میں جہاں رہتا ہوں وہاں پڑوس میں ایک فیملی رہتی ہے۔ گھروں کے بیچ میں ایک دیوار ہے۔ جس کمرے میں میں رہتا ہوں اسکی ایک کھڑکی اور روشندان اس گھر کی طرف ہیں اور انکے کمرے کی کھڑکی اور روشندان میرے گھر کی طرف کھلتے ہیں۔ شام کو دفتر سے آکر گھر کے کام کاج اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میرا اپنا ذاتی وقت شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ دن سے پڑوسیوں کا بچہ شاید بیمار ہے تو رات کو کافی دیر تک روتا رہتا ہے۔ میں اکثر کانوں میں ہیڈ فون ٹھونس لیتا تاکہ آواز کم سے کم آئے۔ کل رات بچہ کچھ زیادہ ہی شدت سے رورہا تھا۔ میں بھی کچھ سنجیدہ مطالعہ کر رہا تھا تو توجہ مرکوز رکھنا ممکن نہیں تھا۔ سردی کے موسم میں ویسے بھی خاموشی ہوتی ہے اور آوازوں کے بارے میں میری حساسیت کا عالم یہ ہے کہ اگر گھڑیال کی آواز کی طرف بھی دھیان بھٹک گیا تو ذہن اسکی ٹک ٹک میں اٹک جاتا ہے۔ ایسے میں نہ پڑھاجاتا ہے کچھ اور نہ لکھا جاتا ہے۔ اسلئے اکثر مجھے گھڑیال کا سیل نکالنا پڑجاتا ہے۔ رات بچے کے رونے سے ڈسٹرب ہوکر میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔ کبھی غصہ آتا اور کبھی بچے کی تکلیف کا سوچ کر ترس آنے لگتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ گھر تبدیل کرلوں۔ پھر خیال آیا کہ اگر وہاں بھی ایسا یا اس سے ملتا جلتا مسئلہ ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ کافی دیر تک اس مسئلے کے حل کے بارے میں سوچتے رہنے کے بعد مجھے ایک خیال آیا کہ کیوں نہ میں دوسرے کمرے میں ہجرت ہی کرلوں۔ اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں گیا اور بغور جائزہ لینے کے بعد پتا چلا کہ یہ کمرہ سردیوں کے موسم کیلئے اس کمرے سے کہیں زیادہ موزوں ہے۔ اس میں بجائے دو کے ایک دروازہ ہے اور کھڑکی بھی چھوٹی ہے۔ مطلب اس کمرے کے مقابلے میں نہ صرف گرم زیادہ ہے بلکہ باہر کی آوازیں بھی کم سے کم سنائی دیتی ہیں۔ آج شام دفتر سے آکر کمرے کی صفائی میں لگ گیا اور بوریا بستر اٹھا کر نئے کمرے میں ڈیرے ڈال لئے۔ نتیجتا” ذہنی طور پر آج میں بہت پرسکون ہوں۔
یہ ساری روداد سنانے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں ہم بہت سی چھوٹی بڑی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اکثر اوقات پریشانیوں کے بہت ہی سادہ حل چند قدم کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری تمام تر توجہ اس مسئلے اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والےمسائل پر ہوتی ہے۔ اسکے حل کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر مسئلے کا حل اس مسئلے سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہم یا تو حل غلط جگہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یا غلط طریقے سے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوست سے اسی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی تو کہنے لگے یہ مسئلے کا حل تو نہ ہوا اگر اپنے ہی گھر میں اپنا بچہ روئے تو پھر بندہ کدھر جائے؟
صاحبو! بات یہ ہے کہ مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مسائل جو آپکے اختیار میں ہیں دوسرے وہ جو آپکے اختیار سے باہر ہیں۔ اپنے بچے کا رونا اختیار میں آتا ہے۔ ظاہر ہے آپ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے کوئی دوائی دیں گے یا اسے چپ کرانے کی کوئی اور کوشش کریں گے۔ لیکن اگر بچہ پڑوسی کا ہے تو اسے چپ کرانا اختیار سے باہر ہے۔ اب اس صورتحال میں آپ نے اپنا راستہ بدلنا ہے۔ مسائل اسوقت لا ینحل بن کر گھمبیر صورت اختیار کر جاتے ہیں جب آپ اپنے بچے کے رونے پر گھر سے نکل جائیں (یہ مسائل سے پہلو تہی اور کترانا کہلائے گا) یا پھر پڑوسی کے بچے کو خاموش کروانے کی تدبیریں کریں گے (یہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا کہلائے گا)۔ یہ دونوں صورتیں مسائل حل کرنے کی بجائے مزید بڑھانے والی ہیں۔ میں دعوے کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جہاں بھی آپ کو کوئی مسئلہ بڑھا ہوا اور پیچیدہ نظر آئے وہاں تحقیق سے یہ پتا چلے گا کہ یا تو اپنے مسائل سے مفر کا نتیجہ ہے یا دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا یا پھر دونوں صورتیں بیک وقت ہیں۔ سیف اللہ خان
یہ ساری روداد سنانے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں ہم بہت سی چھوٹی بڑی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اکثر اوقات پریشانیوں کے بہت ہی سادہ حل چند قدم کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری تمام تر توجہ اس مسئلے اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والےمسائل پر ہوتی ہے۔ اسکے حل کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر مسئلے کا حل اس مسئلے سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہم یا تو حل غلط جگہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یا غلط طریقے سے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوست سے اسی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی تو کہنے لگے یہ مسئلے کا حل تو نہ ہوا اگر اپنے ہی گھر میں اپنا بچہ روئے تو پھر بندہ کدھر جائے؟
صاحبو! بات یہ ہے کہ مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مسائل جو آپکے اختیار میں ہیں دوسرے وہ جو آپکے اختیار سے باہر ہیں۔ اپنے بچے کا رونا اختیار میں آتا ہے۔ ظاہر ہے آپ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے کوئی دوائی دیں گے یا اسے چپ کرانے کی کوئی اور کوشش کریں گے۔ لیکن اگر بچہ پڑوسی کا ہے تو اسے چپ کرانا اختیار سے باہر ہے۔ اب اس صورتحال میں آپ نے اپنا راستہ بدلنا ہے۔ مسائل اسوقت لا ینحل بن کر گھمبیر صورت اختیار کر جاتے ہیں جب آپ اپنے بچے کے رونے پر گھر سے نکل جائیں (یہ مسائل سے پہلو تہی اور کترانا کہلائے گا) یا پھر پڑوسی کے بچے کو خاموش کروانے کی تدبیریں کریں گے (یہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا کہلائے گا)۔ یہ دونوں صورتیں مسائل حل کرنے کی بجائے مزید بڑھانے والی ہیں۔ میں دعوے کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جہاں بھی آپ کو کوئی مسئلہ بڑھا ہوا اور پیچیدہ نظر آئے وہاں تحقیق سے یہ پتا چلے گا کہ یا تو اپنے مسائل سے مفر کا نتیجہ ہے یا دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا یا پھر دونوں صورتیں بیک وقت ہیں۔ سیف اللہ خان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں