بنوں (بنی گل)
گیارہ سال پہلے جب مجھے نیشنل بینک مین برانچ میں تعینات کیا گیا تو زندگی میں پہلی بار بنوں گیا۔ بنوں میں ایک رواج ہے کہ دوکاندار ہو یا رکشے والا ہو جب آپ ادائیگی کرتے ہیں تو وہ پہلی بار کہتا ہے کہ جی رہنے دیں مطلب پیسے نہ دیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ نہیں لے لیں تو وہ دوبارہ کہتے ہیں کہ اگر پیسے نہیں ہیں تو رہنے دیں۔ اسکے بعد آپ کہتے ہیں کہ نہیں لے لیں تو وہ پیسے لے لیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ ایسی صورتحال میں اگر گاہک پیسے دئیے بغیر چل پڑے تو کیا ہوگا کیونکہ ایسا کبھی میرے ساتھ یا میرے سامنے کسی کیساتھ نہیں ہوا۔ لاری اڈے سے رکشے میں بیٹھ کر بینک پہنچا اور جب پیسے دینے لگا تو رکشے والے نے وہی روایتی جملہ بولا کہ رہنے دیں۔ یہ زندگی میں پہلی بار تھا اسلئے میرے لئے نئی بات تھی میں نے کہا بھائی ایسے جھوٹے تکلف کی کیا ضرورت ہے ابھی اگر میں نے کہا کہ نہیں دیتا تو پندرہ روپے کیلئے میرا گریبان پکڑو گے۔ میں جیب سے پیسے نکال رہا تھا کہ اس نے رکشہ سٹارٹ کیا اور جانے لگا۔ بڑی مشکل سے روک کر میں نے منت سماجت کرکے پیسے دئیے اور کہا کہ مذاق کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا “وریر پشتے وطن دو میژ کټیاڼان خو نہ ئی” (پشتون علاقہ ہے ہم کوئی خانہ بدوش تو نہیں)۔ مجھے وہیں سے اندازہ ہوگیا کہ یہاں رسم و رواج ذرا مختلف ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دس سال کی عمر میں گاؤں سے نکلنے کےبعد ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اسلئے مخصوص پشتون روایات اور ثقافت سے آشنائی بالکل نہیں تھی۔ یہاں کے لوگوں سے چاہے آپ پہلی بار بھی ملیں تو چند باتوں کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔ کھانے کا پوچھیں گے، ٹھنڈے گرم کا پوچھیں گے پلاؤ کھانے کا پوچھیں گے اور ٹھہرنے کیلئے ایک بار ضرور پوچھیں گے۔ یہ اس صورت میں بھی پیچھے سے آواز دیکر پوچھیں گے جب آپ گاڑی میں بیٹھ کر چل پڑیں گے چاہے آپ کو سنائی بھی نہ دے۔ بنوں کے لوگوں کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ گرم مزاج ہیں اور ان میں برداشت کا مادہ بہت کم ہے۔ میرا کئی سال کا تجربہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ لوگ نرم مزاج اور بہت دوستانہ ہیں بشرطیکہ آپ کو انکی کمزوریاں پتا ہوں۔ اگر کوئی آپ کے دفتر آئے اور آپ اچھے طریقے سے مل لیں اور چائے پانی کا پوچھ لیں اور میں صرف پوچھنے کی بات کر رہا ہوں پلانے کی نہیں، تو وہ تاحیات آپکو دوست سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی بات منوانی ہو تو نرمی اور پیار محبت سے بات کرکے آپ باآسانی مناؤ سکتے ہیں۔ لیکن اگر انکو چیلنج کرنے والے انداز میں بات کردی تو مرتا مرجائے گا بات کبھی نہیں مانے گا۔ جب تک آپ انکی انا مجروح نہیں کرتے وہ آپکے دوست ہی ہیں۔ یہاں کی سب سے خطرناک چیز گدھا گاڑی ہے۔ ہمارے ایک سینئر بینکر تھے مشتاق صاحب انہوں نے ابتدائی دنوں میں ہی مجھے خبردار کردیا تھا کہ بنوں میں اگر ایک طرف ٹرک ہو اور دوسری طرف گدھا گاڑی تو ٹرک کے نیچے آجانا لیکن گدھا گاڑی سے بچ کے چلنا۔ گدھا گاڑی والا آپکی گاڑی میں اپنی گدھا گاڑی مار کر الٹا آپکو ڈانٹنا بھی شروع کردیگا یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو گدھا ہے بے عقل جانور ہے آپ تو انسان ہیں آپ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے؟ اور گدھا گاڑی والے کا آپ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ دوکاندار جیسا کہ اوپر ذکر کیا مُروّت کا مظاہرہ تو کرتے ہیں اور مول تول سے ناراض نہیں ہوتے لیکن اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ فلانی جگہ تو یہی چیز اس سے سستی مل رہی ہے تو وہ چیز آپکے ہاتھ سے لیکر واپس رکھ دے گا اور کہہ دیگا کہ جاکر ادھر سے ہی لے لیں۔ لیکن اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ میرے پاس پیسے کم ہیں میں تو بس یہی دے سکتا ہوں تو چاہے اسکو منافع کچھ نہ بچے وہ چیز آپکو اسی قیمت پر دے دیگا۔
یہاں لوگ پلاؤ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ اوسطاً ہر پچاس گز کے فاصلے پر آپکو چاول کی دوکان یا چھابڑی مل جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں لوگ افطاری کے بعد باہر بازار میں پلاؤ کھانے نکل آتے ہیں۔ پلاؤ کے علاوہ چاول کی کھیر بھی یہاں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور بہت ساری دوکانیں اور چھابڑیاں ہیں۔ دوسری چیز جو چاول سے بھی زیادہ شوق سے کھائی جاتی ہے وہ حلوہ ہے۔ سوجی کا حلوہ، میدے کا حلوہ، دودھ کا سفید حلوہ وغیرہ یہاں شوق سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ بقول ایک دوست کے بنوں میں مٹی اور سیمنٹ کے علاوہ ہر چیز کا حلوہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں کا دلبر سوہن حلوہ اتنا مشہور ہے کہ ہر دوسری دوکان سے دلبر سوہن حلوے کی نقل مل جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے قدیمی اور ملتان کے حافظ حلوے کی طرح یہاں ہر دوسرا دوکاندار دلبر کا لیبل لگا کر اپنا حلوہ بیچتا ہے۔ یہ سوہن حلوہ ہر دوسرے سوہن حلوے سے زیادہ لذیذ ہے اور چکنائٹ کم ہونے کی وجہ سے زیادہ کھایا جاسکتا ہے۔ دن میں ایک بار محدود مقدار میں حلوہ بنتا ہے اور آرڈر پر یا پھر سفارش کرواکر ہی مل سکتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کے سوہن حلوے کے مقابلے میں دلبر سوہن حلوہ سب سے زیادہ پسند ہے۔
ایک اور چیز جو یہاں کی مشہور ہے وہ نسوار ہے۔ یہاں نسوار کی ان گنت اقسام ہیں۔ یہاں کی سرگردان نسوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پرانے سے پرانا نسوار کا عادی شخص بھی اگر سرگردان نسوار پہلی بار استعمال کرے تو اسکو چکر ضرور آتے ہیں۔ یہاں سے نسوار آس پاس کے دوسرے شہروں میں برآمد کی جاتی ہے۔ بنوں میں ناشتہ صبح سویرے ملتا ہے ساڑھے سات بجے کے بعد ناشتہ بمشکل ہی کہیں سے ملے گا۔ لوگ انتہائی سحر خیز ہیں اور اکثر دوکانیں صبح نماز کے آدھے گھنٹے بعد کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ شام کی آذان آتے ہی دوکانیں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور عشاء کی آذان سے پہلے بازار سنسان ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نمازی ہے اور آذان سنتے ہی مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔ مسجدیں کثیر تعداد میں ہیں اور نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جس زمانے میں سینما ہوتا تھا تو فلم کے دوران اگر نماز کا وقت آجاتا تو فلم روک دی جاتی لوگ باجماعت نماز پڑھتے اور پھر فلم دیکھنے لگتے۔بنوں کے لوگوں کی محبت اور مہمان نوازی کا میں سدا مقروض رہوں گا۔
گیارہ سال پہلے جب مجھے نیشنل بینک مین برانچ میں تعینات کیا گیا تو زندگی میں پہلی بار بنوں گیا۔ بنوں میں ایک رواج ہے کہ دوکاندار ہو یا رکشے والا ہو جب آپ ادائیگی کرتے ہیں تو وہ پہلی بار کہتا ہے کہ جی رہنے دیں مطلب پیسے نہ دیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ نہیں لے لیں تو وہ دوبارہ کہتے ہیں کہ اگر پیسے نہیں ہیں تو رہنے دیں۔ اسکے بعد آپ کہتے ہیں کہ نہیں لے لیں تو وہ پیسے لے لیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ ایسی صورتحال میں اگر گاہک پیسے دئیے بغیر چل پڑے تو کیا ہوگا کیونکہ ایسا کبھی میرے ساتھ یا میرے سامنے کسی کیساتھ نہیں ہوا۔ لاری اڈے سے رکشے میں بیٹھ کر بینک پہنچا اور جب پیسے دینے لگا تو رکشے والے نے وہی روایتی جملہ بولا کہ رہنے دیں۔ یہ زندگی میں پہلی بار تھا اسلئے میرے لئے نئی بات تھی میں نے کہا بھائی ایسے جھوٹے تکلف کی کیا ضرورت ہے ابھی اگر میں نے کہا کہ نہیں دیتا تو پندرہ روپے کیلئے میرا گریبان پکڑو گے۔ میں جیب سے پیسے نکال رہا تھا کہ اس نے رکشہ سٹارٹ کیا اور جانے لگا۔ بڑی مشکل سے روک کر میں نے منت سماجت کرکے پیسے دئیے اور کہا کہ مذاق کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگا “وریر پشتے وطن دو میژ کټیاڼان خو نہ ئی” (پشتون علاقہ ہے ہم کوئی خانہ بدوش تو نہیں)۔ مجھے وہیں سے اندازہ ہوگیا کہ یہاں رسم و رواج ذرا مختلف ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دس سال کی عمر میں گاؤں سے نکلنے کےبعد ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اسلئے مخصوص پشتون روایات اور ثقافت سے آشنائی بالکل نہیں تھی۔ یہاں کے لوگوں سے چاہے آپ پہلی بار بھی ملیں تو چند باتوں کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔ کھانے کا پوچھیں گے، ٹھنڈے گرم کا پوچھیں گے پلاؤ کھانے کا پوچھیں گے اور ٹھہرنے کیلئے ایک بار ضرور پوچھیں گے۔ یہ اس صورت میں بھی پیچھے سے آواز دیکر پوچھیں گے جب آپ گاڑی میں بیٹھ کر چل پڑیں گے چاہے آپ کو سنائی بھی نہ دے۔ بنوں کے لوگوں کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ گرم مزاج ہیں اور ان میں برداشت کا مادہ بہت کم ہے۔ میرا کئی سال کا تجربہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ لوگ نرم مزاج اور بہت دوستانہ ہیں بشرطیکہ آپ کو انکی کمزوریاں پتا ہوں۔ اگر کوئی آپ کے دفتر آئے اور آپ اچھے طریقے سے مل لیں اور چائے پانی کا پوچھ لیں اور میں صرف پوچھنے کی بات کر رہا ہوں پلانے کی نہیں، تو وہ تاحیات آپکو دوست سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی بات منوانی ہو تو نرمی اور پیار محبت سے بات کرکے آپ باآسانی مناؤ سکتے ہیں۔ لیکن اگر انکو چیلنج کرنے والے انداز میں بات کردی تو مرتا مرجائے گا بات کبھی نہیں مانے گا۔ جب تک آپ انکی انا مجروح نہیں کرتے وہ آپکے دوست ہی ہیں۔ یہاں کی سب سے خطرناک چیز گدھا گاڑی ہے۔ ہمارے ایک سینئر بینکر تھے مشتاق صاحب انہوں نے ابتدائی دنوں میں ہی مجھے خبردار کردیا تھا کہ بنوں میں اگر ایک طرف ٹرک ہو اور دوسری طرف گدھا گاڑی تو ٹرک کے نیچے آجانا لیکن گدھا گاڑی سے بچ کے چلنا۔ گدھا گاڑی والا آپکی گاڑی میں اپنی گدھا گاڑی مار کر الٹا آپکو ڈانٹنا بھی شروع کردیگا یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو گدھا ہے بے عقل جانور ہے آپ تو انسان ہیں آپ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے؟ اور گدھا گاڑی والے کا آپ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ دوکاندار جیسا کہ اوپر ذکر کیا مُروّت کا مظاہرہ تو کرتے ہیں اور مول تول سے ناراض نہیں ہوتے لیکن اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ فلانی جگہ تو یہی چیز اس سے سستی مل رہی ہے تو وہ چیز آپکے ہاتھ سے لیکر واپس رکھ دے گا اور کہہ دیگا کہ جاکر ادھر سے ہی لے لیں۔ لیکن اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ میرے پاس پیسے کم ہیں میں تو بس یہی دے سکتا ہوں تو چاہے اسکو منافع کچھ نہ بچے وہ چیز آپکو اسی قیمت پر دے دیگا۔
یہاں لوگ پلاؤ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ اوسطاً ہر پچاس گز کے فاصلے پر آپکو چاول کی دوکان یا چھابڑی مل جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں لوگ افطاری کے بعد باہر بازار میں پلاؤ کھانے نکل آتے ہیں۔ پلاؤ کے علاوہ چاول کی کھیر بھی یہاں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور بہت ساری دوکانیں اور چھابڑیاں ہیں۔ دوسری چیز جو چاول سے بھی زیادہ شوق سے کھائی جاتی ہے وہ حلوہ ہے۔ سوجی کا حلوہ، میدے کا حلوہ، دودھ کا سفید حلوہ وغیرہ یہاں شوق سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ بقول ایک دوست کے بنوں میں مٹی اور سیمنٹ کے علاوہ ہر چیز کا حلوہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں کا دلبر سوہن حلوہ اتنا مشہور ہے کہ ہر دوسری دوکان سے دلبر سوہن حلوے کی نقل مل جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے قدیمی اور ملتان کے حافظ حلوے کی طرح یہاں ہر دوسرا دوکاندار دلبر کا لیبل لگا کر اپنا حلوہ بیچتا ہے۔ یہ سوہن حلوہ ہر دوسرے سوہن حلوے سے زیادہ لذیذ ہے اور چکنائٹ کم ہونے کی وجہ سے زیادہ کھایا جاسکتا ہے۔ دن میں ایک بار محدود مقدار میں حلوہ بنتا ہے اور آرڈر پر یا پھر سفارش کرواکر ہی مل سکتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کے سوہن حلوے کے مقابلے میں دلبر سوہن حلوہ سب سے زیادہ پسند ہے۔
ایک اور چیز جو یہاں کی مشہور ہے وہ نسوار ہے۔ یہاں نسوار کی ان گنت اقسام ہیں۔ یہاں کی سرگردان نسوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پرانے سے پرانا نسوار کا عادی شخص بھی اگر سرگردان نسوار پہلی بار استعمال کرے تو اسکو چکر ضرور آتے ہیں۔ یہاں سے نسوار آس پاس کے دوسرے شہروں میں برآمد کی جاتی ہے۔ بنوں میں ناشتہ صبح سویرے ملتا ہے ساڑھے سات بجے کے بعد ناشتہ بمشکل ہی کہیں سے ملے گا۔ لوگ انتہائی سحر خیز ہیں اور اکثر دوکانیں صبح نماز کے آدھے گھنٹے بعد کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ شام کی آذان آتے ہی دوکانیں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور عشاء کی آذان سے پہلے بازار سنسان ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نمازی ہے اور آذان سنتے ہی مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔ مسجدیں کثیر تعداد میں ہیں اور نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جس زمانے میں سینما ہوتا تھا تو فلم کے دوران اگر نماز کا وقت آجاتا تو فلم روک دی جاتی لوگ باجماعت نماز پڑھتے اور پھر فلم دیکھنے لگتے۔بنوں کے لوگوں کی محبت اور مہمان نوازی کا میں سدا مقروض رہوں گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں