جمعہ، 11 جنوری، 2019

بڑے بھائی


آج فیس بک نے بتایا کہ بڑے بھائی ڈاکٹر ظفراللہ خان مروت کیساتھ فیس بک پر دوستی کے پانچ سال مکمل ہوگئے ہیں۔
فیس بک کی یہ یاد دہانی مجھے کئی دہائیاں پیچھے ماضی میں لے گئی۔ بڑے بھائی کیساتھ محبت اور میرے ساتھ انکی محبت کی اتنی یادداشتیں ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھ جاؤں تو دوستوں کا پھر وہی ایک گلہ ہوگا کہ بہت لمبی تحریںُ لکھتا ہوں اور پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسلئے اگر یہ تحریر طویل لگے تو یہ سوچ لیجئے گا کہ یہ صرف خلاصہ ہے اور شکر ادا کریں کہ پوری داستان نہیں لکھی۔
جو سب سے پرانی بات مجھے یاد ہے وہ یہ کہ بڑے بھائی کے پاس ایک بلبل تھا۔ دیہاتوں میں بلبل پکڑ کر اسکی کمر میں دھاگہ باندھا جاتا ہے پھر ایک ٹہنی پر بٹھایا جاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد بلبل اسی ٹہنی کے پیچھے اڑنے لگتا ہے۔ میں نے بلبل مانگا تو انہوں نے ڈانٹ دیا۔ ایک دن انہوں نے بلبل مجھے دیا کہ گھر لے جاؤ۔ راستے میں بلبل کو اڑاتا ہوا لے جا رہا تھا تو تو ٹہنی پر نہیں بیٹھ رہا تھا غالبا میں نے اسے تھکا دیا تھا۔ جب پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کی تو اسکی دم میرے ہاتھ میں رہ گئی۔ میں نے بلبل لاکر حسب ہدایت گھر میں رکھ دیا۔ جب بھائی گھر آئے تو بلبل کی دم دیکھ کر مجھے آواز دی اور پوچھا اسکی دم کہاں گئی؟ میں نے معصومیت سے کہا پتا نہیں بلی کھا گئی ہوگی میں نے تو دم کیساتھ ہی رکھا تھا اسے۔ اچھا جھوٹ بھی بولتے ہو؟ اور اسکے بعد فری سٹائل کک باکسنگ کا ایک پورا میچ ہوا جس میں ریفری کوئی نہیں تھا اسلئے فاتح اور مفتوح کا فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا البتہ ضارب اور مضروب کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیر ہندی میں کہا جاتا ہے کہ انت بھلا سو بھلا اسلئے میں خود کو فاتح تصور کرتا ہوں کیونکہ تھوڑی دیر بعد بھائی نے بلبل لا کے دیا اور کہا اس دم کٹے بلبل کو اب خود ہی رکھو۔
مار پیٹ گویا ایک معمول تھا۔ آغاز صبح سویرے ہوتا تھا جب میں نماز کیلئے نہیں اٹھتا تھا تو عموماً نیند میں ہی مارپیٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ اسکے بعد قرآن مجید پڑھاتے تھے اور زبر زیر پیش کی ہر غلطی کیساتھ ہی ایک مار پیٹ کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اچھی بات یہ ہوتی تھی کہ ہر مار پیٹ کے بعد کچھ نہ بدلے میں مل جاتا جسکی وجہ سے زخم مندمل ہوجاتے تھے۔ محبت کا یہ سفر چلتا رہا۔ مار اتنی زیادہ نہیں پڑتی تھی بس کبھی شرارت کرنے پر تو کبھی انگریزی، حساب، اردو، کیمسٹری، بیالوجی اور فزکس کا سبق لیتے ہوئے مارپیٹ ہوجاتی تھی۔ اگر تناسب دیکھا جائے تو مارپیٹ کا دورانیہ پڑھائی کے مجموعی دورانیے کا صرف۹۰ فیصد ہی ہوگا۔ اسی مارپیٹ کا نتیجہ تھا کہ کیمسٹری جو کہ بھائی کا پسندیدہ مضمون تھا اور بعد میں اسی مضمون میں ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کیا مجھے ایسی ازبرہوگئی کہ آج بھی پیریاڈک ٹیبل مجھے زبانی یاد ہے۔ اسکی تمام شریف اور شرارتی گیسوں کا علم آج بھی محفوظ ہے۔ ٹرانزیشنل عناصر سے لیکر تابکار عناصر اب بھی میں آنکھیں بند کرکے بتا سکتا ہوں۔ کونسے عناصر کوویلنٹ بانڈ بناتے ہیں اور کونسے آئیانک، اب بھی بتا سکتا ہوں۔ کس عنصر کا اٹامک نمبر اور اٹامک ماس کیا ہے آج تک یاد ہے۔
میٹرک میں میں نے بیالوجی کی بجائے کمپیوٹر سائنس کا انتخاب کیا۔ ایک وجہ تو کمپیوٹر سے لگاؤ تو دوسری وجہ یہ تھی کہ بھائی کمپیوٹر نہیں پڑھا سکیں گے تو مارپیٹ کا ایک بہانہ کم ہوجائیگا۔ ایک دن جب میں کمپیوٹر کی نصابی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ بھائی نے دیکھ لیا۔ لگے ہاتھوں والد صاحب سے شکایت کی کہ یہ تو کمپیوٹر پڑھ رہا ہے۔ میں ذہنی طور پر والد صاحب کی مارپیٹ کیلئے تیار ہوگیا لیکن والد صاحب نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔ کہنے لگے اچھی بات ہے اب کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ میں خوشی سے سرشار ہوگیا لیکن افسوس خوشیاں بچپن میں کبھی راس نہیں آئیں۔ بھائی نے کہا کہ پھر تو یہ آگے جاکر کمپیوٹر یا انجنئیرنگ کی طرف جائیگا ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ بس یہ سننا تھا کہ والد صاحب عقاب کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے اور کمپیوٹر کی کتاب میرے ہاتھ سے چھین کر اسی کو بطور آلہ تشدد استعمال کرکے زدوکوب کرنا شروع کیا۔ دست درازی اور دست اندازی کے بعد جب ان کا سانس پھول گیا تو رک گئے اور حکم صادر کیا کہ ابھی ابھی بیالوجی کی کتاب اٹھاؤ اور کل سے بیالوجی کی کلاس میں بیٹھنا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا اگلے دن میں بیالوجی کی کلاس میں بیٹھا جہاں اعجاز قریشی صاحب براسیکا کمپسٹرس کے پتے کی ساخت اور اس میں موجود ایپی ڈرمل اور ایپی تھیلیل ٹشوز پڑھا رہے تھے۔ براسیکا کمپسٹرس سے یہ تعارف اتنا خوفناک تھا کہ آج تک سرسوں کا ساگ کھاتا ہوں تو مجھے ہر نوالے میں ایپی ڈرمل اور ایپی ٹھیلیل ٹشوز کا ذائقہ واضح محسوس ہوتا ہے۔ اسی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو بھی بننا پڑا بن جاؤں گا لیکن ڈاکٹر نہی بنوں گا۔ ضد اور بغاوت والد صاحب سے ورثے میں ملی ہے لہذا وہی ہوا۔ ایف ایس سی کے بعد میں نے بی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ یہ میری زندگی کی ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔ اب بھائی کچھ نہیں پڑھا سکتے تھے اور میں آزاد ہوگیا۔ اس آزادی کا نتیجہ تھا کہ کلاس میں پہلی دوسری پوزیشن اور بورڈ میں ٹاپ ٹین پوزیشن لیتے رہنے کے بعد بی بی اے پہلی ٹرم میں ۴۵ کی کلاس میں ۲۹ نمبر پر آگیا۔ مجھ سے پیچھے وہی لوگ تھے جنہوں نے اکاونٹنگ کا پرچہ نہیں دیا تھا اور وہ لوگ فیل تھے۔ بمشکل فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوسکا تھا۔ میں ایم بی اے سیکنڈ ٹرم میں پڑھ رہا تھا اور بھائی کسی ٹیسٹ کے سلسلے میں اسلام آباد گئے تھے وہیں کوئی اشتہار دیکھا کہ ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ اکاؤنٹس آفیسر کی چند آسامیاں خالی ہیں۔ ایک آسامی صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کی تھی اور تین پنجاب کی۔ ایک ہزار روپے کا بینک میں جمع شدہ چالان اور درخواست فارم بمعہ اشتہار دیکر کہا کہ اپنے کاغذات یہاں بھیج دو۔ میں نے کہا ایک سیٹ ہے اور آپ نے ہزار روپے ضائع کئے؟ (اس زمانے میں وہ زام پبلک سکول ٹانک میں چار ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہے تھے)۔ یہ تو ایک ہفتے کی تنخواہ ہے آپکی۔ بھائی نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا اگر سو سیٹیں ہوں گی تمہیں پھر بھی ایک ہی ملنی ہے سو کے سو پہ تمہیں بھرتی نہیں کریں گے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ٹیسٹ کا تجربہ تو ہو ہی جائیگا تم بس کاغذات بھیج دو بحث نہ کرو۔ بھائی کے حکم سے سرتابی ممکن ہی نہیں تھی کیونکہ ہر سرتابی کا ذاتی تجربہ جسم کے کسی نہ کسی حصے پر نقش تھا۔ حکم کی تعمیل کی اور پھر اسی ایک نشست پر میں بھرتی بھی ہوگیا۔ (دوسال بعد استعفٰی دے دیا تھا)
دو واقعات اور سنانا چاہوں گا جن سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انکی محبت کی حد کیا ہے۔
ایک دفعہ خود سے بہت بڑے لڑکے کیساتھ الجھ پڑا اس نے میرے منہ پہ مکہ مارا اور شاید اس نے انگوٹھی پہنی ہوئی تھی تو آنکھ کے نیچے کٹ لگ گیا۔ خون میں لت پت گھر آیا تو بھائی نے جیسے دیکھا فوراً اٹھے اور کہا کس نے مارا آؤ مجھے بتاؤ۔ گھر سے نکلے تو وہ لڑکا کافی دور جا چکا تھا لیکن میں نے بتا دیا کہ اس نے مارا ہے۔ اس دن سے بھائی نے معمول بنا لیا کہ صبح اسکے دروازے پر جاتے دروازہ بجا کر اسکا پوچھتے وہ نہ نکلتا۔ یونیورسٹی سے واپس آکر پھر اسکے گھر چکر لگاتے۔ ایک دن یونیورسٹی سے گھر آئے تو سفید کپڑے خون سے لت پت۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے کیا ہوا ہے۔ بھائی نے سب کو تسلی دی اور کہا کہ وہ لڑکا آج مل گیا اسکے سر پر اینٹیں ماری اور یہ خون اسی کا ہے۔ جتنا خون میرے بھائی کا نکالا تھا اس سے زیادہ اسکا نکال لیا۔
یونیورسٹی کے دنوں میں میں نے سیگریٹ نوشی شروع کردی تھی لیکن گھر میں والدہ کے سوا کسی کو پتا نہیں تھا۔ ایک دن حجرے میں سو رہا تھا اور جب اٹھا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو سیگریٹ کی ڈبی نہیں تھی۔ میرے تو اوسان خطا ہوگئے کہ چوری پکڑی گئی ہے اور والد صاحب کو پتا چل گیا ہوگا اور اسکے بعد جو میرے ساتھ ہونے والا تھا اسکا تصور ہی جان لیوا تھا۔ گھر گیا تو والدہ سے ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھائی نے اٹھا لی تھی تمہارے ساتھ بستر پر پڑی تھی اور اپنے کمرے میں رکھی ہے مجھے بتایا کہ اٹھا لے وہاں سے۔ بھائی نے اسلئے اٹھائی تھی کہ ابو کی نظر نہ پڑے۔ لیکن مجھ سے بھائی نے آج تک اس کا ذکر نہیں کیا۔ احترام کا رشتہ کچھ ایسا ہے کہ سترہ سال تک میں تمباکو نوشی کرتا رہا لیکن آج تک بھائی کے سامنے کبھی سیگریٹ نہیں پی اور نہ کبھی انہوں جتلایا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ وہ جوتے یا واسکٹ اپنے لئے بنواتے اور جب پہن لیتے اور میں تعریف کردیتا تو وہ اتار کر مجھے دیتے کہ یہ تم رکھ لو مجھے اچھا نہیں لگا۔ جیب خرچ کے بارے میں کبھی یہ سوال نہیں پوچھا کہ تمہارے پاس پیسے ہیں یا چاہئیں بلکہ چپ چاپ دے دیتے۔ اگر میں کہتا کہ میرے پاس پیسے ہیں وہ کہہ دیتے کہ پھر بھی لے لو۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں والدین کیساتھ ساتھ بھائی کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ انکی مار پیٹ سے اگر میرے کس بل نہ نکلتے تو شاید میں کہیں اور ہوتا۔ میرے اندر اگر کچھ سلجھاو نظر آتا ہے کسی کو تو یہ انکی محبت بھری مار پیٹ کا نتیجہ ہے اور اگر کہیں کوئی کجی اور کمی نظر آجائے تو سمجھ لیں کہ بھائی کی نظر نہیں پڑی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...