منگل، 1 جنوری، 2019

ناصر کاظمی

سید ناصر رضا کاظمی ۸ دسمبر ۱۹۲۵ کو ہندوستان کی ریاست ہریانہ کے ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد سلطان کاظمی تھا۔ ابتدائی تعلیم انبالہ اور پھر شملہ میں حاصل کی۔ ۱۹۴۷ میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور لاہور میں رہنے لگے۔ مزید تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ آپ ایک صحافی، ریڈیو پاکستان کے سٹاف ایڈیٹر اور ایک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ وہ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے محض سولہ سال کی عمر میں ریڈیو کے سکرپٹ رائیٹر بنے لیکن انکی پہچان انکی شاعری ہے۔ ان کا شمار اردو زبان کے صف اوّل کے شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کی خاص بات انکا سادہ اسلوب، سلیس اور عام فہم زبان، چھوٹی بحر اور استعارے کا بہترین استعمال ہے۔ اردو شاعری پر ہمیشہ سے فارسی کا رنگ غالب رہا ہے۔ چونکہ شعراء زبان دان ہوتے ہیں اسلئے شاعری میں اکثر مشکل فارسی الفاظ کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلیس اور عام فہم زبان میں شاعری کی بنیاد ناصر کاظمی نے رکھی تو بے جا ہر گز نہ ہوگا۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری  زندگی  ہے  تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
چھوٹی بحر میں غزل لکھنا ایک انتہائی مشکل فن تصور کیا جاتا ہے۔ چونکہ غزل کا ہر شعر ایک مکمل مضمون ہوتا ہے اسلئے ایک جامع تخیل کو آٹھ دس لفظوں میں بیان کرنا ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔ لیکن ناصر کاظمی جس خوبصورتی سے کم سے کم لفظوں میں تخیل کو قید کرتے ہیں اردو شاعری میں انکا ثانی نہیں۔ ایک غزل پیش خدمت ہے،
دیکھ محبت کا دستور
تو مجھ سے میں تجھ سے دور
تنہا تنہا پھرتے ہیں
دل ویراں آنکھیں بے نور
دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لیے جاتا ہے دور
ہم اپنا غم بھول گئے
آج کسے دیکھا مجبور
دل کی دھڑکن کہتی ہے
آج کوئی آئے گا ضرور
کوشش لازم ہے پیارے
آگے جو اس کو منظور
سورج ڈوب چلا ناصرؔ
اور ابھی منزل ہے دور
استعارے کا بہترین استعمال ناصر کاظمی کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں،
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہین وفا ہوتی ہے
غم کے بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
گلشن فکر کی منہ بند کلی
شب مہتاب میں وا ہوتی ہے
جب نکلتی ہے نگار شب گل
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل گل سے جدا ہوتی ہے
جب کوئی غم نہیں ہوتا ناصرؔ
بیکلی دل کی سوا ہوتی ہے
انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فرصت کے لمحات میں پاک ٹی ہاؤس میں ملتے یا پھر لاہور کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے ملتے۔ ان کی شاعر میں درد، تنہائی اور ہجر کا رنگ بہت غالب ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں جو انہوں نے وفات سے کچھ دن پہلے دیا وہ کہتے ہیں کہ مجھے گھومنا پھرنا، درخت، پرندے، دریا پہاڑ بہت پسند ہیں۔ لیکن یہ سب چیزیں بہت کم وقت کیلئے میسر آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں اسلئے میں ان احساسات کو شاعری کے ذریعے دوام دیتا ہوں۔
جدید اردو شاعری کی بنیاد رکھنے والوں میں انکا نام ہمیشہ سر فہرست لکھا جائے گا۔ وہ معدے کے کینسر میں مبتلاء ہوئے اور ۲ مارچ ۱۹۷۲ کو چھیالیس سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ لیکن اپنے مختصر زندگی میں اردو غزل کو ایک نئی سمت سے روشناس کروانے میں انکا کردار ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائیگا۔ ان کی جو پیشنگوئی ابھی تک بالکل غلط ثابت ہورہی ہے وہ یہ کہ انہوں نے فرمایا تھا،
دائم آباد رہے   گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہوگا
اردو شاعری کو اب تک ناصر کاظمی جیسا دوسرا شاعر نہیں مل سکا۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
سیف اللہ خان مروت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...