منگل، 1 جنوری، 2019

پہاڑوں کی باتیں


۱۱ دسمبر کو پہاڑوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جتا ہے۔ تو آج پہاڑوں کی باتیں کرتے ہیں۔
پہاڑوں کی زمین پر کیا اہمیت ہے یہ جاننے کیلئے کسی ماہر اضیات (Geologist) سے رابطہ کرلیں کیونکہ میری اس میدان میں کوئی مہارت نہیں۔ ہاں مجھ سے البتہ یہ پوچھ لیں کہ پہاڑ قریب سے کیسے لگتے ہیں اور پہاڑوں پر جاکر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں کہ میں پہاڑوں کے عشق میں کب اور کیسے مبتلا ہوا تو مجھے وہ لمحہ یاد نہیں ہاں البتہ کچھ واقعات یاد ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ پہاڑ مجھے راس آتے ہیں۔ پہاڑوں میں میری دعائیں تو دعائیں دل میں پیدا ہونے والی خواہشیں تک فورا پوری ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے دوستوں کے ساتھ ایک ٹور مکمل کرکے سکردو سے واپس گلگت لوٹ رہے تھے جہاں ایک دن رک کر گھر جانا تھا۔ میری حالت بہت خراب تھی۔ میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ ابھی میں پہاڑوں میں رہنا چاہتا تھا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ایسی کوئی ترکیب ہو کہ میں کچھ دن رہ لوں اور لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ چند کلو میٹر آگے جاکر استک نالے تک پہنچے تو پتا چلا اٹھارہ جگہوں پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے اور ہم ادھر ہی کچھ دن پھنس گئے ہیں۔ وہ دن اور راتیں زندگی کے حسین ترین دنوں میں آتے ہیں۔
پہاڑوں پر دعائیں کیوں قبول ہوتی ہیں اسکی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ پہاڑوں کے قریب جاکر آپ کو احساس ہوتا ہے اللہ کتنا بڑا ہے اور ہم کتنے حقیر ہیں۔ وہ جو ایک غرور کی چادر ہوتی ہے وہ اتر جاتی ہے۔ عاجزی اور انکساری انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور انکساری میں کی گئی دعا کبھی رد ہو ہی نہیں سکتی۔
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ پہاڑوں پر کیوں جاتے ہیں؟ میں ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔
پہاڑ قریب سے کیسے لگتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہاڑ قریب سے اور بھی زیادہ خوبصورت لگتے ہیں۔
ان کی بات ٹھیک ہے اپنی جگہ۔پہاڑوں پر کیا ہوتا ہے؟ بھوک پیاس شدید تھکاوٹ تنہائی خاموشی زندگی کو ہر لمحہ لا حق خطرات مثلاً پہاڑ سے گرنا، راستہ بھٹک جانا، کسی گلیشئیر کے کروس میں گرنا کسی جنگلی جانور کا شکار ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے پہاڑوں کی یہی چیزیں سب سے زیادہ پسند ہیں۔ یہ اگرچہ بے وقوفانہ سی بات لگتی ہے کہ انسان وقت اور ہیسے خرچ کرکے زندگی کو خطرے میں ڈالے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم روزمرہ زندگی میں کم خطرات کا سامنا کرتے ہیں؟
سڑک پر گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہونا، کسی گاڑی کی زد میں آجانا، بجلی کا کرنٹ لگ جانا، کمرے کی چھت یا دیوار کے نیچے دب جانا کچن میں گیس سیلنڈر کا پھٹنا ایسے سیکڑوں خطرات ہیں جو روزمرہ زندگی میں بھی ہر وقت لاحق رہتے ہیں۔ دونوں میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ دفتر سے گھر زندہ پہنچ کر آپ کو وہ خوشی کبھی محسوس نہیں ہوتی جو کسی مشکل چوٹی کے سرے پر زندہ سلامت پہنچنے سےہوتی ہے۔ چڑھائی چڑھتے یا اترتے ہوئے ہر ہر قدم ایک کامیابی ہوتی ہے اور ہر ہر قدم پر جو خوشی ملتی ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ ہزاروں سال انسان قدرت سے لڑتا ہوا اس مقام تک کامیابی سےپہنچا ہے۔ وہ انسان اندر کہیں نہ کہیں ہمارے اندر چھپا ہوا ہے۔ وہ اتنی آسائشوں سے گھبرا جاتا ہے اور پیچھے کی طرف لوٹنے کیلئے بے چین رہتا ہے۔ جب وہ ان خطرات اور تکالیف سے مد مقابل ہوتا ہے تو اسے ایک سرور ملتا ہے اور کچھ دنوں یا مہینوں کیلئے وہ مطمئن ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہاڑوں کی محبت جان لیوا ہے اور بہت سے کوہنورد پہاڑوں کو پیارے ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں کونسی محبت ہے جو خطروں سے خالی ہے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...