نہ جانے کیا خاص بات ہے اس مہینے کی مجھے نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ مند مل زخموں کو ایک بار پھر سے ادھیڑ دیتا ہے زخموں پر جمے کھرنڈ ایک بار پھرسے اکھیڑکر انہیں تر و تازہ کر لیتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دسمبر گویا دل پر لگے زخموں کیلئے موسم بہار کا درجہ رکھتا ہے جب ساری سوکھی ٹہنیاں میرا مطلب ہے اچھے بھلے صحتمند دل بھی زخمی ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کےتو پرانے زخم بھی نہیں ہوتے میرے جیسے ہوتے ہیں جو کھرچ کھرچ کر فرضی زخم بنا لیتے ہیں۔ دسمبر کو اگر شعراء کا مہینہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس مہنےُ میں نہ صرف ہر چھوٹے بڑے اور درمیانے درجے کے شعراء کا کلام وافر مقدار میں سوشل میڈیا پر منوں کے حساب سے آجاتا ہے بلکہ کچھ حضرات تو خود سے اشعار بنا کر ان میں محسن، فراز، غالب اور اقبال کو ایسے چن دیتے ہیں جیسے انارکلی دیوار میں چنوائی گئی تھی۔ اگر عالم ارواح کی سوشل میڈیا تک رسائی ہوگی تو یقیناً اس مہینے میں ان ارواح کا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کو یہ صفائیاں دیتے ہوئے گزرتا ہوگا کہ بخدا یہ شعر میرا نہیں ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ شرمندگی فراز اور محسن کی ارواح کے حصےمیں آتی ہوگی کیونکہ ہر دوسرا شعر ان سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ جون ایلیا مرحوم کی روح بھی کسی ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی نیم وا خمار آلود آنکھیں پوری طرح وا کرکے اور چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر کہتی ہوگی “جانی اتنا بے ہو دہ شعر کب کہا تم نے”۔
نئے شعراء حضرات بھی اپنی ڈائریاں ٹٹول ٹٹول کر دسمبر کی شاعری کی گرد جھاڑ کر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر شئیر کرکے نئے سرے سے داد وصول کرتے ہیں۔ اگر تھوڑی بہت بارش بھی ہونے لگے تو سونے پر سہاگہ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ پچھلے سال ایک دوست کو کال کی مہینہ دسمبر کا تھا۔ دو چار بار کال کرنے کے باوجود بھی جواب موصول نہ ہوا تو پریشانی لاحق ہوگئی کیونکہ وہ ہمیشہ فوراً فون اٹھا لیتا ہے۔ اسکے بھائی کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ گھر پر ہی ہیں اور صبح سے کمرے میں کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ جب اسکے بھائی کے فون پر بات ہوئی تو وہ ہانپ رہا تھا اور سانسوں کی طرح لہجہ بھی اکھڑا ہوا تھا۔ پوچھنے پر جھنجھلا کر بولے بند کرو فون رات سے بارش ہورہی ہے اور اب بادل بھی تقریباً چھٹنے لگے ہیں اور مجھے وہ ڈائری نہیں مل رہی جس میں دوسال پہلے دسمبر کی بارش پہ نظم لکھی تھی۔ اب بارش گزر گئی تو پھر نہ جانے ہوگی بھی کہ نہیں بھاڑ میں جائے ایسی نظم جو وقت پر کام نہ آئے۔ عرض کیا دوسری لکھ لیں اس میں کیا ہے؟ مزید غصہ ہوئے کہنے لگے کیسے لکھوں جس کیلئے نظم لکھی تھی اس سے شادی ہوئی اور تب سے وہ انقباض ہے کہ نظم تو کیا ایک مصرع بھی نہیں لکھا جاتا۔ دودھ دہی انڈے ٹماٹر پیاز آلو گوشت کا سالن تو بن سکتا قافیہ ردیف نہیں۔ توازن نہ زندگی کا برقرار ہے نہ ذہن کا تو شعر میں توازن کہاں آئے۔
ہمارے ساتھ بھی کئی دفعہ ایسے ہی ہوا ہے کہ جون کی تپتی دوپہر میں جب لائٹ نہیں ہوتی اور سو نہیں پاتے مارے گرمی کے تو دسمبر کی بارش فرض کرکے اچھی خاصی نظم لکھ ڈالی اور مناسب موسم کے انتظار میں سنبھال کر رکھ لی۔ اکثر ہم چیزوں کو اتنا سنبھال کر رکھ لیتے ہیں کہ پھر خود ہمیں بھی نہیں مل پاتیں اور دسمبر کی بارش میں ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔
میں ایک عرصے سے اس بات کی تحقیق کرنے میں مصروف ہوں کہ آخر دسمبر کا عشق محبت اور شاعری سے تعلق کیا ہے۔ برسوں کی تحقیق کے باوجود یہ عقدہ وا نہیں کرپایا۔ لہذا میں نے اپنا ایک مفروضہ بنا لیا تاکہ بعد میں آنے والے محققین کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ جب سردی آتی ہے تو چھپے ہوئے اور پرانی چوٹوں کے درد محسوس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ دسمبر سے پہلے جن عاشقوں کو رقیبان روسیاہ اور ظالم سماج مطلب معشوق کے عزیز واقارب نے زدو کوب کیا تھا انکے درد دسمبر کی سردی میں ایک بار پھر لوٹ آئے ہوں گے جسکی وجہ سے درد بھری شاعری ہوئی ہوگی اور آہستہ آہستہ دسمبر میں شاعری کا رواج پڑ گیا ہوگا۔
تو صاحبو عرض یہ کرنا تھا کہ دل و جگر تھام لیجئے دسمبر آیا چاہتا ہے اور سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نامراد عاشق دسمبر کی شاعری جھاڑ پونجھ کر تیار بیٹھے ہیں آپکی خدمت میں پیش کرنے کیلئے۔اپنے زخم ادھیڑئیے، زخموں پر جمے کھرنڈ اکھیڑئیے اور اگر پرانے زخم نہیں ہیں تو خود سے خود کو زخمی کیجئے۔
لیجئے دسمبر کے استقبال کا افتتاح دو تین اشعار سے کئے دیتے ہیں۔
زندگی درد نہیں درد ٹھہر جا تے ہیں
زندگی زخم نہیں ہے کہ وہ بھر جاتے ہیں
موت کا سنتے ہیں آغوش میں لے لیتی ہے
زندگی بھی جنہیں ٹھکرادے کدھر جاتے ہیں
ہاتھ اسی ماہ کی اک شام چھڑایا تم نے
نام سنتے ہیں دسمبر کا تو ڈر جاتے ہیں
(سیف اللہ خان مروت)
نئے شعراء حضرات بھی اپنی ڈائریاں ٹٹول ٹٹول کر دسمبر کی شاعری کی گرد جھاڑ کر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر شئیر کرکے نئے سرے سے داد وصول کرتے ہیں۔ اگر تھوڑی بہت بارش بھی ہونے لگے تو سونے پر سہاگہ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ پچھلے سال ایک دوست کو کال کی مہینہ دسمبر کا تھا۔ دو چار بار کال کرنے کے باوجود بھی جواب موصول نہ ہوا تو پریشانی لاحق ہوگئی کیونکہ وہ ہمیشہ فوراً فون اٹھا لیتا ہے۔ اسکے بھائی کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ گھر پر ہی ہیں اور صبح سے کمرے میں کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ جب اسکے بھائی کے فون پر بات ہوئی تو وہ ہانپ رہا تھا اور سانسوں کی طرح لہجہ بھی اکھڑا ہوا تھا۔ پوچھنے پر جھنجھلا کر بولے بند کرو فون رات سے بارش ہورہی ہے اور اب بادل بھی تقریباً چھٹنے لگے ہیں اور مجھے وہ ڈائری نہیں مل رہی جس میں دوسال پہلے دسمبر کی بارش پہ نظم لکھی تھی۔ اب بارش گزر گئی تو پھر نہ جانے ہوگی بھی کہ نہیں بھاڑ میں جائے ایسی نظم جو وقت پر کام نہ آئے۔ عرض کیا دوسری لکھ لیں اس میں کیا ہے؟ مزید غصہ ہوئے کہنے لگے کیسے لکھوں جس کیلئے نظم لکھی تھی اس سے شادی ہوئی اور تب سے وہ انقباض ہے کہ نظم تو کیا ایک مصرع بھی نہیں لکھا جاتا۔ دودھ دہی انڈے ٹماٹر پیاز آلو گوشت کا سالن تو بن سکتا قافیہ ردیف نہیں۔ توازن نہ زندگی کا برقرار ہے نہ ذہن کا تو شعر میں توازن کہاں آئے۔
ہمارے ساتھ بھی کئی دفعہ ایسے ہی ہوا ہے کہ جون کی تپتی دوپہر میں جب لائٹ نہیں ہوتی اور سو نہیں پاتے مارے گرمی کے تو دسمبر کی بارش فرض کرکے اچھی خاصی نظم لکھ ڈالی اور مناسب موسم کے انتظار میں سنبھال کر رکھ لی۔ اکثر ہم چیزوں کو اتنا سنبھال کر رکھ لیتے ہیں کہ پھر خود ہمیں بھی نہیں مل پاتیں اور دسمبر کی بارش میں ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔
میں ایک عرصے سے اس بات کی تحقیق کرنے میں مصروف ہوں کہ آخر دسمبر کا عشق محبت اور شاعری سے تعلق کیا ہے۔ برسوں کی تحقیق کے باوجود یہ عقدہ وا نہیں کرپایا۔ لہذا میں نے اپنا ایک مفروضہ بنا لیا تاکہ بعد میں آنے والے محققین کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ جب سردی آتی ہے تو چھپے ہوئے اور پرانی چوٹوں کے درد محسوس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ دسمبر سے پہلے جن عاشقوں کو رقیبان روسیاہ اور ظالم سماج مطلب معشوق کے عزیز واقارب نے زدو کوب کیا تھا انکے درد دسمبر کی سردی میں ایک بار پھر لوٹ آئے ہوں گے جسکی وجہ سے درد بھری شاعری ہوئی ہوگی اور آہستہ آہستہ دسمبر میں شاعری کا رواج پڑ گیا ہوگا۔
تو صاحبو عرض یہ کرنا تھا کہ دل و جگر تھام لیجئے دسمبر آیا چاہتا ہے اور سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نامراد عاشق دسمبر کی شاعری جھاڑ پونجھ کر تیار بیٹھے ہیں آپکی خدمت میں پیش کرنے کیلئے۔اپنے زخم ادھیڑئیے، زخموں پر جمے کھرنڈ اکھیڑئیے اور اگر پرانے زخم نہیں ہیں تو خود سے خود کو زخمی کیجئے۔
لیجئے دسمبر کے استقبال کا افتتاح دو تین اشعار سے کئے دیتے ہیں۔
زندگی درد نہیں درد ٹھہر جا تے ہیں
زندگی زخم نہیں ہے کہ وہ بھر جاتے ہیں
موت کا سنتے ہیں آغوش میں لے لیتی ہے
زندگی بھی جنہیں ٹھکرادے کدھر جاتے ہیں
ہاتھ اسی ماہ کی اک شام چھڑایا تم نے
نام سنتے ہیں دسمبر کا تو ڈر جاتے ہیں
(سیف اللہ خان مروت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں