کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے ایسی ہی سردیاں تھیں۔ میں رات گئے بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ جب تھک کر کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹا اور ٹائم دیکھا تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ میں نے سگریٹ کی ڈبی اٹھائی جس میں ایک سگریٹ باقی تھی، تاکہ آخری سیگریٹ پھونک کر پھر پڑھنے بیٹھ جاؤں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اتنے اچھے موسم میں سیگریٹ ایسے نہیں پینی چاہئے۔ ویسے بھی چائے کی طلب ہورہی تھی تو سوچا چائے بنا کر پیتا ہوں اسکے بعد بارش اور ٹھنڈ میں آخری سیگریٹ زیادہ اچھی لگے گی۔ کچن میں گیا چائے بنالی اور واپس آکر گرم چائے پینے لگا۔ ٹھنڈ اور بارش اور آدھی رات کے بعد کا وقت، ماحول بہت خوشگوار لگ رہا تھا۔ چائے پینے کے بعد ڈبی اٹھائی اور کھول کر دیکھا تو جیسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ڈبی خالی تھی۔ نہ جانے کس وقت میں نے آخری سیگریٹ پی لی تھی اور اندازہ بھی نہیں ہوا۔میں شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا۔ رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا کہ میں نے ڈبی پہلے کیوں نہ دیکھ لی۔ ایش ٹرے کو کھنگالنا شروع کیا کہ شاید کوئی ادھ جلی سیگریٹ ہی مل جائے لیکن اس میں بھی کچھ نہ ملا۔ اب میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس وقت سیگریٹ کہاں سے ملے گی۔ شہر میں سوائے چند میڈیکل سٹورز کے اور کوئی ایسی دوکان نہیں تھی جو چوبیس گھنٹے کھلی ہو۔ اور میڈیکل سٹور سے سیگریٹ ملنی نہیں تھی۔ باہر روڈ پہ کسی بس نے ہارن بجایا تو مجھے خیال آیا کہ بس اڈے سے سیگریٹ مل سکتی ہے اس وقت۔ اب دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ گاڑی کیسے نکالی جائے۔ سارے گھر والے اٹھ جاتے اور سوال جواب کرتے کہ اتنی رات گئے کہاں جانا ہے وہ بھی اتنے خراب موسم میں۔ گاڑی کا خیال رد کرکے میں نے شال اوڑھی اور بارش میں پا پیادہ ہی نکل پڑا کہ ممکن ہے سڑک پر کوئی رکشہ مل ہی جائے۔ کیچڑ میں پھسلتا پھسلتا روڈ تک پہنچا تو وہاں ایک رکشہ کھڑا تھا لیکن چلانے والا غائب تھا۔ میں نے رکشے کو بجانا شروع کیا تو کہیں سے ایک آدمی کھانستا ہوا نکل آیا جو غالباً بارش سے بچنے کیلئے کہیں چھپ کر بیٹھا تھا۔ میں نے کہا اڈے چلو۔ راستے میں بارش اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے کھاتے ہوئے اڈے پہنچےتو وہاں لوگ ایسے پھر رہے تھے جیسے دن ہو۔ میں نے سیگریٹ کی ڈبی لی لیکن تب تک طلب وہ نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔ سوچا تو پانوالہ گیٹ کے پاس کسی زمانے میں پراٹھے ملتے تھے وہاں جاکر چائے اور پراٹھے کھاتے ہیں۔ وہی رکشے والا ابھی قریب ہی کھڑا تھا میں نے پھر بلا کر کہا چلو توپانوالہ گیٹ چلتے ہیں۔ راستے میں وہ پوچھ رہا تھا کہ گاڑی نہیں ملی، آپ نے کہاں جانا ہے؟ میں نے کہا میں گاڑی کیلئے تو آیا ہی نہیں تھا اور جانا بھی کہیں نہیں بس پراٹھے کھانے ہیں۔ اس نے مجھے ہوٹل کے سامنے اتارا اور میں نے پیسے دے دئیے اور اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ وہیں کھڑا تھا شاید کسی اور سواری کا منتظر تھا۔ میں نے آواز دیکر بلایا اور اسکے لئے بھی چائے پراٹھے اور انڈے منگوائے۔ وہ پہلے تکلف برت رہا تھا پھر میرے اصرار پر ساتھ بیٹھ گیا۔ کھانے پینے سے فارغ ہوکر میں نے سیگریٹ سلگا لی اور اس کیساتھ باتیں کرنے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا صاحب ایک بات کہوں؟ میں نے کہا بولیں۔ کہنے لگا رات میں نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا تھا۔ اور آپکے آنے سے تھوڑی دیر پہلے وہاں ایک پھٹے کے نیچے بیٹھا تھا اور بھوک لگ رہی تھی۔ تو میں ویسے ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ گرم پراٹھا اور چائے ہوں اس وقت بارش میں تو کتنا مزہ آئے گا۔ پھر خود ہی خود پر ہنسی آئی کہ گھر جانے میں تو ابھی بہت وقت باقی ہے اور اس وقت چائے اور پراٹھے کہاں سے آئیں۔ پھر آپ آگئے اور اب میں سوچتا ہوں میں نے کوئی بڑی خواہش کیوں نہیں کی، یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ میں نے ہوٹل والے کو پیسے دینے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب سے سیگریٹ کی نئی ڈبی بھی نکل آئی۔ یہ ڈبی شام کو دفتر سے لوٹتے وقت لی تھی لیکن مجھے بالکل بھی یاد نہیں رہی۔
میں سوچ رہا تھا اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ سیگریٹ کی طلب تھی یا اس بندے کی خواہش کی قبولیت جو کشاں کشاں رات کے آخری پہر سردی اور بارش میں مجھے گھر سے نکال لے آئی۔
یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے ایسی ہی سردیاں تھیں۔ میں رات گئے بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ جب تھک کر کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹا اور ٹائم دیکھا تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ میں نے سگریٹ کی ڈبی اٹھائی جس میں ایک سگریٹ باقی تھی، تاکہ آخری سیگریٹ پھونک کر پھر پڑھنے بیٹھ جاؤں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اتنے اچھے موسم میں سیگریٹ ایسے نہیں پینی چاہئے۔ ویسے بھی چائے کی طلب ہورہی تھی تو سوچا چائے بنا کر پیتا ہوں اسکے بعد بارش اور ٹھنڈ میں آخری سیگریٹ زیادہ اچھی لگے گی۔ کچن میں گیا چائے بنالی اور واپس آکر گرم چائے پینے لگا۔ ٹھنڈ اور بارش اور آدھی رات کے بعد کا وقت، ماحول بہت خوشگوار لگ رہا تھا۔ چائے پینے کے بعد ڈبی اٹھائی اور کھول کر دیکھا تو جیسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ڈبی خالی تھی۔ نہ جانے کس وقت میں نے آخری سیگریٹ پی لی تھی اور اندازہ بھی نہیں ہوا۔میں شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا۔ رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا کہ میں نے ڈبی پہلے کیوں نہ دیکھ لی۔ ایش ٹرے کو کھنگالنا شروع کیا کہ شاید کوئی ادھ جلی سیگریٹ ہی مل جائے لیکن اس میں بھی کچھ نہ ملا۔ اب میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس وقت سیگریٹ کہاں سے ملے گی۔ شہر میں سوائے چند میڈیکل سٹورز کے اور کوئی ایسی دوکان نہیں تھی جو چوبیس گھنٹے کھلی ہو۔ اور میڈیکل سٹور سے سیگریٹ ملنی نہیں تھی۔ باہر روڈ پہ کسی بس نے ہارن بجایا تو مجھے خیال آیا کہ بس اڈے سے سیگریٹ مل سکتی ہے اس وقت۔ اب دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ گاڑی کیسے نکالی جائے۔ سارے گھر والے اٹھ جاتے اور سوال جواب کرتے کہ اتنی رات گئے کہاں جانا ہے وہ بھی اتنے خراب موسم میں۔ گاڑی کا خیال رد کرکے میں نے شال اوڑھی اور بارش میں پا پیادہ ہی نکل پڑا کہ ممکن ہے سڑک پر کوئی رکشہ مل ہی جائے۔ کیچڑ میں پھسلتا پھسلتا روڈ تک پہنچا تو وہاں ایک رکشہ کھڑا تھا لیکن چلانے والا غائب تھا۔ میں نے رکشے کو بجانا شروع کیا تو کہیں سے ایک آدمی کھانستا ہوا نکل آیا جو غالباً بارش سے بچنے کیلئے کہیں چھپ کر بیٹھا تھا۔ میں نے کہا اڈے چلو۔ راستے میں بارش اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے کھاتے ہوئے اڈے پہنچےتو وہاں لوگ ایسے پھر رہے تھے جیسے دن ہو۔ میں نے سیگریٹ کی ڈبی لی لیکن تب تک طلب وہ نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔ سوچا تو پانوالہ گیٹ کے پاس کسی زمانے میں پراٹھے ملتے تھے وہاں جاکر چائے اور پراٹھے کھاتے ہیں۔ وہی رکشے والا ابھی قریب ہی کھڑا تھا میں نے پھر بلا کر کہا چلو توپانوالہ گیٹ چلتے ہیں۔ راستے میں وہ پوچھ رہا تھا کہ گاڑی نہیں ملی، آپ نے کہاں جانا ہے؟ میں نے کہا میں گاڑی کیلئے تو آیا ہی نہیں تھا اور جانا بھی کہیں نہیں بس پراٹھے کھانے ہیں۔ اس نے مجھے ہوٹل کے سامنے اتارا اور میں نے پیسے دے دئیے اور اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ وہیں کھڑا تھا شاید کسی اور سواری کا منتظر تھا۔ میں نے آواز دیکر بلایا اور اسکے لئے بھی چائے پراٹھے اور انڈے منگوائے۔ وہ پہلے تکلف برت رہا تھا پھر میرے اصرار پر ساتھ بیٹھ گیا۔ کھانے پینے سے فارغ ہوکر میں نے سیگریٹ سلگا لی اور اس کیساتھ باتیں کرنے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا صاحب ایک بات کہوں؟ میں نے کہا بولیں۔ کہنے لگا رات میں نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا تھا۔ اور آپکے آنے سے تھوڑی دیر پہلے وہاں ایک پھٹے کے نیچے بیٹھا تھا اور بھوک لگ رہی تھی۔ تو میں ویسے ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ گرم پراٹھا اور چائے ہوں اس وقت بارش میں تو کتنا مزہ آئے گا۔ پھر خود ہی خود پر ہنسی آئی کہ گھر جانے میں تو ابھی بہت وقت باقی ہے اور اس وقت چائے اور پراٹھے کہاں سے آئیں۔ پھر آپ آگئے اور اب میں سوچتا ہوں میں نے کوئی بڑی خواہش کیوں نہیں کی، یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ میں نے ہوٹل والے کو پیسے دینے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب سے سیگریٹ کی نئی ڈبی بھی نکل آئی۔ یہ ڈبی شام کو دفتر سے لوٹتے وقت لی تھی لیکن مجھے بالکل بھی یاد نہیں رہی۔
میں سوچ رہا تھا اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ سیگریٹ کی طلب تھی یا اس بندے کی خواہش کی قبولیت جو کشاں کشاں رات کے آخری پہر سردی اور بارش میں مجھے گھر سے نکال لے آئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں