منگل، 12 جنوری، 2021

hoti hai tere nam se wahshat kabhi kabhi | Nasir Kazmi ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی


ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ اشکوں میں ڈھل گئی تری صورت کبھی کبھی تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا یوں بھی گزر گئی شب فرقت کبھی کبھی اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصرؔ کاظمی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...