دس سالہ تصویری موازنہ
مجھے نہیں معلوم فیس بک پر دس سال پرانی تصویر کی للکار کب کس نے اور کیوں متعارف کروائی۔ ابتداء میں تو سمجھ نہیں آئی لیکن جب بہت سارے دوستوں کی تصویریں دیکھیں تو کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ کرنا کیا ہے۔ اپنی دس سال پرانی تصویریں ڈھونڈنا شروع کیا تو پتا چلا دس سال پہلے تو میرے پاس کیمرہ ہی نہیں تھا۔ موٹرولا سی ۱۱۵ موبائل میں دیگر بہت سی قباحتوں کی طرح کیمرے کی قباحت بھی نہیں تھی۔ اس زمانے میں جتنے بھی فون تھے سب شریعت کے پابند تھے۔ ان میں کسی قسم کی غیر شرعی سہولت ہی نہیں تھی۔ وہ اتنے پاک صاف تھے کہ کبھی انہیں پاس ورڈ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔
اور ایک دو قابل دست اندازی منکوحہ نمبروں کو رشید قصائی، بلال الیکٹریشن اور گلو پلمبر کے نام سے محفوظ کرکے کام چلایا جاسکتا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ فون سیٹ کی وہ نسل فرشتے تھے جن میں گناہ کا مادہ تھا ہی نہیں۔ بلکہ مادہ پر ہی موقوف نہیں نر بھی نہیں تھا۔ جن فونوں میں کیمرے تھے انکی استعداد اتنی تھی کہ دوسو سے زیادہ ہوگئے تو نمبر بھی ان میں محفوظ نہیں ہوتے تھے کسی نہ کسی کا نمبر حرف غلط کی طرح مٹا کر دوسرا محفوظ کرنا پڑتا۔ دس سال سے پہلے کی تصویروں میں ایک ہی تصویر نکلی جو نو سال کی عمر میں ڈومیسائل بنانے کیلئے بنوائی تھی۔ اس میں سے بھی اگر سرکاری سکول کی مخصوص ٹوپی نکال دی جائے تو پیچھے تصویر آدھی سے کچھ کم رہ جاتی ہے۔ لہذا وہ تصویر لگانا مناسب نہیں لگا کیونکہ اس میں معصومیت اتنی ہے کہ خود اپنی تصویر دیکھ کر میری پدرانہ شفقت چھلک کر باہر آگئی۔ ایسے میں خواتین کی ممتا جگانے کا قوی امکان تھا۔ تاہم دس سال سے کچھ کم پرانی تصویریں دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کیمرہ ٹیکنالوجی اس زمانے میں کتنی فرسودہ تھی۔ تصویریں دیکھنے کے بعد لگتا ہے کیمرے نے تصویریں کھینچنے کی بجائے آئینہ دکھایا ہے اور کھری کھری سنائی ہیں۔ اس زمانے کے کیمرے انتہائی مہذب اور پارلیمانی الفاظ میں، بڑے بد لحاظ اور منہ پھٹ تھے۔ وہ سیدھا سیدھا آپ کی اصل شکل نقل کرکے دکھا دیتے۔ ایسے میں تصویر کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اگر تصویر کو دس بارہ فلٹر لگاکر، جلد کا رنگ کالے سے گندمی اور گندمی سے گورا نہ کیا جاسکے، چہرے کی جھریاں اور دور جوانی کے کیل مہاسوں کے یادگار گڑھے نہ چھپائے جاسکیں، بالوں کو ریشمی نہ بنایا جاسکے، آنکھوں کو بڑا اور پلکوں کو لمبا نہ کیا جاسکے، ہونٹوں اور گالوں کو لال نہ کیا جاسکے، دخان زدہ پیلے دانتوں کو موتیوں کی طرح چمکدار نہ کیا سکے، پیٹ کو اندر اور چھاتی کو باڈی بلڈرز کی طرح چوڑا نہ کیا جاسکے، کانوں کو حسب منشا چہرے کے محیط کی مناسبت سے چھوٹا بڑا نہ کیا جاسکے، ٹھوڑی کو اپنی خواہش کے مطابق گول یا چوکور نہ بنایا جاسکے، موٹی گردن کو پتلا اور چھوٹی گردن کو کونج کی طرح لمبا نہ کیا جاسکے، ہاتھوں کا رنگ چہرے سے میچ نہ کیا جاسکے تو ایسی تصویر کا فائدہ؟ اصل شکل تو بندہ ویسے بھی چوبیس گھنٹے اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، سفر و حضر میں ساتھ ہی لئے پھرتا ہے۔ منہ اٹھا کر آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں اور بن بلائے جاسکتے ہیں۔ غالب کا کعبہ نہ جانا ایک عرصے تک جو ہمیں سمجھ نہیں آیا تھا وہ دور جدید کے کیمرہ ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھ کر کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے اور شان نزول کا عقدہ بھی وا ہوا۔
غالب نے شاید اپنے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی تصویر دیکھ کر ہی یہ شعر کہا ہوگا کہ
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بدقسمتی سے نادرا اور پاسپورٹ آفس والے اس ٹیکنالوجی سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے اور اصل شکل ہی کارڈ اور پاسپورٹ پر چھاپ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ننانوے فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی شخص منہ دھو کر آئینہ دیکھنے کے بعد سوچتا ہے کہ دراصل وہ اتنا بدصورت بھی نہیں ہےجتنا وہ شناختی کارڈ پر چھپی تصویر میں نظر آتا ہے۔ ننانوے فیصد اسلئے کہا کہ ایک فیصد لوگ یا تو نابینا ہیں یا انکے پاس آئینہ ہی نہیں۔
ہمارا تو تصویروں کے بارے میں ایک اصولی مؤقف ہے کہ تصویر اصل شکل سے بہتر بلکہ بدرجہا بہتر ہونی چاہئے۔ فیس بک کیلئے ہم تصویر دوتین پیشہ ور فوٹو گرافرز سے ایڈٹ کروا کر ہی لگاتے ہیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی خاتون پہلی دفعہ بالمشافہ دیکھتی ہے تو ڈرتے ڈرتے پوچھتی ہے کہ انکل آپ سیف اللہ خان مروت کے کچھ لگتے تو نہیں؟ اور جواب میں خاتون کی عمر دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ سچ بولنا ہے یا دل رکھنا ہے۔ اوّل الذکر صورتحال میں لطیفے سنا کر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں بس گردش زمانہ اور نزلے زکام نے یہ حالت بنیادی ہے ورنہ اصل میں ہم ویسے ہی جیسے تصویروں میں دکھتے ہیں۔
جو تصویریں دوستوں نے چسپاں کی ہیں ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تمام مرد دس سال میں بیس سال بڑے ہوگئے ہیں اور اکثر کے پیٹ ایک دہائی مزید آگے نکل گئے ہیں۔ اگر حکومت معیشت میں وہی فارمولا استعمال کرسکے جس فارمولے سے مردوں کے پیٹ بڑھتے ہیں تو ہماری معیشت ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ مردوں کے پیٹ اتنی جلدی کیوں بڑھے اور کیسے بڑھے وثیقہ سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اکثر شادی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں اور ممکن ہے وہ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ بھی کچھ بوجھ اٹھاتے ہوں۔ بہر حال یہ ایک مفروضہ ہے۔ ان کی تصویروں سے یہ بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی قدیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اکثر مردوں کے سر بالوں کی جھالر بیچے چھوڑ کر بے بال اوپر نکل گئے ہیں۔
البتہ خواتین ریورس گیر میں جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ شروع شروع میں جب مجھے پتا نہیں تھا کہ ساتھ ساتھ دو تصویروں کا کیا مطلب ہے تو ایک خاتون کی تصویر پر تبصرہ کیا کہ ماشاء اللہ آپکی امی بھی جوان ہی ہیں ابھی۔ اسکے بعد سے وہ خاتون فیس بک پر نظر نہیں آر ہیں۔ مجھے لگا شاید اسکی امی نے ہمارا تبصرہ پڑھ کر اس کا فیس بند کروا لیا لیکن ایک دوست نے بتایا کہ اس نے تمہیں بلاک کردیا ہوگا۔ خواتین کی تصویریں دیکھ کر کیمرہ ٹیکنالوجی اور میک اپ انڈسٹری کی ترقی کا اندازہ بھی با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی تصویروں سے خواتین میں بے روزگاری کی شرح میں واضح کمی کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ لگتا ہے آدھے ملک کی خواتین بیوٹی پارلر کھول بیٹھی ہیں۔ کئی لوگ میری طرح کے بھی تھے جن کو دس سال پرانی تصویر نہیں ملی انہوں نے صبح اٹھ کر منہ دھوئے بغیر تصویر بنا کر دس سال پرانی قرار دیا۔ ہم نے بھی سوچا ایسا ہی کرلیں لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ بدل لیا کہ صبح صبح غسل خانے کے آئینے میں جو بزرگ ہمارا استقبال کرتے ہیں اور جسکو ادب سے روزانہ دن کا پہلا سلام کرتے ہیں وہ کہیں ناراض نہ ہوجائے۔
مایوسی کفر ہے۔ کوشش جاری ہے کہ کہیں سے کوئی پرانی تصویر ڈھونڈ کر لائیں۔ لیکن جتنا ہمیں یاد ہے دس سال پہلے کی ہماری شکل دیکھ کر بہت سے لوگ تبصرے میں ماشاء اللہ لکھنے کی بجائے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ہی لکھیں گے یا پھر لاحول پڑھیں گے۔
مجھے نہیں معلوم فیس بک پر دس سال پرانی تصویر کی للکار کب کس نے اور کیوں متعارف کروائی۔ ابتداء میں تو سمجھ نہیں آئی لیکن جب بہت سارے دوستوں کی تصویریں دیکھیں تو کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ کرنا کیا ہے۔ اپنی دس سال پرانی تصویریں ڈھونڈنا شروع کیا تو پتا چلا دس سال پہلے تو میرے پاس کیمرہ ہی نہیں تھا۔ موٹرولا سی ۱۱۵ موبائل میں دیگر بہت سی قباحتوں کی طرح کیمرے کی قباحت بھی نہیں تھی۔ اس زمانے میں جتنے بھی فون تھے سب شریعت کے پابند تھے۔ ان میں کسی قسم کی غیر شرعی سہولت ہی نہیں تھی۔ وہ اتنے پاک صاف تھے کہ کبھی انہیں پاس ورڈ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔
اور ایک دو قابل دست اندازی منکوحہ نمبروں کو رشید قصائی، بلال الیکٹریشن اور گلو پلمبر کے نام سے محفوظ کرکے کام چلایا جاسکتا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ فون سیٹ کی وہ نسل فرشتے تھے جن میں گناہ کا مادہ تھا ہی نہیں۔ بلکہ مادہ پر ہی موقوف نہیں نر بھی نہیں تھا۔ جن فونوں میں کیمرے تھے انکی استعداد اتنی تھی کہ دوسو سے زیادہ ہوگئے تو نمبر بھی ان میں محفوظ نہیں ہوتے تھے کسی نہ کسی کا نمبر حرف غلط کی طرح مٹا کر دوسرا محفوظ کرنا پڑتا۔ دس سال سے پہلے کی تصویروں میں ایک ہی تصویر نکلی جو نو سال کی عمر میں ڈومیسائل بنانے کیلئے بنوائی تھی۔ اس میں سے بھی اگر سرکاری سکول کی مخصوص ٹوپی نکال دی جائے تو پیچھے تصویر آدھی سے کچھ کم رہ جاتی ہے۔ لہذا وہ تصویر لگانا مناسب نہیں لگا کیونکہ اس میں معصومیت اتنی ہے کہ خود اپنی تصویر دیکھ کر میری پدرانہ شفقت چھلک کر باہر آگئی۔ ایسے میں خواتین کی ممتا جگانے کا قوی امکان تھا۔ تاہم دس سال سے کچھ کم پرانی تصویریں دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کیمرہ ٹیکنالوجی اس زمانے میں کتنی فرسودہ تھی۔ تصویریں دیکھنے کے بعد لگتا ہے کیمرے نے تصویریں کھینچنے کی بجائے آئینہ دکھایا ہے اور کھری کھری سنائی ہیں۔ اس زمانے کے کیمرے انتہائی مہذب اور پارلیمانی الفاظ میں، بڑے بد لحاظ اور منہ پھٹ تھے۔ وہ سیدھا سیدھا آپ کی اصل شکل نقل کرکے دکھا دیتے۔ ایسے میں تصویر کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اگر تصویر کو دس بارہ فلٹر لگاکر، جلد کا رنگ کالے سے گندمی اور گندمی سے گورا نہ کیا جاسکے، چہرے کی جھریاں اور دور جوانی کے کیل مہاسوں کے یادگار گڑھے نہ چھپائے جاسکیں، بالوں کو ریشمی نہ بنایا جاسکے، آنکھوں کو بڑا اور پلکوں کو لمبا نہ کیا جاسکے، ہونٹوں اور گالوں کو لال نہ کیا جاسکے، دخان زدہ پیلے دانتوں کو موتیوں کی طرح چمکدار نہ کیا سکے، پیٹ کو اندر اور چھاتی کو باڈی بلڈرز کی طرح چوڑا نہ کیا جاسکے، کانوں کو حسب منشا چہرے کے محیط کی مناسبت سے چھوٹا بڑا نہ کیا جاسکے، ٹھوڑی کو اپنی خواہش کے مطابق گول یا چوکور نہ بنایا جاسکے، موٹی گردن کو پتلا اور چھوٹی گردن کو کونج کی طرح لمبا نہ کیا جاسکے، ہاتھوں کا رنگ چہرے سے میچ نہ کیا جاسکے تو ایسی تصویر کا فائدہ؟ اصل شکل تو بندہ ویسے بھی چوبیس گھنٹے اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، سفر و حضر میں ساتھ ہی لئے پھرتا ہے۔ منہ اٹھا کر آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں اور بن بلائے جاسکتے ہیں۔ غالب کا کعبہ نہ جانا ایک عرصے تک جو ہمیں سمجھ نہیں آیا تھا وہ دور جدید کے کیمرہ ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھ کر کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے اور شان نزول کا عقدہ بھی وا ہوا۔
غالب نے شاید اپنے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کی تصویر دیکھ کر ہی یہ شعر کہا ہوگا کہ
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بدقسمتی سے نادرا اور پاسپورٹ آفس والے اس ٹیکنالوجی سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے اور اصل شکل ہی کارڈ اور پاسپورٹ پر چھاپ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ننانوے فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی شخص منہ دھو کر آئینہ دیکھنے کے بعد سوچتا ہے کہ دراصل وہ اتنا بدصورت بھی نہیں ہےجتنا وہ شناختی کارڈ پر چھپی تصویر میں نظر آتا ہے۔ ننانوے فیصد اسلئے کہا کہ ایک فیصد لوگ یا تو نابینا ہیں یا انکے پاس آئینہ ہی نہیں۔
ہمارا تو تصویروں کے بارے میں ایک اصولی مؤقف ہے کہ تصویر اصل شکل سے بہتر بلکہ بدرجہا بہتر ہونی چاہئے۔ فیس بک کیلئے ہم تصویر دوتین پیشہ ور فوٹو گرافرز سے ایڈٹ کروا کر ہی لگاتے ہیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی خاتون پہلی دفعہ بالمشافہ دیکھتی ہے تو ڈرتے ڈرتے پوچھتی ہے کہ انکل آپ سیف اللہ خان مروت کے کچھ لگتے تو نہیں؟ اور جواب میں خاتون کی عمر دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ سچ بولنا ہے یا دل رکھنا ہے۔ اوّل الذکر صورتحال میں لطیفے سنا کر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں بس گردش زمانہ اور نزلے زکام نے یہ حالت بنیادی ہے ورنہ اصل میں ہم ویسے ہی جیسے تصویروں میں دکھتے ہیں۔
جو تصویریں دوستوں نے چسپاں کی ہیں ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تمام مرد دس سال میں بیس سال بڑے ہوگئے ہیں اور اکثر کے پیٹ ایک دہائی مزید آگے نکل گئے ہیں۔ اگر حکومت معیشت میں وہی فارمولا استعمال کرسکے جس فارمولے سے مردوں کے پیٹ بڑھتے ہیں تو ہماری معیشت ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ مردوں کے پیٹ اتنی جلدی کیوں بڑھے اور کیسے بڑھے وثیقہ سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اکثر شادی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں اور ممکن ہے وہ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے علاوہ بھی کچھ بوجھ اٹھاتے ہوں۔ بہر حال یہ ایک مفروضہ ہے۔ ان کی تصویروں سے یہ بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی قدیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اکثر مردوں کے سر بالوں کی جھالر بیچے چھوڑ کر بے بال اوپر نکل گئے ہیں۔
البتہ خواتین ریورس گیر میں جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ شروع شروع میں جب مجھے پتا نہیں تھا کہ ساتھ ساتھ دو تصویروں کا کیا مطلب ہے تو ایک خاتون کی تصویر پر تبصرہ کیا کہ ماشاء اللہ آپکی امی بھی جوان ہی ہیں ابھی۔ اسکے بعد سے وہ خاتون فیس بک پر نظر نہیں آر ہیں۔ مجھے لگا شاید اسکی امی نے ہمارا تبصرہ پڑھ کر اس کا فیس بند کروا لیا لیکن ایک دوست نے بتایا کہ اس نے تمہیں بلاک کردیا ہوگا۔ خواتین کی تصویریں دیکھ کر کیمرہ ٹیکنالوجی اور میک اپ انڈسٹری کی ترقی کا اندازہ بھی با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی تصویروں سے خواتین میں بے روزگاری کی شرح میں واضح کمی کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ لگتا ہے آدھے ملک کی خواتین بیوٹی پارلر کھول بیٹھی ہیں۔ کئی لوگ میری طرح کے بھی تھے جن کو دس سال پرانی تصویر نہیں ملی انہوں نے صبح اٹھ کر منہ دھوئے بغیر تصویر بنا کر دس سال پرانی قرار دیا۔ ہم نے بھی سوچا ایسا ہی کرلیں لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ بدل لیا کہ صبح صبح غسل خانے کے آئینے میں جو بزرگ ہمارا استقبال کرتے ہیں اور جسکو ادب سے روزانہ دن کا پہلا سلام کرتے ہیں وہ کہیں ناراض نہ ہوجائے۔
مایوسی کفر ہے۔ کوشش جاری ہے کہ کہیں سے کوئی پرانی تصویر ڈھونڈ کر لائیں۔ لیکن جتنا ہمیں یاد ہے دس سال پہلے کی ہماری شکل دیکھ کر بہت سے لوگ تبصرے میں ماشاء اللہ لکھنے کی بجائے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ہی لکھیں گے یا پھر لاحول پڑھیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں