھے۔ مٹکے میں پانی ڈالتے وقت کپڑے سے چھان کر ڈالا جاتا تھا اور کپڑے پر مٹھی بھر آبی کیڑے مکوڑے جمع ہوجایا کرتے تھے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا کہ ان سے بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ پھوڑے عموما" چہرے پر نکلتے تھے اور انکا علاج بغیر آپریشن کے نہیں ہوتا تھا۔ آپریشن اماں خود کرتی تھیں اور آپریشن تھیٹر کا کام زمین سے لیا جاتا تھا۔ چونکہ Anesthesia کا رواج نہیں تھا اسلئے ہمیں قابو کرنے کے لئے اماں ایک گھٹنا ہمارے سینے پر اور دوسرا ہمارے ماتھے پر رکھتیں اور منہ بند رکھنے کے لئے دھونس دھمکی کا استعمال کرتی تھیں جو ہمیشہ کارگر ثابت ہوا۔ پھوڑے کا آپریشن ہونے کے بعد دوسرے دن وہ ٹھیک ہوجایا کرتا تھا۔ تاہم ایک بیماری ایسی تھی جسکا باقاعدہ کوئی موسم یا ٹائم ٹیبل نہیں ہوتا تھا اور وہ کسی بھی وقت ہوجاتی تھی گویا عشق کی ساری خوبیاں اس میں موجود تھیں سوائے خارش کے جو اضافی تھی۔ اس بیماری میں ہوتا یہ تھا کہ گردن سے جلد میں سوجن اور خارش شروع ہوتی اور کچھ ہی دیر میں پورے جسم کی جلد سرخ ہوجاتی اور شدید قسم کی سوجن ہوجاتی اور پھر بخار چڑھ جاتا۔ اس زمانے میں یہ شکایت بیماریوں کے فہرست میں شامل نہیں تھی۔ بہت عرصے بعد فلموں میں دیکھ کر پتا چلا کہ یہ الرجی کہلاتی ہے اور یہ کسی ناپسندیدہ چیز کیلئے جس کا خود کار ردعمل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں جب بھی یہ شکایت ہوتی تو اماں فورا" کہتیں کہ چیونٹیوں کے بلوں پر پاوں رکھا ہے کہیں۔ ہمارے حجرے میں بیر کے درختوں کے نیچے چیونٹیوں کے ایسے کئی گھر تھے اور بیر چنتے ہوئے اکثر پاوں پڑجایا کرتا۔ (یہ چیونٹیاں عام گھریلو چیونٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں)۔ اسکا علاج دوا دارو سے نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اسکا ٹوٹکہ بالکل الگ تھا۔ اماں فورا" کسی کپڑے میں مٹھی بھر گندم باندھ کر ہمارے جسم پرجہاں جہاں الرجی ہوتی، پھیرتیں اور پھر کہتیں کہ جاکر چیونٹیوں کے بل کے پاس ڈال آو۔ میں ایسا ہی کرتا اور حیران کن طور پر گھنٹے دو کے بعد میں ٹھیک بھی ہوجاتا۔ اماں کا خیال تھا کہ چیونٹیوں کے گھروں کی حفاظت پر جنات مامور ہوتے ہیں اور جب کوئی چیونٹیوں کے گھروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ جنوں کا رد عمل ہوتا ہے۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو سورہ نمل میں چیونٹی اور سلیمان علیہ السلام کا واقعہ پڑھنے کے بعد ہمیں خود بھی یقین آگیا کہ جنوں والی بات درست ہی ہوگی کیونکہ ممکن ہے سلیمان علیہ السلام نے جنوں کو حفاظت پر مامور کیا ہو۔ تاہم تھوڑا اور بڑا ہوا تو گندم کی مقدار بھی بڑھ گئی۔ اسلئے اس میں تھوڑی سی گندم چیونٹیوں کو ڈال کر باقی گندم دوکان پر لے جاکر اسکی ٹافیاں خرید لیا کرتا۔ دیہاتوں میں شاید یہ بارٹر سسٹم یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت اب بھی کہیں موجود ہو جو اس زمانے میں عام تھا۔ یہ بات البتہ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ چیونٹیوں کو گندم کھلانے کے بعد میں فورا" ٹھیک کیونکر ہوجایا کرتا۔ شاید یہ مابعد الطبیعیات عمل ہے جو ابھی تک ایک سربستہ راز ہی ہے۔
مجھے پہاڑوں سے خوف کیوں آنے لگا
میرے حلقہ احباب کو پتا ہے کہ گھومنا پھرنا بالعموم اور پہاڑ بالخصوص میرے لئے محبوب کا درجہ رکھتے ہیں۔ گاہے گاہے پہاڑ مجھے اپنی طرف اس شدت سے کھینچ لیتے ہیں کہ نیوٹن کا کشش ثقل کا فارمولا تک غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ شاید اسی محبت کی وجہ تھی کہ مجھے پہاڑوں سے کبھی ڈر محسوس نہیں ہوا۔ کئی بار اس بے خوفی میں ایسی بے وقوفیاں بھی کیں جن کا نتیجہ اگر یقینی موت نہیں تو عمر بھر کیلئے اپاہج ہونا لازم تھا، پھر بھی ڈر نہیں لگا۔ لیکن اب مجھے پہاڑوں سے ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ اس کی وجہ بہت خاص ہے۔ اور بتانا اس لئے ضروری ہے کہ بار بار دوست رابطہ کرکے دعوت دے رہے ہیں اور میں ان کو حیلوں بہانوں سے ٹال رہا ہوں۔ دراصل میرا ماں کی دعا پہ یقین اتنا پختہ ہے کہ میں یہ تو شک کرسکتا ہوں کہ صبح سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو لیکن اس بات پہ مجھے کبھی شک نہیں رہا کہ مری ماں کوئی دعا دیگی اور وہ میرے حق میں قبول نہیں ہوگی۔ اور یہ یقین اندھا یقین نہیں ہے بلکہ اس پیچھے سینکڑوں واقعات ہیں جن میں سے صرف ایک یہاں لکھ دیتا ہوں۔
تین سال پہلے کی بات ہے ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور جارہا تھا وہاں سے کراچی کی فلائٹ تھی۔ اماں نے رخصت کرتے وقت گلے لگا کر ماتھا چوما اور دعا دی کہ جاو اور اس طرح استری کئے ہوئے کپڑوں میں واپس آو۔ گھر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر میری گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور حادثہ اتنا شدید تھا کہ کہ گاڑی سڑک سے پندرہ بیس میٹر کے فاصلے پر قلابازیاں کھاتے ہوئے سڑک سے نیچے گری اور آخر کار چھت کے بل ٹھہر گئی۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا۔ جب گاڑی سے باہر نکلا ہاتھ جھاڑے اور اپنے جسم کو ٹٹولا تو مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔ جبکہ گاڑی کی حالت یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ٹھیک نہیں بچا تھا۔ ٹرک میں لاد کر واپس ڈر اسماعیل خان لے گیا۔ میں نے کپڑوں کو دیکھا تو کپڑوں کی استری تک خراب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اماں کی دعا یاد آئی اور مسکرا دیا۔ کئی ماہ بعد جب اماں کو پتا چلا تو ناراض ہوکر کہنے لگیں کہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ گاڑی بیچ دی۔تو میں نے جواب دیا کہ سچ پوچھیں تو غلطی ساری آپکی ہی ہے دعا ادھوری مانگی تھی۔ میری سلامتی کی دعا کی تھی گاڑی کی نہیں مانگی تھی۔ اب انہوں نے دعا میں ترمیم کردی ہے۔ اب کہتی ہیں اللہ تمہیں گاڑی سمیت سلامت لوٹائے۔ خیر بات پہاڑوں کی ہورہی تھی تو جب بھی سفر پر نکلتا ہوں اماں کی دعاوں کا سایہ سر پر ہوتا ہے۔
ہوا یوں کہ پچھلے سال سپانٹک مہم کی وڈیوز میں نے یوٹیوب پر اپلوڈ کردیں۔ وہ وڈیو بھائی نے اماں کو دکھا دیں کہ دیکھیں یہ ایسے خطرناک پہاڑوں میں جاتا ہے۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح مجھے روکا نہیں نہ ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی جانے سے منع کیا۔ بس ایک اضافی دعا اپنی دعاوں میں شامل کردی۔ وہ اب ساتھ یہ دعا بھی مانگتی ہے کہ یا اللہ اسے پہاڑوں سے صبر آجائے۔ اب مجھے نہیں پتا صبر کا مطلب کیا ہے۔ اگر صبر کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کی طرف جانے کا میرا دل ہی نہ کرے تو پھر تو دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ میرا دل اب بھی پہاڑوں کیلئے ویسے ہی مچلتا ہے۔ لیکن رہ رہ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہوسکتا ہے اللہ نے بطور آزمائش اس دعا کی قبولیت کو بطور خاص میرے اختیار میں دے دیا ہو۔ وہ کہتا ہو کہ اب تک تمہارے حق میں تمہاری ماں کی ہر دعا میں نے لفظ بلفظ اور حرف بحرف قبول کی ہے تو اس ایک دعا کا اختیار تمہیں دے دیا ہے چاہو تو رک کر اسکی دعا کو قبول کرو یا پھر چلے جاو اور اسکی دعا کو رد کردو۔ بس اسی امتحان میں ناکامی کا ایک خوف ہے جو مجھے لگ بھگ ایک سال سے روکے ہوئے ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اماں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے دعا میں ردو بدل کروا لوں مثلا" اس میں سطح سمندر سے اونچائی کی حد شامل کروا لوں کہ پانچ ہزار میٹر سے زیادہ اوپر جانے سے صبر آجائے۔ لیکن جب تک یہ ترمیم نہیں ہوتی میرا پہاڑوں سے خوف برقرار ہے اور فاصلہ بھی۔
تین سال پہلے کی بات ہے ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور جارہا تھا وہاں سے کراچی کی فلائٹ تھی۔ اماں نے رخصت کرتے وقت گلے لگا کر ماتھا چوما اور دعا دی کہ جاو اور اس طرح استری کئے ہوئے کپڑوں میں واپس آو۔ گھر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر میری گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور حادثہ اتنا شدید تھا کہ کہ گاڑی سڑک سے پندرہ بیس میٹر کے فاصلے پر قلابازیاں کھاتے ہوئے سڑک سے نیچے گری اور آخر کار چھت کے بل ٹھہر گئی۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا۔ جب گاڑی سے باہر نکلا ہاتھ جھاڑے اور اپنے جسم کو ٹٹولا تو مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔ جبکہ گاڑی کی حالت یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ٹھیک نہیں بچا تھا۔ ٹرک میں لاد کر واپس ڈر اسماعیل خان لے گیا۔ میں نے کپڑوں کو دیکھا تو کپڑوں کی استری تک خراب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اماں کی دعا یاد آئی اور مسکرا دیا۔ کئی ماہ بعد جب اماں کو پتا چلا تو ناراض ہوکر کہنے لگیں کہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ گاڑی بیچ دی۔تو میں نے جواب دیا کہ سچ پوچھیں تو غلطی ساری آپکی ہی ہے دعا ادھوری مانگی تھی۔ میری سلامتی کی دعا کی تھی گاڑی کی نہیں مانگی تھی۔ اب انہوں نے دعا میں ترمیم کردی ہے۔ اب کہتی ہیں اللہ تمہیں گاڑی سمیت سلامت لوٹائے۔ خیر بات پہاڑوں کی ہورہی تھی تو جب بھی سفر پر نکلتا ہوں اماں کی دعاوں کا سایہ سر پر ہوتا ہے۔
ہوا یوں کہ پچھلے سال سپانٹک مہم کی وڈیوز میں نے یوٹیوب پر اپلوڈ کردیں۔ وہ وڈیو بھائی نے اماں کو دکھا دیں کہ دیکھیں یہ ایسے خطرناک پہاڑوں میں جاتا ہے۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح مجھے روکا نہیں نہ ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی جانے سے منع کیا۔ بس ایک اضافی دعا اپنی دعاوں میں شامل کردی۔ وہ اب ساتھ یہ دعا بھی مانگتی ہے کہ یا اللہ اسے پہاڑوں سے صبر آجائے۔ اب مجھے نہیں پتا صبر کا مطلب کیا ہے۔ اگر صبر کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کی طرف جانے کا میرا دل ہی نہ کرے تو پھر تو دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ میرا دل اب بھی پہاڑوں کیلئے ویسے ہی مچلتا ہے۔ لیکن رہ رہ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہوسکتا ہے اللہ نے بطور آزمائش اس دعا کی قبولیت کو بطور خاص میرے اختیار میں دے دیا ہو۔ وہ کہتا ہو کہ اب تک تمہارے حق میں تمہاری ماں کی ہر دعا میں نے لفظ بلفظ اور حرف بحرف قبول کی ہے تو اس ایک دعا کا اختیار تمہیں دے دیا ہے چاہو تو رک کر اسکی دعا کو قبول کرو یا پھر چلے جاو اور اسکی دعا کو رد کردو۔ بس اسی امتحان میں ناکامی کا ایک خوف ہے جو مجھے لگ بھگ ایک سال سے روکے ہوئے ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اماں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے دعا میں ردو بدل کروا لوں مثلا" اس میں سطح سمندر سے اونچائی کی حد شامل کروا لوں کہ پانچ ہزار میٹر سے زیادہ اوپر جانے سے صبر آجائے۔ لیکن جب تک یہ ترمیم نہیں ہوتی میرا پہاڑوں سے خوف برقرار ہے اور فاصلہ بھی۔
ناک آوٹ ضرب
کل میں نے اماں کی دعاوں کے حوالے سے کچھ لکھا تھا تو کئی دوستوں کے پیغامات موصول ہوئے کہ جو تجربات ہیں ان سے متعلق واقعات کے بارے میں لکھیں۔ تو اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کردیتا ہوں۔
اماں جان نے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ جب میں سگرٹ پیتا تھا تو سگرٹ سے بھی نہیں روکا کبھی۔ لیکن ایک بات پر انہیں اعتراض رہا ہے اور وہ ملک سے باہر جانے پر۔ نیشنل بنک افغانستان میں کچھ اسامیاں خالی تھیں تو میں نے بھی درخواست بھیج دی یہ سوچ کر کہ اماں کو منا لوں گا۔ وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں تنخواہ بہت زیادہ تھی اور میرا خیال تھا کہ تین سال یا کچھ زیادہ عرصہ وہاں گزار کر ملازمت چھوڑ دوں گا۔ ٹیسٹ لیا گا جو بہت اچھا ہوا۔ انٹرویو کیلئے بلایا گیا اور انٹرویو پینل میں بینک کے صدر آصف بروہی اور گروپ چیف صاحبان تھے۔ چالیس منٹ کا انٹرویو ہوا اور بہت اچھا ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نہ صرف انٹرویو پینل کو متاثر چکا ہوں بلکہ میرا انتخاب بھی ہوچکا ہے۔ واپس گھر آکر جب اماں سے پوچھا کہ دعا کی تھی تو کہنے لگیں کہ خصوصی دعا کی تھی۔ پھر اماں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کا انٹرویو تھا؟ جب بتایا کہ افغانستان کیلئے تھا تو خاموش ہوگئیں۔ اس انٹرویو کا نتیجہ آج تک نہیں نکلا اور سرے سے غائب ہوگیا۔ ایک سال بعد دوبارہ اعلان ہوا تو میں نے سرے سے درخواست ہے نہیں بھیجی کیونکہ مجھے پتا تھا میں امی کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتا۔ جو لوگ پچھلے سال میرے ساتھ انٹرویو میں تھے وہ سب لوگ منتخب ہوکر افغانستان چلے گئے۔ دو سال بعد پھر ٹرانسفر پوسٹنگ ہورہی تھی تو افغانستان میں تعینات ایک دوست نے بالخصوص رابطہ کیا اور کہا کہ درخواست اس بار ضرور بھیجنا یہاں کے جی ایم صاحب نے خود کہا ہے کہ اس سے کہو درخواست بھیجے تم آسانی سے آجاوگے۔ میں نے کہا کہ امی راضی نہیں ہیں باہر جانے پہ اسلئے میں نہیں جاسکتا۔ اس نے اصرار کیا کہ اماں کو راضی کرلو تم سے باتوں میں کون جیتے سکتا ہے کوشش تو کرو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں۔ شام کو گھر آکر کپڑے بدلے اور اماں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹانگیں دبانا شروع کیا۔ کافی دیر تک دباتا رہا تو اماں نے کہا کہ بس کردو تم خود دن بھر کے تھکے ہوئے آئے ہو۔ میں اسی موقعے کی تلاش میں تھا فورا" کہا کہ امی بینک کا کام ہے تو تھکانے والا دس دس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہےبندہ تنگ آجاتا ہے۔ بس کہیں سے تین چار کروڑ روپے مل جائیں تو کوئی زرعی زمین لیکر بندہ کھیتی باڑی کرے، گائیں بھینسیں، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے پالے اور سکون سے رہے۔ امی کو جانوروں سے بہت محبت ہے اسلئے میں نے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔ اماں کہنے لگیں کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنے پیسے آئیں گے کہاں سے ڈاکہ ڈالوگے؟ میں نے کہا طریقہ تو بہت آسان ہے افغانستان بلا رہے ہیں اگر چلا جاوں تو تین سال میں اتنے پیسے آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اور تین سال تو پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے ترپ کا پتا پھینک دیا تھا۔ اماں اٹھ کر بیٹھ گئیں اور پوری طرح متوجہ ہوئیں۔ میں دل ہی دل میں خوش رہا تھا کہ میرے تیر ٹھیک نشانے پہ لگ رہے ہیں۔ کہنے لگیں تین سال بہت لمبا عرصہ نہیں؟ میں نے کہا امی تین سال تو یوں گزر جاتے ہیں اور پھر افغانستان کونسا دور ہے یہی پشاور کے پاس ہی تو ہے بندہ مہینے میں دو چکر لگا سکتا ہے گھر کے۔ اماں کہنے لگیں کہ نہیں تین سال بہت زیادہ ہیں میں اس سے بھی آسان طریقہ بتاتی ہوں اگر تم چاہو تو۔ میں نے کہا بتائیں۔ کہنے لگیں کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے بچے نہیں ہوتے اور ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اگر تم محمد (میرے بیٹے کا نام ہے) کو بیچ دو تو چار پانچ کروڑ میں بک جائیگا۔ اور محمد سمجھدار ہے تین چار سال میں واپس بھی آجائیگا۔ میں نے کہا امں کیا کہہ رہی ہیں پیسے کیلئے کوئی بچے بیچتا ہے بھلا؟ اماں کہنے لگیں کہ مجھے کیا پتا ہے تم میرا بیٹا پیسوں کیلئے بیچ رہے تھے تو مجھے لگا شاید پیسے کیلئے لوگ بچے بیچنے لگے ہیں۔ اماں نے مجھے ایسا لاجواب کردیا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ اگلے دن دوست کو پیغام بھیجا کہ بھائی آپ کے مشورے پر عمل کرکے اماں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اماں نے پہلے ہی راونڈ میں Knockout Punch مار کر چاروں شانے چت کردیا۔ اسکے بعد کبھی بیرون ملک تعیناتی کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ ہاں البتہ تعلیم کے لئے جانے کی کوشش کی تھی جس کی الگ کہانی ہے۔
اماں جان نے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ جب میں سگرٹ پیتا تھا تو سگرٹ سے بھی نہیں روکا کبھی۔ لیکن ایک بات پر انہیں اعتراض رہا ہے اور وہ ملک سے باہر جانے پر۔ نیشنل بنک افغانستان میں کچھ اسامیاں خالی تھیں تو میں نے بھی درخواست بھیج دی یہ سوچ کر کہ اماں کو منا لوں گا۔ وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں تنخواہ بہت زیادہ تھی اور میرا خیال تھا کہ تین سال یا کچھ زیادہ عرصہ وہاں گزار کر ملازمت چھوڑ دوں گا۔ ٹیسٹ لیا گا جو بہت اچھا ہوا۔ انٹرویو کیلئے بلایا گیا اور انٹرویو پینل میں بینک کے صدر آصف بروہی اور گروپ چیف صاحبان تھے۔ چالیس منٹ کا انٹرویو ہوا اور بہت اچھا ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نہ صرف انٹرویو پینل کو متاثر چکا ہوں بلکہ میرا انتخاب بھی ہوچکا ہے۔ واپس گھر آکر جب اماں سے پوچھا کہ دعا کی تھی تو کہنے لگیں کہ خصوصی دعا کی تھی۔ پھر اماں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کا انٹرویو تھا؟ جب بتایا کہ افغانستان کیلئے تھا تو خاموش ہوگئیں۔ اس انٹرویو کا نتیجہ آج تک نہیں نکلا اور سرے سے غائب ہوگیا۔ ایک سال بعد دوبارہ اعلان ہوا تو میں نے سرے سے درخواست ہے نہیں بھیجی کیونکہ مجھے پتا تھا میں امی کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتا۔ جو لوگ پچھلے سال میرے ساتھ انٹرویو میں تھے وہ سب لوگ منتخب ہوکر افغانستان چلے گئے۔ دو سال بعد پھر ٹرانسفر پوسٹنگ ہورہی تھی تو افغانستان میں تعینات ایک دوست نے بالخصوص رابطہ کیا اور کہا کہ درخواست اس بار ضرور بھیجنا یہاں کے جی ایم صاحب نے خود کہا ہے کہ اس سے کہو درخواست بھیجے تم آسانی سے آجاوگے۔ میں نے کہا کہ امی راضی نہیں ہیں باہر جانے پہ اسلئے میں نہیں جاسکتا۔ اس نے اصرار کیا کہ اماں کو راضی کرلو تم سے باتوں میں کون جیتے سکتا ہے کوشش تو کرو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں۔ شام کو گھر آکر کپڑے بدلے اور اماں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹانگیں دبانا شروع کیا۔ کافی دیر تک دباتا رہا تو اماں نے کہا کہ بس کردو تم خود دن بھر کے تھکے ہوئے آئے ہو۔ میں اسی موقعے کی تلاش میں تھا فورا" کہا کہ امی بینک کا کام ہے تو تھکانے والا دس دس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہےبندہ تنگ آجاتا ہے۔ بس کہیں سے تین چار کروڑ روپے مل جائیں تو کوئی زرعی زمین لیکر بندہ کھیتی باڑی کرے، گائیں بھینسیں، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے پالے اور سکون سے رہے۔ امی کو جانوروں سے بہت محبت ہے اسلئے میں نے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔ اماں کہنے لگیں کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنے پیسے آئیں گے کہاں سے ڈاکہ ڈالوگے؟ میں نے کہا طریقہ تو بہت آسان ہے افغانستان بلا رہے ہیں اگر چلا جاوں تو تین سال میں اتنے پیسے آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اور تین سال تو پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے ترپ کا پتا پھینک دیا تھا۔ اماں اٹھ کر بیٹھ گئیں اور پوری طرح متوجہ ہوئیں۔ میں دل ہی دل میں خوش رہا تھا کہ میرے تیر ٹھیک نشانے پہ لگ رہے ہیں۔ کہنے لگیں تین سال بہت لمبا عرصہ نہیں؟ میں نے کہا امی تین سال تو یوں گزر جاتے ہیں اور پھر افغانستان کونسا دور ہے یہی پشاور کے پاس ہی تو ہے بندہ مہینے میں دو چکر لگا سکتا ہے گھر کے۔ اماں کہنے لگیں کہ نہیں تین سال بہت زیادہ ہیں میں اس سے بھی آسان طریقہ بتاتی ہوں اگر تم چاہو تو۔ میں نے کہا بتائیں۔ کہنے لگیں کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے بچے نہیں ہوتے اور ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اگر تم محمد (میرے بیٹے کا نام ہے) کو بیچ دو تو چار پانچ کروڑ میں بک جائیگا۔ اور محمد سمجھدار ہے تین چار سال میں واپس بھی آجائیگا۔ میں نے کہا امں کیا کہہ رہی ہیں پیسے کیلئے کوئی بچے بیچتا ہے بھلا؟ اماں کہنے لگیں کہ مجھے کیا پتا ہے تم میرا بیٹا پیسوں کیلئے بیچ رہے تھے تو مجھے لگا شاید پیسے کیلئے لوگ بچے بیچنے لگے ہیں۔ اماں نے مجھے ایسا لاجواب کردیا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ اگلے دن دوست کو پیغام بھیجا کہ بھائی آپ کے مشورے پر عمل کرکے اماں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اماں نے پہلے ہی راونڈ میں Knockout Punch مار کر چاروں شانے چت کردیا۔ اسکے بعد کبھی بیرون ملک تعیناتی کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ ہاں البتہ تعلیم کے لئے جانے کی کوشش کی تھی جس کی الگ کہانی ہے۔
منگل، 28 اپریل، 2020
معافی
وہ سر جھکا کر اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا معافی مانگ رہا تھا۔ بولا معاف کردو۔ مجھے شدید غصہ آیا، میرا بدن غصے سے کانپنے لگا مجھے اس کی شکل سے نفرت ہورہی تھی۔ حقارت سے تھوک کر میں نے کہا، تمہیں لگتا ہے کہ میں کبھی تمہیں معاف کرسکتا ہوں؟ اس نے ہاتھ جوڑے اور عاجزی سے کہا، غلطی ہوگئی ہے معاف کردو۔ مجھے وہ بہت حقیر لگا۔ اچانک مجھے لگا جیسے میرا وجود پھیلنے لگا ہے میرا قد بڑھنے لگا ہے۔ میرا وجود بڑا ہوگیا بہت بڑا۔ اونچائی سے وہ بہت چھوٹا اور مزید حقیر لگنے لگا تھا۔ مجھے اپنا آپ بہت طاقتور لگنے لگا تھا۔ خدا کی طرح طاقتور یا پھر شاید میں ہی خدا تھا؟ خدا بھی تو طاقتور ہی ہوتا ہے۔ وہ معافی کیلئے گڑگڑا رہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا اس حقیر سے کیڑے مکوڑے کو یہیں پاوں تلے مسل دوں۔ میں طاقتور تھا میں اپنے اندر خدائی طاقت محسوس کر رہا تھا۔ ہاں خدا۔ لیکن خدا تو معاف کرتا ہے۔ وہ توبہ کرنے والے کو سزا نہیں دیتا دھتکارتا نہیں پھر میں کیسے خدا ہوسکتا ہوں۔ اچھا تو میں خدا نہیں ہوں واقعی؟ پھر وہ طاقت و جسامت وہ غرور؟ وہ سب وہم تھا؟ مطلب خدا انسان سے بالکل ۔مختلف ہے؟ وہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی معاف کردیتا ہے؟ پھر ہم خدا کو اپنی طرح کیوں سمجھتے ہیں؟ تنگ نظر، کینہ پرور، بات بات پر توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کرنے والا۔
ہم خدا نہیں تو خدا کو خدا ہی کیوں نہ رہنے دیں، محبت کرنے والا بخشنے مہربان اور معاف کرنے والا۔
ہم خدا نہیں تو خدا کو خدا ہی کیوں نہ رہنے دیں، محبت کرنے والا بخشنے مہربان اور معاف کرنے والا۔
اتوار، 26 اپریل، 2020
پرانی تصویریں ٹیکنالوجی اور ہم
سوشل میڈیا پر گاہے گاہے کوئی نئی ریت (Trend) متعارف کروادی جاتی ہے اور ہمیں مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے.آج کل پرانی تصوریں دکھائی جارہی ہے کچھ تو بیس سال پرانی تصویریں بھی لگا رہے ہیں۔ ہم اس دوڑ میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آج سے بیس سال پہلے ہمارے پاس کیمرہ نہیں تھا۔ تصویر تب عیاشی کے زمرے میں آتی تھی اور عیاشیاں ہمیں دستیاب نہیں تھیں۔ ہماری کل ملکیتی جائداد ایک سائیکل تھی اور بس۔ کیمرہ تو کسی سے مانگ بھی لیا جاتا لیکن اسکے لئے فلم (ریل) خریدنا اور پھر لیبارٹری سے تصاویر کی صفائی کا جتنا خرچہ تھا اتنے پیسوں میں میرے پرندوں کا مہینے بھر کا باجرہ آتا تھا۔ اسکے علاوہ تصاویر وغیرہ سے کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی۔ ہم نے تو کیمرے والا پہلا موبائل فون بھی 2006 کے اواخر میں خریدا۔ اسکی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے اور سننے کے بعد آپکو اندازہ ہوجائیگا کہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہماری معلومات ہمیشہ سے محدود بلکہ انتہائی ناقص رہی ہیں۔ بینک کی ملازمت کے بعد ہماری تنخواہ کافی معقول تھی لیکن ہمارے پاس موبائل فون موٹرولا C115 تھا۔ کئی احباب نے اس پر اعتراض کیا کہ رنگین سکرین والا موبائل لے لینا چاہئے کیونکہ ایسا سادہ موبائل اب ہمارے ہاتھ میں نہیں جچتا۔ ہمارا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ جس کو ہمارے ہاتھ میں یہ موبائل فون اچھا نہیں لگتا وہ ہمیں کوئی ایسا فون لیکر دے دے جو اسے اچھا لگے یا پھر اپنا مفت مشورہ اپنے پاس رکھے۔ لیکن پھر کچھ مہینے بعد اس موبائل فون میں مزید نمبر محفوظ کرنے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ اب فون بدلنا ضروری ہوگیا تھا۔ نیا فون لینے کی غرض سے مارکیٹ گئے اور دوکاندار سے کہا کہ سب سے اچھا اور نئے ماڈل کا فون دکھا دے۔ اس نے نوکیا 7610 فون سامنے رکھا۔ اسکی قیمت 16 ہزار روپے تھی۔ ہم نے انہی دنوں لیپ ٹاپ بھی خریدا تھا جس میں انفرا ریڈ سینسر تھا۔ چونکہ موبائل فون سے تصویریں لیپ ٹاپ میں منتقل کرنا مقصود تھا اسلئے ہمارا پہلا سوال تھا کہ اس موبائل میں انفرا ریڈ ہے؟ جواب ملا کہ نہیں اس میں بلیو ٹوتھ ہے. سوال گندم جواب چنا۔ ہمیں بہت برا لگا۔ دوبارہ سوال کیا کہ انفرا ریڈ اس میں ہے؟ جواب ملا نہیں۔ اب باقاعدہ برا لگا۔ ناراض ہوکر کہا کہ سولہ ہزار کا فون ہے اور اس میں انفرا ریڈ تک نہیں ہے؟ دوکاندار نے پھر جواب دیا کہ اس میں بلیو ٹوتھ ہے نا۔ ہم نے باقاعدہ جل کر کہا کہ بھائی کیا مذاق ہے یہ؟ بلیو ٹوتھ کو مارو گولہ سوال انفرا ریڈ جواب بلیو ٹوتھ۔ دوکاندار نے بتایا کہ انفرا ریڈ پرانی ٹیکنالوجی ہے ڈیٹا منتقل کرنے کیلئے جوڑ کر ساتھ رکھنا پڑتا ہے اور بہت سست رفتاری سے ڈیٹا منتقل ہوتا ہے۔ بلیو ٹوتھ جدید ٹیکنالوجی ہے اور یہ موبائل جیب میں ہو تب بھی ڈیٹا ٹرانسفر ہوجاتا ہے اور بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ اب کچھ کچھ اس کی باتیں ہماری سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ لیکن مسئلہ اکی اور بھی تھا۔ ہمارے لیپ ٹاپ میں بلیو ٹوتھ نہیں تھا۔ اسکا حل اس نے یہ بتایا کہ 400 روپے میں بلیو ٹوتھ کارڈ ملتا ہے جو لیپ ٹاپ میں لگے گا۔ اب بات پوری طرح سمجھ میں آگئی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے پھر دونوں چیزیں دے دو۔ جب فون اس نے کھولا تو اس کے ساتھ نیلے رنگ کا کچھ نہیں تھا۔ ہم نے کہا کہ لیپ ٹاپ کا بلیو ٹوتھ تو تم نے دے دیا موبائل کا بلیوٹوتھ کہاں ہے؟ وہ بولا کہ موبائل کا اندر ہی ہوتا ہے۔ اب یہ بات پھر ہماری سمجھ سے بالاتر تھی۔ ہم نے احتجاج کیا کہ پہلے بلیو ٹوتھ دکھا دیں ایسے ہم نہیں لینے والے۔ اگر چہ ہمارا مطالبہ جائز تھا لیکن وہ ہمیں یوں گھور کر دیکھنے لگا جیسے ہماری دماغی حالت پر اسے شک رہا ہو۔ اس نے موبائل آن کیا اور ہماری تصور بنائی پھر موبائل میں بلیو ٹوتھ آن کرنے کا طریقہ بتایا اور پھر وہی تصویر اپنے کمپیوٹر میں منتقل کرکے دکھا دی۔ اب ہمیں یقین آگیا کہ واقعی اس فون میں نظر نہ آنے والا بلیوٹوتھ موجود ہے۔
تو جناب عرض یہ کرنا تھا کہ ہمارے پاس سب سے پرانی تصویر 2000 کی نہیں بلکہ 2007 کی ہے اور وہ تصویر ہم دکھائیں گے نہیں کیونکہ اس زمانے میں ہم ایسے بالکل نہیں تھے اور ممکن ہے آپ پہچانیں بھی نہیں۔
بدھ، 22 اپریل، 2020
نثری نظم
دوستو اردو ہماری قومی زبان ہے اور بحیثیت پاکستانی یہ میرا فرض بنتا ہے کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کروں۔ تو آئیے آج آپ کو اردو شاعری کی ایک صنف نثری نظم کے بارے میں بتاتے ہیں۔ نثری نظم کی اب تک کوئی مستند تعریف موجود نہیں۔ ناقدین یقینا" یہی کہیں گے کہ اس کی تعریف ہو ہی نہیں سکتی۔ میں مثالوں سے سمجھاتا ہوں۔ جیسے لمبے بالوں والا گنجا آدمی۔ اب آپ کہیں گے کہ گنجے کے ناخن تو ہو سکتے ہیں لیکن بال کیسے ممکن ہیں بھلا۔ تو بھئی اس کی یہی تو خوبی ہے۔ اس میں صرف قافیہ، ردیف، وزن، بحر اور دیگر غیر ضروری عروض کی پابندی نہیں ہوتی باقی یہ ہوتی نظم ہی ہے۔ یہ بہت مشکل صنف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر، اقبال، غالب، فراز، فیض اور محسن جیسے چھوٹے شاعر کبھی نثری نظم نہیں لکھ سکے۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں الفاظ ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست کے نزدیک نثری نظم میں نظم و ضبط کی کمی ہوتی ہے۔ میں ان سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ نظم تو نام میں موجود ہے کمی صرف ضبط کی ہے۔ یہ دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس دور میں چونکہ وقت کی کمی ہے اور لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا نہیں کہ قافیے ردیف اور عروض سیکھنے بیٹھ جائیں۔ آپ ہی بتائیں بھلا ایک معمولی سی شاعری کیلئے مہینوں فعلن فعلن، مفاعلاتن مفاعلن اور مستفعلن مستفعلن کرتا رہے۔ شاعری کا مقصد اپنے اندر کے غم کو کاغذ پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اب اس میں پابندی کہاں سے آئی۔ کچھ لوگ بے جا اعتراض کرتے ہیں کہ اگر کاغذ ہی کالا کرنا ہے تو نثر ہی کیوں نہ لکھی جائے نثری نظم کی کیا ضرورت ہے۔ تو صاحبو! نثر میں تو بذات خود بہت سی پابندیاں ہیں۔ جملے کی بناوٹ، الفاظ کا چناو، عدم تکرا، تسلسل اور ارتباط سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اتنا وقت کس کے پاس ہے۔ یہی بہتر ہے کہ نثری نظم لکھی جائے۔ دوسری اہم قباحت یہ ہے کہ نثر میں لکھنے والے کو قاری تک اپنی بات پہنچانی ہوتی ہے جبکہ نظم میں قاری خود اپنا مطلب تلاش کرتا پھرتا ہے۔ اب لکھنے والا اپنے لئے تو لکھتا نہیں وہ ظاہر ہے دوسروں کیلئے لکھتا ہے تو پھر محنت بھی دوسرے ہی کریں لکھنے والے کاہے کو خوار ہو۔
تو جناب اگر آپ کے دل پر کچھ بوجھ ہے تو اٹھائیے قلم اور لکھ ڈالئے ایک نثری نظم۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ شاعری نہیں ہے تو اس دقیانوسی، قدامت پسند زبان دراز سے کہہ دیجئے ہم ترقی پسند شعرا کے قبیلے سے ہیں۔
سیف اللہ خان مروت غضبناک
(یہ غضبناک تخلص بطور خاص اس تحریر کیلئے خود ایجاد کیا ہے)
پیر، 20 اپریل، 2020
پرے شانی
مجھے جیسے ہی اطلاع ملی کہ وہ ہسپتال میں ہے میں وقت ضائع کئے بغیر ہسپتال پہنچ گیا۔ اسکے سر پر پٹیاں تھیں اور وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ اسے پہلی بار اس حالت میں دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا آگیا۔ میں ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور پیچھے سر ٹکا کر کل شام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ کافی دنوں سے پریشان تھا اور جب بھی وجہ پوچھی تو وہ ٹال دیتا۔ کل شام اچانک اس نے کہا کہ پریشانیاں تو ہرانسان کے ساتھ ہوتی ہیں اور تمہاری بھی یقینا ہوں گی۔ میں نے کہا بالکل ہیں اور شاید بہت سے لوگوں سے بڑی بڑی پریشانیاں ہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ پھر تم کیسے ہروقت اتنے خوش رہ لیتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس انسان کو کبھی کسی پریشانی نے چھوا تک نہیں۔ آخر کیسے کر لیتے ہو؟ سوال سنجیدہ تھا اسلئے مجھے سنجیدہ ہونا پڑا ورنہ عموما میں ایسی باتیں مذاق میں ٹال دیتا ہوں۔ میں نے کہا دیکھو لعل حسین بات یہ ہے کہ پریشانی کا تعلق جسم سے نہیں ہے۔ جسم کو جب چوٹ لگتی ہے یا دباو پڑتا ہے تو درد ہوتا ہےپریشانی نہیں۔ پریشانی کا تعلق روح کے ساتھ ہے۔ جب تمہاری روح کو تکلیف ہوتی ہے تو پریشانی ہوتی ہے۔ اور ہر پریشانی کےپیچھے کوئی نہ کوئی خو ف ہوتا ہے۔ اس نے مجھے ٹوکا اور کہنے لگا کہ چلو خوف کی بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ خوف سے پریشانی جنم لیتی ہے لیکن یہ کیا بات ہوئی مطلب اگر کوئی میرے سر پر بندوق رکھے تو میں پریشان ہوں گا حالانکہ یہ ہم جانتے ہیں کہ بندوق روح کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی وہ صرف جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو پھر پریشانی کیوں ہوتی ہے؟میں نےکہا سیدھی سی بات ہے جسم روح کی سواری ہے۔ جسم کے بغیر روح اس دنیا میں نہیں رہ سکتی۔ اسلئے روح کو جب بھی یہ خوف محسوس ہو کہ اسکی سواری کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہے تو یہ خوف روح کو پریشان کردیتی ہے۔ اس نے اب آنکھیں بند کرکے سر اثبات میں ہلانا شروع کردیا گویا بات اسکی سمجھ میں آگئی۔ میں نے کہا دیکھو یہ جسمانی تکالیف کا خوف جزوقتی ہوتا ہے اور جوں ہی وہ خطرہ ٹل جاتا ہے خوف بھی ٹل جاتا ہے اور پریشانی بھی ختم ہوجاتی ہے اسلئے یہ پریشانیاں اتنی نقصاندہ نہیں ہوتی ہیں۔ جو پریشانیاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں وہ وہ پریشانیاں ہیں جو کل وقتی ہوتی ہیں جن کا تسلسل نہیں ٹوٹتاایک لمحے کے لئے بھی ۔ اور یہی وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جو بعض اوقات آپکے اعصاب کو توڑ دیتی ہیں اور بعض لوگ اس تسلسل کو توڑنے کیلئے منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں یا مستقل نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جتنا میں نے مطالعہ کیا ہے اسکے مطابق پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ راز رکھنا ہے۔ جب ہم بہت سی ایسی باتیں جو درحقیقت چھپانے والی نہیں ہوتیں ہم چھپانے لگتے ہیں ۔ مثلا آپ غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن امیر ہونے کے بعد آپ اس بات کو چھپاتے ہیں ، آپ کسی چیز کے بارے میں لاعلم ہیں لیکن آپ اسکے بارے میں علمیت کا دعویِ کرتےہیں یا آپ نے کوئی ایسا کام کیا جو گناہ بھی نہیں لیکن چونکہ معاشرے میں اسکو برا سمجھا جاتا ہے تو آپ اسکو چھپاتے رہتے ہیں۔ اب یہ ایسی باتیں ہیں جن کا چھپانا بنتا ہی نہیں لیکن ہم ایسی بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنی روح کو بوجھل کردیتے ہیں اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت ساری چھوٹی چھوٹی لیکن مسلسل پریشانیاں مل کر ایک بڑی پریشانی بنالیتی ہیں۔ کبھی آپ نے صحرا میں بگولا دیکھا ہے؟ یہ بگولا یکدم اتنا بڑا نہیں بنتا ۔ بہت سارے چھوٹے چھوٹے بگولےبنتے ہیں اسکے بعد یہ بگولے آپس میں ملتے جاتے ہیں اور ایک بڑے بگولے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو آبادی کی طرف جائے تو گھروں کی چھتیں اڑا کر لے جاتا ہے اور درخت زد میں آجائیں تو انہیں جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔
میری سوچوں میں اسکے کراہنے کی آواز نے رخنہ ڈالا۔ میں نے دیکھا تو وہ آنکھیں کھول کر چھت کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ تھاما اور پوچھا کیسے ہو؟ اس نے منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ میں نےکہا کچھ بتاو تو ہوا کیا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟ اس نے کہا کونسا ایکسیڈنٹ؟ مجھے پریشانی لاحق ہوگئی کہ چوٹ کی وجہ سے شاید یاد داشت چلی گئی ہے۔ میں نے کہا سر پہ چوٹ کیسے لگی؟ میرے اس سوال پر وہ پھٹ پڑا اور غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا تمہاری وجہ سے ہوا سب کچھ۔ میری وجہ سے ؟ وہ کیسے؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ کل جو تم نے پتا نہیں درد اور روح اور پریشانی کے بارے میں جو ایک گھنٹہ بکواس کی تھی بھول گئے ہو کیا؟ اس نے غصے سے پھنکارتے ہوئےکہا۔ ان باتوں سے تمہارے سر پھٹنے کا کیا تعلق؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ کہنے لگا کل رات بھر میں تمہاری باتوں کے بارے میں سوچتا رہا اور باتیں میرے دل کو لگی تھیں۔سونے سے پہلے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اب مزید راز نہیں رکھوں گا۔ صبح بیگم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں مجھ سے صبر نہیں ہوا اسلئے وہیں جاکر اسے سچ سچ بتا دیا کہ میں نے تم سے چھپ کر دوسری شادی کی ہوئی ہے اور میں تمہیں مزید اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ اسکے بعد میں نے بیلن ہوا میں اٹھتے دیکھا اور اسکے بعد اب میری تمہارے سامنے آنکھ کھلی ہے۔ بات کرتے کرتے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا، میں نے کہا دیکھوہر کام کے کچھ بنیادی اصول۔۔۔۔۔ ابھی میں اتنا ہی کہ پایا تھاکہ اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر ایسے ہاتھ جوڑ کر عاجز صورت بنائی جیسے مندر میں کوئی پجاری مورتی کے آگے ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے کھڑا ہوتا ہے اور کہنے لگا، خدا کیلئے اب مزید کوئی فلسفہ نہیں۔ اب تک کسی پریشانی نے میرے سر میں بیلن نہیں مارا اور میں ہسپتال نہیں پہنچا، مجھے اپنی پریشانیوں کے ساتھ جینے دوتمہیں خدا کا واسطہ۔ میں خاموشی سے اٹھ کردروازے کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے فلسفے کے کسی نئے طالبعلم کی تلاش تھی جسکی پریشانی حل طلب ہو۔
اتوار، 19 اپریل، 2020
جنٹلمین
یہ کوئی 14 سال پہلے کی بات ہے جب ہم نے اکاونٹس کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر بینک کی ملازمت اختیار کی۔ ابتدائی چھ مہینے ہماری تعلیم و تربیت کیلئے مختص کئے گئے تھے جو ابتداء میں ہمیں کچھ زیادہ لگے لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ بہت کم ہیں۔ تعلیم تو خیر مشکل نہیں تھی تربیت البتہ بہت مشکل تھی۔ سب سے مشکل کام جنٹلمن کی طرح کھانا کھانا تھا۔ ڈائننگ ہال میں صرف میز تھی کرسیاں نہیں تھیں۔ مطلب کھڑے کھڑے کھانا تھا۔ اب ہم ٹھہرے دیہاتی کہ جب تک زمین پر آلتی پالتی مار کر نہ بیٹھیں کچھ کھایا ہی نہیں جاتا۔ اوپر سے چمچ چھری کانٹے سے کھانا جسکا نہ ہمیں تجربہ تھا نہ خواہش۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچپن میں چمچ سے کڑوی دوائی کے علاوہ ہم نے کچھ نہیں کھایا۔ سالانہ بخار کے دنوں میں کئی طرح کے کڑوے شربت ہی ناک بند کرکے اور چمچ سے منہ میں انڈیلے گئے۔ دوسری وجہ یہ کہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریستوران میں چمچ دیکھتا ہوں تو پہلا خیال ذہن میں یہ آتا ہے کہ یہ چمچ مجھ سے پہلے کتنے لوگوں کے منہ کی سیر کرچکا ہوگا۔ بس یہی سوچ کر ہی چمچ سے کھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اکثر ساتھی شہری بابو تھے اور چاول جلدی جلدی کھا لیتے جبکہ ہم چاول کے نہ عادی ہیں نہ شوقین۔ صحرا میں پلے بڑھے جہاں چاول سال میں دو دفعہ پکتے محرم میں اور شب برات کے موقع پر اس کے علاوہ کبھی کوئی فوت ہوا اور ایصال ثواب کیلئے کسی نے چاول لوگوں کو کھلائے تو وہ اضافی موقع لیکن اس زمانے میں یہ نئی بیماریاں جیسے کینسر، ہیپاٹائٹس سی اور ہارٹ اٹیک ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں تو اموات بہت کم ہوتی تھی۔ تو ہم روٹی کے ایسے عادی ہیں کہ اگر من و سلوای بھی کھلادیں تب بھی شاید دانہ گندم کی طلب ضرور کریں گے۔ پلیٹ میں سالن ڈالنے کے بعد روٹی کہاں رکھیں؟ اور پلیٹ میں رکھ بھی دیں تو دوسرے ہاتھ میں پلیٹ پکڑی ہو تو روٹی ایک ہاتھ سے توڑیں کیسے؟ جبکہ بچپن سے سکھایا گا تھا کہ ایک ہاتھ سے روٹی توڑنا معیوب اور رزق کی بے توقیری ہے۔ اوپر سے سوٹ اور ٹائی۔ بسا اوقات ہم پہلے ہماری ٹائی سالن میں ڈبکی لگالیتی تھی۔ جسے ہم چوس کر صاف کرلیا کرتے۔ لہذا ہم اپنی پلیٹ اٹھا کر ٹریننگ ہال میں جاکر آرام سے کرسی پر بیٹھ کر کچھ دن کھاتے رہے۔ لیکن دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی وہاں بیٹھ کر کھانے لگے تو سٹاف کالج نے سختی منع کردیا۔ اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ تو ہم نے یہ حل نکالا کہ روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کرکے پہلے سے پلیٹ میں رکھ لیتے اور پھر ایک ایک ریڈی میڈ نوالہ کھا کر پیٹ بھرتے۔
جب تعلیم و تربیت اختتام کے قریب پہنچی تو ہم سب کو پی سی ہوٹل بھوربن میں ایک دن ظہرانے کے لئے لے جایا گیا۔ پہلی بار کسی بڑے ہوٹل میں جانا ہوا تھا۔ فرش اتنا صاف تھا کہ پوری چھت اس میں واضح نظر آرہی تھی۔ پہلی نظر دیکھنے کے بعد ہمیں لگا کہ یا تو پانی کا تالاب ہے یا پھر آئینہ۔ اس فرش پر اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی جوتوں سمیت چلنے کی ہمت نہ کرتے بلکہ اگر گرمیاں ہوتیں تو شاید کپڑے اتار نہانے کیلئے چھلانگ ہی لگادیتے۔ خیر دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی بادل ناخواستہ اور سہمے سہمے جوتوں سمیت داخل ہوئے۔ ہوٹل میں لوگ تھے لیکن شور نہیں تھا۔ سب لوگ بڑی مدھم آواز میں گفتگو کر رہے تھے جس سے ہماری گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بیت الخلا جانا ہوا۔ باہر نکل کر ہاتھ دھونے کیلئے بیسن کی طرف گیا تو نل کھولنے کیلئے کوئی ناب موجود نہیں۔ میں نے دائیں بائیں اوپر نیچے ٹٹول کر دیکھا لیکن بے سود۔ باہر جا کر تھوڑی دیر میں کھانا کھانا تھا اس لئے ہاتھ دھوئے بغیر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جیسے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ چمچ چھری کانٹے کو دیکھ کر ہی آدھی بھوک مرجاتی ہے، تو لا محالہ روٹی ہاتھوں سے ہی توڑنی تھی۔ لہذا نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی دیر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور ہاتھ دھوئے تو طریقہ سیکھ لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک بندہ آیا اور ہاتھ دھوکر میری طرف بڑھنے لگا۔ پہلے تو میں سمجھا مجھ سے ملنے آرہا ہے لیکن جب اس نے ایکسکیوز می کہا تو میں حیران ہوا کہ میں راستے میں تو نہیں کھڑا نہ میرے پیچھے دروازہ ہے۔ بہرحال میں نے اسے ایکسکیوزا اور ایک طرف ہوگیا۔ میں جہاں کھڑا تھا وہاں میرے پیچھے دیوار پہ کوئی ڈبہ سا تھا۔ یکدم سے اس ڈبے سے غوں غوں کی آوازیں نکلیں تو میں گھبرا کر دو قدم اور پیچھے ہٹ گیا۔ اس میں کچھ نکل نہیں رہا تھا لیکن وہ اپنے ہاتھ آپس میں رگڑ رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں پھر بیسن کے پاس گیا لیکن نل پانی دینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اب میں نے ٹھان لی کہ پانی نکال کر ہی رہوں گا چاہے لوہے کے نل کو نچوڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اچانک نل سے پانی نکل کر میرے ہاتھ پر گرا تو میں گھبرا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے بچا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ کسی نے دیکھا تو نہیں اور یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور نل کے نیچے بیسن کو دبانے ہی والا تھا کہ اس سے پہلے ہی پانی نکلنا شروع ہوگیا۔ پہلے میں سمجھا شاید نل کے آس پاس کوئی جگہ دبنے سے پانی نکلا ہے۔ لیکن اب اندازہ ہوگیا کہ نل کے نیچے ہاتھ جائے تو پانی خودکار طریقے سے نکلتا ہے۔ ہاتھ دھو کر وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔
باقی تفصیلات پھر سہی۔
جب تعلیم و تربیت اختتام کے قریب پہنچی تو ہم سب کو پی سی ہوٹل بھوربن میں ایک دن ظہرانے کے لئے لے جایا گیا۔ پہلی بار کسی بڑے ہوٹل میں جانا ہوا تھا۔ فرش اتنا صاف تھا کہ پوری چھت اس میں واضح نظر آرہی تھی۔ پہلی نظر دیکھنے کے بعد ہمیں لگا کہ یا تو پانی کا تالاب ہے یا پھر آئینہ۔ اس فرش پر اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی جوتوں سمیت چلنے کی ہمت نہ کرتے بلکہ اگر گرمیاں ہوتیں تو شاید کپڑے اتار نہانے کیلئے چھلانگ ہی لگادیتے۔ خیر دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی بادل ناخواستہ اور سہمے سہمے جوتوں سمیت داخل ہوئے۔ ہوٹل میں لوگ تھے لیکن شور نہیں تھا۔ سب لوگ بڑی مدھم آواز میں گفتگو کر رہے تھے جس سے ہماری گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بیت الخلا جانا ہوا۔ باہر نکل کر ہاتھ دھونے کیلئے بیسن کی طرف گیا تو نل کھولنے کیلئے کوئی ناب موجود نہیں۔ میں نے دائیں بائیں اوپر نیچے ٹٹول کر دیکھا لیکن بے سود۔ باہر جا کر تھوڑی دیر میں کھانا کھانا تھا اس لئے ہاتھ دھوئے بغیر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جیسے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ چمچ چھری کانٹے کو دیکھ کر ہی آدھی بھوک مرجاتی ہے، تو لا محالہ روٹی ہاتھوں سے ہی توڑنی تھی۔ لہذا نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی دیر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور ہاتھ دھوئے تو طریقہ سیکھ لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک بندہ آیا اور ہاتھ دھوکر میری طرف بڑھنے لگا۔ پہلے تو میں سمجھا مجھ سے ملنے آرہا ہے لیکن جب اس نے ایکسکیوز می کہا تو میں حیران ہوا کہ میں راستے میں تو نہیں کھڑا نہ میرے پیچھے دروازہ ہے۔ بہرحال میں نے اسے ایکسکیوزا اور ایک طرف ہوگیا۔ میں جہاں کھڑا تھا وہاں میرے پیچھے دیوار پہ کوئی ڈبہ سا تھا۔ یکدم سے اس ڈبے سے غوں غوں کی آوازیں نکلیں تو میں گھبرا کر دو قدم اور پیچھے ہٹ گیا۔ اس میں کچھ نکل نہیں رہا تھا لیکن وہ اپنے ہاتھ آپس میں رگڑ رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں پھر بیسن کے پاس گیا لیکن نل پانی دینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اب میں نے ٹھان لی کہ پانی نکال کر ہی رہوں گا چاہے لوہے کے نل کو نچوڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اچانک نل سے پانی نکل کر میرے ہاتھ پر گرا تو میں گھبرا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے بچا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ کسی نے دیکھا تو نہیں اور یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور نل کے نیچے بیسن کو دبانے ہی والا تھا کہ اس سے پہلے ہی پانی نکلنا شروع ہوگیا۔ پہلے میں سمجھا شاید نل کے آس پاس کوئی جگہ دبنے سے پانی نکلا ہے۔ لیکن اب اندازہ ہوگیا کہ نل کے نیچے ہاتھ جائے تو پانی خودکار طریقے سے نکلتا ہے۔ ہاتھ دھو کر وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔
باقی تفصیلات پھر سہی۔
جب عزت بال بال بچ (یادیں)
۲۰۰۵ میں میں نے فیصلہ کرلیا کہ ملٹری اکاونٹس کی ملازمت چھوڑنی ہے اور پھر شاید ہی کوئی پاکستان کا محکمہ ہو جس میں کسی ملازمت کیلئے درخواست نہ بھیجی ہو۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ٹیسٹ یا انٹرویو ہوتاتھا۔ اسکے بعد بینک میں آگیا اور درخواستیں بھیجنے کا سلسہ رک گیا۔ لیکن امتحان ہال کی جو ایک مخصوص سنسنی ہوتی ہے اسکا ایسا چسکا پڑا کہ یہ سلسلہ اب تک نہیں رکا۔ بینک میں آنے کے بعد انسٹیٹیوٹ آف بینکرز کے امتحانات کا سلسلہ جاری رہا۔ جب وہ ختم ہوگیا تو آن لائن پوسٹ گریجویٹ ڈپلوموں کا سلسلہ شروع ہوا دو تین ڈپلومے کرنے کے بعد بوریت ہونے لگی تو میں نے ایک اور حل نکالا۔ مختلف اداروں میں ملازمتوں کے ٹیسٹ دوبارہ دینا شروع کردیا۔ مقصد ملازمت کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ ٹیسٹ میں بیٹھنا ہوتا تھا۔ ہرمہینے این ٹی ایس کا کوئی نہ کوئی ٹیسٹ ہوتا اور میرا شوق پورا ہورہا تھا۔ ۲۰۱۲ میں ایس این جی پی ایل میں ایگزیکٹیو ایڈمن آفیسر کی آسامیوں کا اشتہار نظر آیا تو میں نے فورا آن لائن درخواست جمع کروادی یہ سوچ کر پوسٹ بڑی ہے تو ٹیسٹ بھی مشکل ہوگا مزہ آئے گا اور اگر تنخواہ اور مراعات زیادہ ہوئیں تو سونے پر سہاگہ۔ یہ براہ راست کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر آن لائن ٹیسٹ دینے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔ جوں ہی آخری سوال کا جواب دیا سامنے سکرین پر نتیجہ سامنے آگیا میرے سو میں سے اٹھتر نمبر تھے ۔ مجھے بڑ مایوسی ہوئی کہ اسی سے کم ہیں۔باہر نکلا تو کئی دوست ملے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ ٹیسٹ کیساہوا تو میں نے کہا کہ بس گزارہ ہوا۔ نمبربتائے تو وہ حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ مجھے شرمندگی کا احساس ہوا۔جب انکےنمبر پوچھے تو زیادہ سے زیادہ نمبر ایک دوست کے تریسٹھ تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرے نمبر کافی زیادہ ہیں مطلب اندھوں میں کانا راجاہوں۔ کچھ دنوں بعد انٹرویو کیلئے لاہور بلایا گیا۔ مجھے کچھ زیادہ امید تو نہیں تھی لیکن لاہور کی سیر کا موقع اچھا تھا۔ اس سے پہلے میں ۲۰۰۵ میں ایڈمن آفیسر کی آسامی کیلئے ٹیسٹ پاس کرکے انٹرویو دے چکا تھا اور انٹرویو بورڈ کے پانچ ممبران نے مجھے نصف گھنٹے سے زیادہ خوب لتاڑا تھا۔ تاہم میں ناکام ہوا تھا۔
ان دنوں لاہور میں ڈینگی کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور لوگ لاہور جانے سے خوفزدہ ہوتے تھے لیکن یہ خوف میرے شوق کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا۔ جہاں انٹرویو کا انتظار کر رہے تھے وہاں مجھے اپنا ایم بی اے کا کلاس فیلو الیاس بھی ملا۔ وہ کسی منسٹری میں ملازمت کر رہا تھااس وقت۔ اس نے کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں انکی تنخواہ تو آپ کی تنخواہ سے کم ہے۔ میں نے کہا آپ کیوں آئے ہیں؟ کہنے لگا میری موجودہ تنخواہ پینتیس ہزار ہے اور ایس این جی پی ایل کی تنخواہ سنا ہے ساٹھ ہزار سے اوپر ہے تو میرے لئے تو یہ اچھا موقع ہے۔ میں نے اس کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا اور کہا کہ دیکھا جائیگا۔ جب انٹرویو شروع ہوا تو سب سے پہلا نمبر میرا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت ہمیشہ کی طرح انٹرویو کا ایک مخصوص خوف اور جسم میں چیونٹیاں دوڑنے کی وہ ایک خاص کیفیت تھی جو ہمیشہ ہوتی تھی۔ لمبی میز کے پیچھے تین افراد بیٹھے تھے اور ایک اور شخص ذرا ہٹ کر بیٹھا ہوا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے میرا تعارف اور تمام تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا۔ جو ہمیشہ کی طرح لکی مروت کے چھوٹے سے گائوں سے شروع ہوکر ڈیرہ سماعیل خان اور ٹاہلی کے درخت کے نیچے قائم مکتب پرائمری سکول مشہ منصور سے شروع ہوکر مادر علمی گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان پر ختم ہوا۔ اسکے بعد انہوں نے ملازمت کےحوالے سے پوچھا تو میں نے تفصیل سے بتا دیا۔ اگلا سوال حسب معمول اکاونٹنگ، فائنانس یا اکنامکس کا متوقع تھا لیکن بات کہیں اور نکل گئی۔ بجائے نصابی سوال کرنے کے ان میں سے ایک نے پوچھا کہ آپ ایک لاکھ بیس ہزار تنخواہ لے رہے ہیں اس وقت تو یہاں آپ کی توقعات کیا ہیں؟ میں نے کہا کم سے کم دو لاکھ یا اگر یہاں اس سے زیادہ ہے تو قابل قبول ہوگی۔ میں دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں کم نہ بتا دی ہو۔ ان سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرادئیے۔ مجھے فورا اندازہ ہوگیا کہ میں نے غلطی سے کم بتادی تنخواہ اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا۔ درمیان میں بیٹھے بزرگ جن کی خاص بات انکے سفید لمبے بال تھے اور ماتھا گنج پن کی وجہ سے آدھے سر تک پہنچ چکا تھا ، ناگوار سی شکل بنا کر بولے، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ یہاں ہم کتنی تنخواہ دیتے ہیں؟میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگے زیادہ سے زیادہ پینسٹھ ہزار اور کچھ اور ملا کر ستر ہزار تک ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں۔ کیا آپ اس تنخواہ پر کام کریں گے؟ جبکہ آپ ایک لاکھ بیس ہزار پہلے ہی لے رہے ہیں۔ میں نے کہا ایک لاکھ بیس ہزار تو صرف تنخواہ ہے اس میں بونس، کیش ایوارڈ، گاڑی، گاڑی کا پیٹرول اور دوسری مراعات شامل نہیں ہے۔ وہ ملاکر اوسطا" پونے دولاکھ ماہانہ بنتے ہیں ۔ اس میں لامحالہ کچھ مبالغہ بھی شامل تھا۔ اب یکدم بزرگ کے تیور بدل گئے۔ تیوری چڑھا کر بولے، تو اسکا مطلب یہ ہواکہ آپ اس تنخواہ پر کام نہیں کرنا چاہتے؟ میں نے کہا نہیں۔ اب وہ مزید بگڑ گئے۔ کہنے لگےآپ ایک ذمہ دار پوسٹ پر تعینات ہیں۔ آپ نےدفتر سے چھٹی بھی لی۔آپ نے درخواست جمع کروائی، ٹیسٹ دیا، ڈینگی کی وبا کی وجہ سے لوگ لاہور سے بھاگ رہے ہیں آپ انٹرویو کیلئےلاہور آئے اور آپکی سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ آپ نے کوئی ریسرچ نہیں کی کہ یہ کس گریڈ کی جاب ہے، تنخواہ کیا ہے؟مجھے اس اچانک حملے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔شرٹ کے نیچے کہیں ٹھنڈے پسینے کے قطرے جسم پر رینگتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ بزرگ نے ساری عزت ہاتھ میں پکڑا دی تھی اور میں بحالی ءِعزت و آبرو کی کوئی راہ تلاش کر رہا تھا۔ وہ پھر کہنے لگے کہ ہمارے کل نو گریڈ ہوتے ہیں ایک سے نو تک اور یہ گریڈ فور کی جاب ہے۔ مجھے شدید ہزیمت کا احساس ہو رہا تھا اور بدلہ لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا اسلئے کسی گریڈ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے ۲۰۰۵ کاانٹرویو یاد آگیا تب بھی اسی طرح ہی لتاڑا گیا تھا اور یکدم میرے ذہن میں ہر سوال کا جواب آگیا ۔ بزرگ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ، تو مسٹر خان آپ یہاں صرف نو کہنے آئے تھے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ سب لوگ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کہا میں کچھ اور کہنے آیا تھا۔ جی بولیں، بزرگ نے کہا اور سب میری طرف متوجہ ہوگئے۔ میں نے کہا سر آپ کو یاد ہوگا اسی دفتر میں ۲۰۰۵ میں ایڈمن آفیسر کیلئے انٹرویو ہوئے تھے اور آپ بھی اس انٹرویو پینل کے ممبر تھے۔ بولے جی ہاں۔ میں نے کہا ، سر تب میں ایڈمن آفیسر کی پوزیشن کیلئے یہاں انٹرویو دینے آیا تھا۔ اور آدھا گھنٹہ انٹرویو کرنے کے بعد آپ کے پینل نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ مجھے ملازمت دے سکیں جسکی یقینا آپکے پاس وجوہات ہوں گی۔ آپ تو شاید بھول گئے ہوں گے لیکن میں نہیں بھولا۔ میں نے اپنی طرف سے مکمل تحقیقات کرلی تھیںمجھے گریڈ اور تنخواہ دونوں کا اچھی طرح سے علم تھا۔ ظاہر ہے میں نے سفید جھوٹ بولا۔ میرا مقصد یہاں ملازمت کرنا بالکل نہیں تھا صرف اس پینل کے سامنے بیٹھنا تھا۔ میں آج آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ۲۰۰۵ میں آپ نے مجھے ریجیکٹ کرکے غلطی کی تھی۔ اور اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایس این جی پی ایل مجھے ایفورڈ نہیں کرسکتا ۔ بس میں یہ بتانے کیلئے آیا تھا یہاں۔ میرا خود اعتمادی سے بھرپور جھوٹ بالکل نشانے پر لگا۔ وہ سب حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگے۔ بزرگ کو میں نے ناک آوٹ کردیا تھا۔ ان کے ساتھ والے صاحب بولے کہ سات سال بعد آپ صرف یہ کہنے یہاں آئے ؟ میںنے کہا جی سر۔ بزرگ کہنے لگےیار پٹھان تو بڑے شتر کینہ ہوتے ہیں۔ آپ کا سات سال پرانا غصہ ابھی تک اترا نہیں؟ میںنے کہا سر اب اتر گیا۔ اب میں اجازت چاہوں گا۔
جب میں اٹھنے لگا تو میں نے ان میں سے کسی کے منہ سے سنا کہ اگلا امیدوار الیاس ہے۔ باہر آیا تو الیاس منتظر تھا۔ کہنےلگا کیا پوچھا؟ میں نے گلے لگا کر کہا مبارک ہو تم سیلیکٹ ہوگئے۔ وہ کہنے لگا بکواس نہیں کرو سوال بتاو کیا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے کہا میرٹ لسٹ کے ترتیب سے بلا رہے ہیں۔ میرے بعد تمہاری باری ہے۔ میں انکار کر آیا ہوں تو اگر ایک سیٹ بھی ہے تو تمہاری ہے فکر نہ کرو۔ بس یہ خیال رکھنا کہ میرے گھر میں گیس کا کنکشن لگوا دینا۔ وہ بولا کنکشن چھوڑو تمہارے گھر میں میں گیس کا کنوا کھدوا دوں گا۔ اسکے بعد میں وہاں سے نکل آیا۔ ایک ماہ بعد الیاس مروت کا فون آیا۔ بہت خوش تھا کہنے لگا ابھی ابھی لیٹر ملا ہے اور میں نے ابھی اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا پہلی کال تمہیں کی ہے کیونکہ سب سے پہلی مبارکباد تم نے دی تھی۔ الیاس ابھی تک ایس این جی پی ایل میں ملازمت کر رہا ہے لیکن وہ گیس کا کنواابھی تک اس نے نہیں کھدوایا۔
ہفتہ، 11 اپریل، 2020
ضرورت مولوی
بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ مولوی حضرات خشک مزاج اور ترش رو قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ہنسی مذاق سے انکا دور دورتک کوئی واسطہ نہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر چہ عوام کے سامنے وہ بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شاید یہ اس مقام کا تقاضا بھی ہے لیکن اگر آپ ان کےقریبی حلقے میں شامل ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ داڑھی پگڑی والے لوگوں کے حس مزاح کا معیار بہت بلند ہے۔ میں چونکہ غیر اعلانیہ مولوی ہوں اسلئے میرے بہت سے مولوی بہت قریبی دوست ہیں۔ ایسے ہی ایک مولوی دوست کے ساتھ جارہا تھا کہ راستے میں ایک حاجی صاحب نے آواز دیکر روک لیا۔ قریب آکر حاجی صاحب نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ حضرت ہمارے پیش امام کی سرکاری نوکری لگ گئی ہے اور اب انکے لئے ممکن نہیں کہ وہ امامت کرسکیں تو ہمیں امام مسجد چاہئے۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک ہے میں بندوبست کردیتا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ حاجی صاحب فرمانے لگے کہ آج کل اکثر لوگوں کے عقائد خراب ہیں تو کوشش کریں کہ صحیح العقیدہ ہو. مولوی صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ کوشش کیجئے مستند عالم دین ہو اور مدرسے کا سندیافتہ ہو۔ مولوی صاحب نے ایک بار پھر بڑے تحمل سے جواب دیا کہ انشاء اللہ عالم فاضل ہوگا۔ حاجی صاحب نے پھر فرمائش کی کہ حضرت دیکھئے گا کہ حافظ قرآن بھی ہو کیونکہ ماہ رمضان میں تراویح میں ختم قرآن کا پھر مسئلہ ہوتا ہے۔ مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حافظ بھی ہوگا۔ اب مولوی صاحب بھی اکتا چکے تھے جانے کیلئے حرکت کرنے لگے تو حاجی صاحب نے کہا کہ ذرا دیکھئے گا کہ خوش آواز قاری ہو نماز میں اچھی قرات سننا اچھا لگتا ہے۔ مولوی صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ حاجی صاحب فکر نہ کریں انشاءاللہ بندہ آپکے ہر معیار پر پورا اترے گا۔ یہ کہہ کر ہم چلنے لگے تو پیچھے سے آواز دے کر حاجی صاحب نے کہا کہ حضرت دیکھئے گا ذرا خوش شکل اور خوش لباس مولوی ڈھونڈنا ہے۔ اس پر مولوی صاحب یکدم رک کر پیچھے مڑے حاجی صاحب کے قریب گئے اور کہا کہ حاجی صاحب ایک بات تو بتائیں۔ حاجی صاحب متوجہ ہوئے تو مولوی صاحب بولے کہ یہ بتائیں آپ نے مولوی صاحب سے امامت ہی کروانی ہے نا؟ حاجی صاحب حیران ہوکر بولے جی جی امام ہی چاہئے کیوں آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ مولوی صاحب مسکرا کرکہنے لگے، بس ذرا اپنی تسلی کیلئے پوچھا کیونکہ آپ نے جتنی خوبیوں کی فرمائش کی ہے مجھے لگا آپ نے بچے نکلوا کر نسل بڑھانی ہے اسکی۔ یہ کہہ کر وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ واپس پلٹے اور میں سارا رستہ ہنسی سے لوٹ ہوتا رہا۔
سیف اللہ خان مروت
(یہ 1997 کا ایک حقیقی واقعہ ہے)
سیف اللہ خان مروت
(یہ 1997 کا ایک حقیقی واقعہ ہے)
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...