میں ذاتی طور پر خاندانی منصوبہ بندی کا نہ صرف قائل ہوں بلکہ داعی بھی ہوں۔ ہاں البتہ یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہمارا اور حکومت کا منصوبہ ایک ہی ہو۔ منصوبے کی جزئیات میں اختلاف بہر حال ہوسکتا ہے۔ مثلاً حکومت کہتی ہے کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ ضروری ہے۔ یہاں تک میں بھی متفق ہوں تاہم میں سال بھر سے زیادہ وقفے کا قائل نہیں۔ جب میری شادی کے چوتھے سال میری تیسری بیٹی پیدا ہوئی تو ہمارے ایک دوست گوندل صاحب نے اعتراض کیا کہ بچوں میں وقفہ ہونا چاہئے۔ میں نے اس رائے کی مخالفت کردی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ انکا پہلا بچہ اب تین سال سے بڑا تھا کہنے لگے دیکھیں اب میرا بیٹا تین سال سے بڑا ہے جب دوسرا بچہ پیدا ہوگا تو اسکی مناسب دیکھ بال ہو سکے گی۔ ماوں کیلئے بیک وقت تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ خدا کی کرنی دیکھئے کہ کچھ ماہ بعد انکے جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ میں نے کہا اب بتائیں کدھر گئی آپکی منصوبہ بندی؟ اب دونوں کے تین تین برابر ہوگئے۔ بعد میں پتا چلا کہ انکی اصل پریشانی یہ تھی کہ بچوں کو وہ بیچارے خود ہی پالتے تھے فریق دوم کی ذمہ داری پیدا کرنے تک محدود تھی۔ کم سے کم وقفہ کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ سارے بچے اکٹھے بڑے ہوجاتے ہیں۔ کپڑے اور جوتے وغیرہ کسی بھی سائز کے لے لیں کسی نہ کسی کو برابر آ ہی جاتے ہیں۔
حکومت کہتی ہے بچے دو ہی اچھے۔ میں اس سے کافی حد تک متفق ہوں۔ اور حکومت کا یہ مشورہ مانتے ہوئے زیادہ بچے پیدا کرنے کے حق میں ہوں کم سے کم دو تو اچھے نکل ہی آئیں گے۔ ہم نے تو جب بھی چار پانچ خربوزہ خریدے ہیں میٹھے ایک دو ہی نکلتے ہیں۔ اب خربوزہ پھیکا نکلے تو دوسرا خریدا جا سکتا ہے لیکن بچے اچھے نہ نکلے تو وہاں یہ سہولت میسر نہیں اس لئے صرف دو بچوں کیساتھ یہ خطرہ مول لینا کسی بھی صورت دانشمندی نہیں۔
حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آبادی بڑھنے سے مسائل بڑھتے ہیں اور غربت کی شرح بڑھتی ہے۔ اس دعوے میں بھی کوئی خاص صداقت نظر نہیں آتی۔ ہمارے یہاں بہبود آبادی کا ایک پورا محکمہ قائم ہے۔ انکے نزدیک بہبود کا واحد ذریعہ آبادی میں کمی ہے۔ بہبود آبادی کے تمام ملازمین کے دس دس بچوں کا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن خیر ان میں کچھ فرض شناس لوگ بھی ہیں۔ ہمارے ایک بہت قریبی دوست ابھی تک کنوارے ہیں۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ ماضی میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کی شادیوں میں شرکت کرنا تھا اور آج کل انکے بچوں کی شادیوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پہلے شادی کرنے کی عمر نہیں تھی اور اب عمر شادی کرنے والی نہیں رہی۔ جب کبھی ہم اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کیسے پاپولیشن آفیسر ہیں جس کی ذاتی طور پر پاپولیشن میں کوئی اعانت نہیں۔ وہ ہمیشہ منطق سے لاجواب کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں ذاتی اعانت ضروری نہیں ہوتی ہر جگہ، باپ دادا کے کام کا بھی کریڈٹ لیا جاسکتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو کئی سیاستدانوں کو دیکھ لیں ذاتی اعانت صفر ہے۔ اور دوسری توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ کوچ میدان میں نہیں کھیلتا وہ صرف کھلاڑیوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ جب کبھی ہم رد دلیل کے طور کہتے ہیں کہ کوچ کچھ کر دکھانے کیلئے ہوتا آپ کیا کرتے ہیں؟ تو فرماتے ہیں کہ بعض معاملات میں کچھ نہ کرنا بھی دراصل کرنا ہوتا ہے۔ خیر وہ فلسفی ہیں جیسے عموماً شدید قسم کے کنوارے اور بیگمات سے اکتائے ہوئے پرانے شادی حضرات ہوتے ہیں، اس لئے انہیں مات دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
انسان کی بے قدری دیکھئے کہ حکومت ایک طرف تو مرغی وہ پالنے کا مشورہ دیتے ہیں جو انڈے زیادہ دے، گائے بھینس بکری بھی وہی لینے کا مشورہ دیتے ہیں جو بچے زیادہ پیدا کرے جبکہ انسانوں کو کم بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ گویا مرغیاں اور گائے بکریاں انسانوں سے زیادہ اہم ہوگئی ہیں۔
ویسے اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو ان کے پاس اس محکمے کی وزارت کیلئے موزوں ترین امیدوار شیخ رشید ہیں۔ وزیر موصوف اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اچھے بھی لگیں گے۔
آبادی کی شرح نمو کم کرنے کی حکومتی کوشش شادی شدہ افراد کیلئے تو حوصلہ افزا ہے کہ وہ رات رات بھر گھر سے باہر رہ سکتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ آبادی کم کرنے میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ البتہ کنواروں کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ کنوارے حضرات کی یہی شکایت ہے کہ انکے پاس خاندانی منصوبہ ہے لیکن بندی نہیں لہٰذا حکومت بندی مہیا کرے تاکہ وہ خاندانی منصوبہ “بندی” کے فوائد سے بہرہ ور ہوسکیں۔
حکومت کہتی ہے بچے دو ہی اچھے۔ میں اس سے کافی حد تک متفق ہوں۔ اور حکومت کا یہ مشورہ مانتے ہوئے زیادہ بچے پیدا کرنے کے حق میں ہوں کم سے کم دو تو اچھے نکل ہی آئیں گے۔ ہم نے تو جب بھی چار پانچ خربوزہ خریدے ہیں میٹھے ایک دو ہی نکلتے ہیں۔ اب خربوزہ پھیکا نکلے تو دوسرا خریدا جا سکتا ہے لیکن بچے اچھے نہ نکلے تو وہاں یہ سہولت میسر نہیں اس لئے صرف دو بچوں کیساتھ یہ خطرہ مول لینا کسی بھی صورت دانشمندی نہیں۔
حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آبادی بڑھنے سے مسائل بڑھتے ہیں اور غربت کی شرح بڑھتی ہے۔ اس دعوے میں بھی کوئی خاص صداقت نظر نہیں آتی۔ ہمارے یہاں بہبود آبادی کا ایک پورا محکمہ قائم ہے۔ انکے نزدیک بہبود کا واحد ذریعہ آبادی میں کمی ہے۔ بہبود آبادی کے تمام ملازمین کے دس دس بچوں کا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن خیر ان میں کچھ فرض شناس لوگ بھی ہیں۔ ہمارے ایک بہت قریبی دوست ابھی تک کنوارے ہیں۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ ماضی میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کی شادیوں میں شرکت کرنا تھا اور آج کل انکے بچوں کی شادیوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پہلے شادی کرنے کی عمر نہیں تھی اور اب عمر شادی کرنے والی نہیں رہی۔ جب کبھی ہم اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کیسے پاپولیشن آفیسر ہیں جس کی ذاتی طور پر پاپولیشن میں کوئی اعانت نہیں۔ وہ ہمیشہ منطق سے لاجواب کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں ذاتی اعانت ضروری نہیں ہوتی ہر جگہ، باپ دادا کے کام کا بھی کریڈٹ لیا جاسکتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو کئی سیاستدانوں کو دیکھ لیں ذاتی اعانت صفر ہے۔ اور دوسری توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ کوچ میدان میں نہیں کھیلتا وہ صرف کھلاڑیوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ جب کبھی ہم رد دلیل کے طور کہتے ہیں کہ کوچ کچھ کر دکھانے کیلئے ہوتا آپ کیا کرتے ہیں؟ تو فرماتے ہیں کہ بعض معاملات میں کچھ نہ کرنا بھی دراصل کرنا ہوتا ہے۔ خیر وہ فلسفی ہیں جیسے عموماً شدید قسم کے کنوارے اور بیگمات سے اکتائے ہوئے پرانے شادی حضرات ہوتے ہیں، اس لئے انہیں مات دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
انسان کی بے قدری دیکھئے کہ حکومت ایک طرف تو مرغی وہ پالنے کا مشورہ دیتے ہیں جو انڈے زیادہ دے، گائے بھینس بکری بھی وہی لینے کا مشورہ دیتے ہیں جو بچے زیادہ پیدا کرے جبکہ انسانوں کو کم بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ گویا مرغیاں اور گائے بکریاں انسانوں سے زیادہ اہم ہوگئی ہیں۔
ویسے اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو ان کے پاس اس محکمے کی وزارت کیلئے موزوں ترین امیدوار شیخ رشید ہیں۔ وزیر موصوف اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اچھے بھی لگیں گے۔
آبادی کی شرح نمو کم کرنے کی حکومتی کوشش شادی شدہ افراد کیلئے تو حوصلہ افزا ہے کہ وہ رات رات بھر گھر سے باہر رہ سکتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ آبادی کم کرنے میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ البتہ کنواروں کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ کنوارے حضرات کی یہی شکایت ہے کہ انکے پاس خاندانی منصوبہ ہے لیکن بندی نہیں لہٰذا حکومت بندی مہیا کرے تاکہ وہ خاندانی منصوبہ “بندی” کے فوائد سے بہرہ ور ہوسکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں