ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچیستان جاتے ہوئے شہر سے نکلتے ہی آپ کو سامنے ایک پہاڑی سلسلہ نظر آتا ہے۔ یہ کوہ سلیمان کہلاتا ہے۔ اسکی سب سے اونچی چوٹیاں بالکل سامنے نظر آتی ہیں۔ بلوچیستان جاتے ہوئے کئی بار ان چوٹیوں کو دیکھ کر دل چاہا کہ ان چوٹیوں کو اوپر جاکر دیکھنا چاہئے لیکن موقع نہیں ملا۔ کبھی گھریلو اور دفتری مصروفیات آڑے آئیں تو کبھی کسی اور پہاڑ کی طرف نکل پڑتا۔ پچھلے مہینے موسیٰ کا مصلہ گئے تو وہاں ذیشان نے بھی دلچسپی ظاہر کی اور کہنے لگے کہ وہاں اکٹھے جائیں گے۔ ان کی سنگت نے میرا حوصلہ بڑھا دیا اور میں نے وہاں کے کسی باشندے کی تلاش شروع کردی۔ بدقسمتی سے اس علاقے میں سیر و سیاحت ابھی ذریعہ روزگار نہیں بن پایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو کوئی پیشہ ور گائیڈ اور پورٹر نہیں ملتے۔ لیکن اس علاقے سے تعلق رکھنے والے جس شخص سے بھی بات ہوئی اسکا جواب یہی ہوتا کہ جب آنا ہو بتا دینا بندوبست ہوجائیگا۔ اپنے چھوٹے بھائی سے تذکرہ کیا تو اس نے بتایا کہ رغہ سر (جو تخت سلیمان کے دامن میں گاوں ہے) میں اسکا دوست عبداللہ رہتا ہے اور وہ اس سے بات کرے گا۔ اور پھر دودن بعد اس نے عبداللہ کا نمبر بھیج دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سے بات ہوگئی ہے کال کرکے اپنا شیڈول بتا دینا۔ میرے ساتھ ممکنہ طور پر دو دوست احسان بلوچ اور ذیشان رشید نے جانا تھا۔ خوش قسمتی سے ۲۵ دسمبر کو منگل کا دن بن رہا تھا تو سوموار کی چھٹی کا مطلب چار دن کی مسلسل چھٹی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور عبداللہ کو بتا دیا کہ ۲۲ دسمبر بروز سنیچر ہم رغہ سر آئیں گے۔ پھر اپنے دوستوں سے رابطہ کیا تو دونوں دوست تیار تھے۔ ذیشان نے جمعہ کے دن گوجرانوالہ سے ڈیرہ اسماعیل خان آنا تھا اور رات میرے پاس ٹھہر کر اگلے دن سفر پر نکلنا تھا۔ لیکن جمعہ کے دن انہوں نے بتایا کہ انکی خوشدامن فوت ہوگئی ہیں جسکی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ جانے سے قاصر ہیں۔ تاہم احسان بلوچ نے آمادگی ظاہر کی۔
عبداللہ نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے چچا کی دوکان کا پتا بتایا اور کہا کہ وہاں سے انکا بھائی اور چچا زاد گاوں تک ہمارے ساتھ جائیں گے تاکہ راستے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
حسب پروگرام ہم ہفتہ کے دن ان کی دوکان پر پہنچے تو انکے چچا کہنے لگے کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ لوگ مذاق کر رہے ہیں۔ کیا آپ لوگ واقعی تخت سلیمان جا رہے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ارادہ تو یہی ہے۔ کہنے لگے یہ تو پاگل پن ہے۔ تخت سلیمان کا راستہ ویسے بھی مشکل ہے لیکن اس موسم میں وہاں جانا انتہائی بے وقوفی ہے۔ ایک تو راستہ مشکل اور طویل ہے دوسرا برف کی وجہ سے راستے میں پھسل کر گرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور تیسرا وہاں جنگلی جانور گرمیوں میں تو آبادی کی وجہ سے دور پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں لیکن اس موسم میں تو بس آپ لوگ ہوں گے پہاڑ ہونگے اور جنگلی جانور۔ اسکے علاوہ وہاں کوئی ذی روح نظر نہیں آئے گا۔ لیکن ہم بضد تھے کہ جانا ہے تو جانا ہے۔ چائے پی کر ہم گاڑی میں بیٹھے اور اپنی منزل کی طرف نکل پڑے۔ سفر کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی سوائے اسکے کہ رات ہم رغہ سر میں ٹھہریں گے اور صبح سویرے تخت سلیمان کی طرف نکل جائیں گے۔ دوپہر کا کھانا راستے میں کھایا اور چار بجے ہم رغہ سر پہنچ گئے۔ رغہ سر ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب جانے والی شاہراہ سے چند کلومیٹر دائیں طرف واقع ہے۔ درازندہ ایک قصبہ ہے جہاں سے ژوب کی طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک مڑتی ہے۔
رغہ سر میں ہمارا استقبال عبداللہ کے پورے خاندان نے بڑی گرمجوشی سے کیا۔ جب بات آگے جانے کی شروع ہوئی تو عبداللہ کے والد صاحب کہنے لگے کہ یہ بے وقوفی کی باتیں چھوڑیں آپ ہمارے مہمان ہیں جتنے دن چاہیں ادھر رہ لیں لیکن اوپر جانے کی باتیں نہ کریں۔ البتہ گرمیوں میں آئیں میں خود آپ کو وہاں لیکر جاؤں گا۔ ہم نے صرف اتنا عرض کیا کہ ہم صرف ایک ہی مقصد لیکر آئے ہیں اور جانا اسی موسم میں ہی ہے۔ اسکے بعد رغہ سر سے نکل کر آگے پہاڑ کے بالکل دامن میں واقع دوسرے گاوں لنڈئی کی طرف نکل گئے۔ وہاں عبداللہ کا دوست امداد اللہ رہتا ہے جسکے ذمے عبداللہ نے ہمیں اوپر بھیجنے کا کام لگایا تھا۔ عبداللہ خود کسی کام سے بنوں گیا ہوا تھا۔ وہ رکنا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کردیا کہ آپکی موجودگی ہمارے لئے ضروری نہیں۔ وہاں پہنچ کر امداد اللہ نے جتنا ممکن تھا ہمیں ڈرایا لیکن ہماری سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی تھی کہ بہر صورت جانا ہے۔
میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ دو بندے ایسے ڈھونڈ دیں جو تخت سلیمان آتے جاتے رہے ہوں اسکے بعد ہم جانیں اور ہمارا کام۔ وہ ہمیں لیکر اسی سڑک پرمزید آگے لے گئے۔ وہاں ایک چرواہا پہاڑوں سے بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا گاوں میں داخل ہورہا تھا۔ امداد اللہ نے اسکو آواز دیکر بلا لیا۔ اسکا نام روزی جان تھا۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا۔ کہنے لگا ٹھیک ہے میں ساتھ جانے کیلئے تیار ہوں۔ طے یہ پایا کہ روزی جان اور ایک دوسرا مزدور ہمارے ساتھ جائیں گے اور ہم انکو فی کس پانچ ہزار روپے دیں گے۔ ہمارے میزبان بضد تھے کہ پیسے انکو آپ نہیں ہم دیں گے۔ لیکن میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پہلے ہمیں زندہ سلامت واپس لوٹنے دیں پھر دیکھیں گے۔ پروگرام کچھ اسطرح طے پایا کہ صبح چھ بجے ہم نکلیں گے۔ رات پونگے میں گزاریں گے اور وہاں سے صبح سویرے تخت سلیمان کیلئے نکلیں گے۔ تخت سلیمان سے واپس آکر پھر پونگے میں رات گزاریں گے اور اگلے دن نیچے آئیں گے۔
اتوار کے دن ۲۳ دسمبر کو صبح ناشتہ کرکے ہم لنڈئی پہنچے اور سات بجے ہمارا سفر شروع ہوا۔ سردی شدید تھی لیکن موسم صاف تھا۔ اور پہاڑ کی ابتداء میں ہی ڈھلان بہت زیادہ تھی۔ مسلسل چڑھائی ہماری سانسوں اور ٹانگوں کا امتحان لینے لگی۔ آدھ گھنٹے بعد ہی پسینے آنا شروع ہوگئے باوجود اسکے کہ سردی کی وجہ سےہاتھ دستانوں سے نکالنا مشکل تھا۔ ہم مسلسل چڑھائی چڑھ رہے تھے کہیں پر ڈھلان زیادہ کہیں ذرا کم۔ تاہم ذہنی طور پر میں چڑھائی کیلئے تیار تھا کیونکہ رغہ سر میں جب میں نے چیک کیا تو سطح سمندر سے بلندی ایک ہزار میٹر تھی۔ ہم نے ۳۴۸۷ میٹر کی بلندی پر جانا تھا تقریباً پچیس سو میٹر اونچائی تک اتنےکم فاصلے میں پہنچنے کا مطلب یہی تھا کہ ہمیں مسلسل چڑھائی کرنی ہے۔ گیارہ بجے کے قریب ہم ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچے جہاں کچھ خالی گھر اور نسبتاً کھلا میدان تھا۔ اس پہاڑی کو “تورہ تِژہ” کہتے ہیں جو پشتو لفظ ہے اور اسکا مطلب ہے کالا پتھر۔ یہ پہاڑی کالے پتھروں کی ہے اور ڈھلان بہت زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ۶۰ درجے کے زاویے کی چڑھائی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس جگہ کی خاص اہمیت یہ ہے کہ صدیوں سے لوگ گرمیوں میں اوپر اپنے پہاڑی گھروں میں رہنے کیلئے جاتے ہیں اور سردیوں میں واپس آتے ہیں۔ مئی کے مہنےُ میں ایک دن طے کیا جاتا ہے اور پھر سب لوگ جو اوپر نقل مکانی کرتے ہیں اسی جگہ جمع ہوتے ہیں اور اجتماعی دعا کے بعد اوپر چڑھنا شروع کرتے ہیں۔ اس اجتماعی نقل مکانی سے پہلے جو بھی اپنے پہاڑی گھر کی طرف جاتا ہے اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تاہم واپس آنے کیلئے کوئی پابندی نہیں ہے جسکا جب جی چاہے نیچے جاسکتا ہے۔
وہاں کے باشندوں میں صدیوں سے رائج اس عقیدے کے بارے میں غور وفکر کرنے سے اسکی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ان پہاڑوں میں جنگلی جانور جیسے بھیڑیئے، ریچھ، تیندوے وغیرہ اب بھی پائے جاتے اگرچہ انکی تعداد اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ آتشیں اسلحے کے زمانے سے قبل یقیناً انکی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہوگی۔ اگر کوئی گھرانہ اجتماعی نقل مکانی سے پہلے اوپر پہاڑوں میں جاتا ہوگا تو انکے مال مویشی ان جانوروں کا شکار ہوتے ہوں گے۔ تاہم اجتماعی نقل مکانی کی صورت میں جب بہت سارے لوگ جاتے ہوں گے تو جنگلی جانور اس علاقے سے دور ہٹ جاتے ہوں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ صدیوں بعد انفرادی نقل مکانی سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ایک عقیدہ تو بن گیا لیکن اسکی وجہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ شیرانی قبیلے کے لوگ اب بھی اسی طریقہ کار کی پابندی کرتے ہیں۔ اس جگہ تک اونٹوں کی رسائی ہے تاہم اونٹ اس سے آگے نہیں جاسکتے البتہ گدھے اوپر جاتے ہیں۔
کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے پھر چلنا شروع کردیا۔ چڑھائی بہت مشکل اور خطرناک تھی۔ تیس چالیس میٹر چڑھنے کےبعد اوپرایک لکڑی لگی ہوئی تھی جس پر جھنڈا نما کپڑا لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اوپر ایک خاتون کا پاؤں پھسلا تھا اور وہ اپنے چھوٹے بچے سمیت اسی جگہ گر کر فوت ہوگئی تھیں۔ اسکے یادگار کے طور پر یہ نشانی اسکے بھائیوں نے لگائی ہے۔ ہم رک رک کر چلتے رہے اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تخت سلیمان جو اس پہاڑی کی وجہ سے کافی دیر نظروں سے اوجھل رہا تھا ایک بار پھر نظر آنے لگا۔ قریب سے اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ پہاڑ دور سے ہی خوبصورت لگتے ہیں۔ مشرق کی طرف سے یہ پہاڑ بالکل ایک دیوار کی طرح سیدھا ہے۔
میں اور ساحر شاہ سیدھی چڑھائی چڑھ کر گئے جبکہ احسان بلوچ کو گروئین میں تکلیف شروع ہوگئی تھی جسکی وجہ سے وہ ذرا لمبے لیکن کم ڈھلان والے راستے سے آرہے تھے (مقامی لوگ اس راستے کو گدھوں کا راستہ کہتے ہیں لیکن میں بوجوہ ایسا نہیں کہہ سکتا مجبوری ہے)۔ ہم وہاں دھوپ میں بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ ہماری آوازیں سن کر ایک مقامی لکڑہارا بھی ہماری طرف آگیا۔ یہ گاوں سے نکلنے کے بعد پہلا اور آخری انسان تھا جو ہمیں نظرآیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ بھی پہنچ گئے۔ ہمیں چلتے ہوئے تقریباً پانچ گھنٹے ہو چکے تھے اور بھوک لگنے لگی تھی۔ ہمارے میزبانوں نے خالص گھی لگی ہوئی روٹیاں راستے کیلئے دی تھیں وہ نکال کر کھانے لگے۔ لکڑہارے نے بھی اپنی چادر کیساتھ بندھی ہوئی روٹی کھولی اور جیب سے پیاز نکال کر کھانے لگا۔ پیاز کا ایک ٹکڑا مجھے دیا اور گھی لگی ہوئی روٹی پیاز کیساتھ کھانے کا جو مزہ آیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ آئندہ پہاڑوں میں جاتے ہوئے دوتین پیاز ضرور ساتھ کے جاؤں گا۔ کھانے پینے اور سستانے کے بعد ہم نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا۔
یہاں سے راستہ آسان اور قدرے ہموار تھا۔ تاہم پہاڑوں میں میں راستہ ہموار ہونے کا مطلب کم ناہموار ہوتا ہے جہاں ڈھلوانیں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔ تورہ تیژہ سے چند گھروں پر مشتمل ایک گاوں نظر آتا ہے جسے غواشکر کہتے ہیں۔ ویسے تو اسکی وجہ تسمیہ کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ملیں لیکن جو میرا اپنا اندازہ ہے وہ یہ کہ ممکن ہے یہاں گائے کے سینگ ہوں یا اسکی ساخت سے ملتی جلتی کوئی چیز کیونکہ “غوا” پشتو میں گائے کو کہتے ہیں اور “شکر” سینگ کو۔ گاوں سے نکلنے کے بعد، گرمیوں میں ممکن ہے نیچے جہاں لوگ نقل مکانی وقت اکٹھے ہوتے ہیں وہاں گھروں سے پانی مل جائے لیکن سردیوں میں غواشکر پہلا مقام ہے جہاں سے پانی مل سکتا ہے۔ درمیان میں پانی کہیں نہیں ہے۔ یہاں تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد ہم آگے بڑھے۔ ساحر شاہ ہمارے ساتھ رہا جبکہ روزی جان کو ہم نے آگے بھیج دیا تاکہ وہ ہمارے پہنچنے تک آگ جلانے اور چائے کا بندوبست کرلے۔ تھوڑی سی چڑھائی چڑھنے کے بعد ایک تالاب نما چیز نظر آئی جو سطح زمین سے بلند تھی جسکا مطلب صاف تھا کہ بارش کا پانی تو اس میں جمع نہیں کیا جاتا۔ دیہاتوں میں چاہے پہاڑی ہوں یا صحرا میں جہاں پانی کم یاب ہوتا ہے وہاں زمین دوز تالاب بنائے جاتے ہیں جن میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ میں نے گائیڈ سے اس تالاب نما چیز کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس میں دیار کی لکڑی کا تیل نکالا جاتا ہے۔ دیار کی لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹے جاتے ہیں اور اس تالاب کو بھر دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد اوپر سے مٹی کی موٹی تہہ لیپ کر اوپر آگ جلائی جاتی ہے۔ نیچے دبی ہوئی لکڑی جب گرم ہوجاتی ہے تو اس میں سے تیل نکلتا ہے جو پائپ کے ذریعے باہر نکلتا ہے اور بوتلوں میں بھر لیاجاتا ہے۔ یہ تیل ایک ہزار یا گیارہ سو روپےفی بوتل کے حساب سے مارکیٹ میں بکتا ہے۔ یہ تیل جانوروں کو پلایا جاتا ہے جو جانوروں کی جگر کی بیماریوں کیلئے مفید ہوتا ہے۔ آدھا گھنٹہ مزید چلنے کے بعد ہمیں وہ گاوں نظر آگیا جہاں ہم نے رات گزارنی تھی۔ اسکا نام پونگئ ہے۔ گاوں میں چند گھر جنکے کمروں کی دیواریں پتھر کی تھیں اور چھتیں لکڑی اور گھاس پھوس ڈال کر اوپر مٹی ڈال کر بنائی گئیں تھیں۔ چھتیں ہموار تھیں جسکا مطلب یہی تھا کہ یہاں برفباری اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ برف کے وزن سے چھتیں گر جائیں۔ تاہم کمروں کی اونچائی صرف چھ سے ساتھ فٹ تھی۔ کمروں کے دروازے لکڑی کی ٹہنیوں کے جال کی تھیں مطلب مکمل ہوادار۔ اگر چہ اس موسم میں ایسے دروازے بالکل بھی اچھے نہیں لگ رہے تھے جب درجہ حرارت نقطئہ انجماد پر تھا اور ہوا بھی چل رہی تھی تاہم یہ گھر ان لوگوں کے گرمی کے موسم کیلئے ہیں اسلئے ہوادار زیادہ بہتر ہیں۔ گھر کی دیواریں جھاڑیاں کھڑی کرکے بنائی گئی تھیں۔ جو کمرہ بڑا تھا اور جس میں رات گزارنے کا پروگرام تھا اسے دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ اس کمرے میں کھٹملوں کی فوج ظفر موج کا قبضہ ہے اور ہمیں اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ مجبوراً” ہمیں نسبتاً چھوٹے کمرے میں سونا پڑا۔ مسئلہ چھوٹے بڑے کمرے کا نہیں تھا اصل مسئلہ یہ تھا کہ چھوٹے کمرے میں ہوا کی دست درازی سے محفوظ رہنا ذرا زیادہ مشکل تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کر کا ہوں دروازہ شاید بھیڑیئے روکنے کیلئے تو کافی تھا لیکن ہوا آزادانہ طور پر آ جا رہی تھی۔ شام سے پہلے ہی ہم کمرے میں بیٹھ گئے اور بڑا الاو روشن کیا۔ دیار کی لکڑی جلتی تو بہت اچھی ہے لیکن اسکا دھواں مٹی کے تیل کے دیے کی طرح ہاتھ منہ کالا کر دیتا ہے۔ لیکن سر دست ہمارا مسئلہ ہاتھ منہ گورا رکھنا نہیں تھا بلکہ جسم کو گرم رکھنا تھا۔ میں نے کپڑوں کے نیچے ایک گرم زیر جامہ ایک پورے بازو والی بنیان اوپر سے اونی بغیر بازو بنیان اور ایک بش شرٹ پہنی تھی۔ اوپر سے فر والی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اتنی شدید سردی کے باوجود اندر یہ حالت تھی کہ اگر زیر جامے نچوڑ لئے جائیں تو گلاس بھر پسینہ نکل آئے۔ لیکن نہ تو بدلنے کیلئے کپڑے تھے اور نہ ہمت۔ لہذا آگ کے پاس بیٹھ کر خود کو گرماتا رہا۔وقت بہت سست رفتاری سے رینگ رہا تھا۔ ہمارے پاس کھانے پینے کا سامان کچھ اتنا خاص نہیں تھا۔
دراصل میرا خیال تھا کہ رغہ سر کوئی چھوٹا موٹا قصبہ ہوگا جہاں سے ضروری سامان خرید لیں گے لیکن وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ایک چھوٹا سا گاوں ہے۔ اور پھر میزبانوں کے حجرے تک پہنچ جانے کے بعد وہاں سے نکل کر خریداری کرنا ہماری پشتون روایات کے خلاف ہے۔ اگر چہ شہری علاقوں میں گنجائش ہوتی ہے اور روایات بھی ذرا نرم پڑ جاتی ہیں لیکن علاقہ شیرانی کے ایک گاوں کی بات بالکل مختلف ہے۔ لہذا روایات کی پاسداری کرتے ہوئے میں نے کھانے پینے کے سامان کا سارا معاملہ میزبانوں کے سپرد کرلیا تھا۔
الاو کے گرد بیٹھ کر ہم کل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ صبح چار بجے ہم روانہ ہوں گے۔ اگر جلدی لوٹ آیت تو سیدھا گاوں چلیں گے اور اگر دیر ہوگئی تو رات یہیں گزار کر اگلے دن نیچے چلیں گے۔ روزی جان نے روٹی بنانے کیلئے آٹا گوندتا شروع کردیا۔ پھر روٹی اور چائے بنا ئی گئی اور چائے کیساتھ روٹی کھا کر رات کے کھانے کی رسم ادا کی۔ اسکے بعد سب لوگ آگ کے گرد چڑھائیاں بچھا کر لیٹ گئے۔ احسان غالباً زمین پر سونے کے عادی نہیں تھے اسلئے وہ پیچھے بنی ہوئی چارپائی نما تخت پر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بوٹ پہننے لگے تو مجھے حیرت ہوئی کہ رات کے اندھیرے میں کہاں جانا چاہتے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ جانا کہیں نہیں۔ دو جوڑے جرابیں پہننے کے باوجود بھی پاؤں میں ٹھنڈ لگ رہی ہے اسلئے بوٹ پہن کر سوتا ہوں۔ جیسا کہ بتا چکا ہوں دروازہ ہوا دار تھا جسکا مطلب تھا کہ آگ ساری رات جلاتے رہنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ آگ پر لکڑیاں ساری رات کون ڈالتا رہے گا کیونکہ دیار کی لکڑی بہت تیزی سے جلتی ہے اور اسکا کوئلہ نہیں بچتا جو ماحول گرم رکھے بلکہ راکھ بن جاتی ہے۔ باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ چاروں میں سے جسکی بھی آنکھ کھلے گی وہی مزید لکڑیاں چولہے پر رکھنے کا پابند ہوگا۔ مطلب جو بولے وہی کنڈی کھولے۔ کچھ دیر بعد باقی لوگ سوگئے لیکن مجھے ابھی نیند نہیں آرہی تھی۔ آگ کم ہورہی تھی تو میں نے اٹھ کر موٹی موٹی دوتین لکڑیاں اوپر رکھ دیں اور تسلی کرلی کہ میرے سونے تک آگ کمزور نہ ہو۔ ہر دو تین منٹ بعد جلتی ہوئی لکڑیوں میں سےپٹاخے کی آواز نکلتی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا کوئلہ چولہے سے اڑ کر کسی نہ طرف چلا جاتا۔ ہر پٹاخے کی آواز کیساتھ میں اپنا جائزہ لیتا کہ کوئلہ میرے اوپر نہ گرا ہو۔ اس صورتحال میں سونا ناممکن تھا۔ اسلئے میں نے کروٹ بدل کر آگ کی طرف پیٹھ کردی اور آنکھیں بند کرلیں۔ تھکن تو تھی ہی تھوڑی دیر بعد ہی سوگیا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو بارہ بج رہے تھے اور روزی جان آگ میں لکڑیاں ڈال رہا تھا۔ میں نے پھر آنکھیں بند کرلیں اور سوگیا۔ دوبارہ جب احسان نے آواز دی تو تین بج رہے تھے۔ چائے بن رہی تھی۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ روٹی اور سلیمانی چائے کا ناشتہ کیا اور اپنا سامان سنبھال کر نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔ پونے چاربجے ہم تخت کی طرف روانہ ہوئے۔ اگرچہ رات ہم نے تخت سلیمان کے بالکل نیچے گزاری تھی لیکن مشرق کی طرف سے پہاڑ ایک سیدھی دیوار کی مانند ہے۔ سامنے سے چڑھنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اسلئے تین کلومیٹر شمال کی طرف جاکر پہاڑ میں ایک گزرگاہ ہے وہیں سے پہاڑ پار کرکے پیچھے سے گھوم کر آنا پڑتا ہے۔ یعنی چوٹی تک پہنچنے کیلئے آپ کو مغرب سے آنا پڑتا ہے جبکہ ہمارا پڑاؤ مشرق میں تھا۔ راستہ جنگل سے ہوگر گزرتا تھا۔ چاند پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا اور کھلے علاقے میں ہیڈ لائٹ روشن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ تاہم جنگل میں لائنیں جلا کر چلنا پڑ رہا تھا۔ دو تین سو میٹر تک راستہ قدرے بہتر تھا لیکن اسکے بعد چڑھائی کافی مشکل تھی۔ احسان نے چلنے سے پہلے درد کشا گولی کھا لی تھی کیونکہ اسے ابھی بھی ٹانگوں میں درد محسوس ہورہا تھا۔ جب چڑھائی مزید مشکل ہوگئی تو احسان تھوڑی تھوڑی دیر بعد رکنے لگا۔ جب وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ٹانگ کا درد تو اپنی جگہ ہے ہی اوپر سے اسکا بلڈ پریشر بھی شاید کم ہورہا ہے جسکی وجہ سے جسم جواب دے رہا ہے۔ ایسی حالت میں اسے مزید آگے لے جانے کا مطلب ہر قدم پر مشکلات بڑھانے کے مترادف تھا۔ کیونکہ ہر اوپر اٹھنے والے قدم کا مطلب واپس جانے کیلئے ایک قدم فاصلہ بڑھانا تھا۔ تھوڑی دیر رک کر مشورہ کیا اور پھر اس نے یہ کہہ کر واپس جانے کا فیصلہ کرلیا کہ اسطرح سب کا پہنچنا خطرے میں پڑ جائے گا۔ ساحر شاہ کو اس کے ساتھ واپس بھیج دیا اور میں روزی جان کیساتھ آگے بڑھ گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جتنی دیر چاہیں جاکر آرام کرلیں اور پھر واپس چلنا شروع کریں۔ ہم تخت سلیمان سے ہوکر سیدھا نیچے گاوں چلیں گے۔ چڑھائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھی۔سوا گھنٹہ چڑھائ کے بعد ہم کنڈاو سر پہنچ گئے۔ میں نے سطح سمندر سے بلندی چیک کی تو ہم اٹھائیس سو میٹر کی بلندی پر تھے جسکا مطلب تھا کہ ہمیں سات سو میٹر میٹر مزید چڑھنا تھا۔ وہاں سے روزی جان نے آواز لگائی تو کیمپ سے جوابی آواز آئی اور ٹارچ کا سگنل ملا۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر چل پڑے۔ اب راستہ کم ناہموار تھا لیکن بہت باریک جگہ جگہ سے تو بالکل ایک فٹ یا اس سے بھی کم چوڑائی تھی۔ بائیں طرف پہاڑ اور دائیں طرف گہری کھائی جسکی گہرائی کا اندازہ لگانے کیلئے پتھر پھینکا تو اسکے گرنے کی آواز سنائی نہیں دی۔ راستے میں برف پڑی تھی تاہم برف سخت تھی اور چلنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی تھی۔ تقریباً دو کلومیٹر چلنے کے بعد ہم ایک بار پھر اوپر چڑھنے لگے تھے۔ راستے میں ایک جگہ آرام کرنے کیلئے رکے تو روزی جان نے ہدایت کی کہ سر ناک اور گردن اچھی طرح سے ڈھانپ لیں کیونکہ ہم پہاڑ کی دوسری طرف جانے والے ہیں اور اس طرف بہت تیز ہوا ہوتی ہے۔ اور پھر ہم جونہی اوپر پہنچے ہوا کے تیز جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ دوسری طرف واقعی بہت تیز اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔
دیار اور چلغوزے کے درختوں سے ٹکرا کر ہوا کی سنسناہٹ ایک عجیب سا ماحول بنا رہی تھی۔ چاند کی روشنی درختوں سے چھن کر جہاں زمین پر پڑتی برف کی چمک نظر آتی۔ ماحول بالکل کسی ڈراونے فلم کا منظر پیش کر رہا تھا۔اوپر پہنچ کر ایک چھوٹا سا پڑاؤ تھا۔ یہ پہ پہاڑ کا قدرتی کٹاؤ ہے جو مشرقی طرف کو مغربی طرف سے جوڑتا ہے۔ اسکے علاوہ آس پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس پڑاؤ تک مغربی طرف سے جہاں چلغوزے کے جنگل ہیں، اونٹوں اور گدھوں کی رسائی ہے۔ چلغوزے کی بوریاں اور لکڑیاں اس پڑاؤ تک اونٹوں کے ذریعے لائی جاتی ہیں اور یہاں سے آگے مشرق کی طرف انسان ڈھوتے ہیں کوئی جانور یہاں سے آگے نہیں جاسکتا۔ اسکے بعد ہم مغرب کی طرف اترتے چلے گئے۔ اگرچہ اترتے وقت ہماری رفتار تیز تھی اور سانس بھی نہیں پھول رہا تھا لیکن مجھے بہت برا لگ رہا تھا۔ کیونکہ جتنا بھی ہم نیچے جاتے اتنا مزید ہمیں دوبارہ اوپر چڑھنا تھا۔ اور پھر اترتے اترتے ہم دوبارہ تین ہزار میٹر کی لیول پر آگئے۔ پہاڑ کے اس طرف برف زیادہ تھی اور ہوا چل رہی تھی۔ ٹھنڈ البتہ دگنی ہوگئی تھی۔ چھ بج چکے تھے اور ہم صبح کی نماز کیلئے کوئی جگہ ڈھونڈ رہے تھے جہاں برف نہ ہو۔ اور پھر ایک درخت کے نیچے ہمیں جگہ مل گئی۔ یہاں رک کر ہم نے صبح کی نماز پڑھی اور پھر آگے چل دئیے۔ تھوڑا آگے جاکر جب پینے کیلئے پانی کی بوتل کھولی تو منہ میں برف کے ٹکڑے آگئے۔ درجہ حرارت صفر سے کافی نیچے تھا۔
راستے میں ایک بہت بڑا اور پرانا دیار کا درخت تھا جو اوپر سے اگرچہ ٹوٹ چکا تھا لیکن پھر بھی یہاں موجود درختوں میں سب سے بلند تھا۔ غالبا یہ اس جنگل کا سب سے ہرانا زندہ درخت ہے۔ اسکے تنے کا قطر لگ بھگ ڈیڑھ میٹر کے قریب تھا۔ روزی جان نے بتایا کہ یہ حاجی دیار(حاجی نشتر) ہے۔ جب تفصیلات پوچھیں تو اس نے بتایا کہ پرانے زمانے میں کوئی شخص حج کرکے آیا اور اس درخت کو گلے لگایا۔ اب اسکی تاثیر ہے کہ اسکی چھال دوسرے درختوں سے مختلف ہے۔ اسکا ذائقہ میٹھا ہے اور چبانے سے منہ میں جیلی کی طرح کی چیز نہیں بنتی جو دوسرے درختوں کی چھال چبانے سے بنتی ہے۔ اسکی چھال میں شفا ہے۔ لوگ اسکی چھال کلہاڑی سے کاٹ کر مریضوں کو دیتے ہیں جس سے انہیں شفا ملتی ہے۔ میں نے بھی چھال کاٹ کر کھائی۔ اگرچہ میٹھی تو نہیں تھی البتہ دوسرے درختوں کی چھال کے مقابلے میں خشک ضرور تھی۔ اسکی وجہ اسکے تنے کی غیر معمولی موٹائی تھی شاید۔ لوگوں کا عقیدہ ہے تو ممکن ہے شفا ملتی ہو لیکن اس عقیدے کی بنیادی وجہ حاجی کی جھپی سے زیادہ یہاں کے لوگوں کی غربت اور بنیادی صحت کی سہولیات تک عدم رسائی ہے۔ علاقے میں کوئی خاطر خواہ ہسپتال یا ڈسپنسری نہیں ہے۔ شہر لے جانے کیلئے لوگوں کے پاس کرائے تک کے پیسے نہیں ہوتے علاج و معالجے کا خرچہ تو بعد کی بات ہے۔ ایسے میں جب گھر میں کوئی بیمار پڑجائے تو تسلی کے علاوہ علاج کیلئے کچھ نہ کچھ دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل انکے آبا واجداد میں سے کسی سمجھدار شخص نے حاجی والے دیار کی چھال متعارف کرواکر پیش کیا جو ابھی تک قائم ہے۔ اس علاقے میں شاید کوئی ایسا شخص ہو جو اپنے مریض کا علاج بروقت اپنے پیسے سے کروا سکتا ہو۔ علاقہ مکینوں کے بقول اگر کوئی اچانک بیمار پڑجائے تو بسا اوقات پیسوں کا بندوبست کرنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ یا تو مریض گزر جاتا ہے یا مرض ایسے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے کہ علاج کا قرض اتارتے اتارتے سالوں گزر جاتے ہیں۔
تھوڑا آگے جانے بعد ایک جگہ بے شمار لکڑی کی کیلیں زمین میں ٹھوکی ہوئی تھیں۔ان کیلوں کی ساخت ایسی نہیں تھی کہ ان سے جانور باندھے جاسکیں اور یہ کیلیں گروپوں کی شکل میں ٹھوکی گئی تھیں۔ اپنے فطری تجسس سے مجبور ہوکر گائیڈ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ جگہ متبرک سمجھی جاتی ہے اور یہاں جو بھی جتنی کیلیں ٹھوکتا ہے اتنے بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا یہ مقامی لوگ بیٹے یہیں بیٹھ کر ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ میں نے رک کر کیلوں کا جائزہ لیا۔ کچھ ہوگوں نے تو آٹھ دس بیٹوں پر اکتفا کیا تھا لیکن کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے تھے۔ کچھ نے سولہ سولہ اور بائیس بائیس بائیس کیلیں ٹھوک دیں۔ شاید یہ وہ لوگ تھے جو نسلوں سے افرادی قوت کی کمی کا شکار تھے۔ اس علاقے میں افرادی قوت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ لوگ لکڑیاں کاٹ کر، کھیتی باڑی کرکے یا گلہ بانی سے زندگی کی گاڑی دھکیلتے ہیں۔ زیادہ بیٹے ہونے کا مطلب افرادی قوت میں خود کفالت ہے۔ تعلیم کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔ اور اگر ہوبھی تو غربت اور بھوک کے عفریت سے لڑتے ہوئے تعلیم کی عیاشی ان لوگوں کے دسترس سے باہر ہے۔ بچہ اگر سکول جائیگا تو بکریاں کون چرائیگا؟ اگر بکریاں نہیں چرائیں گے تو انکا چارہ کہاں سے آئے گا؟ اور اگر بھیڑ بکریاں نہیں پالیں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ پھر گرمیوں میں یہ لوگ اوپر پہاڑ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں تو سکول کیسے جائیں؟ یہ چند وجوہات ہیں کہ یہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہروں کی طرف نقل مکانی کرکے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں اور ایک کثیر تعداد تعلیم سے بالکل محروم ہے۔ پینے کا پانی بھرنا خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ مرد کو زندگی کی گاڑی گھسیٹنے سے فرصت ہی نہیں۔ بقول امداد اللہ کے “ہمارے لوگ عورتوں سے جتنی مشقت کرواتے ہیں مجھے لگتا ہے ان کی حق تلفی کی وجہ سے ہماری قیامت کے دن بخشش نہیں ہوگی۔ ہم انکی بساط سے زیادہ کام لیتے ہیں ان سے”
تقریباً سوا گھنٹہ چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں کچھ گھروندے بنے ہوئے تھے۔ اس میدان کو کِکرئی کہتے ہیں۔ یہ تخت سلیمان کے بالکل نیچے مغرب کی طرف ہے اور مشرق کی طرف تا حد نگاہ پھیلا ہوا چلغوزے کا جنگل ہے۔یہاں ہم ایک گھنٹہ یا اس سے کچھ زیادہ رکے اور آگ جلا کر چائے بنائی اور خود کو گرم کیا۔ اس میدان میں جیسی ہوائیں چل رہی تھیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گرمیوں میں یہ ایک بہترین جگہ ہوگی۔ یہاں جنگل سے ٹوڑے گئے چلغوزے کے پھول اکٹھے کئے جاتے ہیں اور انکی صفائی ہوتی ہے۔ چلغوزے کے درخت پر مئی کے مہینے میں پھول لگتے ہیں جو اگلے سال ستمبر میں یعنی تقریباً سولہ مہینے بعد تیار ہوتے ہیں۔ ستمبر میں کون توڑے جاتے ہیں اور توڑنے کے بعد انکی ڈھیر یوں بناکر ایک سے ڈیڑھ ماہ کیلئے گھاس پھوس میں دبادیا جاتا ہے۔ اسکے بعد نکال کر دھوپ میں بکھیر دیتے ہیں۔ جب اچھی طرح سے خشک ہوجائیں تو پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر کر لکڑی سے کوٹا جاتا ہے جس سے کون کھل جاتے ہیں اور چلغوزے نکل آتے ہیں اگر پھر بھی کچ بچ گئے ہوں تو وہ عورتیں اور بچے ہاتھوں سے نکال لیتے ہیں۔ خالی کون آگ جلانے کے کام آتا ہے۔ چلغوزے کی قیمت اور معیار ناپنے کا ذریعہ اسکی جسامت ہے۔ ایک کلو میں دو ہزار سے بائیس سو چلغوزے کے دانے اگر نکلتے ہیں تو یہ بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۸ میں مقامی لوگوں نے اوسطاً دو ہزار روپے کلو کے حساب سے چلغوزہ بیچا تھا جو آج کل ساڑھے تین سے چار ہزار روپے فی کلو بازار میں بکتا ہے۔
اس میدان سے تخت سلیمان تک مشرق کی طرف چھائی ہے جسکا اوسط زاویہ لگ بھگ ۴۵ درجے ہوگا۔ جہاں تک ڈھلان ہے وہاں تک پہنچنے کے بعد پہاڑ پھر ایک سیدھی دیوار کی مانند ہے۔ اسلئے دائیں طرف مڑ کر اور گول چکر کاٹ کر پھر اوپر چڑھنے کا راستہ ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو لگ بھگ پچاس میٹر ہوگا انتہائی خطرناک ہے۔ یہ ۶۰ درجے زاویے کا ایک پتھر ہے اور اسے اوپر کوئی راستہ نہیں۔ پتھر کھردرا ہے جیسے کچھی زمین پر پانی کے قطرے ٹپکنے سے ننھے ننھے گڑھے بنتے ہیں بالکل ویسے گڑھے بنے ہوئے ہیں۔ گاڑھے آدھ سینٹی میٹر قطر کے ہیں اور گہرائی چند ملی میٹر لیکن ان کا کھردرا پن اس ڈھلان کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ اگر احتیاط سے چلیں تو پھسلے بغیر گزر سکتے ہیں۔ تاہم یہاں پھسلنے کا مطلب یقینی موت ہے کیونکہ نیچے گہری کھائی ہے۔ اسکے آخری سرے پر کھردرا پن ختم ہوجاتا ہے۔ پاؤں رکھنے کیلئے یہاں ایک سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر قدمچے بنے ہوئے ہیں جن پر پاؤں رکھ کر گزرا جاسکتا ہے۔ ان قسمتوں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اتنے سخت پتھر پر یہ قدمچے کب اور کس نے بنائے۔ اس ڈھلان سے گزرنے کے بعد چڑھائی ضرور ہے لیکن محفوظ۔ پہاڑ کے پیچھے گھوم کر جب اوپر چڑھتے ہیں تو دائیں طرف ایک قدرتی سرنگ ہے۔ اسکے ساتھ بھی ایک عقیدہ جڑا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرنگ میں سے پتھر پھینک کر گزارا جا سکے تو بیٹھا پیدا ہوگا ورنہ بیٹی۔ ہم نے کیے بعد دیگرے آٹھ پتھر پھینکے لیکن کوئی بھی پتھر پار نہ جاسکا۔ سرنگ کے دہانے سے لیکر اوپر تک دیار کے درخت ہیں جو مشرق کی طرف یعنی مزار کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ انکے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زیارت کی طرف سرنگوں ہوئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بظاہر لگتا بھی یہی ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے اسکی دو وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ایک تو ان درختوں کو سورج کی روشنی مشرق کی طرف سے ملتی ہے۔ چونکہ تمام ہرے درختوں میں مثبت فوٹو ٹراپزم (ضیارخی) پائی جاتی ہے اسلئے ممکن ہے روشنی کی طرف انکا جھکاؤ ہو۔ دوسری اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر ہوا کا رخ مغرب سے مشرق کی طرف ہوتا ہے اور یہ رخت درہ نما مقام پر واقع ہیں اور ہوا کے مسلسل تھپیڑوں سے یہ مشرق کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ درختوں سے گزر کر زمانے ایک قبر نظر آتی ہے۔ اس قبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قیس عبدالرشید کی قبر ہے جو پٹھانوں کے جد امجد تصور کئے جاتے ہیں۔ تاہم اسکے بارے میں کوئی مستند شہادت نہیں ہے۔ اوپر تیز انتہائی ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ درجہ حرارت دسمبر میں نقطہ انجماد سے نیچے تھا۔ قبر سے گزر کر دائیں طرف ایک کمرہ بنا ہوا ہے جو تقریباً چودہ فٹ چوڑا اور لگ بھگ اٹھا رہ فٹ لمبا ہے۔ یہ سیاحوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ چوٹی کے بالکل آخری کنارے سے مشرق کی طرف نیچے جھانکنے پر بارہ فٹ نیچے ایک چوکور پتھر کا تخت ہے۔ یہ ساڑے تین سے چار فٹ چوڑا اور تقریباً پانچ فٹ لمبا ہے۔ یہ وہ تخت ہے جسکی وجہ سے اس چوٹی کو تخت سلیمان کہا جاتا ہے۔ اس چوٹی کی بلندی ۳۴۸۷ میٹر ہے اور کوہ سلیمان کی سب سے اونچے چوٹی سمجھی جاتی ہے۔تاہم اسکے ساتھ شمال کی طرف جو چوٹی ہے وہ اس سے کم از کم پچاس میٹر زیادہ بلند ہے۔ لیکن وہاں ایسی کوئی قابل دید چیز نہیں ہے جسے دیکھنے سیاح جائیں اسلئے لوگ یہیں تک ہی کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں تک پہنچ کر تخت تک نہ اترنا ممکن نہیں تھا۔ اسلئے رسی لگا کر تخت پر پہنچا اور شکرانے کے نوافل پڑھ کر واپس اوپر آگیا۔ تخت کے نیچے ہزاروں فٹ گہرائی ہے۔ اور دائیں بائیں نکلنے کا نتیجہ سوائے موت کے کچھ نہیں۔ ساڑھے دس سے گیارہ بجے تک ہم اوپر رہے اور پھر واپسی کا سفر شروع کیا۔ شام سات بجے کے قریب ہم واپس لنڈئی گاوں پہنچے۔ سفر کے آخری تین گھنٹے مشکل ترین تھے۔ مسلسل پندرہ گھنٹے چلنے کی وجہ سے گھٹنے جسم کا وزن مشکل سے اٹھا پار ہے تھے۔ رات آٹھ بجے عبداللہ کے حجرے میں کھانا کھایا اور پھر چائے پی کر نو بجے وہاں نکل آئے۔ رات گیارہ بجے اپنے گھر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں