ہفتہ، 19 جنوری، 2019

مہنگائی بڑی نعمت ہے

مہنگائی
ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی بھی حکومت کو پڑنے والی گالیوں اور ملنے والی بد دعاؤں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ستر سے نوے فیصد کی وجہ مہنگائی ہوتی ہے۔ ان کی مجموعی تعداد ہر دور حکومت میں کل پڑنے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ووٹ پانچ سال میں ایک دفعہ دیا جاتا ہے جب کہ گالی اور بد دعائیں صبح سے لیکر شام اور شام سے لیکر صبح تک دی جاتی ہیں۔ مخالف جماعتوں کے پیروکار تو راتوں کو اٹھ اٹھ کر بھی بددعائیں دیتے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کو ان گالیوں اور بد دعاؤں سے کوئی فرق کبھی نہیں پڑا۔ میں چونکہ بنیادی طور پر مثبت سوچ کا حامل ہوں اسلئے کوشش یہی کرتا ہوں کہ ہر معاملے کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ کبھی کبھی تو میرا مثبت پہلو اتنا غالب آجاتا ہے کہ باقاعدہ لوگ ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔ ایک صاحب کی بوجہ بیماری چھٹی کی درخواست آئی تھی اور جب کچھ دن بعد دفتر آئے اور ان سے پوچھا کہ طبیعت کیسی ہے اور کوئی ٹیسٹ وغیرہ بھی کروائے ہیں یا نہیں۔ تو کہنے لگے دو ٹیسٹ تو مثبت آئے ہیں دو کے نتائج میں کچھ وقت ہے۔ میں نے کہا الحمد للّٰہ میری دعا ہے باقی بھی مثبت آئیں گے۔ وہ تو بھلا ہو ایک ہمکار کا جس نے بتایا کہ بیماریوں کے ٹیسٹ  کے نتائج اگر مثبت آئیں تو ہمدردی کے بول بولے جاتے ہیں کیونکہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ لہذا مجھے دوبارہ جاکر منانا پڑا اور یقین دلانا پڑا کہ مثبت سے ہم یہ سمجھے تھے حوصلہ افزا نتائج آئے ہیں۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی ہم بات کر رہے تھے مہنگائی اور ہماری مثبت سوچ کی۔ تو صاحبو! طویل غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ کی پیدا کردہ ہر چیز میں مثبت یعنی خیر کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ چونکہ مہنگائی بھی اللہ کی پیدا کردہ ہے تو اس میں بھی کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور ہونا چاہئے۔ گو کہ حزب اختلاف والوں کا خیال ہوتا ہے کہ مہنگائی اللہ کی نہیں بلکہ صرف اور صرف برسر اقتدار جماعت کی نالائقی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کامیابی کی صورت میں سب کہتے ہیں کہ وَتُعزُ من تشاء وتُزِلّ من تشاء البتہ جب کسی معاملے میں سبکی اٹھانی پڑے تو اس وقت یہ بات ایمان کا حصہ نہیں رہتی اور ساری ذلت و رسوائی مخالف جماعت کی سازشوں کا شاخسانہ مانی اور گردانی جاتی ہے۔
مہنگائی کے ویسے تو ان گنت فوائد ہیں لیکن چیدہ چیدہ فوائد میں ایک فائدہ جو سب سے پہلے نظر آتا ہے وہ یہ ہےکہ اس سے آبادی کی شرح نمو میں کمی آئے گی۔ حکومت وقت مہنگائی کی شرح جتنی تیزی سے بڑھاتی رہے گی اسکے فوائد بھی اسی شرح سے بڑھتے رہیں گے۔ آبادی کی شرح کم کرنے میں مہنگائی کے کردار کے بارے پتا نہیں آپ کیا کیا سوچ رہے ہیں اور ممکن ہے ٹھیک ہی سوچ رہے ہوں لیکن میرا اشارہ اس طرف ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اوّل تو لوگ شادیاں ہی نہیں کرسکیں گے اور اگر شادی ہوبھی جاتی ہے تو بھوک اور افلاس کے ڈر سے لوگ بچے ہی پیدا نہ کریں یا کم بچے پیدا کریں۔ جو پیدا ہوبھی جائیں گے ان میں سے اکثر مہنگے علاج و معالجے اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے مر مرا جائیں گے۔ جب آبادی کم ہوجائے گی تو اسکے ساتھ ساتھ ہسپتالوں، سکولوں، عدالتوں اور سڑکوں پر رش کم ہوجائے گا۔
مہنگائی سے ممکن ہے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ جائیں۔ چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے لوگ کم خریدیں گے اسلئے ہم خود کفالت کی منزل عبور کرکے ضرورت سے زائد چیزیں برآمد کرکے زر مبادلہ کما لیں گے۔ ممکن ہے ان زائد اجناس کی وجہ سے ملک کے قرضے بھی ادا ہوجائیں۔
مذہبی نقطہ نظر سے بھی مہنگائی کے کئی فوائد ہیں۔ عوام میں سادہ زندگی کو فروغ ملے گا۔ لوگ کم کھائیں گے اور بہت سے لوگ جن کو ایک وقت کی روٹی میسر ہو شاید سارا سال روزے بھی رکھنا شروع کردیں جو کہ ایک اضافی فائدہ ہے۔ لوگ ملاوٹ کرنا بھی چھوڑ دیں گے کیونکہ چیزیں وافر مقدار میں میسر ہوں گی اور دس ہزار لیٹر دودھ شہریوں کی ضرورت اور طلب کے پیش
نظر بیس ہزار لیٹر بنا کر نہ بیچنا پڑے۔ لوگ ہر وقت خدا کے حضور دو وقت کی روٹی کیلئے گڑگڑائیں گے تو اللہ سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔
امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں۔ ممکن ہے قاتل گولی یا گولہ چلانے سے پہلے مقتول اور گولی کی قیمت کا موازنہ کرکے ارادہ ہی ملتوی کردے کہ اتنی مہنگی گولی کیوں ضائع کروں گولیاں اور بندوق بیچ کر دو روٹیاں ہی خرید لوں۔
عشق و محبت بھی شاید کم ہوکر سچے اور سُچے عاشقوں تک محدود ہوکر رہ جائے۔ لوگ کسی کو محبوب بنانے سے پہلے اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگا کر ویسے ہی دستبردار ہوجائیں یہ کہہ کر کہ نہیں جناب یہ عشق میری استعداد سے زیادہ مہنگا ہے میں اگلی گلی جاکر کوئی سستا محبوب دیکھتا ہوں۔
یہ صرف چند فوائد گنوائے ہیں اور تحریر کی طوالت کی وجہ سے بہت سے چھوٹے چھوٹے فوائد کی تفصیلات مؤخر کی جارہی ہیں۔
ان تمام اور ایسے بہت سارے ممکنہ فوائد کے پیش نظر ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ مہنگائی مزید بڑھادی جائے۔ غربت ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے غریب کو ختم کیا جائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...