منگل، 12 جنوری، 2021

Dsoti ka hath | Ahmed Faraz Offering Friendship to India دوستی کا ہاتھ


گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں فقط تمہیں کو نہیں رنج چاک دامانی کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلودہ مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے نہ سرو میں وہ غرور کشیدہ قامتی ہے نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب نہ شاخ امن لئے فاختہ کوئی آئی تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں تمہیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے چراغ جن سے دیئے بے شمار روشن ہوں تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...