کارگزاری
یہ ۲۰۰۱ کی بات ہے جب بی بی اے کا فائنل امتحان ہوگیا تو پانچ سو روپے جوکہ لائبریری کی کتابوں کی قابل واپسی زر ضمانت تھا، لینے کیلئے کاغذات مکمل کرکے گومل یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن بلاک گیا۔ کیشئر کے دفتر کی ایک چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی جہاں سے کاغذات وصول کئے جاتے اور پڑتال کے بعد رقم ادا کردی جاتی۔ میں نے جب کاغذات دئیے تو کلرک نے اشارہ کیا کہ آپ اندر آجائیں۔ میں اندر گیا تو وہ کلرک جس کے سر پر عمامہ تھا شرعی وضع قطع کا حامل تھا انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ چپڑاسی کو آواز دیکر بلایا اور پیسے دیکر کہا کہ دودھ پتی اور کیک لے آؤ۔ کسی بابو سے اور بالخصوص ایسے بابو سے جو پیسے کی لین دین پر مامور ہو اتنے اچھے سلوک کی توقع کبھی نہیں ہوتی۔ مجھے بھی خلاف توقع لگا لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ شاید پیسے لینے کا لالچ ہوگا اسلئے اتنا اچھا بن رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی اور اس نے میرے کاغذات کی پڑتال مکمل کرلی اور پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھا دیا۔ چائے کپ میں ڈالتے ہوئے وہ پوچھ رہے تھےکہ ابھی ایم بی اے کی کلاسیں شروع ہونے میں کچھ مہینے باقی ہیں تو فراغت میں کیا کرنے کے ارادے ہیں؟ میں نے کہا کوئی خاص نہیں بس آرام کروں گا۔ اس نے ایک پیالہ میرے سامنے رکھا اور چپڑاسی کو دوسرا کپ دے کر کہا کہ یہ فلاں (دفتر میں موجود دوسرے کلرک کا نام لیکر) کو دے دو اور یہ ایک کیک پیس بھی دے دو۔ اس کلرک نے وہیں سے آواز لگائی کہ صرف چائے لے آؤ امیر صاحب کا کیک مجھے ہضم نہیں ہوتا۔ ابھی پوری طرح پیٹ میں پہنچتا نہیں کہ چیخنا شروع کردیتا ہے “چار مہینے”، “چلّہ”، “سہہ روزہ”۔ ہم سب نے اسکے اس اچانک مزاح پر قہقہہ لگایا۔ پھر اس کلرک نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بیٹا آپ کیک کھا تو رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ امیر صاحب کا کیک ہے چلے چار مہینے سے کم پہ راضی نہیں ہوتا اور کچھ نہیں تو سہہ روزہ تو کہیں نہیں گیا۔ ان کی بات پر میں اور امیر صاحب دونوں ہنس دئیے۔ (مجھے نام یاد نہیں آرہا انکا)۔ وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے زندگی برف کی ڈلی ہے جو گرمی سے قطرہ قطرہ بن کر پگھلتی جاتی ہے۔ اس فراغت کو غنیمت جانو اور فارغ وقت ضائع کرنے کی بجائے اللہ کی راہ میں لگا کرقیمتی بنا لو۔ میں خاموش رہا تو مسکرا کر کہنے لگے ارادہ کرلو باقی قبولیت اللہ کی مرضی ہے اور ارادے کی بھی ایک نیکی ملتی ہے۔ میں نے فوراً کہا کہ ارادہ تو ہے۔ اس نے جزاک اللہ کہا اور میں چائے ختم کرکے وہاں سے بھاگ نکلا کہ کہیں امیر صاحب نقد سہہ روزہ ہی نہ لگوا لیں۔ انکا انداز اتنا مشفقانہ اور مخلصانہ تھا کہ انکار کی صورت نکلنی ہی نہیں تھی۔
فراغت کا ایک ماہ گزر چکا تھا اور میں اپنا ارادہ بھی بھول چکا تھا ایک دن ہمارے پڑوسی عمران بھائی نے مجھے گھر کے دروازے پر گرفتار کرلیا۔ تبلیغی جماعت والوں کے ہتھے چڑھنے کو ہم ناقابل ضمانت گرفتاری کہا کرتے تھے۔ کہنے لگے سہہ روزے کی جماعت پروفیسر کالونی جارہی ہے۔ بندے کم ہیں تم چلو میرے ساتھ ویسے بھی فارغ ہو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں ذرا بستر اٹھا لوں۔ گھر کی طرف مڑنے لگا تھا کہ عمران بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے، ایسے کئی نوجوانوں کو گھر کھا گئے ہیں ایک بار گھر گھس گئے تو شیطان کا غلبہ ہوگا اور آپ نکل نہیں پائیں گے۔ آپ میرے ساتھ موٹر سائیکل پہ شرافت سے بیٹھیں اور مرکز چلیں۔ بستر شام کے وقت میں پہنچا دوں گا پروفیسر کالونی چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی تو ہے۔ میں نے ہتھیار ڈال دئیے اور ساتھ چل پڑا۔ تبلیغی مرکز گئے اور وہاں سے جماعت جسکی امارت شاہ زمان کر رہے تھے، پروفیسر کالونی کی مسجد پہنچ گئے۔ شاہ زمان پیشے کے لحاظ سے راج مستری تھے، جوان اور انتہائی خوش مزاج انسان تھے۔ دن کے وقت کی معمولات پوری ہوئیں عصر کے وقت میں نے امیر صاحب سے فرمائش کی کہ مجھے کھانا پکانے کی خدمت پر مامور کریں لیکن وہ نہ مانے اور گشت پر لے گئے۔ گشت سے واپس آئے تو ہماری نصرت کیلئے شہر سے لوگ آئے تھے جن میں عمران بھائی بھی شامل تھے۔ وہ کینو اور سیب تو ساتھ لائے تھے لیکن بستر لانا بھول گئے۔ شام کی نماز سے پہلے ایک ساتھی نے پوچھا کہ بستر کے بغیر کیا کروگے؟ امیر صاحب نے بات سنی تو حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ بستر ساتھ نہیں لائے؟ میں نے کہا کہ نہیں وہ تو عمران بھائی نے وعدہ کیا تھا اور وہ بھول گئے ہیں۔ امیر صاحب کی ساری خوش مزاجی جاتی رہی اور بہت ناراض ہوکر کہنے لگے کہ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ سردی کا موسم ہے اور مسجد کی کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ میں نے امیر صاحب کو پہلی دفعہ غصے میں دیکھا تو انکے غصے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ میں نے کہا امیر صاحب ایک بات تو بتائیں۔ وہ متوجہ ہوئے تو میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ آپ کے گھر جب کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا بستر ساتھ لاتا ہے یا آپ دیتے ہیں بستر؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ امیر صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ میں نے اسی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھیں امیر صاحب ہم اللہ کے گھر میں اللہ کے مہمان ہیں، یہی سکھایا جاتا ہے نا؟ اور یہ محنت بھی ایمان و یقین کی محنت ہے۔ تو پھر اسباب کی بجائے اللہ بھروسہ رکھنا چاہئے ہمیں، کہ نہیں؟ میری بات نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور امیر صاحب مزید تپ گئے۔ کہنے لگے ابھی پہلا دن ہے تبلیغی جماعت میں اور تم ابھی سے مولانا عبدالوہاب بننے کی کوشش نہ کرو۔ انہیں میری عادتوں کا کچھ کچھ اندازہ ہوچکا تھا اسلئے وہ مزید کچھ کہے سنے بغیر باہر نکل گئے۔
شام کے وقت مسجد میں میٹرک کے ایک ہم جماعت ضیاء الرحمان ملے (آج کل کے ڈاکٹر ضیاء الرحمان جن کا تعلق بنوں سے ہے)۔ پوچھا ادھر کیسے؟ میں نے کہا اللہ کے راستے میں نکلا ہوں ایک امیر صاحب کا کیک پیس کھایا تھا تم کیسے یہاں؟ کہنے لگے میرا تو سامنے گھر ہے۔ پھر کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا ہمارا کھانا بن رہا ہے۔ کہنے لگے ٹھیک ہے پھر کل شام کا کھانا نہ بنانا میری طرف سے جماعت کی دعوت ہے۔ میں نے کہا امیر صاحب سے پوچھ کر جواب دے سکتا ہوں کیونکہ میں اپنی طرف سے فیصلہ نہیں کرسکتا اور امیر صاحب پہلے ہی مجھ ہر تپے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے اور کسی چیز کی کمی ہے تو بتاؤ۔ میں نے کہا میرا بستر نہیں پہنچا۔ اس نے کہا فکر نہ کرو میں بستر پہنچا دیتا ہوں۔ شام کے بیان کے بعد ضیاء الرحمان بستر اٹھائے مسجد پہنچ گئے۔ بستر بڑا شاندار تھا، نیچے بچھانے کیلئے نرم گدا، بہت خوبصورت تکیہ اور موٹی رضائی جو بالکل نئی اور بالخصوص مہمانوں والی تھی۔ امیر صاحب نے بستر دیکھا تو انکے چہرے پر بھی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ وہ شاید میری وجہ سے پریشان تھے کہ ٹھنڈ میں رات کیوں کر گرازے گا۔ امیر صبح کا موڈ اچھا تھا تو میں نے موقع دیکھ کر کہا کہ امیر صاحب ضیاء بھائی کل کے کھانے کا بھی کہہ رہے ہیں جماعت کی دعوت کرنا چاہتے ہیں اور پٹھانوں میں کسی کی دعوت رد کرنا معیوب بھی سمجھا جاتا ہے اب کیا جواب دوں؟ امیر صاحب سمجھ گئے ہنس کر کہا جواب تو تم نے خود دے دیا ہے۔ میں بھی اشارہ سمجھ گیا اور ضیاء کو کہہ دیا کہ امیر صاحب راضی ہیں۔
رات کو جب سونے کی تیاری کر رہے تھے تو میں جان بوجھ کر بیٹھا رہا بستر نہیں بچھایا۔ سب ساتھی بستر بچھا رہے تھے۔ جماعت کیساتھ جاتے وقت ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ سامان ہلکا پھلکا رہے اسلئے سب کے پاس بستر چھوٹے اور ہلکے پھلکے تھے۔ کچھ لوگوں کے پاس سلیپنگ بیگ تھے۔ جب سب لوگ بستر بچھا چکے تو میں اٹھا اور اپنا کنگ سائز بستر بچھانے لگا۔ بستر بچھایا تو سب سے خوبصورت بستر میرا تھا۔ میں بستر بچھا کر قبلہ رو ہوکر دوزانوں تشہد کے انداز میں بیٹھا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر زور زور سے بولنے لگا۔ یا اللہ یہ تیرے نیک بندے مجھ گنہگار کو سردی سے ڈرا رہے تھے، اسباب کی کمی سے ڈرا رہے تھے، میرا ایمان تھا کہ تو سب سے بڑا مہمان نواز ہے اور اپنے مہمان کی لاج رکھے گا۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے اسباب پر یقین رکھنے والوں کو جواب دیا اور پیغام دیا کہ سب کچھ اللہ سے ہوتا ہے اور غیر اللہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں اور اسباب پر بھروسہ کرنے والوں کے بستروں میں واضح فرق ہے۔ سب میری طرف متوجہ تھے اور میں نے آنکھوں سے امیر صاحب کی طرف اشارہ کیا تو سب لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔ امیر صاحب مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے اور ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے، او بس کر مولوی عبدالوہاب اب سو جا چغلیاں نہ لگا، مسجد میں ہنسانا شیطان کا شیوہ ہے۔ رات بہت اچھی گزری۔ اگلا دن معمول کے مطابق گزرا۔ شام سے پہلے مشاورت ہورہی تھی کہ شام کی نماز کے بعد بیان کون کرے گا؟ مشورے میں امیر صاحب نے طے کیا کہ بیان سیف اللہ خان کے ذمے ہوگا۔ کہنے لگے بہت بولتا ہے اب بیان کرو گے تو پتا چلے گا۔ میں نے کہا بیان تو میں کرلوں گا لیکن موضوع کیا ہوگا؟ امیر صاحب نے کہا زیادہ بڑا مولوی بننے کی ضرورت نہیں بس چھ نمبر بیان کرلینا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ شام کی نماز کے بعد چھ نمبر بیان کئے اور اسکے بعد ارادے لکھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جب ارادے لکھے جارہے تھے تو ایک بزرگ جن کی عمر سو سال کے لگ بھگ ہوگی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے کہا باباجی آپ بیٹھے بیٹھے لکھوائیں نہ اٹھیں۔ باباجی نے اٹھنے کی کوشش ترک کردی اور کوشش سے جو سانس پھول گیا تھا وہ ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ میں نے کہا باباجی کیا ارادہ ہے کتنے دن لکھوں؟ باباجی نے کہا، “پُتر ساری زندگی اللہ دی راہ وچ لکھ گھنو” میں نے کہا “باباجی بچی چوکھی پئی ہے جیڑھی بقایا ہے لکھ گھندے سے” (بچی ہی کتنی ہے جو بقایا ہے وہ لکھ لیتے ہیں)۔ باباجی مسکرا دئیے اور مجمع کھس کھس کرکے ہنسنے لگا۔ امیر صاحب نے مجھے خونخوار نظروں سے دیکھا اور ساتھ ہی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ دعا کروائیں جسکا مطلب تھا کہ مجمع برخاست ہونے لگا ہے اس سے پہلے کہ کچھ اور الٹا سیدھا بول لے۔ جب سہہ روزہ مکمل ہوا اور واپسی کی تیاری کر رہے تھے تو میں نے امیر صاحب سے پوچھا کہ بس سب فارغ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مرکز جائیں گے وہاں کارگزاری سنائیں گے اسکے بعد سب اپنے اپنے گھر جائیں گے۔ یہ میرے لئے مشکل تھا کیونکہ میرا گھر راستے میں پڑتا تھا اور گھر سے گزر کر جانا پڑتا۔
جب گاڑی ہمارے محلے کے سامنے سے گزرنے لگی تو میں نے رکوادی اور اس سے پہلے کہ امیر صاحب سمجھتے میں نیچے اتر چکا تھا۔ نیچے کھڑے کھڑے میں نے امیر صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ ایک اضافی فائدہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ مرکز پہنچنے سے پہلے گھر پہنچ جاتا ہے یہ اللہ کی طرف سے خاص انعام ہے۔ امیر صاحب ہنس پڑے اور میں سلام کرکے گھر کی طرف چل پڑا۔ مرکز جاکر امیر صاحب نے تو کارگزاری سنادی ہوگی لیکن میں وقت کے گردآب میں ایسا پھنس گیا کہ کارگزاری آج اٹھارہ سال بعد سنانے کا موقع ملا۔ اس کلرک کی بات ٹھیک تھی۔ زندگی واقعی برف کا تو دہ ہے جو قطرہ قطرہ پگھل کر ہاتھ سے نکل رہی ہے اور کچھ پتا نہیں کب آخری قطرہ ٹپکا اور بندہ نام نسب، عہدہ سب کچھ چھوڑ کر میت کہلانے لگے۔
یہ ۲۰۰۱ کی بات ہے جب بی بی اے کا فائنل امتحان ہوگیا تو پانچ سو روپے جوکہ لائبریری کی کتابوں کی قابل واپسی زر ضمانت تھا، لینے کیلئے کاغذات مکمل کرکے گومل یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن بلاک گیا۔ کیشئر کے دفتر کی ایک چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی جہاں سے کاغذات وصول کئے جاتے اور پڑتال کے بعد رقم ادا کردی جاتی۔ میں نے جب کاغذات دئیے تو کلرک نے اشارہ کیا کہ آپ اندر آجائیں۔ میں اندر گیا تو وہ کلرک جس کے سر پر عمامہ تھا شرعی وضع قطع کا حامل تھا انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ چپڑاسی کو آواز دیکر بلایا اور پیسے دیکر کہا کہ دودھ پتی اور کیک لے آؤ۔ کسی بابو سے اور بالخصوص ایسے بابو سے جو پیسے کی لین دین پر مامور ہو اتنے اچھے سلوک کی توقع کبھی نہیں ہوتی۔ مجھے بھی خلاف توقع لگا لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ شاید پیسے لینے کا لالچ ہوگا اسلئے اتنا اچھا بن رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی اور اس نے میرے کاغذات کی پڑتال مکمل کرلی اور پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھا دیا۔ چائے کپ میں ڈالتے ہوئے وہ پوچھ رہے تھےکہ ابھی ایم بی اے کی کلاسیں شروع ہونے میں کچھ مہینے باقی ہیں تو فراغت میں کیا کرنے کے ارادے ہیں؟ میں نے کہا کوئی خاص نہیں بس آرام کروں گا۔ اس نے ایک پیالہ میرے سامنے رکھا اور چپڑاسی کو دوسرا کپ دے کر کہا کہ یہ فلاں (دفتر میں موجود دوسرے کلرک کا نام لیکر) کو دے دو اور یہ ایک کیک پیس بھی دے دو۔ اس کلرک نے وہیں سے آواز لگائی کہ صرف چائے لے آؤ امیر صاحب کا کیک مجھے ہضم نہیں ہوتا۔ ابھی پوری طرح پیٹ میں پہنچتا نہیں کہ چیخنا شروع کردیتا ہے “چار مہینے”، “چلّہ”، “سہہ روزہ”۔ ہم سب نے اسکے اس اچانک مزاح پر قہقہہ لگایا۔ پھر اس کلرک نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بیٹا آپ کیک کھا تو رہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ امیر صاحب کا کیک ہے چلے چار مہینے سے کم پہ راضی نہیں ہوتا اور کچھ نہیں تو سہہ روزہ تو کہیں نہیں گیا۔ ان کی بات پر میں اور امیر صاحب دونوں ہنس دئیے۔ (مجھے نام یاد نہیں آرہا انکا)۔ وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے زندگی برف کی ڈلی ہے جو گرمی سے قطرہ قطرہ بن کر پگھلتی جاتی ہے۔ اس فراغت کو غنیمت جانو اور فارغ وقت ضائع کرنے کی بجائے اللہ کی راہ میں لگا کرقیمتی بنا لو۔ میں خاموش رہا تو مسکرا کر کہنے لگے ارادہ کرلو باقی قبولیت اللہ کی مرضی ہے اور ارادے کی بھی ایک نیکی ملتی ہے۔ میں نے فوراً کہا کہ ارادہ تو ہے۔ اس نے جزاک اللہ کہا اور میں چائے ختم کرکے وہاں سے بھاگ نکلا کہ کہیں امیر صاحب نقد سہہ روزہ ہی نہ لگوا لیں۔ انکا انداز اتنا مشفقانہ اور مخلصانہ تھا کہ انکار کی صورت نکلنی ہی نہیں تھی۔
فراغت کا ایک ماہ گزر چکا تھا اور میں اپنا ارادہ بھی بھول چکا تھا ایک دن ہمارے پڑوسی عمران بھائی نے مجھے گھر کے دروازے پر گرفتار کرلیا۔ تبلیغی جماعت والوں کے ہتھے چڑھنے کو ہم ناقابل ضمانت گرفتاری کہا کرتے تھے۔ کہنے لگے سہہ روزے کی جماعت پروفیسر کالونی جارہی ہے۔ بندے کم ہیں تم چلو میرے ساتھ ویسے بھی فارغ ہو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں ذرا بستر اٹھا لوں۔ گھر کی طرف مڑنے لگا تھا کہ عمران بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے، ایسے کئی نوجوانوں کو گھر کھا گئے ہیں ایک بار گھر گھس گئے تو شیطان کا غلبہ ہوگا اور آپ نکل نہیں پائیں گے۔ آپ میرے ساتھ موٹر سائیکل پہ شرافت سے بیٹھیں اور مرکز چلیں۔ بستر شام کے وقت میں پہنچا دوں گا پروفیسر کالونی چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی تو ہے۔ میں نے ہتھیار ڈال دئیے اور ساتھ چل پڑا۔ تبلیغی مرکز گئے اور وہاں سے جماعت جسکی امارت شاہ زمان کر رہے تھے، پروفیسر کالونی کی مسجد پہنچ گئے۔ شاہ زمان پیشے کے لحاظ سے راج مستری تھے، جوان اور انتہائی خوش مزاج انسان تھے۔ دن کے وقت کی معمولات پوری ہوئیں عصر کے وقت میں نے امیر صاحب سے فرمائش کی کہ مجھے کھانا پکانے کی خدمت پر مامور کریں لیکن وہ نہ مانے اور گشت پر لے گئے۔ گشت سے واپس آئے تو ہماری نصرت کیلئے شہر سے لوگ آئے تھے جن میں عمران بھائی بھی شامل تھے۔ وہ کینو اور سیب تو ساتھ لائے تھے لیکن بستر لانا بھول گئے۔ شام کی نماز سے پہلے ایک ساتھی نے پوچھا کہ بستر کے بغیر کیا کروگے؟ امیر صاحب نے بات سنی تو حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ بستر ساتھ نہیں لائے؟ میں نے کہا کہ نہیں وہ تو عمران بھائی نے وعدہ کیا تھا اور وہ بھول گئے ہیں۔ امیر صاحب کی ساری خوش مزاجی جاتی رہی اور بہت ناراض ہوکر کہنے لگے کہ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ سردی کا موسم ہے اور مسجد کی کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ میں نے امیر صاحب کو پہلی دفعہ غصے میں دیکھا تو انکے غصے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ میں نے کہا امیر صاحب ایک بات تو بتائیں۔ وہ متوجہ ہوئے تو میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ آپ کے گھر جب کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا بستر ساتھ لاتا ہے یا آپ دیتے ہیں بستر؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ امیر صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ میں نے اسی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھیں امیر صاحب ہم اللہ کے گھر میں اللہ کے مہمان ہیں، یہی سکھایا جاتا ہے نا؟ اور یہ محنت بھی ایمان و یقین کی محنت ہے۔ تو پھر اسباب کی بجائے اللہ بھروسہ رکھنا چاہئے ہمیں، کہ نہیں؟ میری بات نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور امیر صاحب مزید تپ گئے۔ کہنے لگے ابھی پہلا دن ہے تبلیغی جماعت میں اور تم ابھی سے مولانا عبدالوہاب بننے کی کوشش نہ کرو۔ انہیں میری عادتوں کا کچھ کچھ اندازہ ہوچکا تھا اسلئے وہ مزید کچھ کہے سنے بغیر باہر نکل گئے۔
شام کے وقت مسجد میں میٹرک کے ایک ہم جماعت ضیاء الرحمان ملے (آج کل کے ڈاکٹر ضیاء الرحمان جن کا تعلق بنوں سے ہے)۔ پوچھا ادھر کیسے؟ میں نے کہا اللہ کے راستے میں نکلا ہوں ایک امیر صاحب کا کیک پیس کھایا تھا تم کیسے یہاں؟ کہنے لگے میرا تو سامنے گھر ہے۔ پھر کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا ہمارا کھانا بن رہا ہے۔ کہنے لگے ٹھیک ہے پھر کل شام کا کھانا نہ بنانا میری طرف سے جماعت کی دعوت ہے۔ میں نے کہا امیر صاحب سے پوچھ کر جواب دے سکتا ہوں کیونکہ میں اپنی طرف سے فیصلہ نہیں کرسکتا اور امیر صاحب پہلے ہی مجھ ہر تپے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے اور کسی چیز کی کمی ہے تو بتاؤ۔ میں نے کہا میرا بستر نہیں پہنچا۔ اس نے کہا فکر نہ کرو میں بستر پہنچا دیتا ہوں۔ شام کے بیان کے بعد ضیاء الرحمان بستر اٹھائے مسجد پہنچ گئے۔ بستر بڑا شاندار تھا، نیچے بچھانے کیلئے نرم گدا، بہت خوبصورت تکیہ اور موٹی رضائی جو بالکل نئی اور بالخصوص مہمانوں والی تھی۔ امیر صاحب نے بستر دیکھا تو انکے چہرے پر بھی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ وہ شاید میری وجہ سے پریشان تھے کہ ٹھنڈ میں رات کیوں کر گرازے گا۔ امیر صبح کا موڈ اچھا تھا تو میں نے موقع دیکھ کر کہا کہ امیر صاحب ضیاء بھائی کل کے کھانے کا بھی کہہ رہے ہیں جماعت کی دعوت کرنا چاہتے ہیں اور پٹھانوں میں کسی کی دعوت رد کرنا معیوب بھی سمجھا جاتا ہے اب کیا جواب دوں؟ امیر صاحب سمجھ گئے ہنس کر کہا جواب تو تم نے خود دے دیا ہے۔ میں بھی اشارہ سمجھ گیا اور ضیاء کو کہہ دیا کہ امیر صاحب راضی ہیں۔
رات کو جب سونے کی تیاری کر رہے تھے تو میں جان بوجھ کر بیٹھا رہا بستر نہیں بچھایا۔ سب ساتھی بستر بچھا رہے تھے۔ جماعت کیساتھ جاتے وقت ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ سامان ہلکا پھلکا رہے اسلئے سب کے پاس بستر چھوٹے اور ہلکے پھلکے تھے۔ کچھ لوگوں کے پاس سلیپنگ بیگ تھے۔ جب سب لوگ بستر بچھا چکے تو میں اٹھا اور اپنا کنگ سائز بستر بچھانے لگا۔ بستر بچھایا تو سب سے خوبصورت بستر میرا تھا۔ میں بستر بچھا کر قبلہ رو ہوکر دوزانوں تشہد کے انداز میں بیٹھا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر زور زور سے بولنے لگا۔ یا اللہ یہ تیرے نیک بندے مجھ گنہگار کو سردی سے ڈرا رہے تھے، اسباب کی کمی سے ڈرا رہے تھے، میرا ایمان تھا کہ تو سب سے بڑا مہمان نواز ہے اور اپنے مہمان کی لاج رکھے گا۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے اسباب پر یقین رکھنے والوں کو جواب دیا اور پیغام دیا کہ سب کچھ اللہ سے ہوتا ہے اور غیر اللہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں اور اسباب پر بھروسہ کرنے والوں کے بستروں میں واضح فرق ہے۔ سب میری طرف متوجہ تھے اور میں نے آنکھوں سے امیر صاحب کی طرف اشارہ کیا تو سب لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔ امیر صاحب مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے اور ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے، او بس کر مولوی عبدالوہاب اب سو جا چغلیاں نہ لگا، مسجد میں ہنسانا شیطان کا شیوہ ہے۔ رات بہت اچھی گزری۔ اگلا دن معمول کے مطابق گزرا۔ شام سے پہلے مشاورت ہورہی تھی کہ شام کی نماز کے بعد بیان کون کرے گا؟ مشورے میں امیر صاحب نے طے کیا کہ بیان سیف اللہ خان کے ذمے ہوگا۔ کہنے لگے بہت بولتا ہے اب بیان کرو گے تو پتا چلے گا۔ میں نے کہا بیان تو میں کرلوں گا لیکن موضوع کیا ہوگا؟ امیر صاحب نے کہا زیادہ بڑا مولوی بننے کی ضرورت نہیں بس چھ نمبر بیان کرلینا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ شام کی نماز کے بعد چھ نمبر بیان کئے اور اسکے بعد ارادے لکھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جب ارادے لکھے جارہے تھے تو ایک بزرگ جن کی عمر سو سال کے لگ بھگ ہوگی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے کہا باباجی آپ بیٹھے بیٹھے لکھوائیں نہ اٹھیں۔ باباجی نے اٹھنے کی کوشش ترک کردی اور کوشش سے جو سانس پھول گیا تھا وہ ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ میں نے کہا باباجی کیا ارادہ ہے کتنے دن لکھوں؟ باباجی نے کہا، “پُتر ساری زندگی اللہ دی راہ وچ لکھ گھنو” میں نے کہا “باباجی بچی چوکھی پئی ہے جیڑھی بقایا ہے لکھ گھندے سے” (بچی ہی کتنی ہے جو بقایا ہے وہ لکھ لیتے ہیں)۔ باباجی مسکرا دئیے اور مجمع کھس کھس کرکے ہنسنے لگا۔ امیر صاحب نے مجھے خونخوار نظروں سے دیکھا اور ساتھ ہی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ دعا کروائیں جسکا مطلب تھا کہ مجمع برخاست ہونے لگا ہے اس سے پہلے کہ کچھ اور الٹا سیدھا بول لے۔ جب سہہ روزہ مکمل ہوا اور واپسی کی تیاری کر رہے تھے تو میں نے امیر صاحب سے پوچھا کہ بس سب فارغ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مرکز جائیں گے وہاں کارگزاری سنائیں گے اسکے بعد سب اپنے اپنے گھر جائیں گے۔ یہ میرے لئے مشکل تھا کیونکہ میرا گھر راستے میں پڑتا تھا اور گھر سے گزر کر جانا پڑتا۔
جب گاڑی ہمارے محلے کے سامنے سے گزرنے لگی تو میں نے رکوادی اور اس سے پہلے کہ امیر صاحب سمجھتے میں نیچے اتر چکا تھا۔ نیچے کھڑے کھڑے میں نے امیر صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ ایک اضافی فائدہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ مرکز پہنچنے سے پہلے گھر پہنچ جاتا ہے یہ اللہ کی طرف سے خاص انعام ہے۔ امیر صاحب ہنس پڑے اور میں سلام کرکے گھر کی طرف چل پڑا۔ مرکز جاکر امیر صاحب نے تو کارگزاری سنادی ہوگی لیکن میں وقت کے گردآب میں ایسا پھنس گیا کہ کارگزاری آج اٹھارہ سال بعد سنانے کا موقع ملا۔ اس کلرک کی بات ٹھیک تھی۔ زندگی واقعی برف کا تو دہ ہے جو قطرہ قطرہ پگھل کر ہاتھ سے نکل رہی ہے اور کچھ پتا نہیں کب آخری قطرہ ٹپکا اور بندہ نام نسب، عہدہ سب کچھ چھوڑ کر میت کہلانے لگے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں