ٹیلی وژن
ٹیلی وژن کا شمار ان نعمتوں میں ہوتا ہے جن سے ہم قریب قریب ہمیشہ محروم ہی رہے۔ بچپن میں گاؤں میں تھے جہاں ان دنوں ٹیلی وژن کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ گھروں میں تو خیر ٹیلی وژن رکھنا انتہائی معیوب تھا تاہم دو یا تین حجرے ایسے تھے جہاں ٹیلیویژن کی سہولت تھی لیکن ہماری عمرحجرے میں جانے والی نہیں تھی۔ جب ۹۲ کا ورلڈ کپ ہورہا تھا انہی دنوں خاندان کے باقی افراد ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے تھے البتہ میں ابھی امی کے ساتھ گاؤں میں تھا۔ یہ چند مہینے میری زندگی کے سب سے رنگین اور یادگاردنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان دنوں مجھے مکمل آزادی تھی۔ یہ واحد دور تھا جس میں غلیل شلوار کے نیفے میں چھپانے کی بجائے میں گلے میں لٹکائے آزادانہ پھرتا رہتا تھا۔ والد صاحب شام کے وقت گھر لوٹتے اور اماں جی کی فطرت میں سختی تھی ہی نہیں۔ آزادی کی ڈور کو ہر اس حد تک کھینچنے کی کوشش کی جہاں تک کھینچ سکتا تھا۔ ہر طرف کرکٹ کی باتیں ہورہی تھیں اور بچے بھی حجروں میں بڑوں کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھتے تھے تو ہم نے بھی اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دفعہ میچ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ میچ دیکھنے چلا تو گیا لیکن جو بھی مجھے دیکھتا ایک بار ضرور سوال کرتا کہ یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا بیٹا نہیں؟ اور میں مزید سکڑ کر بیٹھ جاتا۔ والد صاحب کی سختی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ گاوں کے اڈے پر گاڑی سے اترتے تو گاوں کا ہر وہ باشندہ جو ایک بار سکول گیا تھا انہیں دیکھ کر یا تو کنارہ کرتا یا مؤدب کھڑا رہتا جب تک ہیڈ ماسٹر صاحب گزر نہ جاتے۔ گاؤں میں عصر کے وقت کسی کے پاس اصیل مرغا تو کسی کے پاس تیتر یا بٹیر ہوتا کسی نے کتے کی رسی پکڑی ہوتی تھی۔ الغرض ہر شخص اپنے اپنے شوق باہر کھیتوں اور کھلیانوں میں لے آتا۔ لیکن ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھتے ہی کوئی مرغا جھاڑیوں میں چھپا رہا ہوتا تو کوئی تیتر بٹیر چھپانے میں مصروف ہوجاتا۔ اگرچہ والد صاحب کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سر جھکا کر چلتے تھے اور کبھی دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ان کو لیکن حیا اور احترام کا عالم یہ تھا کہ پھر بھی ہر شاگرد کی کوشش ہوتی کہ وہ اس حالت میں استاد کو نظر نہ آئے۔ جب سابقہ شاگردوں کا یہ حال تھا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا کیا حال ہوگا۔ تو جناب ایک صاحب نے کہا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب ملے تو میں بتاؤں گا کہ آپ کا بیٹا کھلاڑی بن رہا ہے۔ بس یہ ایک جملہ کافی تھا۔ میں وہاں سے کھسک گیا اور گھر کی راہ لی۔ راستے میں تمام وہ سورتیں اور دعائیں پڑھ کر جو زبانی یاد تھیں، دعائیں کیں کہ اس بار بچ جاؤں اسکے بعد میرے باپ کی بھی توبہ ہے کہ میں کسی حجرے میں میچ دیکھنے جاؤں۔ اور دعائیں قبول ہوگئی تھیں۔
اسکے بعد ہم بھی شہر منتقل ہوگئے۔ سکول میں ہم جماعت طالبعلم ڈراموں، کارٹونوں اور دوسرے ٹی وی پروگراموں کی باتیں کرتے تو ایسا لگتا جیسے کسی اور سیارے کی باتیں ہورہی ہوں۔ ٹیلیویژن ہمارے دسترس سے باہر تھا لیکن ریڈیو نہیں۔ کسی طرح سے پیسے جمع کرکے سو روپے کا ایک چھوٹا سا ریڈیو خرید لیا تھا۔ جس پر دن دو بجے سے رات نو بجے تک ڈیرہ اسماعیل خان ریڈیو سٹیشن کے علاوہ کچھ نہیں سنائی دیتا تھا کیونکہ اسکے سگنل خاصے طاقتور اور ہمارا ریڈیو کافی کمزور تھا۔ “گل زمین” پروگرام سے شروع ہوکر سرائیکی پروگرام “وسطیاں جھوکاں”، پشتو پروگرام “رنگ ترنگ” پھر سرائیکی پروگرام “چانن ویہڑے” اور پھر پشتو موسیقی کا پروگرام “ژوند رنگ” تک سارے باقاعدگی سے سنتا تھا۔ درمیان میں اردو پشتو سرائیکی ملکی اور علاقائی خبریں بھی سنتا رہتا۔ دامن زمان کی انگریزی خبریں بھی چار بجے سنتا تھا۔ رات نو بجے جب دین دنیا کی بھلائی پروگرام کے بعد ریڈیو سٹیشن بند ہوجاتا تو میرے ریڈیو کی رسائی بین الاقوامی سٹیشنوں تک پھیل جاتی تھی۔ رات دس بجے کے بعد بی بی سی اردو سروس کا پروگرام بھی باقاعدگی سے سنتا۔ کرکٹ میچ ہوتا تو کمینٹری باقاعدگی سے سنتا۔ چشتی مجاہد کی کمینٹری سے آدھا خون ویسے ہی خشک ہوجاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں ساری عمر کبھی موٹا نہیں ہوا۔ انضمام الحق قدموں کا استعمال کرتے ہوئے مڈوکٹ کی جانب اٹھتا ہوا شاٹ گیند ہوا میں آوٹ ہونے کا خطرہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور گیند چھ رنز کیلئے باونڈری لائن سے باہر۔
لیکن ٹیلیویژن کی کمی بہرحال اپنی جگہ تھی۔ چونکہ گھر میں سب سے زیادہ منہ زور میں تھا یا یوں کہہ لیں کہ ڈھیٹ زیادہ تھا اسلئے متنازعہ کاموں اور فرمائشوں کیلئے مجھے ہی سب آگے کردیتے۔ ٹیلیویژن کے بارے میں والد صاحب کا خیال یہ تھا کہ جس دن یہ مصیبت گھر میں آگئی پڑھائی بالکل ختم ہوجائیگی۔ ہم سب کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ ہم نے کئی بار نپے تلے الفاظ میں والد صاحب کے سامنے ٹیلیویژن کے فوائد بیان کئے۔ شروع میں تو وہ ڈانٹ دیتے لیکن آہستہ آہستہ انکا ردعمل نرم پڑتا گیا۔ پھر ہم نے رات نو بجے کے خبرنامے کا ذکر کرنا شروع کیا کیونکہ والد صاحب خبروں کے شوقین تھے اور اخبار باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ لگ بھگ ایک سال محنت کے بعد ہم نے باقاعدہ ٹیلیویژن کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ ابتداء میں ڈانٹ پڑی لیکن پھر کچھ عرصہ خاموشی چھاآگئی۔ یہ بہت بڑی فتح تھی۔ میں نے اپنا طریقہ واردات پے درپے تلخ تجربات کے بعد تبدیل کرلیا۔ مطالبہ اس وقت کرتا جب والد صاحب بہت اچھے موڈ میں ہوتے تھے۔ اور انکا موڈ اچھا تب ہوتا جب خود سے پڑھتے دیکھ لیا یا سکول سے آکر کوئی مشکل سوال پوچھ لیا اور درست جواب دے دیا یا بنا کسی کے کہے مسجد نماز پڑھنے جاتے دیکھ لیا۔ ایسے ہی ایک دن اچھے موڈ میں جب میں نے پرزور مطالبہ کرلیا اور میری ہمنوائی میں کچھ اور آوازیں بھی شامل ہوگئیں تو والد صاحب نے ہار مان لی اور مجھے ساتھ لیکر بازار کی طرف چل پڑے۔ میں بظاہر زمین پر چل رہا تھا لیکن لگ یوں رہا تھا جیسے ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ سالوں کی محنت رنگ لاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ ہم ٹیلیویژن خریدنے جارہے تھے۔ دو دوکانوں سے ٹیلیویژن کے ریٹ پوچھے پھر تیسری دوکان کی طرف چل پڑے۔ یہ بڑی دوکان تھی اور اس میں بڑے سیٹ تھے اور رنگین بھی تھے۔ ایک بڑے سیٹ کو چیک کروانے کیلئے جب آن کیا تو اس پر سرخ لباس میں ملبوس ایک ماڈل کسی مشروب کی تشہیر کر رہی تھی۔ اسکی لال لپ اسٹک کپڑوں سے میچ کر رہی تھی۔ والد صاحب کا موڈ اچانک بگڑ گیا۔ دوکان سے نکلے تو میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تین جگہ پوچھ لیا اب لینا کہاں سے ہے؟ بس میرا اتنا کہنا تھا کہ والد صاحب کی برداشت جواب دے گئی۔ تھپڑ مارنے کیلئے انکا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا لیکن پھر شاید عوام الناس کے احترام میں ارادہ ملتوی کرلیا۔ دانت پیستے ہوئے کہنے لگے، جب سارا دن یہ لال ہونٹ دیکھتے رہوگے تو پڑھائی ہوگئی پھر۔ خبردار جو دوبارہ ٹیلیویژن کا نام بھی لیا۔
آہ۔۔۔۔ ایک خواب تھا جو آنکھوں سمیت چکنا چور ہوگیا اور ساتھ ہی عکس محبوب (ٹیلیویژن ) بھی کرچی کرچی ہوگیا۔ اسکے بعد والد صاحب کی زندگی میں کبھی ٹیلیویژن کا نام بھی نہیں لیا۔ البتہ تین بینڈ کا ریڈیو خرید لیا تھا جو والد صاحب سے چرس گھانجے کی طرح چھپا کر رکھتا تھا۔ اور ایک واک مین بھی لے لیا تھا۔ موبائل فون میں ہزاروں گانے بھرنے والی نسل کے لوگ واک مین کی قدر بلکہ شاید نام سے بھی ناواقف ہوں۔
ٹیلی وژن کا شمار ان نعمتوں میں ہوتا ہے جن سے ہم قریب قریب ہمیشہ محروم ہی رہے۔ بچپن میں گاؤں میں تھے جہاں ان دنوں ٹیلی وژن کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ گھروں میں تو خیر ٹیلی وژن رکھنا انتہائی معیوب تھا تاہم دو یا تین حجرے ایسے تھے جہاں ٹیلیویژن کی سہولت تھی لیکن ہماری عمرحجرے میں جانے والی نہیں تھی۔ جب ۹۲ کا ورلڈ کپ ہورہا تھا انہی دنوں خاندان کے باقی افراد ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے تھے البتہ میں ابھی امی کے ساتھ گاؤں میں تھا۔ یہ چند مہینے میری زندگی کے سب سے رنگین اور یادگاردنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان دنوں مجھے مکمل آزادی تھی۔ یہ واحد دور تھا جس میں غلیل شلوار کے نیفے میں چھپانے کی بجائے میں گلے میں لٹکائے آزادانہ پھرتا رہتا تھا۔ والد صاحب شام کے وقت گھر لوٹتے اور اماں جی کی فطرت میں سختی تھی ہی نہیں۔ آزادی کی ڈور کو ہر اس حد تک کھینچنے کی کوشش کی جہاں تک کھینچ سکتا تھا۔ ہر طرف کرکٹ کی باتیں ہورہی تھیں اور بچے بھی حجروں میں بڑوں کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھتے تھے تو ہم نے بھی اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دفعہ میچ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ میچ دیکھنے چلا تو گیا لیکن جو بھی مجھے دیکھتا ایک بار ضرور سوال کرتا کہ یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا بیٹا نہیں؟ اور میں مزید سکڑ کر بیٹھ جاتا۔ والد صاحب کی سختی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ گاوں کے اڈے پر گاڑی سے اترتے تو گاوں کا ہر وہ باشندہ جو ایک بار سکول گیا تھا انہیں دیکھ کر یا تو کنارہ کرتا یا مؤدب کھڑا رہتا جب تک ہیڈ ماسٹر صاحب گزر نہ جاتے۔ گاؤں میں عصر کے وقت کسی کے پاس اصیل مرغا تو کسی کے پاس تیتر یا بٹیر ہوتا کسی نے کتے کی رسی پکڑی ہوتی تھی۔ الغرض ہر شخص اپنے اپنے شوق باہر کھیتوں اور کھلیانوں میں لے آتا۔ لیکن ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھتے ہی کوئی مرغا جھاڑیوں میں چھپا رہا ہوتا تو کوئی تیتر بٹیر چھپانے میں مصروف ہوجاتا۔ اگرچہ والد صاحب کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سر جھکا کر چلتے تھے اور کبھی دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ان کو لیکن حیا اور احترام کا عالم یہ تھا کہ پھر بھی ہر شاگرد کی کوشش ہوتی کہ وہ اس حالت میں استاد کو نظر نہ آئے۔ جب سابقہ شاگردوں کا یہ حال تھا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا کیا حال ہوگا۔ تو جناب ایک صاحب نے کہا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب ملے تو میں بتاؤں گا کہ آپ کا بیٹا کھلاڑی بن رہا ہے۔ بس یہ ایک جملہ کافی تھا۔ میں وہاں سے کھسک گیا اور گھر کی راہ لی۔ راستے میں تمام وہ سورتیں اور دعائیں پڑھ کر جو زبانی یاد تھیں، دعائیں کیں کہ اس بار بچ جاؤں اسکے بعد میرے باپ کی بھی توبہ ہے کہ میں کسی حجرے میں میچ دیکھنے جاؤں۔ اور دعائیں قبول ہوگئی تھیں۔
اسکے بعد ہم بھی شہر منتقل ہوگئے۔ سکول میں ہم جماعت طالبعلم ڈراموں، کارٹونوں اور دوسرے ٹی وی پروگراموں کی باتیں کرتے تو ایسا لگتا جیسے کسی اور سیارے کی باتیں ہورہی ہوں۔ ٹیلیویژن ہمارے دسترس سے باہر تھا لیکن ریڈیو نہیں۔ کسی طرح سے پیسے جمع کرکے سو روپے کا ایک چھوٹا سا ریڈیو خرید لیا تھا۔ جس پر دن دو بجے سے رات نو بجے تک ڈیرہ اسماعیل خان ریڈیو سٹیشن کے علاوہ کچھ نہیں سنائی دیتا تھا کیونکہ اسکے سگنل خاصے طاقتور اور ہمارا ریڈیو کافی کمزور تھا۔ “گل زمین” پروگرام سے شروع ہوکر سرائیکی پروگرام “وسطیاں جھوکاں”، پشتو پروگرام “رنگ ترنگ” پھر سرائیکی پروگرام “چانن ویہڑے” اور پھر پشتو موسیقی کا پروگرام “ژوند رنگ” تک سارے باقاعدگی سے سنتا تھا۔ درمیان میں اردو پشتو سرائیکی ملکی اور علاقائی خبریں بھی سنتا رہتا۔ دامن زمان کی انگریزی خبریں بھی چار بجے سنتا تھا۔ رات نو بجے جب دین دنیا کی بھلائی پروگرام کے بعد ریڈیو سٹیشن بند ہوجاتا تو میرے ریڈیو کی رسائی بین الاقوامی سٹیشنوں تک پھیل جاتی تھی۔ رات دس بجے کے بعد بی بی سی اردو سروس کا پروگرام بھی باقاعدگی سے سنتا۔ کرکٹ میچ ہوتا تو کمینٹری باقاعدگی سے سنتا۔ چشتی مجاہد کی کمینٹری سے آدھا خون ویسے ہی خشک ہوجاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں ساری عمر کبھی موٹا نہیں ہوا۔ انضمام الحق قدموں کا استعمال کرتے ہوئے مڈوکٹ کی جانب اٹھتا ہوا شاٹ گیند ہوا میں آوٹ ہونے کا خطرہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور گیند چھ رنز کیلئے باونڈری لائن سے باہر۔
لیکن ٹیلیویژن کی کمی بہرحال اپنی جگہ تھی۔ چونکہ گھر میں سب سے زیادہ منہ زور میں تھا یا یوں کہہ لیں کہ ڈھیٹ زیادہ تھا اسلئے متنازعہ کاموں اور فرمائشوں کیلئے مجھے ہی سب آگے کردیتے۔ ٹیلیویژن کے بارے میں والد صاحب کا خیال یہ تھا کہ جس دن یہ مصیبت گھر میں آگئی پڑھائی بالکل ختم ہوجائیگی۔ ہم سب کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ ہم نے کئی بار نپے تلے الفاظ میں والد صاحب کے سامنے ٹیلیویژن کے فوائد بیان کئے۔ شروع میں تو وہ ڈانٹ دیتے لیکن آہستہ آہستہ انکا ردعمل نرم پڑتا گیا۔ پھر ہم نے رات نو بجے کے خبرنامے کا ذکر کرنا شروع کیا کیونکہ والد صاحب خبروں کے شوقین تھے اور اخبار باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ لگ بھگ ایک سال محنت کے بعد ہم نے باقاعدہ ٹیلیویژن کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ ابتداء میں ڈانٹ پڑی لیکن پھر کچھ عرصہ خاموشی چھاآگئی۔ یہ بہت بڑی فتح تھی۔ میں نے اپنا طریقہ واردات پے درپے تلخ تجربات کے بعد تبدیل کرلیا۔ مطالبہ اس وقت کرتا جب والد صاحب بہت اچھے موڈ میں ہوتے تھے۔ اور انکا موڈ اچھا تب ہوتا جب خود سے پڑھتے دیکھ لیا یا سکول سے آکر کوئی مشکل سوال پوچھ لیا اور درست جواب دے دیا یا بنا کسی کے کہے مسجد نماز پڑھنے جاتے دیکھ لیا۔ ایسے ہی ایک دن اچھے موڈ میں جب میں نے پرزور مطالبہ کرلیا اور میری ہمنوائی میں کچھ اور آوازیں بھی شامل ہوگئیں تو والد صاحب نے ہار مان لی اور مجھے ساتھ لیکر بازار کی طرف چل پڑے۔ میں بظاہر زمین پر چل رہا تھا لیکن لگ یوں رہا تھا جیسے ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ سالوں کی محنت رنگ لاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ ہم ٹیلیویژن خریدنے جارہے تھے۔ دو دوکانوں سے ٹیلیویژن کے ریٹ پوچھے پھر تیسری دوکان کی طرف چل پڑے۔ یہ بڑی دوکان تھی اور اس میں بڑے سیٹ تھے اور رنگین بھی تھے۔ ایک بڑے سیٹ کو چیک کروانے کیلئے جب آن کیا تو اس پر سرخ لباس میں ملبوس ایک ماڈل کسی مشروب کی تشہیر کر رہی تھی۔ اسکی لال لپ اسٹک کپڑوں سے میچ کر رہی تھی۔ والد صاحب کا موڈ اچانک بگڑ گیا۔ دوکان سے نکلے تو میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تین جگہ پوچھ لیا اب لینا کہاں سے ہے؟ بس میرا اتنا کہنا تھا کہ والد صاحب کی برداشت جواب دے گئی۔ تھپڑ مارنے کیلئے انکا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا لیکن پھر شاید عوام الناس کے احترام میں ارادہ ملتوی کرلیا۔ دانت پیستے ہوئے کہنے لگے، جب سارا دن یہ لال ہونٹ دیکھتے رہوگے تو پڑھائی ہوگئی پھر۔ خبردار جو دوبارہ ٹیلیویژن کا نام بھی لیا۔
آہ۔۔۔۔ ایک خواب تھا جو آنکھوں سمیت چکنا چور ہوگیا اور ساتھ ہی عکس محبوب (ٹیلیویژن ) بھی کرچی کرچی ہوگیا۔ اسکے بعد والد صاحب کی زندگی میں کبھی ٹیلیویژن کا نام بھی نہیں لیا۔ البتہ تین بینڈ کا ریڈیو خرید لیا تھا جو والد صاحب سے چرس گھانجے کی طرح چھپا کر رکھتا تھا۔ اور ایک واک مین بھی لے لیا تھا۔ موبائل فون میں ہزاروں گانے بھرنے والی نسل کے لوگ واک مین کی قدر بلکہ شاید نام سے بھی ناواقف ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں