ہفتہ، 26 جنوری، 2019

صحرا سے دریا تک

چھٹی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف ہجرت کی۔ یہ لکی مروت کے صحرا سے دریائے سندھ کنارے تک کا سفر تھا۔ لیکن صحرانورد آباد اجداد کی طرح یہ سفر پانی کی تلاش میں نہیں تھا بلکہ علم کی تلاش میں ایک ہجرت تھی۔ والد صاحب نے محض بچوں کی تعلیم کیلئے گھر بار گاؤں زمینیں اور جائیداد چھوڑ کر یہ ہجرت کی۔ باقی بہن بھائی پہلے ہی ہجرت کر چکے تھے جبکہ ہم سالانہ امتحانات کی وجہ سے ہراول دستے میں شامل نہ ہوسکے تھے۔ جب پہلی بار والد صاحب کیساتھ ڈیرہ اسماعیل خان جارہا تھا تو یارک (ڈیرہ اسماعیل خان سے تیس کلومیٹر شمال کی طرف ایک گاؤں) پہنچ کر گاڑی کے کنڈکٹر نے ایک مسافر کو آواز دی کہ یارک آگیا ہے۔ اس نے اردو میں کہا جو کہ میں سمجھ گیا لیکن مسافر نے کسی انجان زبان میں جواب دیا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ اس آدمی نے کیا کہا ہے؟ تو والد صاحب نے اس کا جواب دہرا یامیں اگو تے ویساں” (میں آگے جاؤں گا) اور پھر بتایا کہ یہ سرائیکی میں بتا رہا ہے کہ اس نے آگے جانا ہے۔ یہ میری زندگی میں سرائیکی زبان کا پہلا جملہ تھا جو ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے سے پہلے میں نے سیکھ لیا تھا۔ اردو بھی اتنی بول سکتے تھے جتنی ایک خالصتاً پشتون دیہاتی بچہ بول سکتا ہے مطلب ٹوٹی پھوٹی تاہم اپنا مافی الضمیر کسی نہ کسی طرح بیان کرلیتا۔ ابتدائی ایام زیادہ تر لڑائیوں میں ہی گزرے۔ مجھے نہیں پتا آج کل بھی بچے ہمارے گاوں میں ویسے ہی ہیں یا بدل گئے ہیں لیکن ہمارے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ گاؤں میں جتنے بھی بچے ہوتے ان میں پے درپے لڑائیوں کے بعد باقاعدہ درجہ بندی ہوئی ہوتی تھی کہ کون غالب اور کون مغلوب ہے۔ اگر کوئی ایسا بچہ مل گیا جو پہلے کبھی نہیں ملا تو اس سے فوراً لڑائی کرکے یہ تعین کرنا پڑتا کہ غالب کون ہے اور مغلوب کون ہے۔ تاہم یہ درجہ بندی مطلق بھی نہیں تھی۔ اپنے محلے میں غالب بچہ دوسرے محلے میں مغلوب بھی ہوتا اگر وہ دوڑنے میں تیز نہ ہوتا۔ میں لڑائی بھڑائی کے معاملے میں بہت کمزور تھا اور سوائے ان بچوں کے جن سے کبھی لڑائی ہوئی ہی نہیں سب سے مغلوب تھا۔ اسکی ایک وجہ تو جسمانی کمزوری تھی اور دوسری وجہ یہ کہ اگر لڑائی کی خبر گھر تک پہنچ جاتی تو اسکے بعد جو ہمارے ساتھ ہوتا وہ نہ صرف ناقابل بیان بلکہ ناقابل نشر واشاعت ہے۔ اسلئے سمجھداری کا تقاضا یہی تھا کہ دوبار پٹنے سے بہتر تھا ایک ہی بار باہر سے پٹ کر آجاتے اور گھر میں کسی کو نہ بتاتے۔مار نہیں پیاروالا جملہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ 
اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ ایسے پس منظر سے نکل کر جب ڈیرہ اسماعیل خان آئے تو اتفاق سے یہاں سارے بچے ہی نئے تھے اور پنجہ آزمائی کرنا گویا لازمی تھا تاکہ غالب مغلوب کا تعین کیا جاسکے۔ ابتدائی مہینہ ڈیڑھ آس پاس کے گھروں کے سارے بچوں سے لڑ بھڑ کر گزرا۔ تاہم آہستہ آہستہ اندازہ ہوگیا کہ یہاں لڑائی بھڑائی پسند نہیں کی جاتی۔ آہستہ آہستہ آس پاس کے بچوں سے دوستی ہونا شروع ہوگئی۔یعنی ہم نے انکو اور انہوں نے ہمیں تسلیم کرلیا۔ اس زمانے میں شہر کی سب سے اچھی درسگاہ وینسم کالج ہوا کرتاتھا۔ وینسم کالج میں داخلہ حاصل کرنا بذات خود قابلیت کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ باقاعدہ مقابلے کا امتحان ہوتا اور میرٹ لسٹ بنتی۔ 
والد صاحب نے بتا دیا کہ فلاں تاریخ کو داخلے کیلئے ٹیسٹ ہوگا خوب تیاری کرلو مقابلہ سخت ہوتا ہے۔ میں نے بھی خوب تیاری کی اور مقررہ دن ٹیسٹ دینے چلا گیا۔ 
سیکڑوں کی تعداد میں لوگ آئے تھے۔ بچوں سے زیادہ انکے ساتھ انکے بڑے تھے۔ کسی کو گھر والے گاڑی میں بٹھا کر لارہے تھے تو کسی کو موٹر سائیکل پر۔ کسی کو والد یا بڑے بھائی نے سائیکل پر بٹھایا ہوا تھا تو کوئی سائکل رکشے میں۔ گھر کے کسی نہ کسی بڑے نے ہر بچے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اسکی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ دوسری طرف میں تھا۔ گھر سے اکیلا چلا تھا اور یہاں بھی اکیلا۔ سب بچوں کو اس طرح دیکھ کر مجھے بہت رونا آیا۔ لوگوں سے دور جاکر درختوں کے پیچھے چھپ کر تھوڑی دیر رو لیا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر والے کتنے ظالم ہیں کسی کو میری پروا ہی نہیں۔ ٹیسٹ اچھا ہوا اور شام کو گھر میں والد صاحب اور بھائی نے باری باری دوبارہ امتحان لیا۔ اب رزلٹ کا انتظار ہورہا تھا۔ مجھے پوری امید بلکہ یقین تھا کہ داخلہ ہوجائے گا۔ 
والد صاحب کی پرورش کا طریقہ کار کبوتر کی بجائے مرغی والا تھا۔ کبوتر دانہ دنکا چگنے کے بعد بچے کی چونچ منہ میں لیکر خوراک اسکے حلق میں انڈیل دیتا ہے۔ مرغی ایسا نہیں کرتی۔ وہ بچوں کو دانے کی نشاندہی تو کر دیتی ہے لیکن دانہ چگنا بچے کا کام ہوتا ہے۔ مرغی دانہ اٹھا کر اسکے منہ میں کبھی نہیں ڈالتی۔ بس یہی طریقہ کار والد صاحب کا تھا اور ساری زندگی یہی رہا۔ یہ اگرچہ اس زمانے میں ظالمانہ لگتا تھا لیکن آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو خود اعتمادی کی وجہ پرورش کا وہی انداز لگتا ہے۔ 
اگلے ہفتے جب میرٹ لسٹ لگی تو اس میں میرا نام نہیں تھا۔ مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ بار بار لسٹ دیکھی پھر آس پاس لوگوں سے پوچھا کہ لسٹ یہی ایک ہے یا دوسری بھی ہے لیکن دوسری لسٹ بھی نہیں تھی۔ مجھے داخلہ نہ ملنے سے زیادہ ڈر اس بات کا تھا کہ گھر میں اب جو میرے ساتھ ہونے والا ہے وہ ناقابل بیان ہوگا۔ میں حقیقتاً کسی کو منہ دکھانے قابل نہیں رہا تھا۔ یہ زندگی کی پہلی ناکامی تھی۔ گھر جاکر میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ شام کو بھائی اور والد صاحب نے لسٹ دیکھی تھی اور دونوں نے تابڑ توڑ سوال کئے لیکن میرا جواب ایک ہی تھا کہ ٹیسٹ تو بہت اچھا ہوا تھا۔ والد صاحب میری باتوں کا ہمیشہ یقین کرلیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی غلطی ہوئی ہوگی کل پرنسپل صاحب کے پاس جاکر دیکھیں گے۔ اگلے دن میں والد صاحب کیساتھ پرنسپل صاحب کے دفتر میں تھا۔ اکرم خان صاحب پرنسپل تھے اور وہ والد صاحب کے دوست تھے اور اصولوں کے معاملے میں والد صاحب سے زیادہ سخت اگر نہ تھے تو کم بھی ہرگز نہ تھے۔ جب مدعا بیان کیا تو پرنسپل صاحب نے کہا کہ حاجی صاحب بچے کہہ دیتے ہیں کہ ٹیسٹ اچھا ہوا ہے لیکن ٹیسٹ اچھا نہیں ہوا ہوتا ہوسکتا ہے بچے نے ویسے ہی کہہ دیا ہو۔ والد صاحب نے کہا دوسرے بچے کہتے ہوں گے میرا بیٹا نہیں کہتا۔ کافی دیر بحث کے بعد والد صاحب نے کہا کہ مجھے ذرا اسکا پرچہ دکھا دیں۔ پرنسپل صاحب نے پرچے منگوائے تو سیکڑوں پیپر جو رولنمبر کی ترتیب میں رکھے گئے تھے میرا پرچہ ترتیب میں سے غائب تھا۔ میرا پرچہ سب سے نیچے تھا۔ آخری داخلہ ۷۱ نمبر لینے والے طالبعلم کا ہوا تھا جبکہ میرے ۸۴ نمبر تھے۔ والد صاحب کے چہرے پر وہ فاتحانہ مسکراہٹ مجھے کبھی نہیں بھولے گی جب انہوں مسکراتے ہوئے پرنسپل صاحب سے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ میرا بیٹا ایسا نہیں کہے گا کہ پرچہ اچھا ہوا ہے اگر اچھا نہیں ہوا ہوگا۔ جب متعلقہ کلرک کو بلوایا گیا تو اس نے بتایا کہ اس بچے کا نہ تو رولنمبر لکھا ہوا تھا اور نہ ہی اسکا داخلہ فارم جمع ہوا ہے۔ پرنسپل صاحب نے والد صاحب سے پوچھا کہ فارم کب جمع کروایا تھا؟ والد صاحب نے وہی سوال میری طرف اچھال دیا۔ اور میرا جواب سادہ سا تھاکس چیز کا فارم؟
اب پتا چلا کہ داخلہ لینے کیلیے فارم بھی لیکر جمع کروانا تھا جو میں نے نہیں کروایا اور نہ مجھے کسی نے بتایا تھا۔ پرنسپل صاحب نے کہا کہ حاجی صاحب مجھے افسوس ہے کہ آپکا بچہ قابل ہے لیکن فارم کے بغیر میں کیسے داخل کروں؟ والد صاحب نے کہا کوئی بات نہیں ہماری تسلی ہوگئی اس سال نہ سہی اگلے سال سہی۔ اور ہم وہاں سے ناکام و نامراد لوٹ آئے۔ گھر جاتے ہوئے والد صاحب نے کہا کہ کل اپنی سرٹیفیکیٹ لیکر گورنمنٹ ہائی سکول مریالی چلے جاؤ اور داخلہ لے لو۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ مریالی کہاں ہے اور مریالی کا ہائی سکول کہاں ہے لیکن تازہ تازہ ناکامی کے بعد میں ڈر کے مارے سوال نہیں کرسکا اسلئے چپ ہی رہا کہ ڈھونڈ لیں گے یہ سکول کسی نہ کسی طرح۔ 
اگلے دن صبح سویرے اٹھایا گیا اور بغیر فرمائش کالا جوڑا پہنا کر سر پر سکول کی مخصوص پی کیپ رکھ دی گئی۔ میں بھی سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے گھر سے نکل آیا۔ گھر سے نکلنے کے بعد جانا کہاں تھا مجھے کچھ پتا نہیں تھا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ گھر کے دروازے سے نکل کر بائیں طرف مریالی ہے اور وہیں کہیں سکول ہے۔ میں اس ادھیڑ بُن میں تھا کہ کیا کروں۔ گھر کے سامنے کھیت تھے جن میں مکئی کی فصل تھی اور میری قد سے زیادہ اونچی۔ (وہ کھیت اب ختم ہوچکے ہیں وہاں گلشن حمید کالونی بن چکی ہے)۔ فوراً ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر اس فصل میں کھس جاؤں تو باہر سے مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ میں بائیں مڑنے کی بجائے سیدھا مکئی کے کھیت میں جا پہنچا۔ پکڈنڈیوں سے مناسب فاصلے پر کھیت کے عین وسط میں مکئی کے پودے گرا کر بیٹھنے کیلئے نرم جگہ بنالی اور آرام سے بیٹھ گیا۔ ایک دو گھنٹے تو بڑے سکون سے گزرے لیکن اسکے بعد اکتاہٹ ہونے لگی۔ کرتا بھی تو کیا۔ اپنی نئی نویلی کتابیں ساری کھول کر دیکھ لیں۔ اردو کی کتاب میں اپنی دلچسپی کے سارے مضامین بھی پڑھ لئے۔ لیکن وقت تھا کہ کسی طرح گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ دن جلدی گزر جائیگا لیکن وہاں بیٹھ کر پتا چلا کہ دن تو بہت لمبا ہوتا ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح دن گزار ہی لیا۔ اپنی مچان سے نکل کر راستے کے ذرا قریب ہوکر بیٹھ گیا تاکہ جب سکول کی چھٹی ہو اور سکول کے لڑکے آتے جاتے نظر آئیں تو میں بھی نکل کر گھر جاؤں۔ آخر کار لڑکوں کی آوازیں سنیں تو جان میں جان آئی۔ کچے راستے پر کالے کپڑوں میں ملبوس لڑکے نظر آگئے۔ میں دبک کر بیٹھ گیا کہ لڑکے گزر جائیں تو میں بھی نکلوں۔ جب مکمل خاموشی ہوگئی تو میں بھی آہستہ آہستہ کھیت سے نکل آیا۔ جونہی باہر نکلا پیچھے سے کسی نے آواز لگائی،صبر کر توں نسا ودا ہیں سکول کول” (صبر کرو تم سکول سے بھاگے ہوئے ہو)۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ لڑکا تھا تو میرا ہم عمر ہی یا تھوڑا سا بڑا لیکن اس نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔ میں نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ نہیں میں تو کھیتوں میں بیٹھ کر وینسم کالج کے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا۔ الو سمجھتے ہو مجھے؟ اس نے قدرے ناراضگی سے کہا۔ کھیتوں میں پڑھائی کے لئے سکول کی وردی پہنتا ہے کوئی؟ اسکی بات سن کر مجھے خیال آیا کہ میں تو سکول کی وردی پہنے ہوئے ہوں۔ مزید جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اسے سچ سچ بتا دیا کہ مریالی ہائی سکول جانا تھا لیکن میں نے سکول دیکھا نہیں تھا اس لئے کھیتوں میں چھپ کر دن گزارا۔ اس نے کہا کہ میں بھی وہیں پڑھتا ہوں صبح ساڑھے سات بجے گھر کے دروازے پر ٹھہرنا میں ادھر ہی سے گزروں گا تو میرے ساتھ چلے جانا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ وہ صرف سکول ہی جائے گا گھر والوں کو چغلی نہیں لگا رہا اسلئے رضامندی ظاہر کردی۔ گھر میں بہن بھائیوں نے سکول کا پوچھا تو میں نے مختصر سے مختصر جواب دینے پر اکتفا کیا اور جواب دیکر کھسک جاتا وہاں سے۔ 
اگلے دن صبح سویرے پھر تیار ہوکر گھر کے دروازے پر اس لڑکے کا انتظار کیا اور تھوڑی دیر میں وہ آگیا۔ مجھے ساتھ لیکر سکول پہنچا اور پھر دو کلاس رومز دکھا کر کہا کہ یہ ساتویں الف اور وہ ساتویں ب ہے۔ جس کلاس میں بیٹھنا ہے بیٹھ جاؤ۔ میں نے کہا آپ کس کلاس میں ہیں اس نے بتایا کہ میں آٹھویں میں پڑھتا ہوں۔ میں جاکر ساتویں الف میں بیٹھ گیا۔ 
تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی اور سب اسمبلی گراونڈ پہنچ گئے۔ اسمبلی کے بعد واپس کلاس میں آئے اور تھوڑی ہی دیر بعد ایک بڑی بڑی مونچھوں والے استاد کلاس میں داخل ہوئے۔ آتے ہی اس نے کلاس پر ایک نظر ڈالی اور مجھے دیکھ کر قدرے حیرت سے پوچھا تم کون ہو؟ اسکی آواز بھاری اور گرج دار تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا میں نیا آیا ہوں؟ وہ سرائیکی میں بات کر رہے تھے جسکی مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی۔ انہوں نے پوچھا کس نے داخل کروایا ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن داخل لفظ سے اندازہ لگا لیا کہ داخلے کا پوچھ رہے ہیں اسلئے بستہ کھول کر اس میں سے اپنی سرٹیفیکیٹ نکالنے لگا۔ وہ میرے جواب کے منتظر تھے اور باقی لڑکے کھس کھس کرکے ہنس رہے تھے۔ میں نے سرٹیفیکیٹ نکال لی اور انہوں نے پھر اردو میں پوچھا کہ کس نے داخل کروایا ہے۔ میں نے سرٹیفیکیٹ دیتے ہوئے کہا کہ خود داخل ہوا ہوں۔اپنڑے پیو دی بادشائی ہے” (اپنے باپ کی بادشاہی ہے) کہتے ہوئے سرٹیفیکیٹ لیکر پڑھنے لگے۔ پھر کتابیں نکالنے کا حکم ملا اور ہم سب نے تعمیل کی۔ اور یوں میں مریالی ہائی سکول کا باقاعدہ طالبعلم بن گیا۔ 
استاد شاکر بڑی مونچھوں اور اپنے مخصوص پھٹے کی وجہ سے دوسرے تمام اساتذہ سے بالکل الگ تھے۔ وہ چھڑی کی بجائے پھٹہ استعمال کرتے تھے۔ انگریزی پڑھاتے تھے اور پڑھاتے کیا تھے پھٹے سے ٹھونس ٹھونس کر دماغ میں گھساتے تھے۔ پھٹہ وہ بطور خاص ترکھان سے بنواتے تھے جو پیچھے سے زیادہ اور آگے سے نسبتاً کم چوڑا ہوتا تھا۔ مارتے اتنے زیادہ نہیں تھے لیکن دہشت زیادہ پھیلاتے تھے۔ طالبعلم کا چھٹی کرنا انہیں بالکل پسند نہیں تھا۔ سخت سے سخت سزا چھٹی کرنے پر ہی دیتے تھے۔ کلاس میں میرے آنے سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ سرائیکی میں بات کرکے پھر میرے لئے اردو میں بھی دہراتے۔ اور کئی دفعہ بڑا بڑاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے کہ پتا نہیں کدھر کدھر سے آجاتی ہے پاگل مخلوق۔
کلاس میں ایک اور پٹھان تھا جسکا نام رضاء اللہ کنڈی تھا۔ میری اسکے ساتھ دوستی ہونا فطری بات تھی کیونکہ وہ واحد طالبعلم تھا جو پشتو بول سکتا تھا۔ لیکن وہ سرائیکی اتنی اچھی بولتا تھا کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے تھے کہ وہ پٹھان ہے۔ رضاء فطری طور پر بہت جارحانہ مزاج کا مالک تھا۔ لڑائی کرنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے سے بڑے لڑکوں کیساتھ لڑائی کرتا۔ میں ذرا صلح جو طبیعت کا مالک تھا۔ اسے مجھ سے بس یہی ایک شکایت تھی کہ میں ٹھیک سے لڑ نہیں سکتا۔ کہتا ہوتا تھا کہ اگر تم میری طرح لڑائی کرسکتے تو سکول پر ہمارا راج ہوتا۔ وہ اپنا نام مختصراً آر بی سی لکھتا جسکا مطلب تھا رضاء بلیک کوبرا۔ وہ واقعی بلیک کوبرا ہی تھا۔ ہر وقت پن پھیلائے رکھتا۔ تاہم دوستی کے معاملے میں جان دیتا تھا۔ رضاء کیساتھ دوستی ہونے کی وجہ سے سکول میں کبھی کسی نے مجھ سے پنگا نہیں لیا۔ تاہم ایک بار ایک طالبعلم ساتھی سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو میں نے پکڑ کر اسکا سر ڈیسک پر دے مارا تو اسکے ماتھے پر بادام برابر اُبھار نکل آیا۔ یہ واحد موقع تھا جب رضاء نے کہا تھا کہ آج میرا دل خوش کردیا تم نے۔ یہ وقوعہ ایک خالی پیریڈ کے دوران ہوا کیونکہ ٹیچر چھٹی پر تھا اور کلاس استاد جمعہ خان نے لینی تھی۔ استاد جمعہ خان ٹانگوں سے معذور تھے اور بہت مشکل سے چل پھر لیتے۔ وہ کلاس میں پہنچے تو لڑکا ابھی تک رو رہا تھا۔ وجہ پوچھی تو اس نے بتادیا کہ اس نے مارا ہے۔ جب استاد جمعہ خان نے مجھے کھڑے ہونے کاحکم سنایا تو میری روح مجھے کانوں کے راستے جسم سے نکلتے ہوئے محسوس ہونے لگی۔ استاد جمعہ خان روایتی انداز میں نہیں مارتے تھے۔ انکے مارنے کا انداز بالکل مختلف اور انوکھا تھا جو شاید انہوں نے بالخصوص اپنی معذوری کے پیش نظر ایجاد کیا تھا۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ دو طالبعلم مجرم کو پکڑ کر میز کے پاس لے جاتے۔ پھر اسے پیٹ کے بل میز پر لٹا دیا جاتا۔ ایک طالبعلم اسکی ٹانگیں پکڑ لیتا اور دوسرا اسکے ہاتھ پکڑتا۔ اسکے بعد استاد جمعہ خان چھڑی اٹھاتے اور بیٹھے بیٹھے پچھواڑے پر جتنی زور سے مار سکتے چھڑیاں مارتے۔ اور یہ مار کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک مجرم کی چیخیں پورا سکول نہ سن لیتا۔ میں نے ایک دوبار یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور چیخیں متعدد بار سنی تھیں۔ اس سزا کے طریقہ کار کو وہ شرعی عدالت کہتے تھے۔ میں اس شرعی عدالت سے گزرنے والا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ رضاء نے آہستہ سے کہا دروازے تک جا کر بھاگ جانا لنگڑے کا باپ بھی نہیں پکڑ سکتا اور وہ ہماری کلاس کا ٹیچر نہیں ہے کل اپنا ٹیچر ہاتھ پہ مارے گا تو مار لے خیر ہے۔ کوئی اور طالبعلم پیچھے آیا تو اسکے ساتھ چھٹی کے بعد نپٹ لیں گے۔ مجھے اسکا آئیڈیا بہت پسند آیا۔ لیکن نہ جانے استاد جمعہ خان نے کیوں ارادہ ملتوی کرلیا اور ڈانٹتے ہوئے کہا، بیٹھ جاؤ حرام خور کتوں کی طرح لڑتے رہتے ہو۔ 
سکولوں میں کھیلوں کا سیزن تھا اور کلاسوں میں حاضری کم ہوتی تھی کیونکہ کھلاڑی اور پی ٹی میں حصہ لینے والے طالبعلم کھیلوں کی تیاری میں مصروف تھے۔ رضاء بستے میں مچھلی کی ڈور، کنڈی اور کیچوے بھر لاتا اور ہم سکول کے پچھلے دروازے سے چوری چھپے نکل جاتے اور سیدھے دریا کی راہ لیتے۔ دریا کے بند کیساتھ شہر کی طرف پانی کا ایک بہت بڑا جھیل نما تالاب تھا۔ یہ دریا کنارے موجودہ مذبح خانے سے تھوڑا آگے تھا۔ اس تالاب کے کنارے بیٹھ کر ہم سارا دن مچھلیاں پکڑتے رہتے اور چھٹی کا وقت قریب آتا تو بھاگتے ہوئے سکول پہنچ جاتے۔ میں جہاں پلا بڑھا تھا وہاں پینے کا پانی بھی بمشکل میسر تھا جبکہ یہاں دریا اور پانی کے بڑے تالاب تھے۔ یہ ماحول مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ کچھ دنوں بعد ایک اور لڑکا شاہد محمود کلاس میں آگیا۔ اسکا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ وہ جسامت میں رضاء اور مجھ سے بڑا تھا اور اسے پشتو کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ ہمارا گروپ مزید بڑا ہوگیا۔ شاہد تخریب کاری میں رضاء سے چار ہاتھ آگے تھا۔ اسے لڑائی کیلئے کوئی وجہ نہیں چاہئے ہوتی۔ وہ راہ چلتے کسی کو بھی دھکا دیتا یا تھپڑ مار دیتا۔ اگر مضروب خاموش ہوجاتا تو ٹھیک ورنہ لڑائی شروع ہوجاتی۔ شاہد کے آنے سے کلاس میں ہماری وقعت بہت بڑھ گئی تھی۔ اب کلاس کے آخری بینچ پر صرف ہمارا حق تھا۔ ایک دفعہ سب سے بڑی خواہش کے بارے میں بات ہورہی تھی تو شاہد نے بتایا کہ اسکی بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ جلد بڑا ہوجائے اور اپنے باپ کو قتل کردے۔ وجہ پوچھی تو بولا اس نے میری ماں کو میرے سامنے جوتا مارا تھا۔
موسم گرما کی تعطیلات شروع ہوئیں اور ہم گرمی کی چھٹیاں گزارنے گاوں چلے گئے۔ ہماری گرمی کی چھٹیاں کیسے گزرتی تھیں اسکا ذکر کسی اور باب میں گزر چکا ہے۔ بہر حال اتنا بتادوں کہ سکول کے دنوں میں چھ گھنٹے سکول ہوتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں والد صاحب چوبیس گھنٹے گھر پر ہوتے تو چوبیس گھنٹے گویا سکول کھلا ہی رہتا۔ بڑی شدت سے دعا کرتے کہ جلدی سکول کھلیں تاکہ کچھ آزادی ملے۔ سب اچھے دن وہی ہوتے تھے جن دنوں والد صاحب کسی کام کے سلسلے میں گاوں سے باہر چلے جاتے، اس دن گھر کی ساری رسیاں حجرے میں لگے شیشم کے درختوں سے لٹک رہی ہوتیں اور ہم سارا سارا دن جھولے جھولتے یا غلیل سے شکار کرتے۔ لیکن اچھے دن ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے تھے۔ یہ پہلی اور آخری دفعہ چھٹیوں میں گاوں گئے تھے اسکے بعد آج تک نہیں گئے۔ 
چھٹیاں ختم ہوئیں اور واپس فرحاں و شاداں سکول پہنچ گئے۔ فرحاں و شاداں سکول جانے کے وجہ سے نہیں بلکہ والد صاحب کی قید با مشقت سے نکلنے کی وجہ سے۔ 
تین مہینے گاؤں میں گزارنے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان آئے تو جتنی سرائیکی سیکھی تھی وہ تقریباً ساری بھول چکے تھے۔ کلاس میں پہلا دن تھا۔ استاد شاکر نے اپنا پھٹا لہراتے ہوئے سرائیکی میں کوئی بات کی جس میں مرنے کا ذکر تھا۔ میں نے اپنی طرف سے مطلب اخذ کرلیا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کس کس نے دعا کی تھی چھٹیوں میں استاد شاکر نہ مرے۔ میں بھلا ایسا موقع کیسے جانے دیتا فوراً ہاتھ کھڑا کر لیا۔ باقی سارے طالبعلم نہ صرف میری طرف متوجہ ہوئے بلکہ قہقہے لگانے لگے۔ رضاء نے میری پسلیوں میں کہنی ماری اور ہاتھ نیچے کرنے کو کہا۔ میں نے ہاتھ نیچے کرلیا۔ استاد شاکر نے پہلے تو مصنوعی غصہ دکھایا پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ کلاس میں ایک سچا پٹھان ہے سچ بولا ہے۔ لیکن فکر نہ کرو سب کی ہڈیاں توڑ کر مروں گا۔ استاد شاکر کا رویہ اب میرے ساتھ نہ صرف بہت بہتر ہوگیا تھا بلکہ میں انکے پسندیدہ طالبعلموں میں تھا۔ انگریزی والد صاحب گھر پرسب سے زیادہ پڑھاتے تھے کیونکہ وہ خود انگلش ٹیچر تھے، اسلئے انگریزی میں کبھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا اور انہیں اور کیا چاہئیے تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال پورا ہوگیا اور سالانہ امتحان کی گونج ہر طرف سنائی دینے لگی۔ ابھی تک جو ہماری مصروفیات تھیں ان میں سوائے پڑھائی کے سب کچھ شامل تھا۔ امتحان سر پر آگیا تھا اور تیاری بالکل نہیں تھی۔ دنوں اور مضامین کا حساب لگایا تو فی مضمون بمشکل دو دن بھی نہیں بچتے تھے۔ اردو، انگریزی اور حساب تو والد صاحب نے چھٹیوں میں کوٹ کوڑ کر اندر بھر دئیے تھے البتہ فنی تعلیم، معاشرتی علوم، سائنس اور اسلامیات انہوں نے کبھی نہیں پڑھائے۔ سب سے بڑا مسئلہ ان مضامین کا تھا۔ میں نے ان مضامین کی نقل بنانا شروع کردیا۔ نقل بنانا بھی ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ والد صاحب کی تعذیرات میں چرس، افیون اور گھانجے سے نقل کی سزا کہیں زیادہ سخت تھی اور ناقابل معافی جرم تھا۔ نقل بناتے یا لگاتے ہوئے پکڑے جانے کا مطلب سزائے موت ہی سمجھ لیں۔ ایسے میں سب کے سامنے نقل بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ مجبوراً مجھے رات کو دیر تک بیٹھنا پڑتا۔ پہلے میں وہ مضامین پڑھتا جو میں نے نقل بغیر پاس کرنے تھے۔ اسکے بعد جب بہن بھائی سو جاتے تو کاپی کے صفحے پر لکیریں لگا کر اسے چار برابر حصوں میں تقسیم کرلیتا اور پھر چھوٹی چھوٹی لکھائی کرکے بوٹی بناتا۔ مائیکرو فوٹوسٹیٹ کی سہولت مجھے میسر نہیں تھی۔ شاید زندگی میں سب سے زیادہ محنت میں انہی راتوں میں کی تھی۔ تاہم چاروں مضامین کی بوٹی میں نے تیار کرلی۔ امتحان شروع ہوا اور تمام پرچے بہت اچھے ہوئے۔ امید تھی کہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤں گا۔ 
جب نتیجے کا دن آیا تو سب سے پہلے اوّل دوم اور سوم آنے والے طالبعلموں کا اعلان کیا جانے لگا۔ میں پرسکون بیٹھا تھا کیونکہ میں اس دوڑ میں شامل نہیں تھا۔ لیکن جب ساتویں جماعت میں اوّل آنے والے طالبعلم کا نام سنا تو شادئِ مرگ کی سی کیفیت تھی۔ میں نے اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لی تھی۔ آگے بلایا گیا ایک لفافہ جس میں پندرہ روپے تھے، ایک اخبار میں لپٹی ہوئی کاپی اور ایک موتیا کا ہار ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنے ہاتھوں سے پہنایا۔ میرے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ اندھوں میں کانا راجا بن چکا تھا۔  استاد شاکر بڑے فخر سے ہیڈ ماسٹر صاحب کو بتا رہے تھے کہ یہ بچہ جب آیا تھا تو بول نہیں سکتا تھا اور اب ایسی سرائیکی بولتا ہے کہ لگتا ہی نہیں پٹھان ہو۔ گرمی کی چھٹیوں کے فوراً بعد پیش آنے والے واقعے نے میری عزت نفس کو مجروح کیا تھا اور میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اب سرائیکی سیکھ کر رہوں گا۔ میں نےرضاء سے بھی کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ سرائیکی میں بات کرے۔ اپریل تک میں سرائیکی سیکھ چکا تھا۔ گھر والے میری کامیابی پر بہت خوش تھے بالخصوص والد صاحب۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ساتویں جماعت کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھو ابھی وینسم کالج میں داخلے کا ٹیسٹ بھی دینا ہے۔ 
وینسم کالج داخلہ لینے کیلئے فارم جمع ہونے لگے تو میں بھی جاکر فارم لے آیا۔ شام کو فارم بھرنے کیلئے میں کالے پین کی تلاش میں سارے بہن بھائیوں کے بستے ٹٹولنے لگا۔ والد صاحب نے کہا کہ نیلے پین سے بھرلو تو میں نے جواب دیا کہ فارم پر لکھا ہوا ہے کہ کالی سیاہی سے بھرنا ہے۔ والد صاحب نے فارم دکھانے کو کہا اور جیب سے عینک نکال کر پڑھنے لگے اور پڑھ کر کہا کہ اس میں تو کہیں نہیں لکھا ہوا۔ میں نے فارم کے اوپر لکھی ہوئی ایک سطر کی نشاندہی کردی کہ یہ لکھا ہوا ہے فل ان بلیک لیٹرز۔ والد صاحب کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور تھپڑ کیلئے ہاتھ میں لہرا کر اور دانت پیستے ہوئے غصے سے بولے یہ بلیک نہیں بلاک لیٹرز ہے مطلب بڑے حروف میں لکھو۔ وہ دن اور آج کا دن، اب تک دسیوں فارم بھرے ہیں اور جب بھی کسی فارم پر یہ ہدایات پڑھتا ہوں تو والد صاحب کا غصہ یاد آجاتا ہے اور چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ 
ایسے انگنت الفاظ ہیں جو اب بھی پڑھتا ہوں تو اس لفظ سے جڑی کوئی روداد یاد آجاتی ہے۔ مثلاً لفظ بِزی (بمعنی مصروف) جب بھی پڑھتا ہوں تو دائیں کان پر لگنے والا والد صاحب کا تھپڑ یاد آجات ہے جب میں نے بِزی کو بُسی پڑھا تھا اور اچانک افتاد آن پڑی تھی۔ 
فارم جمع ہوا ٹیسٹ ہوگیا اور اب کی بار میرٹ لسٹ میں نام بھی آگیا۔ والد صاحب نے کہا کہ مدرسہ چھوڑنے کی سرٹیفیکیٹ کیلئے درخواست لکھو اور سکول سے سرٹیفیکیٹ لے لو پھر وینسم کالج میں جمع کروا دو۔ میں نے درخواست لکھ لی اور اگلے دن جاکر استاد شاکر کو درخواست دے دی۔ استاد شاکر غصے سے لال پیلے ہوگئے۔ کہنے لگے تم تو کیا تمہارا باپ بھی ادھر سے نہیں جاسکتا۔ جب گونگے بہرے ہوتے ہیں تو ہمارے گلے ڈال دیتے ہیں اور جب ذرا سا لکھنا پڑھنا سکھا دیتے ہیں تو وینسم کالج بھاگ جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی میری درخواست پھاڑ کر پارہ پارہ کردی۔ شام کو والد صاحب کو روداد سنائی تو وہ مجھے ساتھ لئے استاد جہانزیب کے گھر لے گئے۔ والد صاحب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے اور ہر ضلعے کے اساتذہ سے علیک سلیک تھی۔ جہانزیب صاحب بھی ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے۔ انہیں کہا کہ بچے کو سرٹیفیکیٹ نہیں دے رہے سرٹیفیکیٹ دلوا دینا کل۔ استاد جہانزیب نے کہا کہ کل بغیر یونیفارم آجانا دس بجے میں سٹاف روم میں ہوں گا۔ 
اگلے دن حسب ہدایت ان سے ملا اور انہوں نے سرٹیفیکیٹ پہلے ہی تیار کر رکھی تھی مجھے ساتھ لیکر ہیڈماسٹر صاحب کے پاس لےگئے انہیں میرا تعارف کروایا اور سرٹیفیکیٹ پر ان سے دستخط لئے۔ ہیڈ ماسٹر خلیل الرحمان صاحب تھے اور انتہائی شفیق انسان تھے۔ والد صاحب کے دوست بھی تھے اور مداح بھی۔ کہنے لگے بیٹا سکول کوئی بھی ہو اگر لکھنا پڑھنا سیکھنا ہے تو محنت شرط ہے۔ انکی شفقت دل پر ایسے نقش ہوئی کہ آج تک نہیں بھولی۔ تین سال پہلے جب میں نیشنل بینک مین برانچ ڈیرہ اسماعیل خان کا منیجر تھا اور اکتیس دسمبر کے دن ہم ایسے تمام اکاؤنٹس جن کے مالکان نے دس سال تک رابطہ نہیں کیا تھا، اسٹیٹ بینک منتقل کر رہے تھے۔ جب لسٹ میرے سامنے رکھی گئی تو میں نے پڑتال شروع کردی۔ خلیل الرحمان کا نام سامنے آیا تو مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب یاد آگئے۔ بینک ریکارڈ میں پتا دیکھا تو گیلانی ٹاون کا تھا۔ میں نے سوچا ہو نہ ہو یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا اکاونٹ ہے۔ نادرا ریکارڈ سے شناختی کارڈ کی تفصیلات دیکھیں تو انکی تصویر سامنے آگئی۔ میں نے گیلانی ٹاون میں ایک دوست کو فون کیا اور پوچھا کی ہیڈ ماسٹر خلیل الرحمان  صاحب زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں۔ اس نے بتایا کہ زندہ ہیں۔ میں نے کہا کہ آج یا کل انہیں لازمی پیغام دینا ہے کہ وہ بینک تشریف لے آئیں انکے کچھ پرانے پیسے پڑے ہیں وہ لے جائیں۔ انکا اکاونٹ میں نے منتقل نہیں کیا۔ دو دن بعد وہ بینک تشریف لے آئے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ انکے اکاونٹ میں ستاسی ہزار روپے ہیں تو وہ بہت حیران ہوئے۔ کہہ رہے تھے کہ انہیں کبھی یاد ہی نہیں رہے یہ پیسے۔ انکی آنکھیں بھر آئیں۔ پھر کافی دیر میرے پاس بیٹھے رہے اور میرے والد صاحب کی باتیں سناتے رہے۔ جاتے جاتے کہنے لگے کہ ایک کہاوت سنی تھی کہ اچھے گوشت کا شوربہ اچھا ہوتا ہے۔ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جو خوشی مجھے ہورہی ہے وہ میں بیان نہیں کرسکتا کہ غلام محمد خان کا بیٹا بھی باپ جیسا ہی ہے۔ انکی اس بے جا تعریف سے انکے ساتھ ساتھ میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔ 
باتوں باتوں میں بات کہیں اور نکل گئی۔ تو جناب میں سرٹیفیکیٹ لے کر اور سر پر پاؤں رکھ کر مریالی سکول سے بھاگ آیا کہ کہیں استاد شاکر کی نظر نہ پڑ جائے۔ یوں گورنمنٹ ہائی سکول مریالی کا سفر اختتام پذیر ہوا۔ 
شاہد محمود سے دوبارہ کبھی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی کہیں سے اسکی خبر ملی ہے کہ اس نے اپنی سب سے بڑی خواہش پوری کرلی ہے یا بعد میں ارادہ بدل گیا تھا۔ کئی سال پہلے رضاء اللہ کنڈی کے بارے میں کسی نے بتایا تھا کہ اسے کسی نے قتل کردیا ہے۔ لیکن مجھے ابھی تک نہ تو یقین آیا ہے اور نہ تصدیق کرنے کی مجھ میں ہمت ہے۔ میں تصدیق کرنا بھی نہیں چاہتا۔ میری یاد داشت میں وہ اب بھی زندہ ہے اور میں اسے زندہ ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر مریالی ہائی سکول جوکہ اب ہائیر سیکنڈی سکول ہے، کا کوئی طالبعلم یہ تحریر پڑھے تو اس سے گزارش ہے کہ سکول کی دیواروں کو میرا سلام کہہ دے۔ 


ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...