منگل، 1 جنوری، 2019

لائسنس دیکھ لیا کریں


یہ اس زمانے کی بات ہے جب جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ میں آتی ہوتی تھیں۔ بات سچی ہے یا جھوٹی اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا اسلئے دروغ اور اسکا فروغ بر گردن راوی۔
تو راوی یوں بیان کرتا ہے کہ آبادی کے قریب کسی جنگل میں گیدڑوں کا بسیرا تھا۔ جنگل میں خوراک کی کمی تھی اور گاوں کے لوگوں نے بھی اپنے جانوروں اور کھیتوں کی رکھوالی کیلئے بہت سے کتے پالے ہوئے تھے جسکی وجہ سی گیدڑ بیچارے جنگل سے نکل کر آبادی کا رخ نہیں کرسکتے تھے۔ گیدڑ فاقوں پر مجبور تھے اور اکثر گیدڑ چم اور دم کے مجموعے سے زیادہ کچھ نہیں بچے تھے۔ لیکن ان میں سے ایک گیدڑ جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا تھا بہت صحت مند اور فربہ تھا۔ سارے گیدڑوں نے ایک میٹنگ بلائی اور مشترکہ قرار داد منظور کرلی کہ ہو نہ اس گیدڑ کے پاس کوئی خاص اجازت نامہ ہے یہ رات کے اندھیرے میں گاوں کی طرف نکلتا اور پیٹ بھر کر آجاتا ہے۔ اسلئے اسے مجبور کیا جائے کہ دوسروں کیلئے بھی بندوبست کرے بھائی برادری کا بھی کوئی حق ہوتا ہے۔ سب جرگے کی شکل میں اس کے پاس گئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ گیدڑ کچھ بتاتے ہوئے ہچکچا رہا تھا لیکن جب اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیا تو اس نے بتایا کہ دراصل اسکے پاس گاوں میں شکار کرنے کا خصوصی لائسنس ہے۔ باقی گیدڑ مصر تھے کہ انکو بھی لایسنس بنوا دے لیکن اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ مزید لائسنس اب بند کردئیے گئے ہیں کوئی لائسنس ایشو نہیں ہوتا۔ جب کوئی راہ نہ سوجھی تو سب نے یہ فرمائش کردی کہ چلو ایک رات ہمیں بھی لے جاؤ اپنے ساتھ کیونکہ عرصہ ہوا پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا۔ سیانے گیدڑ کو جان چھڑانے کی یہی صورت نظر آئی اسلئے حامی بھر لی۔ ساتھ شرائط بھی بتادیں کہ خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلنا ہے جاکر خربوزے کے کھیت میں پیٹ بھر کر خربوزے کھانے ہیں اور پھر شور شرابا کئے بغیر چپکے سے واپس جنگل کی راہ لینی ہے۔ سب گیدڑ راضی ہوگئے۔ اگلی رات وہ گیدڑوں کا قافلہ لیکر خربوزے کے کھیت میں چپکے سے داخل ہوا۔ رکھوالی کرنے والے کتے سورہے تھے۔ سب گیدڑوں نے پیٹ بھر کر خربوزے کھالئے۔ اب گیدڑ کی یہ عادت ہے کہ پیٹ بھر جائے تو انکے منہ بند نہیں ہوتے شور شرابا مچاتے ہیں۔ یہی ہوا جیسے ہی پیٹ بھر گئے وہ اپنی اصلیت دکھانے لگے کسی نے اونچے سروں میں راگ ملہار چھیڑ دیا تو کسی نے راگ درباری۔ کوئی ٹھمری گانے لگا تو کوئی کلیان ٹھاٹھ لے بیٹھا۔ نتیجہ وہی کہ کتے جاگ گئے اور پھر گیدڑ آگے اور سارے کتے پیچھے۔ لائسنس یافتہ گیدڑ سب سے آگے آگے تھا باقی گیدڑ حسب طاقت پیچھے پیچھے تھے۔ کچھ دیر تک دوڑتے رہنے کے بعد جب سانسیں اکھڑنے لگیں تو پیچھے والے گیدڑوں نے لائسنس یافتہ گیدڑ کی منتیں شروع کردیں کہ کتے سر پر پہنچنے والے ہیں رک کر لائسنس دکھاؤ اور ہماری جان بچاو۔ اس گیدڑ نے مڑ کر جو جواب دیا وہ تاریخ کے اوراق میں ضرب المثل کے طور پر محفوظ کرنے کے قابل ہے۔ وہ بولا،
“یہ سب بے شعور ہیں۔ ان پڑھ ہیں لائسنس پڑھنا نہیں جانتے۔ جتنی رفتار سے بھاگ سکتے ہو بھاگو اور جان بچاو۔”
مملکت خدادا کی موجودہ حالت کچھ ایسی ہے کہ آپ کے کچھ الفاظ کو بنیاد بنا کر جب ایک دفعہ لوگ  آپ کے پیچھے پڑ جائیں پھر آپ دلائل کے انبار لگادیں صفائیاں پیش کریں معافیاں بھی مانگیں فائدہ کوئی نہیں اور واحد راستہ آپکے پاس یہی رہ جاتا ہے کہ جتنی رفتار سے بھاگ سکتے ہیں جان بچا کر بھاگیں۔ ماضئی قریب میں جنید جمشید اور مشعل خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور تازہ ترین مثال مولانا طارق جمیل صاحب کی ہے۔
حضور گزارش اتنی سی ہے کہ کبھی روک کر لائسنس کی بھی تصدیق کرلیا کریں۔ سیف اللہ خان مروت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...