کل رات چند مشکل ترین راتوں میں سے ایک تھی۔ شام کے وقت ساہیوال سانحے کاسوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا۔ ابتداء میں تو توجہ نہیں دی کیونکہ بدقسمتی سے کسی کا قتل ہوجانا چاہے وہ قانون شکن عناصر کریں یا قانون کے رکھوالے، قانون ساز کریں یا قانون دان، کوئی بڑی خبر نہیں رہی۔ لیکن بعد میں مقتول کے بیٹے کی ایک وڈیو دیکھی جس سے کوئی میڈیا والا اپنا رزق حلال کرنے کیلئے اور اپنی اور اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے انٹرویو کر رہا تھا۔ اسکی بچے کی عمر اور اسکے آنکھوں میں آنسو جو اب بہہ بہہ کر تقریباً خشک ہوچکے تھے، دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگا۔ میرا بیٹا تقریباً اتنی ہی عمر کا ہے۔ میں سونے کیلئے آنکھیں بند کرتا تو اس بچے کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ میرے بیٹے میں تبدیل ہوجاتا۔ میں چشم تصور سے دیکھتا میرا بیٹا اپنی چھوٹی بہن کیساتھ اپنی ماں اور میری لاش کو بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے گدھ نما نمائندے اکٹھے ہوکر ان کے جذبات کو نوچ رہے تھے۔ کرید کرید کر سوال کر رہے تھے اور وہ اپنے آنسو ضبط کرکے انکو سانحے کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ میرا دم گھٹنے لگتا اور اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ میں اپنے جذبات سمجھنے سے قاصر تھا کہ مجھے غصہ آرہا ہے یا رونا۔ ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ مقتول خلیل نہیں آپ خود ہیں اور وہ بچہ آپ کا اپنا بیٹا ہے۔
میں سوچنے لگا کہ کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟ میں نے دوبارہ آنکھیں بند کیں تو خیسور سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بچے حیات خان کی فریاد سنائی دی۔ جو دہائی دے رہا تھا کہ اسکے باپ اور بھائی کو چار مہینے پہلے فوج اٹھا کر لے گئی ہے۔ اب دو سپاہی جن میں سے ایک کا نام دریا خان اور دوسرے کا نام معلوم نہیں، بغیر اجازت اسکے گھر میں گھس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحن میں چارپائی اور تکیہ رکھ دو اور بیٹھ جاتے ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ آپ فوج کے اعلیٰ افسران سے کیا اپیل کرتے ہیں؟ یہ کہ آپ کے والد اور بھائی کو چھوڑ دیا جائے؟ تو اس نے جواب دیا کہ والد اور بھائی کو نہیں چھوڑتے نہ چھوڑیں بس گھر آنا جانا بند کردیں۔ اس بچے کا درد ویسے سمجھ میں نہیں آئے گا۔ تھوڑی دیر کیلئے فرض کرلیں کہ یہ آپ کا بیٹا ہے اور گھر میں آپ کی ماں بہن اور بیٹی ہے اور ایک غیر مرد طاقت کے بل پر اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے گھر میں روزانہ گھس آتا ہے۔
تھوڑا مزید پیچھے گیا تو نقیب اللہ محسود کی معصوم بیٹیوں کی شکلیں دکھائی دیں۔ اور اسکے پس منظر میں راؤ انوار کمرہ عدالت سے قہقہے لگاتے ہوئے باہر آرہا تھا جیسے کوئی فاتح جرنیل جنگ جیتنے کے بعد فاتحانہ ہنسی ہنس رہا ہو۔
تھوڑا مزید پیچھے گیا تو ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر بکھری ہوئی لاشیں نظر آنے لگیں۔ مقتولین اور زخمیوں میں بچے بوڑھے اور عورتیں سب شامل تھے۔ چونکہ قانون اندھا تھا اسلئے وہ تمیز نہیں کرسکا۔
تھوڑا مزید پیچھے گیا تو کراچی کی سڑکوں پر ایک نوجوان کو دیکھا جو رینجر اہلکار کے سامنے گڑگڑا رہا تھا اور ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا تھا کہ گولی نہ ماریں اور پھر گولی چلی نوجوان سڑک پر پڑا رہا کوئی طبی امداد نہیں ملی وہ چلاتا رہا میں مر جاؤں گا مجھے ہسپتال لے جاو۔ لیکن قاتلوں نےاگر ہسپتال لے جانا ہوتا تو مارتے ہی کیوں؟ وہ نوجوان آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔
ذرا اور پیچھے گیا تو شدید گرمی کے موسم اور ماہ رمضان میں شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرتا ہوا ایک قافلہ نظر آیا۔ آپریشن سے پہلے انخلاء کا عمل جاری تھا۔ لوگ لاکھوں میں تھے اور گاڑیاں کم تھیں۔ قافلے پیدل چل رہے تھے۔ بچے پیاس کی شدت سے بلک رہے تھے۔ ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو سینے سے لگائے چل رہی تھی۔ وہ خود بھوکی پیاسی تھی۔ چھاتی اب سوکھ چکی تھیں۔ شیر خوار بچہ بھوک سے زیادہ پیاس سے بے حال تھا۔ اور پھر پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگیا۔ ایک چیک ہوسٹ سے گزرتے ہوئے خاتون نے اپنے بچے کی لاش سپاہیوں کے آگے پھینک دی اور کہا ایک دہشت گرد اور مر گیا مبارک ہو۔
تھوڑا مزید پیچھے گیا تو ایرانی سرحد کے قریب ایف سی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی خواتین کی سسکیاں سنائی دیں۔
یہ تمام لوگ شاید دہشتگرد تھے۔ لیکن اگر دہشتگرد نہیں تھے تو ان کے قاتلوں کا کیا ہوا؟ کہاں ہیں؟ کیا انکو انکے کئے کی سزا ملی؟
ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ جس جانور کو ذبح کرنا ہو اسکے سامنے چھری تیز نہ کریں۔ ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں۔ عید کے دن جانور ذبح کرتے ہوئے ہم بچوں کو وہاں نہیں ٹھہرنے دیتے۔ یا پھر انکی آنکھیں بند کروا دیتے ہیں۔ لیکن سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو شاید یہ آداب نہیں سکھائے گئے۔ یا شاید انکی نظر میں یہ ضابطہ صرف جانوروں کیلئے ہےاور انسان انکی نظر میں کم تر ہے۔ دیکھنا تو دور کی بات صرف سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آنکھیں نم ہوجاتی ہیں کہ تین معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں، انکا باپ انکی بڑی بہن اور ایک اور شخص کو دن دہاڑے گولیاں ماردی گئیں۔ انکے سامنے وہ سب تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ لاشوں کو خون میں لت پت دیکھا۔ اور پھر ان بچوں کو ذرائع ابلاغ نے گھیر لیا۔
اگر اب بھی کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ دہشتگرد کیسے بنتے ہیں تو جواب حاضر ہے۔ آپ کا ناروا سلوک دہشتگرد جنم دیتا ہے۔ آپ کے روئے دہشتگردی کو فروغ دیتے ہیں۔ کیونکہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی اور ظلم کی کھوکھ سے امن جنم نہیں لیتا ظلم ہی برآمد ہوتا ہے۔جب تک ظالم کو نشان عبرت نہیں بنائیں گے، چاہے وہ باوردی ہو یا بے وردی،ظلم ہوتا رہیگا اور دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں